• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ اور اصول احناف

شمولیت
جنوری 03، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
59
احناف کا اصول ہے کہ وہ مرسل حدیث کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔اور اس کے حجت ہونے پر بحث کرتے ہیں۔ اور مرسل احادیث کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں مثال کےطور پر مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے مسئلے پرایک روایت پیش کرتے ہیں۔

عن يزيد بن أبي حبيب : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مر على امرأتين تصليان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل
ترجمہ: حضرت یزید بن ابی حبیب رحمہ اﷲ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں آپ نے فرمایا جب تم سجدہ کروتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت ( کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے ۔
(مراسیل ابی داؤد ص8، سنن کبری بیہقی ج2ص223)

احناف اور احناف کی طرف منسوب پاک و ہند میں دو بڑے فرقے دیوبندی اور بریلوی بھی اس اصول کے قائل ہیں۔
مثال کے طور پر
احناف کے امام سرخسی الحنفی نے کہا کہ "دوسرے اور تیسرے قرن کی مرسل روایت ہمارے علماء کے قول کے مطابق حجت اور دلیل ہیں" (الاصول1/360)
مولانا ظفر علی تھانی(دیوبندی) صاحب لکھتے ہیں "اور ہمارے نزدیک مرسل حجت ہے"(اعلاءالسنن1/82،بحث المرسل)
مولانا محمد حنیف خان رضوی بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ "احناف کے نزیدک تابعی اور تبع تابعین کی مرسلات مطاقا مقبول ہیں،انکے بعد ثقہ کی ہو تو مقبول اور باقی کا فیصلہ تحقیق کے بعد ہوتا ہے (جامع الاحادیث ج1ص523،524)
اور مولانا غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں "ہمارے اور امام مالک کے نزدیک کے بزدیک حدیث مرسل مقبول ہے۔"(شرح صحیح مسلم ج1ص118)
توکیا اپنے اس اصول کے مطابق احناف، بریلوی و دیوبندی اس حدیث کو حجت تسلیم کرتے ہیں ۔۔۔۔؟
حدیث درج ذیل ہے۔
حدثنا أبو توبة ثنا الهيثم يعني ابن حميد عن ثور عن سليمان بن موسى عن طاوس قال: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بينهما على صدره وهو في الصلاة
(سنن ابی داود ح789،مراسیل ابی داود ح32)
سند کی تحقیق:
1۔ ابو توبہ الربیع بن نافع الحلبی۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا: ثقہ ھجۃ عابد ۔ (تقریب التہذیب رقم 1902)
2۔ الہیثم بن حمید۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا: صدوق رمی بالقدر ۔ (تقریب التہذیب رقم 7326)
امام ذہبی نے فرمایا: الفقیۃ الحافظ ۔ (تذکرۃ الحفاظ 1/285)
3۔ ثور بن یزید بن زیاد الکلاعی ابو ضالد الحمصی۔
امام ذہبی نے نقل کیا: ثقہ۔ (میزان العتدال 1/274)
4۔ سلیمان بن موسٰی بن الموی الدمشقی الاشدق۔
امام ذہبی نے فرمایا: الامام الکبیر مفتی دمشق ۔ (سیراعلام النبلاء 5/433)
حافظ ابن حجر نے فرمایا: صدوق فقیہ فی حدیثہ بعض لین و خولط قبل موتھ بقلیل (تقریب التہذیب رقم 2616)
جمہور محدیث نے اس کی توثیق کی ہے۔
5۔ امام طاوس بن کیسان۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا: ثقۃ فقیہ فاضل (تقریب التہذیب رقم 3009)
اس پر ایک مشفیق گفتگو آپ ممبران کی منتظر ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بھائی یہ مشفیق گفتگو کیا ہوتی ہے؟

مرسل غیر صحابی میں احناف کی یہ شرط یاد رکھنی چاہیے کہ احناف اس کی مرسل قبول کرتے ہیں جس کی مسند قبول ہو۔ یعنی اس میں قبولیت کی شرائط پائی جاتی ہوں۔

و نحن نقول ان کلامنا فی ارسال من لو اسندہ الی شخص آخر یقبل ولا یظن بہ الکذب۔
نور الانوار 1۔527 مکتبۃ البشری

