• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں رفع الیدین

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1 - عَنِ المغيرةِ، قالَ: قُلتُ لإبراهيمَ: حديثُ وائلٍ أنَّهُ رأَى النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ، يرفعُ يَديهِ إذا افتَتحَ الصَّلاةَ، وإذا رَكَعَ، وإذا رفعَ رأسَهُ منَ الرُّكوعِ ؟ فقالَ: إِن كانَ وائلٌ رآهُ مرَّةً يفعلُ ذلِكَ، فقد رآهُ عبدُ اللَّهِ خمسينَ مرَّةً، لا يَفعلُ ذلِكَ
الراوي: إبراهيم المحدث: العيني - المصدر: نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 4/168
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

2 - إن كان وائلٌ رآه مرَّةً يفعلُ ذلك ، فقد رآه عبدُ اللهِ خمسينَ مرَّةً لا يفعلُ ذلك
الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: إتحاف المهرة - الصفحة أو الرقم: 10/140
خلاصة حكم المحدث: له طريق [آخر]

ان دونوں احادیث کی سند کیسی ھے؟
کیا اسکو ترک رفع اليدين پر دلیل بنایا جا سکتا ھے؟
ان دونوں احادیث کا کیا جواب دیا جائیگا.

جزاكم الله خير
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ان دونوں احادیث کی سند کیسی ھے؟
کیا اسکو ترک رفع اليدين پر دلیل بنایا جا سکتا ھے؟
ان دونوں احادیث کا کیا جواب دیا جائیگا.
السلام علیکم :
پہلی بات تو یہ واضح رہے کہ :
یہ حدیث نہیں بلکہ کوفہ کے ایک تابعی جناب ابراہیم نخعی کا قول ہے ۔
دوسری بات یہ کہ ابرھیم نخعی کے اس قول کا پس منظر یہ ہے کہ :
عن عمرو بن مرة قال: "دخلت مسجد حضرموت فإذا علقمة بن وائل يحدث عن أبيه: أن رسول الله - عليه السلام - كان يرفع يديه قبل الركوع وبعده، فذكرت ذلك لإبراهيم، فغضب وقال: رأه هو ولم يره ابن مسعود ولا أصحابه؟! (نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار )
عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ میں ’’ حضر موت ‘‘ کی مسجد میں گیا ،وہاں مشہور صحابی جناب وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے جناب علقمہ اپنے والد گرامی کے حوالے سے یہ حدیث سنا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے قبل ،اور بعد از رکوع رفع الیدین کیا کرتے تھے ۔تو یہ حدیث سن کر میں ابراھیم النخعی کے پاس آیا اور یہ حدیث سنا کر اس کے متعلق ان سے پوچھا ۔تو وہ یہ حدیث سن کر غصہ میں آگئے ۔اور کہنے لگے کہ ۔وائل بن حجر ؓ نے پیغمبر اکرم ﷺ کو دیکھ لیا ۔اور عبد اللہ بن مسعود ؓ نہ سکے ۔انتہی
جناب ابرھیم کا یہ قول علامہ عبد الحی حنفی نقل کرکے لکھتے ہیں :
الأول: ما نقله البيهقي في كتاب "المعرفة"، عن الشافعي أنه قال: الأولى أن يؤخذ بقول وائل لأنه صحابي جليل، فكيف يرد حديثه بقول رجل ممن هو دونه؟!
یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے ۔۔المعرفہ ۔۔میں امام شافعی رحمہ اللہ کا اس ضمن قول نقل کیا ہے :کہ اس سنت کے ثبوت میں سیدنا وائل ؓ کا بیان قبول کرنا ہی اولی و صحیح ہے۔ کیونکہ وہ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ اوریہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک صحابی کے قول کو رد کر کے ان سے کم درجہ شخص کی بات قبول کرلیا جائے ۔‘‘ التعلیق الممجد علی موطا محمد ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امیر المومنین فی الحدیث جناب امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ إن كلام إبراهيم هذا ظن منه لا يرفع به رواية وائل، بل أخبر أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي فرفع يديه، وكذلك رأى أصحابه غير مرة يرفعون أيديهم،،
قاله البخاري في رسالة "رفع اليدين ‘‘


