• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس حدیث کی سند میں ایک راوی قبیصہ متکلم فیہ ہیں، ان کے بارے میں امام مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مجہول ہیں، سماک کے سوا کسی نے ان سے روایت نہیں کی ، امام نسائی فرماتے ہیں: مجہول ہیں، اورسماک کے تفرد کو امام مسلم نے بھی الوحدان میں ذکر کیا ہے، اور امام عجلی نے فرمایا: ثقہ ہیں، اور ابن حبان نے انہیں اپنی کتاب ’الثقات‘ میں ذکر کیا ہے)(تہذیب الکمال للمزی،رقم:۸۴۶، تہذیب التہذیب للعسقلانی، رقم:۶۳۵) حافظ ابن حجر عسقلانی ان کے بارے خلاصہ کلام کے طور پرفرماتے ہیں: مقبول ہیں (التقریب، رقم:۵۵۱۶) اور یہ قبولیت مطلقا نہیں بلکہ اس صورت میں ہے جبکہ راوی کے حدیث کی کوئی متابع موجود ہو، ورنہ مقبول نہیں بلکہ لین الحدیث قرار دئے جائیں گے (التقریب ص ۱۴) اور موجودہ راویت میں قبیصہ روای کی (علی صدرہ) ذکر کرنے میں کوئی متابع موجود نہیں، لہذا ان کے لین الحدیث ہونے کے ساتھ ان کی روایت کردہ یہ حدیث ضعیف ہوگی۔ و اللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 120 - 142 انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر - ابو الفوزان کفایت اللہ سنابلی - اسلامک انفارمیشن سینٹر، ممبئی
محترم ابن داؤد بھائی
السلام علیکم
جہاں تک میرے علم میں ہے اہل حدیث منہج صرف صحیح اور مرفوع حدیث سے حجت کرتے ہیں۔باقی اس حدیث پر جو بذریعہ سرچ جرح ملی ہے اس کا اقتباس ذیل میں درج کر رہا ہوں۔
(۱) حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ:
ابن خزیمہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: نا موسی، نا مؤمل، نا سفیان، عن عاصم بن کلیب، عن أبیہ عن وائل بن حجررضی اللّٰہ عنہ قال:(صلیت مع رسول اللّٰہ ﷺ وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ)
ترجمہ: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں: ((میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا، آپ ﷺنے اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا))
سند پر کلام:
اس حدیث کی سند میں ایک راوی مؤمل بن اسماعیل ہیں، میرے علم کے اعتبار سے یہی وہ ایک روای ہیں جو سفیان ثوری سے لفظ (علی صدرہ) کے ذکر کرنے میں منفرد ہیں، باقی دوسرے راویوں نے سفیان ثوری سے روایت کرنے میں اس لفظ یعنی (علی صدرہ) کو ذکر نہیں کیا ہے ، قارئین ان حضرات کے اسما ملاحظہ فرمائیں:
(۱)عبد اللہ بن الولید (مسند احمد، رقم:۱۸۸۷۱) (۲)عبد الرزاق صنعانی (مصنف عبد الرزاق، رقم: ۲۵۲۲) اور عبد الرزاق سے امام احمد بن حنبل نے روایت کی ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۸) (۳)ابو نعیم فضل بن دکین (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۷) (۴)محمد بن یزید مخزومی (صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۶۹۱) (۵)محمد بن یوسف (سنن النسائی، رقم:۱۲۶۴) (۶)وکیع بن الجراح (مسند احمد، رقم:۱۸۸۴۵) (۷)یحی بن آدم (مسند احمد، رقم: ۱۸۸۶۷) (۸)محمد بن عبد اللہ بن یزید مقریء (سنن النسائی، رقم: ۱۱۵۹)
یہ آٹھ حضرات جنہوں نے اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کی ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی اس لفظ یعنی (علی صدرہ) کو ذکر نہیں کیا جس کو روایت کرنے میں مؤمل بن اسماعیل منفرد ہیں۔
نیز اس حدیث کی روایت کرنے میں ایک جماعت نے سفیان ثوری کی متابعت بھی کی ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کے اسما یہ ہیں:
(۱)سفیان بن عیینہ (مسند الحمیدی، رقم: ۹۰۹، سنن النسائی، رقم: ۱۲۶۳) (۲)محمد بن الفضیل (صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۷۸، ۷۱۳) (۳)عبد الواحد بن زیاد (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۰) (۴)زہیر بن معاویہ (مسند احمد، رقم: ۱۸۸۷۶) (۵)شعبہ بن الحجاج (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۵ ، قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری، رقم:۲۶، صحیح ابن خزیمہ، رقم:۶۹۷، ۶۹۸) (۶)عبد العزیز بن مسلم (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۵) (۷)زائدہ بن قدامہ (سنن الدارمی، رقم: ۱۳۹۷، مسند احمد، رقم: ۱۸۸۷۰، قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری،رقم:۳۰، سنن ابی داؤد، رقم: ۷۲۷،صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۸۰، ۷۱۴، المنتقی لابن الجارود،رقم: ۲۰۸) (۸)عبد اللہ بن ادریس( قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری،رقم:۳۱، سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۱۰، ۹۱۲، سنن الترمذی، رقم: ۲۹۲، سنن النسائی، رقم:۱۱۰۲، صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۷۷، ۶۴۱، ۶۹۰، ۷۱۳) (۹) بشر بن المفضل (سنن ابی داؤد، رقم: ۷۲۶، ۹۵۷، سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۱۰، ۸۶۷، سنن النسائی، رقم: ۱۲۶۵) (۱۰)سلام بن سلیم (مسند الطیالسی، رقم: ۱۰۲۰) (۱۱)خالد بن عبد اللہ (السنن الکبری للبیھقی، رقم: ۲۷۸۴)
ان سب نے اس حدیث کو ’’عن عاصم بن کلیب، عن کلیب، عن وائل‘‘ روایت کیا مگر کسی نے بھی اس زیادتی یعنی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیاہے۔
نیز اس حدیث کو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے کلیب کے علاوہ (۱)علقمہ بن وائل (۲) و مولی لھم نے روایت کیا ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۶ ، صحیح مسلم، رقم:۴۰۱، مستخرج ابی عوانہ، رقم:۱۵۹۶، صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۹۰۵، السنن الکبری للبیھقی، رقم:۲۵۱۵)اور (۳) عبد الجبار بن وائل نے بھی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۷۳، سنن الدارمی، رقم:۱۲۷۷)اور ان لوگوں نے بھی لفظ (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا۔
اس زیادتی یعنی (علی صدرہ)کا سفیان ثوری ، عاصم بن کلیب، اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کی روایت میں وارد نہ ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسماعیل بن مؤمل کو اس زیادتی کی روایت کرنے میں وہم ہوا ہے، لہذا یہ زیادتی صحیح اور قابل قبول نہیں۔
مناسبت کے پیش نظر ضروری سمجھتا ہوں کہ راوی مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں محدثین و ناقدین کے اقوال ذکر کردئے جائیں تاکہ ان کی زیادتی والی روایت کا حکم صحیح طور پر بیان کیا جاسکے، قارئین کرام آپ ان کے بارے میں محدثین و ناقدین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مؤل بن اسماعیل صدوق، سنت کے معاملہ میں شدید کثرت سے سے خطا کرنے والے ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی کتابیں دفن کردیں، اور حافظہ پر اعتماد کرکے حدیث بیان کئے جس کی وجہ سے آپ سے غلطی واقع ہوئی) (الکاشف، رقم: ۵۷۴۷) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (ابن معین سے مروی ہے کہ وہ ثقہ ہیں، امام بخاری فرماتے ہیں: (منکر الحدیث ہیں) اور امام بخاری جس کے بارے میں ’منکر الحدیث‘ فرمادیں ان سے روایت کرنا حلال نہیں، یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں: (سلیمان بن حرب ان کی تعریف کرتے تھے اور ہمارے شیوخ ان سے قریب رہنے کی وصیت