"اور ہم کہتے ہیں کہ ہمارا کلام اس شخص کے ارسال میں ہے جو اگر اس کی نسبت کسی اور شخص کی جانب کرتا تو قبول ہوتی اور اس پر جھوٹ کا گمان نہ کیا جاتا۔"
یہ تو جملہ معترضہ تھا قبول مرسل کی مکمل تفصیل کے لیے۔

اس مسئلہ پر میری تحقیق نہیں ہے البتہ جو حدیث دی گئی ہے اس کی سند میں راوی ثور بن یزید بن زیاد الکلاعی ابو خالد الحمصی ہے جو کہ مدلس ہے۔


ثور بن يزيد بن زياد الكلاعي، أبو خالد الحمصي / خ 4.
قال أبو داود في سننه في باب كيف المسح (1 / 64 من عون المعبود، الطبعة الهندية) : حدثنا موسى بن مروان ومحمود بن خالد الدمشقي المعنى قال ثنا الوليد قال محمود انا ثور بن يزيد عن رجاء بن حيوة عن كاتب المغيرة بن شعبة قال: وضأت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك فمسح على الخفين واسفلهما *، قال أبو داود: وبلغني انه لم يسمع هذا الحديث من رجاء.
تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس 1۔60 مکتبۃ المنار

یہ فصل شاید محقق کی طرف سے اضافہ شدہ ہے۔



(ثور بن يزيد) قال أبو داود في سننه في مسح الخفين: بلغني انه لم يسمع ثور هذا الحديث من رجاء يعني بن حيوة انتهى ولفظه فيه عن رجاء وقد تقدم كلام الشافعي. توفي سنة 55 وقيل سنة 53 وقيل غير ذلك (د ت ق) (جابر الجعفي) قال أبوتعيم قال الثوري كل ما قال فيه جابر سمعت أو حدثنا فاشدد يديك به وما كان سوى ذلك فتوقه.
التبیین لاسماء المدلسین 1۔18 ط علمیہ



ثور بن يزيد الكلاعي عن راشد بن سعد عن مالك بن يخامر قال رأيت معاذا يقتل القمل والبراغيث في الصلاة قال أحمد بن حنبل لم يسمع ثور من راشد شيئا
جامع التحصیل 1۔153 ط عالم الکتب


یہ راوی مدلس ہے اور یہ روایت معنعن ہے۔
 
شمولیت
جنوری 03، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
59
محترم اشماریہ بھائی نے کہا:
بھائی یہ مشفیق گفتگو کیا ہوتی ہے؟
اس سے مراد اچھی، معیاری،شفقت ومحبت اور تعصب سے پاک گفتگو ہے میرے بھائی۔
و نحن نقول ان کلامنا فی ارسال من لو اسندہ الی شخص آخر یقبل ولا یظن بہ الکذب۔
نور الانوار 1۔527 مکتبۃ البشری
"اور ہم کہتے ہیں کہ ہمارا کلام اس شخص کے ارسال میں ہے جو اگر اس کی نسبت کسی اور شخص کی جانب کرتا تو قبول ہوتی اور اس پر جھوٹ کا گمان نہ کیا جاتا۔"
میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے ایک اور حواکہ اس موضوع کے بارے میں مہیا کروایا۔اور اس کا بھی کہ آپ نے اس بات کہ تسلیم کرلیا کہ احناف واقعی اس اصول کی پابندی کرتے ہیں۔
تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس 1۔60 مکتبۃ المنار
التبیین لاسماء المدلسین 1۔18 ط علمیہ
بھائی آپ کے اس سارے کلام سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ ثور بن یزید مدلس ہے۔
اگر مدلسیں کے بارے میں لکھی گئی کتب میں کسی راوی کا نام محدیثیں نے درج کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ راوی مدلس ہےالا یہ کہ اس سے تدلیس ثابت ہو جائے۔ مثال کے طور پر امام مالک بن انس اور امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اجمعیں کانام حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسیں میں لیا ہے۔تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مدلس ہیں ۔دیکھیں
(طبقات المدلسیں1/22،1/23)
کیا آپ ان کو اس بنا پر مدلس تسلیم کرتے ہیں۔؟
ثور بن يزيد بن زياد الكلاعي، أبو خالد الحمصي / خ 4.
قال أبو داود في سننه في باب كيف المسح (1 / 64 من عون المعبود، الطبعة الهندية) : حدثنا موسى بن مروان ومحمود بن خالد الدمشقي المعنى قال ثنا الوليد قال محمود انا ثور بن يزيد عن رجاء بن حيوة عن كاتب المغيرة بن شعبة قال: وضأت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك فمسح على الخفين واسفلهما *، قال أبو داود: وبلغني انه لم يسمع هذا الحديث من رجاء.
تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس 1۔60 مکتبۃ المنار
یہ فصل شاید محقق کی طرف سے اضافہ شدہ ہے۔
(ثور بن يزيد) قال أبو داود في سننه في مسح الخفين: بلغني انه لم يسمع ثور هذا الحديث من رجاء يعني بن حيوة انتهى ولفظه فيه عن رجاء وقد تقدم كلام الشافعي. توفي سنة 55 وقيل سنة 53 وقيل غير ذلك (د ت ق) (جابر الجعفي) قال أبوتعيم قال الثوري كل ما قال فيه جابر سمعت أو حدثنا فاشدد يديك به وما كان سوى ذلك فتوقه.
التبیین لاسماء المدلسین 1۔18 ط علمیہ
پہلی بات :جو قول آپ نے پیش کیا ہے اس سے روایت میں ارسال کی طرف اشارہ ہوتا ہےنہ کہ تدلیس کی طرف۔

