• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا مقام؟ قسط نمبر 1 (زیر ناف ہاتھ باندھنے کی مرفوع روایات کا جائزہ)

شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
مقلدین حضرات یہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے ہیں اور اسی سلسے میں وہ چند مرفوع روایات پیش کرتے ہیں۔ آئیے ہم ان تمام روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔

قسط نمبر 1 پارٹ نمبر 1

( حضرت ابن عباس کی طرف منسوب روایت)

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر حدیث ابن عباس ملاحظہ ہو۔ چنانچہ درھم الصرۃ کے مولف لکھتے ہیں کہ:
منها ما ذكره صاحب المحيط البرهاني وصاحب مجمع البحرين في شرحه على المجمع قالا: قال ابن عباس إن النبيﷺ قال: من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة
ترجمہ
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل میں سے ایک دلیل وہ بھی ہے جسے صاحب المحیط البرھانی اور صاحب مجمع البحرین نے مجمع کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ سنت میں سے ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا

[ دیکھیے درھم الصرۃ صفحہ 31]
20190727_173132.jpg


یہ روایت بالکل بے سند ہے دنیا کی کسی حدیث کی کتاب میں اس کا کوئی وجود ہے

نیز یہ حدیث موضوع و منگھڑت ہے کیوں کہ

  • یہ روایت بے سند ہے اور نیز اس میں الفاظ ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ صلی نے فرمایا کہ سنت میں سے ہے حالانکہ یہ الفاظ تو صحابی یا تابعی وغیرھما بولتے ہیں
  • دوسرا یہ کہ یہ بے سند روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں انہوں نے قران کی آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر نحر کے نزدیک رکھنا مراد ہے
نیز یہ دو دلائل اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ روایت موضوع و منگھڑت ہے کیوں کہ کسی کتاب اس کی کوئی سند موجود نہیں

حتی کہ درھم الصرہ کے مولف جنہوں نے اس روایت کو ذکر کیا ہے انہوں نے بھی کہہ دیا کہ ہم اس کی سند سے واقف نہیں ہیں۔
[ دیکھیے درھم الصرۃ صفحہ 31]

نیز علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ نے بھی "عدیم سند" یعنی بے سند کہہ کر اس روایت کا رد کر دیا
[ درة في إظهار عش نقد الصرة صفحہ 66]



جاری ہے.....۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
قسط نمبر 1 پارٹ نمبر 2
(حضرت علیؓ کی طرف منسوب روایت من السنة.....)


متن حدیث

امام ابوداود فرماتے ہیں کہ:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﺒﻮﺏ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻏﻴﺎﺙ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﺤﻴﻔﺔ، ﺃﻥ ﻋﻠﻴﺎ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: «ﻣﻦ اﻟﺴﻨﺔ ﻭﺿﻊ اﻟﻜﻒ ﻋﻠﻰ اﻟﻜﻒ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﺗﺤﺖ اﻟﺴﺮﺓ»
ترجمہ
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت میں سے ہے
[دیکھیے سنن ابی داود 201/1 رقم الحدیث 256]

تخریج
سنن ابی داود 201/1 رقم 256، مصنف ابن أبي شيبة 343/1 رقم 3945، کتاب الاوسط لابن المنذر 94/3، سنن دار قطني 34/2، كتاب المختارة 386/2، أحكام القرآن للطحاوي 185/1، سنن الكبرى للبيهقي 48/2، التحقيق في مسائل الخلاف 339/1، تهذيب الكمال 473/9


یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے متقدمین سے لے کر متاخرین معتبر محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اس حدیث کو صحیح نہیں کہا بلکہ تمام آئمہ بالاتفاق اس حدیث کو ضعیف تسلیم کرتے ہیں۔


اس حدیث کو ضعیف قرار دینے والے علماء


1۔ امام ابو داود رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ کی زیر بحث روایت اور اس طرح کی ایک اور روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ: ﻳﻀﻌﻒ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﻜﻮﻓﻲ
" میں نے امام احمد بن حنبل کو فرماتے ہوئے سنا وہ عبدالرحمن بن اسحاق کو ضعیف قرار دیتے تھے"
[ دیکھیے سنن ابو داود 201/1 ]

معلوم ہوا کہ امام ابو داود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تحت السرہ والی روایت کو ضعیف مانتے تھے ورنہ اسی حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام احمد بن حنبل سے اس حدیث کی سند کے راوی پر جرح نقل کر کے سکوت کرنا چہ معنی دارد؟؟؟؟

