• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنا نبوی خصائل - ضعیف : یہ حدیث ضعیف ہے۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنا نبوی خصائل -


ضعیف : یہ حدیث ضعیف ہے۔

10360395_1053340961359731_5618361622339250552_n.png

قال الامام البیھقی: أخبرنا أبو الحسن بن الفضل ببغداد، أنبأنا أبو عمرو ابن السماک، ثنا محمد بن عبد اللہ بن المنادی، ثنا أبو حذیفة، ثنا سعید بن زربی عن ثابت عن أنس، قال: من أخلاق النّبوّة تعجیل الإفطار و تأخیر السّحور ووضع یمینک علی شمالک فی الصّلاة تحت السّرّة۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

”(تین چیزیں) نبوی خصائل میں سے ہیں، روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا، سحری کھانے میں تاخیر کرنا اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔“

(الخلافیات للبیھقی: ق۲۷ب، مختصر الخلافیات: ۳۴۲/۱)

ضعیف : یہ حدیث ضعیف ہے۔

٭امام بیہقی رحمہ اللہ اس کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "اس روایت کو بیان کرنے میں سعید بن زربی منفرد ہے، وہ قوی نہیں ہے۔"

نیز امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ "ضعیف" ہے۔

(السنن الکبری للبیھقی: ۳۸۳/۱)

٭امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:سعید بن زربّی ضعیف الحدیث، منکر الحدیث، عندہ عجائب من المناکیر۔

"سعید بن زربی ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے، اس کے پاس عجیب و غریب منکر روایات ہیں۔"

(الجرح والتعدیل: ۲۴/۴)

٭امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: لیس بشیء"یہ راوی کچھ بھی نہیں ہے۔"

(تاریخ ابن معین: ۱۹۹/۲، الجرح والتعدیل: ۲۴/۴)

٭امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: عندہ عجائب"اس کے پاس عجیب و غریب روایات ہیں۔"

(التاریخ الکبیر: ۴۷۳/۳)

٭امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں: لیس بثقة "یہ راوی ثقہ نہیں ہے۔"

(الضعفاء للنسائی: ص۵۴)

٭امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اس کو "ضعیف" کہا ہے۔

(سنن دارقطنی: ۲۴۴/۱)

نیز اس کو "متروک" بھی کہا ہے۔

(الضعفاء و المتروکین للدارقطنی: ۲۷۲)

٭امام ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں: یروی الموضوعات عن الأثبات۔"یہ ثقہ راویوں کے حوالے سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔"
(المجروحین لابن حبان: ۳۱۸/۱)

نیز انہوں نے اسے "ضعیف" بھی کہا ہے۔

(الثقات لابن حبان: ۱۱۰/۵)

٭حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف" کہا ہے۔

(التحقیق لابن الجوزی: ۲۴۶/۱)

٭حافظ عبد الحق الاشبیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: عندہ عجائب، لا یتابع علیھا، وھو ضعیف الحدیث۔ "اس کے پاس ایسی عجیب و غریب روایات ہیں، جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی، یہ ضعیف الحدیث ہے۔"

(کتاب الأحکام الوسطی: ۳۴۲/۱)

٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضعفوہ "محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے۔"

(الکاشف: ۲۸۵/۱)

٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "منکر الحدیث" اور "ضعیف" کہا ہے۔

(التقریب، فتح الباری: ۱۰۳/۲، التلخیص الحبیر: ۱۷۹/۱)

٭عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔

(عمدةالقاری: ۱۷۵/۵)

٭علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے اس پر جرح ذکر کی ہے۔
(دیکھیں: نصب الرایة: ۲۸۵/۱)

٭اس کی ایک دوسری حدیث کو حافظ نووی رحمہ اللہ نے" سخت ترین ضعیف" کہا ہے۔

(خلاصة الأحکام از نووی: ۶۷۴/۲)


دوسری روایت :

ابن حزم رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے تعلیقاً اور "مسند الامام زید" میں سند کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

"تین باتیں تمام انبیائے کرام کے اخلاق سے ہیں: افطاری میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا

اور نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا۔”


(مجموعہ رسائل از محمد امین اوکاڑوی: ۳۲۷/۱، حدیث اور اھلحدیث: ص ۲۷۷)

موضوع (من گھڑت): مسند الامام زید، زیدی شیعوں کی جھوٹی کتاب ہے۔

۱:اس کتاب کی سند میں عمرو بن خالد الواسطی راوی بالاتفاق "وضّاع" (یعنی جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا) اور "کذاب" ہے۔

٭امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے کہا ہے: وکان یضع الحدیث "یہ جھوٹی حدیثیں گھڑتا تھا۔"

(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ۲۳۰/۶)

٭امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: کان عمرو بن خالد الواسطیّ یضع الحدیث "عمر بن خالد الواسطی حدیثیں گھڑتا تھا۔" (أیضاً)

٭امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں: کذاب، غیر ثقة، ولا مأمون "یہ کذاب تھا، ثقہ اور مامون نہیں تھا۔" (أیضاً)

