• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں صف بندی کی اہمیت :

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
کیا اس طرح ہاتھ باندھ کر مسنون طریقہ سے صف بندی ہوسکتی ہے؟ ملاحظہ فرمائیں؛
Tie 2.jpg

اس طرح ہاتھ باندھ کر صف بندی کا جونقشہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے؛
Saf 3.png


یا یہ

Saf 2.jpg


یعنی یا تو کہنی سے کہنی ملے گی کندھے سے کندھا نہیں یا کندھا ملائیں گے تو کہنیاں ایک دوسرے کے اوپر چڑھیں گی اور صف سیدھی نہیں رہے گی۔
 

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نماز میں صف بندی کی اہمیت :

۱: صفوں میں مل کر کھڑے ہونا :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صف ملائے گا اللہ بھی (اپنی رحمت سے) اس ملائے گا ”
(ابوداود : ۶۶۶ و سندہ حسن، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۹) حاکم (۲۱۳/۱) اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)

۲: صفوں کو برابر کرنا :


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوواصفولکم ” تم اپنی صفوں کو برابر کر(”صحیح بخاری : ۷۲۳، صحیح مسلم ۴۳۳)


۳: صفوں کو سیدھا کرنا چاہئے :

سیدنا نعمان بن بشیرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف رخ کرکے فرمایا : “لوگو! اپنی صفوں کو سیدھا کرو، لوگوں اپنی صفیں درست کرو، لوگوں اپنی صفیں برابر کرو، سنو اگر تم نے صفیں سیدھی نہ کیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا” پھر تو یہ حالت ہوگئی کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا ، گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا چپکا دیتا تھا۔ (صحیح بخاری: ۱۸)

۴: صف کو ملاتے وقت :

ٹخنے سے ٹخنا، گھٹنے سے گھٹنا ، کندھے سے کندھا ملا ہوا ہو (ابوداود : ۶۶۲ وھو حدیث صحیح)

سینے سے سینہ اور کندھے سے کندھا (ساتھ والے مقتدی کے) برابر ہونا چاہئے (ابوداود : ۶۶۴ وسندہ صحیح، اسے ابن خزیمہ (۱۵۵۱) اور ابن حبان (۳۸۶) نے صحیح کہا ہے)

گردنیں بھی ایک دوسرے کے برابر ہونی چاہئیں۔ (ابوداود: ۶۶۷ و سندہ صحیح، اسے ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور ابن حبان (۳۸۷) نے صحیح کہا ہے۔

اور دوسرے (ساتھی) کے قدم سے قدم ملانا چاہئے ۔ (صحیح بخاری: ۷۲۵)

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “صفوں کو قائم کرو مونڈھوں کو برابر کرو اور خالی جگہوں (جو صفوں کے درمیان رہ جائیں) کو بند کرو، اپنے بھائیوں (نمازیوں) کے لئے نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لئے صفوں میں جگہ نہ چھوڑو، جو شخص صف ملائے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو (اپنی رحمت سے) ملائے گا ۔ اور جو شخص صف کو کاٹے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو (اپنی رحمت سے) کاٹے گا۔ ” (ابوداود : ۶۶۶ و سندہ حسن، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۹) حاکم (۲۱۳/۱) اور ذہبی نے صحیح کہا ہے)

۵: صف میں مل کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہونا چاہئے :

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”رصوا صفو فکم” سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اپنی صفوں کو ملاؤ۔(ابوداود :۶۶۷ و سندہ صحیح، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور ابن حبان (۳۸۷) نے صحیح کہا ہے )

تنبیہ :

(۱): اگر صفوں میں خلا ہو تو وہاں شیطان سیاہ بکری کے بچے کی شکل اختیار کرکے داخل ہوجاتا ہے ۔ (ابوداود : ۶۶۷ و سندہ صحیح، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور ابن حبان (۳۸۷) نے صحیح کہا ہے )