کرتے تھے، مگر ان کی حدیث ان کے اصحاب کے مشابہ نہیں، اہل علم پر واجب ہے کہ ان کی حدیث سے احتراز کریں کیونکہ وہ اپنے ثقات شیوخ سے مناکیر روایت کرتے ہیں، اگر وہ یہ مناکیر ضعفا سے روایت کرتے تو اسے ان کے عذر کے منزل میں رکھ دیا جاتا) اور ابن سعد فرماتے ہیں: (ثقۃ، کثیر الغلط) یعنی ثقہ ہونے کے ساتھ غلطی بہت کرتے ہیں، اور ابن قانع فرماتے ہیں: (صالح یخطی) یعنی صالح ہیں مگر خطا کرتے ہیں، اور امام دارقطنی فرماتے ہیں:( ثقۃ، کثیر الخطا) یعنی ثقہ ہونے کے ساتھ خطا بہت کرتے ہیں، اور اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: (ہم سے ثقہ مؤمل بن اسماعیل نے حدیث بیان کی) اور محمد بن نصر مروزی نے فرمایا: (مؤمل بن اسماعلی اگر کسی حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہوں تو توقف ضروری ہے، کیونکہ ان کا حافظہ خراب ہے، اور غلطی بھی بہت کرتے ہیں)(تھذیب التھذیب، رقم: ۶۸۲) اور اما ذہبی رلکھتے ہیں:( ابو زرعہ فرماتے ہیں: فی حدیثہ خطأ کثیر) (میزان الاعتدال، رقم: ۸۹۴۹) یعنی ان کی حدیث میں کثرت سے خطا پائی جاتی ہے، ابن حجر عسقلانی ان کے بارے میں خلاصہ کلام کے طور پر فرماتے ہیں: (صدوق سیء الحفظ)(تقریب التھذیب، رقم: ۷۰۲۹) یعنی فی نفسہ سچے ہیں مگر ان کا حافظہ خراب ہے۔
حکم:
ان کے بارے میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے خلاصہ کلام کے طور پر فرمایا: صدوق سیء الحفظ، اور ایسے وصف سے متصف راوی کی حدیث ضعیف ہوتی ہے، اور جب ضعیف راوی ثقہ یا ثقات کی مخالفت کرے تو وہ روایت منکر کہلاتی ہے، اور اس کے بالمقابل جو حدیث ہوتی ہے اسے معروف کہا جاتا ہے، لہذا یہاں پر مؤمل بن اسماعیل کی روایت جس میں (علی صدرہ) کا ذکر ہے ضعیف و منکر ہوگی، اور جنہوں نے (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے وہ معروف ہوگی، اور محدثین کے نزدیک عمل معروف حدیث پر ہوتا ہے منکر پر نہیں، اور اگر ہم متشددین اور غیر مقلدین کا طریقہ اختیار کریں اور صرف امام بخاری کے قول ’منکر الحدیث‘ کولے لیںتو ہمیں یہ کہنے میں جھجھک محسوس نہیں ہوگی کہ مؤمل بن اسماعلی سے حدیث ہی روایت کرنا جائز نہیں، چہ جائے کہ ان کی حدیث پر عمل کیا جائے! کیونکہ جن کے بارے میں امام بخاری ’منکر الحدیث‘ فرمادیں ان سے روایت کرنا جائز ہی نہیں! نیز اس حدیث کی سند میں سفیان ثوری ہیں جن کا مذہب و عمل خود اس روایت کے خلاف ہے، اور جب راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو تو راوی کے عمل کو لیا جاتا ہے، اور یہی اکثر حفاظ کرام، محققین و ناقدین امام یحی بن معین، یحی بن سعید اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کا ہے(الاشفاق علی احکام الطلاق للکوثری،ص۴۴)امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اس قائدہ کے پیش نظر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اکثر حفاظ نے بہت ساری احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے) (شرح علل الترمذی، ص ۴۰۹) ان تمام احوال کے باجود صاحب عون المعبود اور صاحب تحفۃ الاحوذی کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا عجیب و غریب بلکہ حد درجہ تعجب خیز ہے!! بہر حال یہ حدیث ضعیف اور قابل عمل نہیں، و اللہ اعلم۔
اسی کے پش نظر میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا:
بالفرض کہ ایک راوی اگر مختلف فیہ ہو بھی تو احناف کا یہ ایک اصول پیش خدمت ہے:
إذا كان الحديثُ مختلَفاً فيه: صحَّحه أَو حسَّنه بعضُهم، وضعَّفه آخرون، فهو حسن، وكذا كان الراوي مختلَفاً فيه: وثَّقه بعضُهم، وضعَّفه بعضهم، فهو: حسَنُ الحديث.