دوسری بات:امام ابو داود کے اس قول میں "بلغني"یعنی مجھے پہنچا ہےیا بتایہ گیا۔ میں پہنچانے والا کون ہے۔ اگر آپ کو اس شخص کا پتہ ہے کہ کس نے یہ بات امام ابو داود تک پہنچائی ہے توہمیں بھی بتادیں۔؟

تیسری بات:اس کے برعکس امام دارقطنی نے اپنی سنن میں جناب ثور کی جناب رجاء بن حیوۃ سے سمع کی تصریح نقل کر دی ہے ۔
حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز نا داود بن رشيد نا الوليد بن مسلم عن ثور بن يزيد نا رجاء بن حيوة عن كاتب المغيرة بن شعبة عن المغيرة قال : وضأت رسول الله صلى الله عليه و سلم في غزوة تبوك فمسح أعلى الخف وأسفله (سسن دارقطنی ج1ص195)
اس روایت میں تدلیس کا الزام باطل

چوتھی بات: یہ روایت اس وجہ سے ضعیف نہیں ہے کہ اس میں جناب ثور نے تدلیس کی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں ولید بن مسلم مدلس ہے۔دیکھیں (طبقات المدلسیں 127/4)
ثور بن يزيد الكلاعي عن راشد بن سعد عن مالك بن يخامر قال رأيت معاذا يقتل القمل والبراغيث في الصلاة قال أحمد بن حنبل لم يسمع ثور من راشد شيئا
جامع التحصیل 1۔153 ط عالم الکتب
اس کتاب کا پورا نام جامع التحصيل في أحكام المراسيل
یعنی اس میں مرسل احادیث و احکام اور راویان کا ذکر ہے۔نہ کہ تدلیس کے بارے میں۔اس کے باوجود جامع التحصیل جی احکام امراسیل کے مصنف نے اپنی اس کتاب میں مدلسیں کی فہریست دی ہے۔عجب بات یہ ہے کہ اس فہریست میں ثور بن یزید کا نام ہی موجود نہیں۔یعنی مصنف بھی ان کو مدلس تسلیم نہیں کرتے۔
(جامع التحصیل ص104 تا 112،تخریج و تحقيق حمدي بن عبدالمجيد بن إسماعيل السلفي)
بلکہ مصنف کی یہ عبارت ارسال کی طرف اشارہ کرتی ہے نہ کہ تدلیس کی طرف ۔ اس لحاظ سے جانب ثور بن یزید پر تدلیس کا الزام باطل۔
جیسے کہ شیخ الحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:ثور بن یزید الحمصی: ثقہ،بری من التدلیس۔
(الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص102)
یہ روایت امام طاوس تک صحیح متصل ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی نے کہا:
اس سے مراد اچھی، معیاری،شفقت ومحبت اور تعصب سے پاک گفتگو ہے میرے بھائی۔