2۔ امام بیہقی رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻫﺬا ﻫﻮ اﻟﻮاﺳﻄﻲ اﻟﻘﺮﺷﻲ ﺟﺮﺣﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ، ﻭاﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ، ﻭﺭﻭاﻩ ﺃﻳﻀﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻳﺴﺎﺭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻭاﺋﻞ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻛﺬﻟﻚ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻣﺘﺮﻭﻙ
عبدالرحمن بن اسحاق یہ الواسطی القرشی ہے۔ اس پر امام احمد بن حنبل، امام یحیی بن معین اور امام بخاری وغیرھما نے جرح کی ہے اور اس طرح عبدالرحمن (بن اسحاق الواسطی) نے یسار سے انہوں نے ابو وائل سے انہوں نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے اسی طرح (جس طرح علی رضی اللہ عنہ سے ناف کے نیچے باندھنے والی روایت نقل کی تھی) اور عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی متروک ہے
[دیکھیے سنن الکبری للبیھقی 48/2 ]

معلوم ہوا امام بیہقی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تحت السرہ والی روایت اور اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی تحت السرہ والی روایت کو ضعیف و غیر ثابت مانتے تھے کیوں کہ وہ عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی کو متروک مانتے تھے۔

نیز ایک اور جگہ امام بیہقی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
ﻭاﻟﺬﻱ ﺭﻭﻱ ﻋﻨﻪ، ﺗﺤﺖ اﻟﺴﺮﺓ، ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ، ﺗﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﻮاﺳﻄﻲ، ﻭﻫﻮ ﻣﺘﺮﻭﻙ
اور علی رضی اللہ عنہ سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی جو بات مروی ہے اس کی سند ثابت نہیں ہے اسے بیان کرنے میں عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی منفرد ہے اور وہ متروک ہے
[دیکھیے معرفۃ السنن والآثار 341/2 ]

3۔ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں زیر بحث روایت کے متعلق کہ:
ﻫﺬا ﻻ ﻳﺼﺢ ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء ﻭﻗﺎﻝ ﻳﺤﻴﻰ ﻣﺘﺮﻭﻙ
یہ روایت ٹھیک نہیں ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا کہ عبدالرحمن بن اسحاق کی کوئی حیثیت نہیں اور امام یحیی (بن معین) نے اسے متروک کہا۔
[دیکھیے التحقیق فی مسائل الخلاف 339/1 ]

4۔ امام ابن القطان رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا۔
[دیکھیے بیان الوھم والایھام 690/5 ]

5۔ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
ﻭﺭﻭﻱ ﺫﻟﻚ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻭﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭاﻟﻨﺨﻌﻲ ﻭﻻ ﻳﺜﺒﺖ ﺫﻟﻚ ﻋﻨﻬﻢ
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی بات علی رضی اللہ عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مروی ہے اور مگر ان سے ثابت نہیں ہے
[ دیکھیے التمھید لما موطأ والاسانید 75/20]

6۔ امام زرقانی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ :
"اسنادہ ضعیف"
[ دیکھیے شرح الزرقانی علی الموطأ 549/1 ]

7۔ امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﺿﻌﻴﻒ
[ دیکھیے فتح الباری 224/2 ]

8۔ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
ﻭﻫﺬا ﻻ ﻳﺼﺢ، ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﻭاﻩ.
اور یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ عبدالرحمن سخت ضعیف ہے۔
[ دیکھیے تنقیح التحقیق للذھبی 140/1 ]

9۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ﺿﻌﻴﻒ ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻰ ﺗﻀﻌﻴﻔﻪ
یہ روایت ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے
[دیکھیے شرح نووی علی المسلم 115/4]

10۔ امام ابن عبدالہادی نے بھی اس حدیث کو غیر صحیح کہا
[ تنقیح التحقیق لابن عبدالہادی 148/2 ]

علماء احناف کی گواہیاں

11۔ علامہ انور شاہ کشمیری حنفی کہتے ہیں کہ
ﻭﺃﻣﺎ ﻓﻲ ﺗﺤﺖ اﻟﺴﺮﺓ ﻓﻠﻨﺎ ﺃﺛﺮ ﻋﻠﻲ ﻓﻲ ﺳﻨﻦ ﺃﺑﻲ ﺩاﻭﺩ ﺑﺴﻨﺪ ﺿﻌﻴﻒ
تحت السرہ کے معاملے میں ہمارے لئے سنن ابی داود میں ضعیف سند سے اثر ہے
[دیکھیے العرف الشذی 261/1 ]

12۔ امام عینی حنفی نے بھی اس حدیث کو ضعیف تسلیم کیا ہے
[ دیکھیے البناية شرح الهداية 182/2]