جب ایک حدیث مختلف فیہ ہو، بعض نے اسے صحیح یا حسن اور بعض نے اسے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن ہوگی۔ اور اسی طرح جب راوی مختلف فیہ، بعض نے اسے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن الحدیث ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 72 مقدمةاعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي


اور مومل یعنی مومل بن اسماعیل کا ذکر کر کے ان کی سند کو حسن قرار دیا ہے!

750 – عن إبراهيم أن الربيع بن حثيم لقی علقمة فقال: ''إنه بدا لي أن أزيد في التشهد'' ومغفرته '' فقال له علقمة: ننتهی إلی ما علمناه'' اھ. رواه الطحاوي (1:151) بإسناده رجاله ثقات إلا مؤملا فقد تكلم فيه، ووثقه ابن معين وغيره، كذا في التهذيب (10:380)، فالسند حسن.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 117 – 118 جلد 03 اعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

طحاوی رحمہ اللہ نے روایت یوں درج کی ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا مُؤَمَّلٌ، قَالَ: ثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الرَّبِيعَ بْنَ خَيْثَمٍ، لَقِيَ عَلْقَمَةَ , فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ بَدَا لِي أَنْ أَزِيدَ فِي التَّشَهُّدِ وَمَغْفِرَتُهُ , فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ: «نَنْتَهِي إِلَى مَا عُلِّمْنَاهُ».
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 266 جلد 01 شرح معاني الآثار – أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة بن عبد الملك بن سلمة الأزدي الحجري المصري المعروف بالطحاوي (المتوفى: 321هـ) – عالم الكتب، بيروت
@مظاہر امیر بھائی نے کچھ تفصیل بیان کی ہے، مزید اس رسالہ کا مطالعہ فرمائیں:

جرح و تعدیل علم الحدیث کا کا علم ہے!
اب ہمارے مقلدین حنفیہ چونکہ اس علم میں یتیم و مسکین ہوتے ہیں، انہیں اس کی سمجھ نہیں کہ جرح منقول ہونا ایک اگ بات ہے، جرح ثابت ہونا الگ بات ہے۔
اور جرح ثابت ہونے کے بعد بھی اس کا مقبول ہونا الگ بات ہے۔

نوٹ:
اسی لئے رضا میاں بھائی اور ابن داود بھائی کو مدعو کیا ہے تاکہ اس پر مفصل بات ہوجائے اور شکوک رفع ہوجائیں ۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مذکورہ بالا مسند احمد کی حدیث کو علمائے دیوبند نے بھی حسن صحیح ہی کہا ہے ۔ تفصیل دونوں شیوخ میں سے کوئی پیش کردیگا ۔
شیخ کا لفظ مجھ پر نہ علمی اعتبار سےصادق آتا ہے، نہ نسلی اعتبار سے، میں تو ایک ادنی طالب علم ہوں!
رہی بات عمر کے اعتبار سے، تو ابھی تو میں جوان ہوں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس حدیث کی سند میں ایک راوی قبیصہ متکلم فیہ ہیں، ان کے بارے میں امام مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مجہول ہیں، سماک کے سوا کسی نے ان سے روایت نہیں کی ، امام نسائی فرماتے ہیں: مجہول ہیں،
اب یہ دیکھیں! اس پر بندہ کیا کہے!
ایک طرف کہتے ہیں متکلم فیہ ہے، یعنی کہ ان پر جرح بھی موجود ہے!
اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ مجہول ہیں!