ابتسامہ

بھائی میں جرح و تعدیل میں ابھی نیا ہوں۔ اس لیے جو غلطیاں ہوں ان کے لیے معذرت اور آپ جہاں رہنمائی فرما سکیں تو بہت مشکور ہوں گا۔

اگر مدلسیں کے بارے میں لکھی گئی کتب میں کسی راوی کا نام محدیثیں نے درج کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ راوی مدلس ہےالا یہ کہ اس سے تدلیس ثابت ہو جائے۔ مثال کے طور پر امام مالک بن انس اور امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اجمعیں کانام حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسیں میں لیا ہے۔تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مدلس ہیں ۔
تدلیس کیسے ثابت ہوتی ہے؟ کیا تدلیس کی تفصیل یہ نہیں ہے؟


أما تَدْلِيس الْإِسْنَاد فَهُوَ أَن يسْقط اسْم شَيْخه الَّذِي روى عَنهُ ويرتقي إِلَى من فَوْقه فيسند ذَلِك إِلَيْهِ بِلَفْظ غير مُقْتَض للاتصال وَلكنه متوهم لَهُ كَقَوْلِه عَن فلَان أَو أَن فلَانا أَو قَالَ فلَان موهما بذلك أَنه سَمعه مِمَّن رَوَاهُ عَنهُ
وَإِنَّمَا يكون تدليسا إِذا كَانَ المدلس قد عاصر الْمَرْوِيّ عَنهُ أَو لقِيه وَلم يسمع مِنْهُ أَو سمع مِنْهُ وَلم يسمع مِنْهُ ذَلِك الحَدِيث الَّذِي دلسه عَنهُ
توجیہ النظر الی اصول الاثر 2۔567 ط مطبوعات الاسلامیہ

ثور بن یزید کے معاصر راشد بن سعد اور رجاء بن حیوۃ دونوں ہیں اور ان کے بارے میں میں نے اوپر حوالہ دیا ہے۔
رجاء سے سماع کی جو آپ نے روایت پیش فرمائی اس میں مسلم بن ولید ہے جسے آپ نے خود مدلس قرار دیا ہے اور وہ روایت معنعن بھی ہے۔
اسی کے نیچے دوسری روایت ہے جس میں بجائے حدثنا کے حدثت عن رجاء کے الفاظ ہیں۔
حدثنا أبو بكر النيسابوري , نا عيسى بن أبي عمران بالرملة , ثنا الوليد بن مسلم , بهذا الإسناد مثله. رواه ابن المبارك , عن ثور , قال: حدثت عن رجاء بن حيوة , عن كاتب المغيرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا ليس فيه المغيرة

امام مالک اور امام بخاری رح کو طبقہ اولی میں ذکر کیا گیا ہے مدلسین کے۔ اور طبقہ اولی کے بارے میں حافظ صاحب ارشاد فرماتے ہیں:۔
الاولى من لم يوصف بذلك الا نادرا كيحيى بن سعيد الانصاري
طبقات ص13
ساتھ میں وجہ بھی ذکر کی ہے الزام تدلیس کی۔