13. مولانا نور الدین السندھی بیان کرتے ہیں کہ:
ﻭﺃﻣﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﻥ «ﻣﻦ اﻟﺴﻨﺔ ﻭﺿﻊ اﻷﻛﻒ ﻋﻠﻰ اﻷﻛﻒ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﺗﺤﺖ اﻟﺴﺮﺓ» ﻓﻘﺪ اﺗﻔﻘﻮا ﻋﻠﻰ ﺿﻌﻔﻪ ﻛﺬا ﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ اﻟﻬﻤﺎﻡ ﻧﻘﻼ ﻋﻦ اﻟﻨﻮﻭﻱ ﻭﺳﻜﺖ ﻋﻠﻴﻪ.
رہی وہ حدیث کہ سنت میں سے ہے نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا تو اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ ابن ھمام حنفی نے اسی طرح (امام) نووی سے نقل کیا ہے اور اس پر سکوت کیا ہے۔
[دیکھیے حاشية السندهي على سنن ابن ماجه 271/1]

14۔ علامہ محمد حیات سندھی نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے
[ دیکھیے فتح الغفور في وضع الأيدي على الصدور صفحہ 41 ]


لہذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے نیز اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے


کسی ایک محدث نے بھی اس حدیث کی تصحیح یا تحسین نہیں کی۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
کیا امام ابن القیم رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تحت السرہ والی روایت کو صحیح کہا؟؟؟؟؟؟؟

امام ابن القیم کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تحت السرہ والی روایت کی تصحیح کی۔ حالانکہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے ایسا ہرگز نہیں ہے
آئیے ہم ابن القیم رحمہ اللہ کی اس عبارت کی طرف چلتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے تحت السرہ والی حدیث کی تصحیح کی ہے۔
امام ابن القیم لکھتے ہیں کہ
ﻋﻠﻲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ: "ﻣﻦ اﻟﺴﻨﺔ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﻭﺿﻊ اﻷﻛﻒ ﻋﻠﻰ اﻷﻛﻒ ﺗﺤﺖ اﻟﺴﺮﺓ" ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﺠﻮﺯاء ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻣﺜﻞ ﺗﻔﺴﻴﺮ ﻋﻠﻲ ﺇﻻ ﺃﻧﻪ ﻏﻴﺮ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﻠﻲ

"علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں دائیں کلائی کو بائیں کلائی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت میں سے ہے۔ عمرو بن مالک نے ابی الجوزا سے اور انہوں نے ابن عباس سے حضرت علی کی تفسیری روایت کے مثل بیان کیا مگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث غیر صحیح ہے صحیح تو حضرت علی کی روایت ہے"
[ دیکھیے بدائع الفوائد 91/3 ]

اس روایت کے الفاظ صاف ہے ابن القیم نے پہلے علی رضی اللہ عنہ کی تحت السرہ والی روایت کو نقل کیا اور اس روایت پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی حضرت ابن عباس کی تفسیری روایت کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ حضرت ابن عباس سے بھی حضرت علی کی طرح ایک تفسیری روایت مروی ہے لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح نہیں بلکہ صحیح علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
چنانچہ وہ تو علی رضی اللہ عنہ کی تفسیری روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں۔ کیوں کہ سیاق اسی بات کی تائید کر رہا ہے۔ اب ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے کہ جو لوگ ابن القیم پر جھوٹ باندھتے ہیں

کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کی نظر میں حضرت علی کی کوئی ایسی تفسیری روایت ہو جس میں تحت السرہ کا ذکر ہے

ہم کہتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے دلیل تو کوئی نہیں؟؟
وہ الٹا ہمیں کہیں گے آپ کے پاس ہے؟؟؟؟؟؟
ہم کہتے ہیں ہاں ہے ہمارے پاس دلیل
ابن القیم نے ایک دوسرے مقام پر حضرت علی کی تفسیری روایت نقل کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
ﻗﺎﻝ ﻋﻠﻲ - ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ - ﻓﻲ ﻗﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: {ﻓﺼﻞ ﻟﺮﺑﻚ ﻭاﻧﺤﺮ} : ﺇﻧﻪ ﻭﺿﻊ اﻟﻴﻤﻴﻦ ﻋﻠﻰ اﻟﺸﻤﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺼﻼﺓ ﺗﺤﺖ ﺻﺪﺭﻩ،
[ دیکھیے اعلام الموقنین 290/2 ]

نیز اس بات کی تائید اس چیز سے بھی کہ خود علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ہاتھ سینے پر باندھنے کے قائل تھے۔
چنانچہ ابن القیم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
ﻛﺎﻥ ﻳﻤﺴﻚ ﺷﻤﺎﻟﻪ ﺑﻴﻤﻴﻨﻪ ﻓﻴﻀﻌﻬﺎ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻓﻮﻕ اﻟﻤﻔﺼﻞ ﺛﻢ ﻳﻀﻌﻬﺎ ﻋﻠﻰ ﺻﺪﺭﻩ
" آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے اور دائیں ہاتھ کو اس پر جوڑ کے اوپر رکھتے پھر دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے پر رکھ لیتے"
[دیکھیے کتاب الصلاۃ وأحکام صفحہ 160]

اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے اگر ابن القیم نے تحت السرہ والی روایت کو صحیح کہا ہوتا تو وہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا طریقہ کیوں بیان کرتے۔

یعنی ان لوگوں کے پاس اتنی بھی عقل نہیں کہ وہ جو بات کہہ رہے ہیں۔ ناجانے کس دلیل و منطق سے کہہ رہے ہیں۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
اس حدیث کے ضعیف ہونے کی علتیں

یہ روایت اپنے متن کے ساتھ ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سند کے ساتھ بھی سخت ضعیف ہے

پہلی علت

زیاد بن زید مجہول راوی


1۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے زیاد بن زید کو مجہول کہا
[ دیکھیے الجرح والتعدیل 532/3]

2۔ امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی مجھول کہا
[ دیکھیے تقریب التہذیب رقم 2078]

3۔ امام ذھبی نے بھی مجہول کہا
[ دیکھیے میزان الاعتدال 89/2 ]


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
دوسری علت

عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی ابو شیبہ ضعیف ہے


ابو شیبہ الواسطی کو ضعیف کہا گیا ہے

کہیں محدثین نے اس پر جرح کی ہے
جن میں امام احمد بن حنبل اور امام ابن معین اور امام بخاری سر فہرست ہیں

اور بہت سارے محدثین ہیں جنہوں نے اس پر جرح کی ہے

جیسے امام دار قطنی، امام ابو حاتم ، امام ابو ذرعہ وغیرہ


اس موضوع پر میں محدث فورم پر پہلے ہی ایک مضمون لکھ چکا ہوں۔ تفصیل جاننے کے لئے نیچے ٹھریڈ کے لنک پر کلک کیجیے

عبد الرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی ابو شیبہ جرح و تعدیل کے میزان میں؟؟؟؟؟؟؟؟

لہذا ثابت ہوا کہ یہ راوی سخت ضعیف ہے


اور اسی کے ساتھ ہم حدیث علی رضی اللہ عنہ پر بحث کا اختمام کرتے ہیں۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
قسط نمبر 1 پارٹ نمبر 3

حضرت ابو ہریرہ کی طرف منسوب اثر ۔۔۔۔۔تحت السرۃ

متن حدیث
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُضَعِّفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ إِسْحَاقَ الْكُوفِيَّ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا ( سنت ہے ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو سنا، وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق کوفی کو ضعیف قرار دے رہے تھے۔


یہ روایت بھی ضعیف ہے ہے اس کو بیان کرنے والا راوی عبد الرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی ہے جو کہ سخت ضعیف۔

مفتی تقی عثمانی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
"اگرچہ اس روایت کا دارومدار عبدالرحمن بن اسحاق پر ہے جو کہ ضعیف ہے"
[ دیکھیے درس ترمذی 24/2 ]

نیموی تقلیدی حنفی نے بھی کہا
" عبد الرحمن بن إسحاق وھو ضعیف "
[آثار السنن ص 111 حاشیہ حدیث 330 ] .

عبدالقیوم حقانی دیوبندی صاحب ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں " اگرچہ اس روایت کا مدار عبد الرحمن بن إسحاق پر ہے , جو ضعیف "
(توضیح السنن اردو شرح آثارلسنن 1/556)



اور محدثین کی تو ایک بڑی تعداد نے ابو شیبہ الواسطی کو ضعیف و متروک کہا ہے

چنانچہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241ھ) نے کہا " متروک الحدیث "
[کتاب العلل و معرفة الرجال 286/2 رقم 2278 ]

امام ابو حاتم رحمہ اللہ(المتوفی 277ھ) فرماتے ہیں کہ:
ھو ضعیف الحدیث منکر الحدیث یکتب حدیث ولا یحتج به
وہ (عبدالرحمن بن اسحاق) ضعیف الحدیث منکر الحدیث تھا اس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن اس سے حجت نہیں لی پکڑی جائے گی۔
[ دیکھیے الجرح والتعدیل 213/5 ]

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"ھو ضعیف بالاتفاق"
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے
[ شرح صحیح مسلم 115/4 و شرح المہزب 270/3 ]


نیز مکمل تفصیل جاننے کے لئے

اس ٹھریڈ پر کلک کریں
عبد الرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی ابو شیبہ جرح و تعدیل کے میزان میں؟؟؟؟؟؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
Top