اب کوئی پوچھے کہ مجہول ہیں تو یہ متکلم فیہ کیونکر ہوئے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
اور ثقہ کی زیادتی مقول ہوگی یا نہیں، اس باب میں مختلف قیود و شروط کے ساتھ مختلف مذاہب ہیں، میں یہاں دو مشہور مذہب ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
پہلا مذہب:
(معظم فقہا و محدثین کی رائے یہ ہے کہ ثقہ کی زیادی مطلقا مقبول ہے) مگر ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مطلق قول کو مقید کیا، اور فرمایا: (ثقہ کی زیادتی اس صورت میں مقبول ہے جبکہ اس کی اس زیادتی کی وجہ سے مد مقابل کی روایت کا انکار لازم نہ آئے)(فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص۱۷۵، ۱۷۷)
اس مذہب کے اعتبار سے اس روایت میں مذکور (علی صدرہ) کی زیادتی مقبول ہونی چاہئے، کیونکہ زیادتی کی روایت کرنے والے یحی بن سعید ثقہ ہیں، نیز ان کی اس روایت سے مدمقابل راویوں کی روایت کا رد بھی لازم نہیں آتا، اس لئے یہاں پر یہ زادتی مقبول ہونی چاہئے۔ واللہ اعلم۔
دوسرا مذہب:
اور بہت سے دیگر فقہا و محدثین مثلا ابن خزیمہ اور ابن عبد البر وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ زیادتی کا ذکر کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ ثقاہت میں، نہ ذکرکرنے والے راوی کے مساوی، یا اس سے اوثق، یا ذکر کرنے والے متعددثقات ہوں، اور نہ ذکرکرنے والا ایک ہی ثقہ ہو، تو ایسی صورت میں زیادتی مقبول ہوگی، اوراگر اس کا برعکس یعنی زیادتی کا ذکر کرنے والا، نہ ذکر کرنے والے سے ثقاہت میں مساوی نہیں بلکہ کم ہو، یا ذکر کرنے والے ثقات کی تعداد کم ہو، تو ایسی صورت میں یہ زادتی مقبول نہیں ہوگی (فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص ۱۷۶)
اس مذہب کے اعتبار سے لازم آئے گا کہ یہاں پر زیادتی والی روایت مقبول نہ ہو، کیونکہ یحی بن سعید اگرچہ سفیان ثوری سے روایت کرنے والوں میں اثبت ہیں، مگر وہ زیادتی کی روایت کرنے میں تنہا ہیں، اور روایت نہ کرنے والے وکیع بن الجراح اور عبد الرحمن بن مہدی سفیان ثوری کے شاگردوں میں اثبت ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ بھی ہیں،امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(یحی بن معین رحمہ اللہ سے اصحاب ثوری کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان میں کون اثبت ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ پانچ ہیں: یحی بن سعید، وکیع بن الجراح، عبد اللہ بن المبارک، عبد الرحمن بن مہدی، اور ابو نعیم فضل بن دکین) (شرح علل الترمذی لابن رجب، ص۲۹۸)
اس مذہب کے اعتبار سے یہ زیادتی والی روایت قابل احتجاج نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔
یہ دو مختلف و متضاد مذاہب نہیں ہیں، بلکہ زیادتی ثقات کے معاملہ میں دو امور ہیں!
تفصیل ان شاء اللہ جلد رقم کرتا ہوں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلا مذہب:
(معظم فقہا و محدثین کی رائے یہ ہے کہ ثقہ کی زیادی مطلقا مقبول ہے) مگر ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مطلق قول کو مقید کیا، اور فرمایا: (ثقہ کی زیادتی اس صورت میں مقبول ہے جبکہ اس کی اس زیادتی کی وجہ سے مد مقابل کی روایت کا انکار لازم نہ آئے)(فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص۱۷۵، ۱۷۷)
اس مذہب کے اعتبار سے اس روایت میں مذکور (علی صدرہ) کی زیادتی مقبول ہونی چاہئے، کیونکہ زیادتی کی روایت کرنے والے یحی بن سعید ثقہ ہیں، نیز ان کی اس روایت سے مدمقابل راویوں کی روایت کا رد بھی لازم نہیں آتا، اس لئے یہاں پر یہ زادتی مقبول ہونی چاہئے۔ واللہ اعلم۔
امام ابن حجر کی بات بالکل درست ہے، کہ اگر کسی روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے، یعنی کہ اس میں کوئی کمی یا زیادتی ہے، کہ کسی نے روایت میں زیادہ کلمات روایت کئے ہیں، تو ایسی صورت میں اگر اگر زیادہ کلمات روایت کرنے والا راوی ثقہ ہے اور اسی زیادتی ہے دوسرے ثقہ روای یا رواة کی راویت کی نفی نہیں ہوتی تو یہ زیادتی مقبول ہو گی!