شیخ زبیر علی زئی رح نے بغیر کسی علت کے کہا ہے وہو بریء من التدلیس۔ کیوں بری ہے جب کہ فاضل محقق نے ابو داؤد رح کا قول ذکر کیا ہے۔
البتہ لفظ "بلغنی" کے بارے میں جو آپ نے ارشاد فرمایا تو میں اس کے قاعدے کی تفصیل نہیں جانتا۔ مجھے اس سے مطلع فرمائیے۔ کیا جب اس حدیث کا سماع ثابت نہیں ہوا (ولید بن مسلم کی وجہ سے) تب بھی ابو داؤد کا بلغنی کے ساتھ قول معتبر نہیں ہوگا؟ جزاک اللہ خیرا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ثور بن یزید کو مدلس کہنا محض انکار حدیث کا ایک بہانہ ہے اور کچھ نہیں! ان کو مدلس ثابت کرنے کی جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے:
قال أبو داود في سننه في باب كيف المسح (1 / 64 من عون المعبود، الطبعة الهندية) : حدثنا موسى بن مروان ومحمود بن خالد الدمشقي المعنى قال ثنا الوليد قال محمود انا ثور بن يزيد عن رجاء بن حيوة عن كاتب المغيرة بن شعبة قال: وضأت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك فمسح على الخفين واسفلهما *، قال أبو داود: وبلغني انه لم يسمع هذا الحديث من رجاء.
یہ دلیل کئی وجوہ کی بناء پر مردود ہے:
اولا: اس میں ولید بن مسلم ہیں جو تدلیس تسویہ کرنے میں مشہور تھے۔
حافظ ابن حجر ان کے متعلق فرماتے ہیں: "ثقة لكنه كثير التدليس و التسوية" (تقریب)
اور تدلیس تسویہ سے متصف مدلس بڑی خطرناک قسم کی تدلیس کرتا ہے۔ ایسا راوی اگرچہ اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کر دے لیکن اس کی روایت تب تک مقبول نہیں ہو گی جب تک وہ پوری کی پوری سند میں سماع کی صراحت نہ دکھا دے کیونکہ ایسا راوی سند میں کہیں سے بھی راوی گرا سکتا ہے! اور اس سند میں بھی ولید نے ثور اور رجاء کے درمیان سماع ذکر نہیں کیا، اور نہ ہی حیوۃ اور کاتب المغیرہ کے درمیان سماع ذکر کیا۔ تو اگر اس روایت میں کسی شخص کے سماع کا انکار کیا جائے تو ولید کی موجودگی کی وجہ سے اس میں قصوروار ولید ہی ٹہرے گانہ کہ ثور یا کوئی اور۔
ثانیا: اس میں امام ابو داود نے لفظ بلغنی سے سماع کا انکار کیا ہے۔ یعنی "مجھے یہ بات پہنچی ہے" اس میں صاف صراحت ہے کہ یہ قول امام ابو داود کا خود کا نہیں ہے بلکہ کسی اور کا ہے جس کا نام نہیں لیا گیا۔ اب وہ کون ہے جس نے یہ بات کہی وہ مجھول ہے اور مجھول کی بات مقبول نہیں ہوتی۔
ثالثا: بالفرض اگر اس میں ولید بن مسلم نہ بھی ہوتے، اور لفظ بلغنی بھی نہ ہوتا تو بھی یہ روایت ثور کی تدلیس ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں تھی کیونکہ کتنے ہی غیر مدلس راوی ایسے ہیں جن کی کئی روایات کے متعلق محدثین نے کہا کہ فلاں نے یہ روایت فلاں سے نہیں سنی وغیرہ۔ اگر کسی نے کوئی روایت کسی سے نہیں سنی تو یہ اس کے مدلس ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ کسی حدیث کے نہ سننے کی تدلیس کے علاوہ بھی کوئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
لہٰذا ثور بن یزید کو اس ایک قول کی بناء پر مدلس قرار دینا بےوقوفی سے کم نہ ہوگا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اگر ثور بن یزید کو مدلس تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی حنفی اصول کے مطابق قرون ثلاثہ میں ارسال اور تدلیس دونوں مضر نہیں ہیں! اور ثور بن یزید تو قرن ثالث کے کبار راویوں میں سے ہیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اگر ثور بن یزید کو مدلس تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی حنفی اصول کے مطابق قرون ثلاثہ میں ارسال اور تدلیس دونوں مضر نہیں ہیں! اور ثور بن یزید تو قرن ثالث کے کبار راویوں میں سے ہیں!
تدلیس کیسے؟ مجھے اس قاعدے کا تو علم نہیں کہ تدلیس بھی مضر نہیں۔
 
شمولیت
جنوری 03، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
59
محترم رضا میاں بھائی نے فرمایا:
اگر ثور بن یزید کو مدلس تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی حنفی اصول کے مطابق قرون ثلاثہ میں ارسال اور تدلیس دونوں مضر نہیں ہیں! اور ثور بن یزید تو قرن ثالث کے کبار راویوں میں سے ہیں!
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
تدلیس کیسے؟ مجھے اس قاعدے کا تو علم نہیں کہ تدلیس بھی مضر نہیں۔
محترم اگر میں آپ کے اصول کے مطابق تدلیس کی بات کروں تو احناف خوص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک تو تدلیس جرح ہی نہیں دیکھیے مولانا ظفر احمد تھانوی کی کتاب (قواعد فی علوم الحدیث ص 160) نیز احناف خاص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک فرون ثلاثہ کی مرسل اور تدلیس والی روایت بھی مقبول ہوتی ہے۔ یہ ہی کتاب بلترتیب(ص138 تا 139 اور 159)