(۲): بعض لوگ صفوں میں ایک دوسرے سے ہٹ کر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں کہ ہر دو آدمیوں کے درمیان کم از کم چار انچ یا اس سے زیادہ جگہ خالی ہوتی ہے۔ اس طریقے سے نہ تو نمازیوں کے کندھے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور نہ قدم بلکہ ایک بکھری ہوئی، ٹوٹی پھوٹی صف کا نظارہ ہوتا ہے گویا زبانِ حال سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ جیسے وہ ایک دوسرے سے دور کھڑے ہیں اسی طرح ان کے دل بھی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ صفوں کے درمیان ایک دوسرے سے ہٹ کر کھڑے ہونے کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں قطعاً نہیں ہے ۔


۶: صف کی دائیں جانب کھڑا ہونا زیادہ پسندیدہ عمل ہے:

سیدنا براء بن عازبؓ فرماتے ہیں :”جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ (ﷺ) کی داہنی جانب کھڑا ہونا پسند کرتے تھے ۔” (صحیح مسلم: ۷۰۹)

صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ “لأنہ کان یبدأ بالسلام عن یمینہ” (ہم رسول اللہ ﷺ کی دائیں طرف کھڑا ہونا اس لئے زیادہ پسند کرتے تھے) کیونکہ آپ ﷺ سلام پہلے دائیں طرف کہتے تھے (ح۱۵۶۴)

۷: صفوں کی ترتیب:

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “پہلی صف کو پورا کرو پھرا س کو جو پہلی کے نزدیک ہے ”(ابوداود : ۶۷۱ و ھو حدیث صحیح ، اسے ابن خزیمہ (۱۵۴۶) اور ابن حبان (۳۹۰) نے صحیح کہا ہے )

۸: پہلئ صف سے ہمیشہ پیچھے رہنے پر وعید:

سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
“ہمیشہ لوگ (پہلے صف سے) پیچھے ہٹتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو (اپنی رحمت میں) پیچھے ڈال دے گا ” (صحیح مسلم: ۴۳۸)

۹: پہلی صف میں نماز پڑھنے کی فضیلت :

سیدنا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صف کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں” (ابن ماجہ : ۹۹۷ و سندہ صحیح)

سیدنا عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف کے لئے تین دفعہ مغفرت کی دعا کرتے تھے اور دوسری صف کے لئے ایک دفعہ” (سنن النسائی: ۸۱۸ و احمد ۱۲۸/۴، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۵۸) ابن حبان (الاحسان ۳۹۶/۳) اور حاکم (۲۱۷/۱) نے صحیح کہا ہے )

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف کے ثواب کا پتہ چل جائے پھر ان کے لئے قرعہ اندازی کے بغیر کوئی چارہ نہ رہے تو وہ ضرور قرعہ اندازی کریں۔” (صحیح بخاری: ۶۱۵ و صحیح مسلم: ۴۳۷)

۱۰: عورتوں اور مردوں کی سب سے بہترین صف :

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “مردوں کی پہلی صف سب سے افضل ہے اور آخری صف بدتر ہے اور عورتوں کی آخری صف سب سے افضل ہے اور پہلی بدتر ہے ” (صحیح مسلم: ۴۴۰)

۱۱: پہلی صف میں نقص نہیں ہونا چاہئے آخری صف میں نقص رہ جائے مکمل نہ ہو تو خیر ہے :

سیدنا انسؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “پہلی صف کو مکمل کرو اگر آخری صف میں نقص رہ جائے تو کوئی حرج نہیں ” (صحیح ابن خزیمہ: ۱۵۴۶، ۱۵۴۷ و سنن ابی داود: ۶۷۱ وھو حدیث صحیح)

۱۲: صف بندی کے مراتب :

① پہلی صف میں امام کے قریب بالغ اور عقلمند لوگ کھڑے ہونے چاہئیں :

سیدنا ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”میرے قریب (صف میں) وہ لوگ رہیں جو بالغ اور عقل مند ہیں پھر جو ان کے قریب ہیں جو ان کے قریب ہیں” (صحیح مسلم: ۴۳۲)

② کم عمر لڑکے پچھلی صف میں کھڑے ہوں :

سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے، پہلے مردوں نے صف باندھی پھرلڑکوں نے اس کے بعد آپ (ﷺ) نے نماز پڑھائی پھر آپ (ﷺ) نے فرمایا : یہ میری امت کی نماز ہے ” (ابوداود: ۶۷۷ و سندہ حسن، و حسنہ ابن الملقن فی تحفۃ المحتاج : ۵۴۸)

③ عورت اگر باجماعت نماز پڑھے تو سب سے آخری صف میں کھڑی ہوگی :

سیدنا انسؓ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ “میں نے اور ایک بچے نے اکٹھے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے صف بنائی اور ایک بڑھیا اکیلی ہی صف میں ہمارے پیچھے کھڑی ہوگئی ” (صحیح بخاری: ۴۲۷، ۳۸۰ و صحیح مسلم: ۶۵۸)

فائدہ (۱): اگر ایک بچہ ہے تو مردوں کے ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے ۔

فائدہ (۲): اگر عورت صف میں اکیلی ہی کھڑی ہو تو اس کی نماز درست ہے ۔

۱۳: صف میں پیچھے اکیلے کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھنی چاہئے :

سیدنا وابصہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ (ﷺ) نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔
(ابوداود : ۶۸۲ و سندہ صحیح، اس حدیث کو امام ترمذیؒ (۲۳۰) نے “حسن” اور ابن حبان (۵۷۵/۵- ۵۷۶) نے صحیح کہا ہے )

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((لا صلوۃ للذي خلف الصف)) جو آدمی صف کے پیچھے (اکیلے ) نماز پڑھتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
(سنن ابن ماجہ:۱۰۰۳، وسندہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ : ۱۵۶۹، وابن حبان ، الموارد:۴۰۱،۴۰۲)

تنبیہ: اگلی صف سے کھینچنے والی تمام روایات ضعیف ہیں۔

(لیکن ایک امام اور ایک مقتدی پر قیاس کرتے ہوئے اگلی صف سے آدمی کھینچ لینا جائز ہے ۔ واللہ اعلم)

۱۴: جب صرف دو نمازی ہوں :

ایک امام اور ایک مقتدی مرد ہو تو مقتدی کوامام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے ۔ امام بائیں طرف ہوگا۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی خالہ (سیدہ میمونہؓ) کے ہاں رات بسر کی ۔ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے ساتھ بائیں جانب کھڑا ہوگیا آپ (ﷺ) نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا” (صحیح بخاری: ۶۹۹)

سیدنا جابرؓ بھی رسول اللہ ﷺ کی بائیں طرف کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہاتھ سے پکڑ کر گھمایا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ (صحیح مسلم: ۳۰۱۰)

امام الائمہ امام ابن خزیمہ نے کہا: “والمأ موم من الرجال إن کان واحدًا فسنتہ أن یقوم عن یمین إما مہ” اگر مقتدی مرد اکیلا ہو تو سنت یہ ہے کہ وہ امام (کے ساتھ اس ) کی دائیں طرف (نماز پڑھنے کے لئے ) کھڑا ہو ۔ (صحیح ابن خزیمہ ۳۱/۳ ح ۱۵۷۰)

فائدہ:ان دونوں احادیث سے یہ بھی ثابت ہواکہ اگر ایک آدمی نماز ادا کررہا ہو تو بعد میں آنے والا اگر اس کے ساتھ نماز میں مل جائے تو جماعت ہو سکتی ہے ۔

امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا کہ “إذا لم ینو الإمام أن یؤم ثم جاء قوم فأمھم” جب امام نے امامت کرانے کی نیت نہ کی ہو پھر کوئی قوم آجائے تو وہ ان کی امامت کرا دے ۔ (ح ۱۹۹)

۱۵: جب دو مقتدی ہوں تو امام کے پیچھے کھڑے ہوں :

سیدنا جابر بن عبداللہؓ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، پھر میں (جابرؓ) آیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا ، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا۔ پھر جبار بن صخرؓ آئے ، انہوں نے وضو کیا، پھر آکر رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے جابر بن عبداللہ اور جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کو پکڑ کر پیچھے دھکیل دیا حتیٰ کہ ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے ۔” (دیکھئے صحیح مسلم : ۳۰۱۰)