ایسی صورت میں زیادتی روایت کرنے والے کا ثقہ ہونا ضروری ہے، اور اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ جس راوی یا رواة نے اس زیادتی کے بغیر روایت کیا ہے وہ اس سے اوثق ہیں یا نہیں!
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ثقہ راوی ایسی زیادتی روایت کرے کہ جس سے دوسرے رواة کی روایت کی نفی لازم آتی ہو، تو ایسی زیادتی صرف اسی صورت مقبول ہے کہ جب زیادتی روایت کرنے والی زیادتی روایت نہ کرنے والے سے اوثق ہو یعنی ثقاہت میں بڑھا ہوا ہو!
اور جب معاملہ یوں ہو کہ زیادتی روایت کرنے والا راوی ایسی زیادتی روایت کرے جو اپنے سے اوثق کی نفی کرتی ہو، تو ایسی صورت میں زیادتی مقبول نہیں ہو گی، اور زیادتی والی روایت، یا وہ زیادتی شاذ کہلائے گی!
اور اگر زیادتی روایت کرنے والا راوی اوثق ہو اور اس کی یہ زیادتی ایسی روایت کی نفی کرتی ہو، جو اس سے کمتر درجہ کے راوی کی راویت ، کہ جس میں زیادتی روایت نہ کی گئی ہو، تو اوثق کر زیادتی مقبول ہو گی، اور اوثق کی روایت صحیح و محفوظ ٹھہرے کی، اور وہ روایت جس میں زیادتی روایت نہیں کی گئی اورمقبول زیادتی سے جس روایت کی نفی لازم آئے وہ شاذ ٹھہرے گی!
اب حجر کا کلام یوں ہے:

وَزِيَادَةُ رَاوِيهِمَا مَقْبُولَةٌ مَا لَمْ تَقَعْ مُنَافِيَةً لِـمَنْ هُوَ أَوْثَقُ. فَإِنْ خُولِفَ بِأَرْجَحَ فَالرَّاجِحُ الْمَحْفُوظُ، وَمُقَابِلُهُ الشَّاذُّ، وَمَعَ الضَّعْفِ فَالرَّاجِحُ الْمَعْرُوفُ، وَمُقَابِلُهُ الْمُنْكَرُ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار ابن حزم

اور حدیثِ حسن وصحیح کے رُوات کی زیادتی مقبول، ہے جب تک منافی نہ ہو، زیادتی اُس راوی کے (درمیان کے) جو (اُس سے) اوثق (ثقاہت و اعتبارمیں بڑھا ہوا) ہے۔ پھر اگر مخالفت کیاگیا وہ اَرجح (برتر) کے ذریعہ، تو راجح ''محفوظ'' ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''شاذ ہے، اور ضعف کے ساتھ راجح ''معروف ہے اور اس کی بالمقابل (روایت) ''منکر'' ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – قدیمی کتب خانہ، کراچی

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19 تحفة الدُّرر شرح نخبة الفكر – سعید احمد پالنپوری – مکتبہ عمر فاروق، کراچی
دوسرا مذہب:
اور بہت سے دیگر فقہا و محدثین مثلا ابن خزیمہ اور ابن عبد البر وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ زیادتی کا ذکر کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ ثقاہت میں، نہ ذکرکرنے والے راوی کے مساوی، یا اس سے اوثق، یا ذکر کرنے والے متعددثقات ہوں، اور نہ ذکرکرنے والا ایک ہی ثقہ ہو، تو ایسی صورت میں زیادتی مقبول ہوگی، اوراگر اس کا برعکس یعنی زیادتی کا ذکر کرنے والا، نہ ذکر کرنے والے سے ثقاہت میں مساوی نہیں بلکہ کم ہو، یا ذکر کرنے والے ثقات کی تعداد کم ہو، تو ایسی صورت میں یہ زادتی مقبول نہیں ہوگی (فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص ۱۷۶)
یہ کوئی دوسرا مذہب نہیں، بلکہ امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بیان کیا ہے، بات صرف اتنی ہے کہ یہاں یہ صرف ایسی صورت میں زیادتی کے مقبول یا مردود ہونے کی بات ہے، کہ جس زیادتی سے دیگر رواة کی روایت کی نفی لازم آتی ہے!