ابراھیم نخعی کا یہ کلام محض ان کی رائے ہے ، جس سے صحابی جلیل ؓ کی نقل کی گئی حدیث کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔اور صحابی نے واضح الفاظ میں بتایا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو رفع الیدین کرتے خود دیکھا ۔اور اسی طرح کئی صحابہ کو بھی رفع یدین کرتے دیکھا ‘‘ (تو کسی کے قول سے اس مستند نقل کو رد نہیں کیا جا سکتا )
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یہ حدیث نہیں بلکہ کوفہ کے ایک تابعی جناب ابراہیم نخعی کا قول ہے ۔
اس کا مطلب کہ اس قول کی سند صحیح ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

اور امیر المومنین فی الحدیث جناب امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ابراھیم نخعی کا یہ کلام محض ان کی رائے ہے ، جس سے صحابی جلیل ؓ کی نقل کی گئی حدیث کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔اور صحابی نے واضح الفاظ میں بتایا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو رفع الیدین کرتے خود دیکھا ۔اور اسی طرح کئی صحابہ کو بھی رفع یدین کرتے دیکھا ‘‘ (تو کسی کے قول سے اس مستند نقل کو رد نہیں کیا جا سکتا )
ابراہیم نخعی کی یہ اپنی رائے نہیں بلکہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حوالہ سے انہوں نے یہ بات کہی۔ وہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے؛

سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ
قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ انہوں نے نماز پڑھی اور سوائے تکبیر تحریمہ کے نماز میں کہیں بھی رفع الیدین نہ کی۔
فی الباب میں یہی بات براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لکھی ہے۔
صاحبِ کتاب محدث ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے اور یہی تمام صاحبِ علم صحابہ کا بھی ہے اور تابعین کا بھی اور سفیان الثوری اور کوفہ والوں کا بھی۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یہ ’’ تمام ‘‘ امام ترمذی کے کس لفظ کا ترجمہ ہے ؟
محترم! میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں ترجمہ نہیں بلکہ مفہوم لکھتا ہوں جو اس حدیث میں موجود ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محترم! میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں ترجمہ نہیں بلکہ مفہوم لکھتا ہوں جو اس حدیث میں موجود ہوتا ہے۔
السلام علیکم !
محترم بھٹی صاحب!
شیخ کا اشارہ ادھر ہے۔۔۔۔ابتسامہ!
صاحبِ کتاب محدث ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے اور یہی تمام صاحبِ علم صحابہ کا بھی ہے اور تابعین کا بھی اور سفیان الثوری اور کوفہ والوں کا بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محترم بھٹی صاحب!
صاحبِ کتاب محدث ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ کی اصل عبارت پیش کردیں ، جس کا مفہوم آپ نے اوپرلکھا تھا۔
جزاک اللہ خیرا!
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
صاحبِ کتاب محدث ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے
ترمذی کے نزدیک ہر وہ حدیث حسن کہلاتی ہے جس کے راویوں میں سے کسی پر جھوٹ بولنے کا الزام موجود نہ ہو، جو شاذ نہ ہو، اور اسے اسی طرح سے روایت کیا گیا ہو۔ (جامع ترمذی مع شرحہ تحفۃ الاحوذی، کتاب العلل ج 10 ص 519)تیسیر مصطلح الحدیث
بکہ ترمذی نے حسن کی صرف ایک قسم "حسن لغیرہ" کی تعریف کی ہے جبکہ حسن کی اصلی تعریف "حسن لذاتہ" کی تعریف ہونی چاہیے۔ حسن لغیرہ تو ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے جو متعدد اسناد کے باعث ترقی پا کر حسن میں شمار ہو جاتی ہے۔ ابن حجر کی تعریف کی بنیاد پر ہم حسن حدیث کی تعریف اس طرح سے کر سکتے ہیں کہ:

حسن وہ حدیث ہے

· جس کی سند میں اتصال پایا جائے۔

· جس کے راوی عادل یعنی اچھے کردار کے ہوں۔

· حدیث کے راویوں میں اس کی حفاظت سے متعلق کچھ کمی پائی جائے۔

· حدیث شاذ نہ ہو۔

· حدیث میں کوئی پوشیدہ خامی (علت) نہ پائی جائے۔

تیسیر مصطلح الحدیث
 
Top