اس حدیث پر امام ابن خزیمہ (۱۵۳۵) نے یہ باب باندھا ہے “:

“باب قیام الإثنین خلف الإمام” دو آدمیوں کا امام کے پیچھے کھڑے ہونے کا بیان۔

فائدہ (۱): مذکورہ حدیث میں امام کا مقتدی کو پیچھے کرنے کا ذکر ہے ۔

فائدہ(۲): اگر امام اور ایک مقتدی دونوں اکٹھے نماز پڑھ رہے ہیں، کوئی تیسرا بھی جماعت میں شامل ہوگیا تو امام خوف اگلی صف میں بھی جا سکتا ہے ۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: ۱۵۳۶ وسندہ صحیح، سعیدبن ابی ہلال حدّث بہ قبل اختلاطہ)

فائدہ(۳): اگر امام کے علاوہ ایک مرد ہو اور ایک عورت تو مرد امام کی دائیں طرف کھڑا اور عورت پیچھے کھڑی ہو۔ (صحیح مسلم: ۶۶۰/۲۶۹ و ترقیم دارالسلام: ۱۵۰۲)

۱۶: عورت اگر عورتوں کی امامت کرائے تو وہ صف میں کھڑی ہوگی :

سیدہ عائشہؓ نے فرض نماز پڑھائی اور آپ عورتوں کے درمیان (صف میں) کھڑی ہوئیں۔ (سنن دارقطنی ۴۰۴/۱ ح ۱۴۲۹، و سندہ حسن، ماہنامہ الحدیث: ۱۵ ص ۲۲)

۱۷: دو ستونوں کے درمیان صف نہیں بنانی چاہئے :

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ “ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں (ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے ) بچتے تھے”
(ابوداود : ۶۷۳ و سندہ صحیح، ترمذی (۲۲۹) نے اس کو حسن کہا ہے ) (حاکم (۲۱۸/۱) اورذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)

۱۸: صفیں ایک دوسرے کے قریب ہونی چاہئیں :

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “…. صفوں کے درمیان تم قربت کرو۔ ” (ابوداود : ۶۶۷ و سندہ صحیح، النسائی: ۸۱۶، اس حدیث کو ابن خزیمہ (۱۵۴۹) ابن حبان (الموارد ۳۸۷) نے صحیح کہا ہے)

۱۹: امام کی ذمہ داریاں :

① امام اس وقت تک نماز پڑھانا نہ شروع کرے جب تمام صفیں سیدھی نہ ہوجائیں۔
سیدنا نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو برابر کرتے تھے جب ہم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے۔ جب صفیں برابر ہوجاتیں تو (پھر) آپ (ﷺ) تکبیر کہتے۔ (ابوداود : ۶۶۵ و سندہ صحیح)

② امام کو چاہئے کہ خود بھی صفوں کو سیدھا کرے اور خوب مبالغہ کے ساتھ کرے۔

③ امام کو صفوں میں پھرنا چاہئے اور مقتدیوں کے کندھوں اور سینوں پر ہاتھ رکھے اور ان سے کہے کہ سیدھے ہوجاؤ، آگے پیچھے نہ رہو۔

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب مسلمانوں کی اصلاح فرما دے :

آمین یا رب العالمین !


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


مردوں کی آخری صف کو بدتر کیوں کہا گیا اور عورت کی پہلی صف کو کیوں بدتر کہا گیا ؟؟؟

وضاحت فرما دیں

جزاک اللہ خیرا کثیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مردوں کی آخری صف کو بدتر کیوں کہا گیا اور عورت کی پہلی صف کو کیوں بدتر کہا گیا ؟؟؟
وضاحت فرما دیں
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حدیث شریف ہے کہ :
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير صفوف الرجال أولها، وشرها آخرها، وخير صفوف النساء آخرها، وشرها أولها»
(صحیح مسلم ،سنن ابی داود ، سنن الترمذی )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں کی صفوں میں سب سے بہتر پہلی صف ہے اور سب سے بری آخری صف ہے۔
اور خواتین کے لیے سب سے بری پہلی صف ہے (جب کہ مردوں کی صفیں ان کے قریب ہوں) اور اچھی صف پچھلی صف ہے۔ (جو کہ مردوں سے دور ہو)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوسین کی عبارات سے واضح ہے کہ :
یہ اس وقت ہے جب مسجد میں عورتیں اور مرد جماعت میں شریک ہوں ،
ایسی صورت میں عورتیں مردوں سے جتنی دور ہوں گی وہ دونوں کیلئے بہتر ہوگا ،
جماعت میں عورتیں چونکہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں ، اسلئے انکی پہلی صف مردوں کے قریب ہوتی ہے ،