اگر زیادتی والی روایت مقبول ہوگی تو اس کے منافی روایت شاذ کہلائے گی، اور اگر زیادتی والی روایت مقبول نہ ہوگی، تو زیادتی والی روایت شاذ کہلائے گی!
لیکن جہاں زیادتی والی روایت اور وہ روایت جس میں زیادتی روایت نہ کہ گئی ہو، دونوں میں تضاد نہ ہو، تو دونوں مقبول ہیں!
بصورت دیگر وہ تمام روایات جو زیادہ ثقہ رواة نے مختصر روایت کیا ہے، اس کی مفصل روایات شاذ و مردود قرار پائیں گی! اور یہ بات تو ظاہر ہے، کہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں! بلکہ ایک روایت اگر بخاری و مسلم میں یا کسی جگہ اختصار کے ساتھ موجود ہے ، تو اسی کی مفصل روایات کو دیگر کتب اور دیگر رواة کی سند سے بیان کیا جاتا ہے، اور قبول بھی کیا جاتا ہے، اور سب اسے قبول کرتے ہیں، اور ایسی صورت میں مختصر روایت کو صحیح و محفوظ ا ور مفصل روایت کو ضعیف وشاذ نہیں کہتے!
@nasim بھائی! ان شاء اللہ آپ کو ہمارے مقلدین بھائیوں کی علم الحدیث میں کجی کا اندازہ ہو گیا ہوگا!
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
یہ حدیث کم از کم حسن ہے جیسا کہ شیخ کفایت اللہ نے وضاحت کی ہے، لیکن اگر کوئی اسے اپنی تحقیق کے مطابق ضعیف کہے تو مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ یہ کافی پیچیدہ مسئلہ ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
شیخ کا لفظ مجھ پر نہ علمی اعتبار سےصادق آتا ہے، نہ نسلی اعتبار سے، میں تو ایک ادنی طالب علم ہوں!
رہی بات عمر کے اعتبار سے، تو ابھی تو میں جوان ہوں!
ابتسامہ۔ Same here
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
حدیث : ((عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ))سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) حکم دیاجاتاتھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ (بخاری: ۱۰۲/۱ ح ۷۴۰، و موطأ امام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷ باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ، وروایۃ ابن القاسم بتحقیقی: ۴۰۹)
علامہ نووی رحمۃ اللہ نے اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ فوق السرۃ سے مراد سینہ پر نہیں بلکہ سینہ سے نیچے۔ صحیح مسلم میں انہوں نے باب باندھا ہے؛
صحيح مسلم (1 / 301):
بَابُ وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ، وَوَضْعِهِمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
لہٰذا آپ ہی کی پیش کردہ صحیح حدیث سے ثابت ہؤا کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کا محور ناف ہے۔
ناف ایک مختصر سی جگہ ہے اور یہ کپڑے کے نیچے چھپی ہوتی ہے لہٰذا اس کا تعین کہ ہاتھ ناف کے اوپر ہیں یا نیچے ایک مشکل کام ہے۔
ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث فعلی یعنی صحابہ کرام کا مشاہدہ ہیں۔ اس میں ناف سے اوپر نیچے کی غلطی کچھ بعید نہیں۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
سعید بن جبیر (تابعی) فرماتےہیں کہ نماز میں “فوق السرۃ” یعنی ناف سے اوپر (سینے پر ) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق / الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ و سندہ صحیح )
علامہ نووی رحمۃ اللہ نے اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ فوق السرۃ سے مراد سینہ پر نہیں بلکہ سینہ سے نیچے۔ صحیح مسلم میں انہوں نے باب باندھا ہے؛
صحيح مسلم (1 / 301):
بَابُ وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ، وَوَضْعِهِمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
لہٰذا آپ ہی کی پیش کردہ صحیح حدیث سے ثابت ہؤا کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کا محور ناف ہے۔
ناف ایک مختصر سی جگہ ہے اور یہ کپڑے کے نیچے چھپی ہوتی ہے لہٰذا اس کا تعین کہ ہاتھ ناف کے اوپر ہیں یا نیچے ایک مشکل کام ہے۔
ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث فعلی یعنی صحابہ کرام کا مشاہدہ ہیں۔ اس میں ناف سے اوپر نیچے کی غلطی کچھ بعید نہیں۔
اس سے پہلی پوسٹ میں اقتباس غلط لیا گیا لہٰذا اسے ڈلیٹ کر دیا جائے اور اس پوسٹ کو باقی رکھا جائے۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
فوق السرۃ پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اور جب آپ نے اس کو دلیل میں لیا ہے ، تو پھر آج سے ہی اس پر عمل شروع کریں ۔ باقی اللہ آپ کی مدد کرے گا ۔ ان شاء اللہ ۔
ویسے اطلاعاً عرض کروں کہ اس تھریڈ میں جب امام نووی رحمہ اللہ کے مسلم کے باب کا ذکر کیا گیا تو جواب دیا گیا کہ :
مظاہر امیر نے کہا ہے:
امام نووی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے
بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ
(اشماریہ شاہ بھائئ نے کہا):
امام نووی رح شافعی ہیں. انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق باب باندھا ہے.
