• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ابتدائیہ
مقدمۃ التحقیق
خطبہ رحمۃ للعالمین
کتاب و سنت کی اتباع کا حکم
حدیث کے معاملہ میں چھان بین اور احتیاط

طہارت کا بیان
کنویں اور دریا کا پانی پاک
کھڑے پانی کے احکام


رفع حاجت کے آداب
بیت الخلا میں جاتے اورنکلتے وقت کی دعا
قضائے حاجت کے وقت قبلہ کو منہ یا پیٹھ کرنا
قضائے حاجت کے وقت چھپنا
بیٹھ کر پیشاب کرنا
پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کی سخت تاکید
رفع حاجت کے احکام


نجاستوں کی تطہیر کا بیان
حیض آلود کپڑا
منی کا دھونا
شیر خوار بچے کا پیشاب


جنابت کے احکام
صحبت اور غسل جنابت
عورت بھی محتلم ہوتی ہے
جنبی کے بالوں کا مسئلہ
جنبی کے ساتھ ملنا جلنا
مذی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا
مذی، منی، ودی کا فرق
سیلان رحم موجب غسل نہیں


حیض کے مسائل
حیض ونفاس کے ایام میں ممنوع اعمال
حیض اور نفاس میں جائز امور
حائضہ کو چھونا اور اس کے ساتھ کھانا جائز ہے
حائضہ کا قرآن پڑھنا اور ذکر اذکار کرنا
استحاضہ کا مسئلہ
نفاس کا حکم
نفاس کی نمازوں کی قضا


غسل کا بیان
غسل جنابت کا طریقہ
سر کا مسح
ایک ہی برتن میں میاں بیوی کا اکھٹے غسل کرنا
غسل کے لیے پردہ
ایک ہی غسل سے زیادہ بیویوں سے مباشرت
غسل جنابت کا وضو کافی ہے
جمعہ کے دن غسل
میت کو غسل دینے والا غسل کرے
نو مسلم غسل کرے
عیدین کے روز غسل
احرام کا غسل
مکہ میں داخل ہونے کا غسل
مسواک کا بیان


وضو کا بیان
مسنون وضو سے گناہوں کی بخشش
نیند سے جاگ کر پہلے ہاتھ دھوئیں
تین بار ناک جھاڑیں

مسنون وضو کی مکمل ترتیب
وضو کے بعد کی دعائیں
وضو کی خود ساختہ دعائیں

وضو کے دیگر مسائل
موزوں پر مسح کرنے کابیان
جرابوں پر مسح کرنے کا بیان
پگڑی پر مسح

جن کاموں کے لیے وضو کرنا واجب ہے ان کابیان
جن کاموں کے لیے وضو کرنا سنت ہے ان کا بیان
جن کاموں کے کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
قے، نکسیر اور وضو
بیوی کا بوسہ لینا


تیمم کا بیان
جنابت کی حالت میں تیمم
زخمی یا مرض کی حالت میں تیمم
تیمم کا طریقہ


نماز فرضیت، فضیلت اور اہمیت
اولاد کو نماز سکھانے کا حکم
فضیلت نماز
ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا
نمازی اور شہید

ترک نماز کفر کا اعلان ہے
اہمیت نماز

نماز میں خشوع اور خضوع
بلا ضرورت حرکت کرنا ادب اور تعظیم کے منافی
نقش و نگار والی چادر اور جائے نماز منع
نماز میں ادھر ادھر دیکھنا منع

نیند اور بھوک کی حالت میں پہلے نماز پڑھنے کی ممانعت
نماز میں خیالات کو روکنا
نماز میں خشیت الٰہی


اوقات نماز
نماز پنجگانہ کے اوقات
اول وقت نماز پڑھنا

نماز کے ممنوعہ اوقات
خانہ کعبہ میں نوافل کی اجازت
فوت شدہ نمازیں

قضائے عمری
نمازیں مجبوراً فوت ہو جائیں تو کیسے پڑھیں؟
جہاں دن یا رات بہت طویل ہو وہاں نماز کے اوقات


نمازی کا لباس
کپڑوں کا پاک ہونا
مرد کا لباس
جب زائد کپڑے موجود ہوں
عورت کا لباس
چٹائی پر نماز
کپڑے پر سجدہ
جوتے اور موزے پہن کر نماز
بال اور کپڑے سمیٹنا


اذان و اقامت
اذان کے فضائل

اذان کی ابتداء
اذان کے جفت کلمات اور تکبیر کے طاق کلمات
دوہری اذان اور دوہری اقامت

