• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
دوبارہ پڑھیں، ملون الفاظ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے، امید ہے کچھ کچھ سمجھ آجائے گا!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم لگتا ہے میں جو ’’سینہ سے نیچے‘‘ لکھتا ہوں تو آپ اس خوف سے کہ، سینہ کی نفی تو ہم نے خود کر دی، آپ لوگ ناف کے نیچے کی رٹ لگائے جارہے ہیں۔
میں نے جو ہاتھ باندھنے کی کیفیت تمام احادیث کی روشنی میں تحریر کی ہے وہ یہ ہے؛
سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کو الٹے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر گٹ کے پاس رکھیں اورسیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑ لیں اور سیدھے ہاتھ کے کچھ حصہ کو الٹے ہاتھ کی ذراع پر بچھا دیں۔
یہ سینہ پر ہاتھ باندھنے اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے، دونوں کے خلاف نہیں۔ وہ ایسے کہ اس طرح ’نحر ‘ سے لے کر ناف تک کہیں بھی ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ آپ لوگوں کی بیان کردہ ہاتھ باندھنے کی کیفیت سے ایک نارمل آدمی کے ہاتھ سینہ پر نہیں رکھے جا سکتے۔آزمائش شرط ہے ابھی کرکے دیکھ لیں۔ آپ لوگوں کا مذکور طریقہ یوں ہے؛
ذراع عربی میں کہنی سے لے کر ہاتھ تک کو کہتے ہیں گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
جناب ! آپ اپنے کلام ہی کلام کو سمجھا بھی کریں اور یاد بھی رکھا کریں!
حنفیوں کو تو اسی صورت فائدہ ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں ناف کے نیچے ہاتھ کا بندھنا لازم آئے!
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم کس کو فائدہ ہوتا ہے کس کو نقصان اس سے بالا تر ہو کر گفگو کریں اور دلائل میں قرآن اور حدیث ہی کو پیشِ نظر رکھیں۔ جہاں کہیں قرآن و حدیث سے واضح وضاحت نہ ہو سکے تو دیگر دلائل کی طرف جایا جاسکتا ہے۔ میں نے اب تک جو دلائل دیئے ہیں ان میں سے کوئی بھی قرآن اور حدیث سے باہر نہیں۔
محترم ڈاکٹر عادل ایوب سلفی نے جو ہاتھ باندھنے کا طریقہ لکھاتھا وہ یوں ہے؛
ذراع عربی میں کہنی سے لے کر ہاتھ تک کو کہتے ہیں گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا۔
محترم نے یہ فقرہ ’’تقلیداً‘‘ لکھا اپنی ذاتی تحقیق سے نہیں کیوں کہ میں نے ’اہلِ حدیث‘ کی جتنی بھی نماز سے متعلق کتب پڑھی ہیں ان میں اسی طرح استدلال کیا ہؤا ہے۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ذراع عربی میں کہنی سے لے کر ہاتھ تک کو کہتے ہیں گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
قارئین کرام!
میری اس تحریر کو توجہ اور غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ غیر مقلدین کی فہم و فراست کتنی ہے اور اندھی تقلید میں یہ لوگ کس قدر جامد ہیں۔ یہ لوگ ’’احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پر نہیں بلکہ ان احادیث سے جو مفہوم انہوں نے یا ان کے بڑوں نے سمجھا ہے اسی ’’حدیثِ نفس‘‘ پر عمل کرتے ہیں۔
محترم ڈاکٹر عادل ایوب سلفی صاحب نے لکھا ’’گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا‘‘ اور یہ مفہوم اخذ کیا انہوں نے حدیث کے لفظ ’’ذراع‘‘ سے۔ حالانکہ کسی بھی حدیث میں نہیں ہے کہ ہاتھ کی انگلیاں کہنی کے قریب رکھیں۔ اس حدیث سے چونکہ یہ استنباط کیا جاسکتا تھا اور اس کا فائدہ ان کو یہ نظر آیا کہ اگر اس کا یہ مفہوم دیں تو حنفیوں کے ہاتھ باندھنے کے طریقہ کی نفی خود بخود ہو جاتی ہے جیسا کہ ڈاکٹر عادل ایوب سلفی صاحب نے لکھا ’’گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا‘‘ ۔

حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب مختصر صحیح نماز نبوی (تکبیر تحریمہ سے سلام تک) ناشر مکتبہ اسلامیہ میں لکھا؛
اقتباسِ کتاب:
upload_2015-11-17_9-31-18.png

قارئین کرام حدیث کی طرف مراجعت فرمائیں اور دیکھیں کہ حدیث کے الفاظ ہیں؛
كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں
یہاں صرف یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں۔ اگر دایاں ہاتھ بائیں ذراع (ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک) کے کسی بھی حصہ پر رکھیں تو وہ ’ذراع‘ پر ہی کہلائے گا۔
جو طریقہ ڈاکٹر عادل ایوب سلفی اور زبیر علی زئی صاحبان نے لکھا ہے وہ درج ذیل احادیث کے خلاف ہے؛
1 صحيح البخاري أَبْوَابُ الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ فی الباب عن ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
وَوَضَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَفَّهُ عَلَى رُسْغِهِ الْأَيْسَرِ
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر رکھی

2 سنن أبي داود حدیث نمبر 624 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ
فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
پس ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ وہ کانوں کے برابر ہوگئے پھر بائیں (ہاتھ) کو دائیں(ہاتھ) سے پکڑا

3 سنن الترمذي حدیث نمبر 234 عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ
فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنا

4سنن النسائي حدیث نمبر 877 عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ
قَبَضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ
دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑا

5سنن النسائي حدیث نمبر 879 وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ
ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ
پھر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے جوڑ کے پاس کلائی پر رکھا

6سنن ابن ماجه حدیث نمبر 801 عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کراتے پس وہ دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے

7سنن ابن ماجه حدیث نمبر 802 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ
رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَأَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا انہوں نے دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑ رکھا تھا

سنت پر صحیح طور پر عمل کرنے والے حنفی اس طرح ہاتھ باندھتے ہیں؛
سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی اٹے ہاتھ کی ہتھیلی پر گٹ (ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ) کے پاس رکھتے ہیں اور بائیں کلائی کو پکر لیتے ہیں اور دائیں ہاتھ کا کچھ حصہ بائیں کلائی پر بچھا دیتے ہیں۔یہ طریقہ تمام احادیث کے مطابق ہے کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں۔ مگر ضد ہٹ دھرمی عناد اور تعصب کا ستیاناس ہو کہ غیر مقلدین نے لکھ مارا؛
کتاب: نمازِ نبوی (احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں)
تالیف: ناصر الدین البانی
ترجمہ و تالیف: مولانا محمد صادق خلیل
ناشر: ادارۃ الترجمہ والتالیف رحمت آباد (حاجی آباد) فون نمبر 780141 فیصل آباد
اقتباسِ کتاب:
upload_2015-11-17_9-42-20.png


قارئین کرام ! دیکھیں کہ جو طریقہ تمام احادیث کے مطابق ہے اس کو بدعت کہہ رہے ہیں اور جوتمام احادیث کے خلاف ہے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ باور کر ا رہے ہیں۔
 

اٹیچمنٹس

Top