تو یہاں امام نووی نے شافعی ہوتے ہوئے اپنے مسلک کے خلاف کیسے باب باندھ دیا ؟ فتدبر!!!


 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
نماز مین ہاتھ باندھنے سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں ان میں صحابہ کرام نے اپنا مشاہدہ ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف احادیث میں مختلف کیفیات کا ذکر معلوم ہوتا ہے مگر تھوڑ سی توجہ دی جائے تو سب کا مذکورہ ہاتھ باندھنے کا طریقہ ایک ہی جیسا ہے۔
اگر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ان دو میں بہت معمولی سا فرق ہے۔ ایک یہ کہ دائیں ہاتھ کی چاروں انگلیاں ایک طرف ہوں اور انگوٹھا دوسری طرف اور الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑلیں۔ دوسرا طریقہ یہ کہ دائیں ہاتھ کی چھنگلیا اور انگوٹھے سے بائیں کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں اور بقیہ انگلیں بائیں کلائی پر بچھا دیں۔
ان مذکورہ دونوں طریقوں میں سے جس کے مطابق بھی ہاتھ باندھیں گے تو کسی بھی حدیث کی مخافت نہیں ہوگی۔ لہٰذا وہی عمل مسنون کہلانے کا زیادہ مستحق ہے جو کسی بھی حدیث کا مخالف نہ ہو۔
یہاں تک تو بات ہوئی ہاتھ باندھنے کے طریقہ کار کی۔ اب بات کرتے ہیں ہاتھ باندھنے کے مقام کی۔
اس سلسلہ کی احادیث اور آثار سے پتہ چلتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کا محور ناف ہے۔ کوئی ناف سے نیچے کہتا ہے کوئی ناف سے اوپر اور کوئی ناف پر۔ ہاں البتہ خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت کہتے ہیں۔ لہٰذا خلیفہ راشد کی بات سب پر مقدم ہے۔
دراصل ناف کے اوپر نیچے کا اختلاف حقیقتاً کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ ناف ستر ہے اور اس کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھنا لازم ہے۔ چونکہ ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث مشاہدہ پر مبنی ہیں اور ناف ایک چھوٹی سی تقریباً آدھ انچ قطر کی جگہ ہے لہٰذا اس کے تعین میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
سعید بن جبیر فرماتےہیں کہ نماز میں “فوق السرۃ” یعنی ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق / الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ و سندہ صحیح )
جب صحیح سند اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے متواتر عمل اور فقہاء، مغدثین اورعلماء کی تصدیقات بتاتی ہیں کہ ناف ہی ہاتھ باندھنے کا محور و مقام ہے تو غیر مقلدین اس کو اپنانے سے کیوں گریزاں ہیں؟
علیٰ صدرہ والی جتنی احادیث ہیں ان میں یہ تصریح نہیں ہے کہ اس سے مراد عضو سینہ ہے بلکہ اس سے مراد سامنے کی طرف ہے جس کی ضد ظہرہ ہے اور یہ عربی میں مستعمل ہے۔
 
Top