امام نووی ؒ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں :
وأنما فضل أخر صُفُوف النِّسَاء الحاضرات مَعَ الرِّجَال لبعدهن عَن مُخَالطَة الرِّجَال ورؤيتهم وَتعلق الْقلب بهم عِنْد رُؤْيَتهمْ حركاتهم وَسَمَاع كَلَامهم وذم أَولهَا بعكس ذَلِك
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
إذا وضع حاجز بين الرجال والنساء فأي صفوف النساء خير؟
جب مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ موجود ہو تو عورتوں کی کون سی صف بہتر ہے ؟
سوال :

إذا كان هناك حائل ساتر بين الرجال والنساء في المسجد فهل ينطبق قول الرسول صلى الله عليه وسلم ((خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها)) أم يزول ذلك ويبقى خير صفوف النساء أولها أفيدونا أفادكم الله؟

ترجمہ :
جب مسجد میں مردوں اور عورتوں کی صف کے درمیان (مضبوط و مستحکم) پردہ حائل ہو تو کیا پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صفون پر منطبق ہو گا کہ "مردوں کی سب سے بہتر پہلی صف ہے اور۔۔۔" یا اس ارشاد کا حکم زائل ہو جائے گا؟ اور اس طرح کے پردہ کی وجہ سے عورتوں کی سب سے بہتر صف بھی پہلی صف ہو گی؟ رہنمائی فرمائیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :

يظهر أن السبب في كون خير صفوف النساء آخرها هو بعده عن الرجال فإن المرأة كلما كانت أبعد عنهم كان ذلك أصين لها وأحفظ لعرضها وأبعد لها عن الميل إلى الفاحشة لكن إذا كان مصلى النساء بعيداً عن الرجال ومفصولاً بحاجز من جدار أو سترة منيعة وإنما يعتمدن في متابعة الإمام على المكبر فإن الراجح فضل الصف الأول لتقدمه وقربه من القبلة ونحو ذلك
الشيخ ابن جبرين
***
بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں عورتوں کی آخری صف کو بہترین قرار دینے کا سبب مردوں سے دوری ہے عورت جس قدر مردوں سے دور ہو گی اسی قدر اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی اور اخلاقی خرابی کی طرف میلان سے اپنے آپ کو دور رکھنے والی ہو گی۔ لیکن جب عورتوں کی جائے نماز مردوں سے دور ہو اور دونوں کے درمیان دیوار یا مضبوط و مستحکم پردہ حائل ہو اور وہ لاؤڈ سپیکر کی آواز کے ذریعہ امام کی متابعت کرتی ہوں تو پھر راجح بات یہی ہے کہ سبقت اور قبلہ کے قرب کی وجہ سے عورتوں کی بھی پہلی صف افضل ہو گی۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج2
 

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
ماشاءاللہ بھائ جزاک اللہ خیرا کثیرا واحسن الجزاء فی دنیا ولآخرا
 
شمولیت
اپریل 10، 2018
پیغامات
62
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
43
۱۷: دو ستونوں کے درمیان صف نہیں بنانی چاہئے :

سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ “ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں (ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے ) بچتے تھے”
(ابوداود : ۶۷۳ و سندہ صحیح، ترمذی (۲۲۹) نے اس کو حسن کہا ہے ) (حاکم (۲۱۸/۱) اورذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
اگر مسجد میں دو ستون اس طرح ہیں کہ ان وہ مسجد کہ درمیان میں ہیں اور سائیڈوں پر جگہ ہے تو کیا دونوں کے درمیان صف بنا سکتا ہے جو کہ دوسری صفوں سے چھوٹی ہے ۔تو اس صف کا کیا حکم ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگر مسجد میں دو ستون اس طرح ہیں کہ ان وہ مسجد کہ درمیان میں ہیں اور سائیڈوں پر جگہ ہے تو کیا دونوں کے درمیان صف بنا سکتا ہے جو کہ دوسری صفوں سے چھوٹی ہے ۔تو اس صف کا کیا حکم ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
حكم الصف بين سواري المسجد
السؤال : في الصفوف التي تتواجد بينها الأعمدة في المسجد أثناء صلاة الجماعة ، هل يجوز بعد العمود أن أقف لوحدي ؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :

الحمد لله

ورد النهي عن الصف بين سواري المسجد (وهي الأعمدة) ؛ لأنها تقطع الصفوف .

فقد روى ابن ماجة (1002) عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ : (كُنَّا نُنْهَى أَنْ نَصُفَّ بَيْنَ السَّوَارِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُطْرَدُ عَنْهَا طَرْدًا) صححه الألباني في "صحيح ابن ماجة" .

وروى الترمذي (229) عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ مَحْمُودٍ قَالَ : صَلَّيْنَا خَلْفَ أَمِيرٍ مِنْ الْأُمَرَاءِ ، فَاضْطَرَّنَا النَّاسُ فَصَلَّيْنَا بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ ، فَلَمَّا صَلَّيْنَا قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : (كُنَّا نَتَّقِي هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) وصححه الألباني في "صحيح الترمذي" .

قال ابن مفلح رحمه الله :

" وَيُكْرَهُ لِلْمَأْمُومِ الْوُقُوفُ بَيْنَ السَّوَارِي , قَالَ أَحْمَدُ : لِأَنَّهَا تَقْطَعُ الصَّفّ " انتهى .

"الفروع" (2/39) .

إلا إذا كانت هناك حاجة للصف بين السواري ، لكثرة المصلين ، وضيق المسجد ، فلا كراهة حينئذ .

قال علماء اللجنة الدائمة للإفتاء :

"يكره الوقوف بين السواري إذا قطعن الصفوف ، إلا في حالة ضيق المسجد وكثرة المصلين" انتهى .

"فتاوى اللجنة الدائمة" (5/295) .

وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :

"الصف بين السواري جائز إذا ضاق المسجد ، حكاه بعض العلماء إجماعاً ، وأما عند السعة ففيه خلاف ، والصحيح : أنه منهي عنه ؛ لأنه يؤدي إلى انقطاع الصف ، لا سيما مع عرض السارية" انتهى .

فمتى ضاق المسجد بأهله ، وكثر عدد المصلين ، فلا مانع من الصف بين السواري .

وعليه : فإذا جئت إلى المسجد ، وقد وقف الناس في الصف ، ولم تجد مكاناً في الصف إلا بعد العمود فلا حرج في ذلك ، وليس هذا من الصلاة خلف الصف منفردا ، لأنك لم تقف خلف الصف، وإنما وقفت في الصف مع المصلين ولكن قُطع الصف بالعمود للحاجة إلى ذلك .

والله أعلم
الإسلام سؤال وجواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ترجمہ:
سوال : مسجد کے ستونوں کے درمیان صف بنانا جائز ہے؟
نماز با جماعت کی ایسی صفیں جن کے درمیان میں مسجد کے ستون آتے ہیں ان میں ستون کے بعد کیا میں اکیلا کھڑا ہو سکتا ہوں؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد للہ:

احادیث نبویہ میں مسجد کے ستونوں کے درمیان صف بندی سے ممانعت موجود ہے؛ کیونکہ درمیان میں ستون آنے کی وجہ سے صف میں انقطاع آ جاتا ہے۔

چنانچہ ابن ماجہ : (1002) میں معاویہ بن قرۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں ستونوں کے درمیان صف بندی کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا جاتا تھا)
اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سنن ترمذی: (229) میں عبد الحمید بن محمود کہتے ہیں کہ : ہم نے کسی گورنر کے پیچھے نماز ادا کی اور لوگوں نے ہمیں دو ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے پر مجبور کر دیا ، جس وقت ہم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہمیں کہا: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسی جگہوں میں نماز ادا کرنے سے بچا کرتے تھے"
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