٭امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: متروک الحدیث ، لیس یسوّی شیئا "یہ متروک الحدیث ہے،یہ کسی چیز کے ہم پلہ نہیں ہے۔" (أیضاً)

٭امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں: متروک الحدیث، ذاھب الحدیث، لا یشتغل به "یہ متروک الحدیث اور ذاہب الحدیث ہے، اس کی حدیث کے ساتھ مشغول نہ ہوا جائے۔" (أیضاً)

۲: اس کتاب کی سند کا دوسرا راوی عبد العزیز بن اسحاق بن البقال غالی شیعہ اور "ضعیف" ہے۔

(دیکھیں لسان المیزان: ۲۵/۴، تاریخ بغداد: ۴۸۵/۱)

اس کتاب میں بہت ساری من گھڑت روایات ہیں۔

معلوم ہوا کہ یہ کتاب "موضوع" اور من گھڑت ہے، کسی سنی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس کتاب سے روایت پیش کرے۔

٭جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں: ألا إنّ الآفة فی کتابه من حیث جھالة ناقلیة

"مصیبت یہ ہے کہ اس کتاب کے ناقلین مجہول ہیں۔"

(فیض الباری لابن حجر: ۲۴۱/۲)

http://zaeefhadees.blogspot.com/2015/01/Naaf-k-Neechay-Hath-Bandhna.html
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
صحيح وضعيف سنن الترمذي - (ج 1 / ص 252) ( سنن الترمذي )
252 حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي .

تحقيق الألباني : حسن صحيح

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے ــــــ ــــــــــ الحدیث
محدث نے صرف ناف کے محاذات کا ذکر کیا۔
اس طرح صحیح مسلم میں بھی محدث نے وضاحت سے لکھا ؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ


تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــــــــــــــــــــــــــ
محترم، یہاں صرف بیہقی کی ایک حدیث کا ضعف ثابت کیا گیا ہے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ تحقیق غلط پیش کی گئی ہے اور بیہقی کی مذکورہ روایت صحیح یا حسن ہے، تو اس کے دلائل دیجئے۔
نئی بحث یہاں شروع نہ کریں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
محترم، یہاں صرف بیہقی کی ایک حدیث کا ضعف ثابت کیا گیا ہے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ تحقیق غلط پیش کی گئی ہے اور بیہقی کی مذکورہ روایت صحیح یا حسن ہے، تو اس کے دلائل دیجئے۔
محترم! اس حدیث پر بھی تبصرہ فرما دیتے جسے میں نے تحریر کیا تھا۔ پھر سے پیش خدمت ہے؛
صحيح وضعيف سنن الترمذي
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي .
تحقيق الألباني : حسن صحيح

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے ــــــ ــــــــــ الحدیث
محدث نے صرف ناف کے محاذات کا ذکر کیا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
محترم! اس حدیث پر بھی تبصرہ فرما دیتے جسے میں نے تحریر کیا تھا۔ پھر سے پیش خدمت ہے؛
صحيح وضعيف سنن الترمذي
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي .
تحقيق الألباني : حسن صحيح

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے ــــــ ــــــــــ الحدیث
محدث نے صرف ناف کے محاذات کا ذکر کیا۔
آپ اس حدیث پر بحث کے لئے علیحدہ دھاگا بنا لیجئے۔
یہاں پر آپ موضوع سے متعلق بیہقی کی حدیث کے تعلق سے کچھ کہنا چاہتے ہوں تو کہئے۔
اب یوں ہوگا کہ آپ کی غیر متعلق گفتگو حذف کرنی پڑے گی تاکہ آپ موضوع کے مطابق گفتگو کے لئے خود کو مجبور پائیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یہ بھی خوب رہی!
بعض باتیں ضمناً تشریح کے لئے ضروری ہوتی ہیں ان کو اصل تھریڈ سے ہٹادیں تو بات کیسے سمجھ آئے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
یہ بھی خوب رہی!
بعض باتیں ضمناً تشریح کے لئے ضروری ہوتی ہیں ان کو اصل تھریڈ سے ہٹادیں تو بات کیسے سمجھ آئے؟
اففف۔
بھئی بہت ہی مستقل مزاج قسم کے انسان ہیں۔۔۔۔
حضرت بیہقی کی اس حدیث کی صحت ثابت کر سکتے ہیں؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
حضرت بیہقی کی اس حدیث کی صحت ثابت کر سکتے ہیں؟
جس کتاب کا حوالہ ہے وہ کتاب میرے پاس نہیں ہے اور دیگر تقریباً چالیس سے کچھ اوپر کتب میں یہ حدیث ان الفاظ میں نہیں ملی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جس کتاب کا حوالہ ہے وہ کتاب میرے پاس نہیں ہے اور دیگر تقریباً چالیس سے کچھ اوپر کتب میں یہ حدیث ان الفاظ میں نہیں ملی۔
یہ کتابیں ویسے تو آن لائن بھی مل جاتی ہیں۔ چلیں جب تک آپ کے پاس اس حدیث کی صحت ثابت کرنے کے لئے کچھ نہیں، تب تک ہم اس کو ضعیف ہی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا ضعف دلائل کے ساتھ ثابت کر دیا گیا ہے، الحمدللہ۔
 
Top