لیکن اس کے باوجود میری بھائیوں نے گزارش ہے کہ وہ برائے مہربانی اپنی گفتگو کا محور جناب ثور بن یزید کی تدلیس پر رکھیں تاکہ گفتگو جامع، اور موضوع کے مطابق ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ًمحترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
بھائی میں جرح و تعدیل میں ابھی نیا ہوں۔ اس لیے جو غلطیاں ہوں ان کے لیے معذرت اور آپ جہاں رہنمائی فرما سکیں تو بہت مشکور ہوں گا۔
جی انشاءاللہ بھی مجھ سے جتنا ہو سکا میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔ اور میں آپ سمیت تمام ممبران سے امید رکھتا ہو کہ وہ بھی میری اس فورم پر رہنمائی کریں گے۔
الزامی جواب
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
امام مالک اور امام بخاری رح کو طبقہ اولی میں ذکر کیا گیا ہے مدلسین کے۔ اور طبقہ اولی کے بارے میں حافظ صاحب ارشاد فرماتے ہیں:۔
الاولى من لم يوصف بذلك الا نادرا كيحيى بن سعيد الانصاري
طبقات ص13
اگر آپ کا یہ ہی اصول ہے تو حافط زبیر علی زئی نے (الفتع المبین فی تحقیق طبقات المدلسیں ص102) پر زائدالشیخ مسفر الدمینی علی طبقات المدلسیں سے نقل کیا ہے کہ شیخ مسفر الدمینی نے ثور بن یزید کو پہلے طبقے میں شمار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ثور بن یزید پر آپ کی تدلیس کی جرح آپ کے اصول کے مطابق مردود ہوئی۔

اولا: اس میں ولید بن مسلم ہیں جو تدلیس تسویہ کرنے میں مشہور تھے۔
حافظ ابن حجر ان کے متعلق فرماتے ہیں: "ثقة لكنه كثير التدليس و التسوية" (تقریب)
اور تدلیس تسویہ سے متصف مدلس بڑی خطرناک قسم کی تدلیس کرتا ہے۔ ایسا راوی اگرچہ اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کر دے لیکن اس کی روایت تب تک مقبول نہیں ہو گی جب تک وہ پوری کی پوری سند میں سماع کی صراحت نہ دکھا دے کیونکہ ایسا راوی سند میں کہیں سے بھی راوی گرا سکتا ہے! اور اس سند میں بھی ولید نے ثور اور رجاء کے درمیان سماع ذکر نہیں کیا، اور نہ ہی حیوۃ اور کاتب المغیرہ کے درمیان سماع ذکر کیا۔ تو اگر اس روایت میں کسی شخص کے سماع کا انکار کیا جائے تو ولید کی موجودگی کی وجہ سے اس میں قصوروار ولید ہی ٹہرے گانہ کہ ثور یا کوئی اور۔
اس بات کی وضاحت امام أبوالفرج، عبدالرحمن بن علي، ابن الجوزي، متوفي579هـ. نے کی ہے کہتے ہیں۔
أخبرنَا هبة الله بن مُحَمَّد أَنبأَنَا الْحسن بن عَلّي أَنبأَنَا أَحْمد بن جَعْفَر حَدثنَا عبد الله بن أَحْمد قَالَ حَدثنِي أبي حَدثنَا الْوَلِيد بن مُسلم قَالَ أَخْبرنِي ثَوْر بن يزِيد عَن رَجَاء بن حَيْوَة عَن کَاتب الْمُغيرَة عَن الْمُغيرَة بن شُعْبَة أَن النَّبِي صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ [التحقيق في أحاديث الخلاف: 1/ 213].
ثم قال:
''قَالَ التِّرْمِذِيّ هَذَا حَدِيث مَعْلُول لم يسْندهُ عَن ثَوْر غير الْوَلِيد وسَأَلت أَبَا زرْعَة ومحمدا عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَا لَيْسَ بِصَحِيح(سنن ترمذی،باب ما جاء في المسح على الخفين : أعلاه وأسفله،رقم 97)
قلت کَانَ الْوَلِيد يروي عَن الْأَوْزَاعِيّ أَحَادِيث هِيَ عِنْد الْأَوْزَاعِيّ عَن شُيُوخ ضعفاء عَن شُيُوخ قد أدرکهم الْأَوْزَاعِيّ مثل نَافِع وَالزهْرِيّ فَيسْقط أَسمَاء الضُّعَفَاء ويَجْعَلهَا عَن الْأَوْزَاعِيّ عَنْهُم''َ [التحقيق في أحاديث الخلاف: 1/ 213].
اس لحاظ سے امام ابوداود کا قول مجروح ہونے کے باوجود اس بات کی تائید کرتا ہے۔
لحاظہ ثور بن یزید پر تدلیس کا الزام باطل روایت امام طاوس تک متصل۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم رضا میاں بھائی نے فرمایا:
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:

محترم اگر میں آپ کے اصول کے مطابق تدلیس کی بات کروں تو احناف خوص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک تو تدلیس جرح ہی نہیں دیکھیے مولانا ظفر احمد تھانوی کی کتاب (قواعد فی علوم الحدیث ص 160) نیز احناف خاص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک فرون ثلاثہ کی مرسل اور تدلیس والی روایت بھی مقبول ہوتی ہے۔ یہ ہی کتاب بلترتیب(ص138 تا 139 اور 159)

لیکن اس کے باوجود میری بھائیوں نے گزارش ہے کہ وہ برائے مہربانی اپنی گفتگو کا محور جناب ثور بن یزید کی تدلیس پر رکھیں تاکہ گفتگو جامع، اور موضوع کے مطابق ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ًمحترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:

جی انشاءاللہ بھی مجھ سے جتنا ہو سکا میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔ اور میں آپ سمیت تمام ممبران سے امید رکھتا ہو کہ وہ بھی میری اس فورم پر رہنمائی کریں گے۔
الزامی جواب
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:


اگر آپ کا یہ ہی اصول ہے تو حافط زبیر علی زئی نے (الفتع المبین فی تحقیق طبقات المدلسیں ص102) پر زائدالشیخ مسفر الدمینی علی طبقات المدلسیں سے نقل کیا ہے کہ شیخ مسفر الدمینی نے ثور بن یزید کو پہلے طبقے میں شمار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ثور بن یزید پر آپ کی تدلیس کی جرح آپ کے اصول کے مطابق مردود ہوئی۔


اس بات کی وضاحت امام أبوالفرج، عبدالرحمن بن علي، ابن الجوزي، متوفي579هـ. نے کی ہے کہتے ہیں۔
أخبرنَا هبة الله بن مُحَمَّد أَنبأَنَا الْحسن بن عَلّي أَنبأَنَا أَحْمد بن جَعْفَر حَدثنَا عبد الله بن أَحْمد قَالَ حَدثنِي أبي حَدثنَا الْوَلِيد بن مُسلم قَالَ أَخْبرنِي ثَوْر بن يزِيد عَن رَجَاء بن حَيْوَة عَن کَاتب الْمُغيرَة عَن الْمُغيرَة بن شُعْبَة أَن النَّبِي صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ [التحقيق في أحاديث الخلاف: 1/ 213].
ثم قال:
''قَالَ التِّرْمِذِيّ هَذَا حَدِيث مَعْلُول لم يسْندهُ عَن ثَوْر غير الْوَلِيد وسَأَلت أَبَا زرْعَة ومحمدا عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَا لَيْسَ بِصَحِيح(سنن ترمذی،باب ما جاء في المسح على الخفين : أعلاه وأسفله،رقم 97)
قلت کَانَ الْوَلِيد يروي عَن الْأَوْزَاعِيّ أَحَادِيث هِيَ عِنْد الْأَوْزَاعِيّ عَن شُيُوخ ضعفاء عَن شُيُوخ قد أدرکهم الْأَوْزَاعِيّ مثل نَافِع وَالزهْرِيّ فَيسْقط أَسمَاء الضُّعَفَاء ويَجْعَلهَا عَن الْأَوْزَاعِيّ عَنْهُم''َ [التحقيق في أحاديث الخلاف: 1/ 213].
اس لحاظ سے امام ابوداود کا قول مجروح ہونے کے باوجود اس بات کی تائید کرتا ہے۔
لحاظہ ثور بن یزید پر تدلیس کا الزام باطل روایت امام طاوس تک متصل۔