ابن مفلح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مقتدی کیلیے ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا مکروہ ہے، امام احمد اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اس طرح صف میں انقطاع آ جاتا ہے" انتہی
الفروع" (2/39)

تاہم اگر ستونوں کے درمیان نماز ادا کرنے کی ضرورت محسوس ہو کہ نمازی بہت زیادہ ہو جائیں اور مسجد میں جگہ کی تنگی کی شکایت ہو تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر ستونوں کی وجہ سے صفوں میں انقطاع واقع ہو تو ان کے درمیان میں صف بنانا مکروہ ہے، البتہ مسجد کی تنگی اور نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں استثنا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (5/295)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اگر مسجد چھوٹی پڑ جائے تو ایسی صورت میں ستونوں کے درمیان صف بندی کرنا جائز ہے، بعض علمائے کرام نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، البتہ اگر مسجد میں گنجائش ہو تو پھر ستونوں کے درمیان صف بندی کے متعلق اختلاف ہے، اور صحیح بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں ستونوں کے درمیان صف بندی کرنا ممنوع ہے؛ کیونکہ اس سے صف میں انقطاع آتا ہے، اور اگر ستون کی چوڑائی زیادہ ہو تو صف میں زیادہ انقطاع پیدا ہو جاتا ہے" انتہی

چنانچہ اگر نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی بنا پر مسجد تنگی کی جگہ شکایت ہوتو ایسی صورت میں ستونوں کے درمیان صف بندی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لہذا: جب آپ مسجد آئیں اور لوگ صفوں میں کھڑے ہو چکے ہوں اور آپ کو ستون کے بعد ہی صف میں کھڑے ہونے کی جگہ ملے تو ایسی صورت میں وہاں کھڑے ہو کر نماز ادا کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز یہ صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کرنے کے زمرے میں بھی نہیں آئے گا؛ کیونکہ آپ صف کے پیچھے اکیلے نہیں کھڑے ہوئے بلکہ آپ صف میں ہی دیگر نمازیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن اس صف میں ایک ستون کی وجہ سے انقطاع آ گیا ہے، چنانچہ ضرورت کی بنا پر ستون کے بعد کھڑے ہونا جائز ہے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب
اور شرعی فتاویٰ کیلئےسعودی عرب کے جید علماء کی مستقل کمیٹی کا فتوے ہے کہ :
________________________
تكره الصلاة بين السواري إذا قطعن الصفوف إلا لحاجة، كما إذا ضاق المسجد بالمصلين واحتاجوا إلى الصلاة بين السواري فإنها تزول الكراهة.
وكذلك يكره للإمام أن يصلي داخل الطاق (أي: المحراب) ؛ لأن غالب المأمومين لا يرونه فلا يتم الاقتداء به، لكن هذا لا يمنع اتخاذ المحراب أو ترميم المسجد.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز

ترجمہ :
فتویٰ: جوستون صفوں کوکاٹ دیتے ہیں ان کے مابین نماز پڑھنا مکروہ ہے، الا یہ کہ مجبوری ہو، مثلا نمازیوں کے لئے مسجد میں جگہ کم پڑجائے، تو ایسی حالت میں کراہت ختم ہوجائیگی۔
اس طرح امام کا طاق ( يعنى محراب ) کے اندرنماز پڑھنا مکروہ ہے، کیونکہ اکثرمقتدین امام کودیکھـ نہیں پائیں گے، اوراقتداء کا تحقق نہيں ہوگا، لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ محراب بنانا یا مسجد کی اصلاح وترمیم کرانا ممنوع ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر صدر
بکر ابو زید صالح فوزان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز​
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (تابعی) نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جو مسجد میں داخل ہو اور صف پوری ہو چکی ہو:
اگر وہ صف میں داخل ہو سکتا ہے تو داخل ہو جائے ورنہ پھر کسی آدمی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھڑا کرے اور اکیلے نماز نہ پڑھے۔
(صحیح، مصنف ابن ابی شیبہ: 2/ 222 ح 6145
 
Top