جزاک اللہ خیرا
میں باقی روایت پر وقت ملنے پر تحقیق کرتا ہوں اور دیے گئے حوالہ جات بھی دیکھتا ہوں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اگر میں آپ کے اصول کے مطابق تدلیس کی بات کروں تو احناف خوص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک تو تدلیس جرح ہی نہیں دیکھیے مولانا ظفر احمد تھانوی کی کتاب (قواعد فی علوم الحدیث ص 160) نیز احناف خاص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک فرون ثلاثہ کی مرسل اور تدلیس والی روایت بھی مقبول ہوتی ہے۔ یہ ہی کتاب بلترتیب(ص138 تا 139 اور 159)۔

میں نے اس کتاب کی طرف مراجعت کی اور یہ میرے علم میں کثیر اضافہ ہے۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دیں۔

اگر آپ کا یہ ہی اصول ہے تو حافط زبیر علی زئی نے (الفتع المبین فی تحقیق طبقات المدلسیں ص102) پر زائدالشیخ مسفر الدمینی علی طبقات المدلسیں سے نقل کیا ہے کہ شیخ مسفر الدمینی نے ثور بن یزید کو پہلے طبقے میں شمار کیا ہے۔ اس لحاظ سے ثور بن یزید پر آپ کی تدلیس کی جرح آپ کے اصول کے مطابق مردود ہوئی۔
مجھے یہ قول مذکورہ صفحے پر نہیں ملا۔ صرف ثقۃ بریء من التدلیس ملا ہے۔ کیا آپ مراجعت فرمائیں گے؟

4۔ سلیمان بن موسٰی بن الموی الدمشقی الاشدق۔
امام ذہبی نے فرمایا: الامام الکبیر مفتی دمشق ۔ (سیراعلام النبلاء 5/433)

میں اس مسئلے کے بارے میں امین صفدر اوکاڑوی رح کی تجلیات دیکھ رہا تھا تو کچھ باتیں سامنے آئیں۔


سليمان ابن موسى الأموي مولاهم الدمشقي الأشدق صدوق فقيه في حديثه بعض لين وخولط قبل موته بقليل
تقریب التہذیب 1۔255 دار الرشید



قال دحيم: هو ثقة.
وقال عثمان الدارمي: قلت ليحيى بن معين: سليمان بن موسى ما حاله في الزهري؟ قال: ثقة.
وقال أبو حاتم: محله الصدق، وفي حديثه بعض الاضطراب، ولا أعلم أحدا من أصحاب مكحول أفقه منه، ولا أثبت منه.


وقال البخاري: عنده مناكير.
وقال النسائي: هو أحد الفقهاء، وليس بالقوي في الحديث.
وقال مرة: في حديثه شيء.

وقال ابن عدي: هو فقيه، راو، حدث عنه الثقات، وهو أحد العلماء.
روى أحاديث ينفرد بها، لا يرويها غيره، وهو عندي ثبت، صدوق.
سیر اعلام النبلاء



و ذكر العقيلى ، عن ابن المدينى : كان من كبار أصحاب مكحول ، و كان خولط قبل موته بيسير .
تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب


دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ اس حدیث کے نسخوں میں ثم یشد بہما میں فرق ہے۔ بعض میں یشد بہما ہے اور بعض میں یشبک بہما جس پر کسی کا عمل نہیں ہے۔
کتاب المراسیل ص139 مکتبہ الصمیعی میں محقق زہرانی لکھتے ہیں یہ لفظ واضح نہیں ہے۔
ط رسالہ کے نسخے میں ارنؤوط نے اسے یشد بہما نکالا ہے لیکن سلیمان بن موسی پر اعتراض کیا ہے۔ ارنؤوط نے اس کی تحقیق میں ایک نسخے پر اکتفاء کیا ہے۔
دار القلم کے نسخے میں یشبک بہما کی تخریج ہے اور اس کی تحقیق محقق السیروان نے تین نسخوں سے کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسی حدیث بھی احناف کے نزدیک حجت بن جائے گی؟
 
Top