فجر کی اذان میں اضافہ
بارش کے موقع پر اذان میں اضافہ
اذان کے شروع یا بعد میں خود ساختہ اضافے کرنا
اذان کا جواب
اذان کے بعد کی دعائیں

دعائے اذان میں اضافہ

اذ۱ن کے مسائل
ہر نماز کے وقت اذان
اذان کا طریقہ
اذان پر اجرت
بلند آواز والا مؤذن

اذان اول وقت کہنا
نیند کی وجہ سے غلطی
اذان کے بعد دعا

اقامت اور اذان میں وقفہ
طلوع فجر سے پہلے اذان
اقامت کے بعد سنتیں ادا کرنا

نماز کے لیے وقار سے چلنا
اذان سن کر مسجد سے نکلنا
اقامت کے بعد نماز میں تاخیر


احکام قبلہ
نفل نماز سواری پر
قبروں کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا
نماز کی حالت میں صحیح قبلہ کی طرف رخ بدلنا


سترہ کا بیان
سترہ رکھنے کا حکم
مسجد میں سترہ
امام کا سترہ
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ
سترہ اور نمازی کے درمیان فاصلہ
نمازی کے آگے لیٹنا


تکبیر اولیٰ سے سلام تک
گیارہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طریقہ نماز پر شہادت

نماز کی نیت
قیام
تکبیر اولیٰ
سینے پر ہاتھ باندھنا
عورتوں اور مردوں کی طریقہ نماز میں فرق
سینے پر ہاتھ باندھنے کے بعد کی دعائیں
تعوذ
سورۃ فاتحہ
آمین کا مسئلہ
آداب تلاوت
نماز کی مسنون قراء ت
کتنی اونچی آواز میں قرأت کرنی چاہیے
مختلف آیات کا جواب
بڑھاپے یا کند ذہنی کی وجہ سے قرآن مجید پڑھنے سے معذور شخص کی قرأت
نماز میں خیال آنا
رفع الیدین
رکوع کا بیان
اطمینان، نماز کا رکن ہے
سجدہ اور رکوع میں اطمینان
صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع
قومے کا بیان
سجدے کا بیان
سجدے کے احکام
پہلے تکبیر کہنا پھر سجدہ کرنا
سجدہ میں دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھنا
سجدے کے اعضاء کو زمین پر ٹکانا
دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا سر کے برابر رکھنا
ہاتھوں کی انگلیوں کو ملانا
پائوں کی دونوں ایڑیاں ملانا
سجدے میں کہنیاں بلند کرنا اور بازئوں کو بغلوں سے نہ ملانا
زمین یا چٹائی پر سجدہ
لمبا سجدہ کرنا

سجدے کی دعائیں
سجدہ تلاوت
سجدئہ تلاوت واجب نہیں

سجدۂ شکر
جلسہ (دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا)
دوسرا سجدہ
جلسۂ استراحت
اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کا سہارا لینا

تشہد
مسئلہ رفع سبابہ
آخری قعدہ (تشہد)
درود کے بعد کی دعائیں
نماز کا اختتام

جو امور نماز میں کرنے جائز ہیں ان کا بیان
نماز میں بچے کو اٹھانا
سلام کا اشارے سے جواب دینا
چھینک آنے پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا
نماز میں چلنا


نماز کی مکروہات کا بیان
کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا
جمائی لینا
فرض اور سنت کے درمیان کلام نہ کرنا
نماز میں باتیں کرنا


سجدۂ سہو کا بیان
تین یا چار رکعات کے شک پر سجدہ
قعدہ اولیٰ کے ترک پر سجدہ
نماز سے فارغ ہو کر باتیں کرچکنے کے بعد سجدہ
چار کی جگہ پانچ رکعات پڑھنے پر سجدہ


نماز کے بعد مسنون اذکار
دعا میں اپنی ہتھیلیاں منہ پر پھیرنا
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا


نماز با جماعت
فضیلت
نابینا کو مسجد میں آنے کا حکم
نماز باجماعت نہ پڑھنے پر وعید

عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت
مسجد آنے والی عورت کے لیے احکام

صفوں میں مل کر کھڑا ہونے کا حکم
صف کو کاٹنے کی سزا
صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا
ستونوں کے درمیان صفیں

صف بندی کے مراتب
مقتدی کا امام کے دائیں طرف کھڑے ہونا

عورتوں کے ساتھ صف بندی
دوسری جماعت کا حکم
دوسری جماعت کے لیے اذان اور اقامت


امامت کا بیان
نابالغ بچے اور نابینا کی امامت
نماز میں تخفیف

نماز کی طرف سکون سے آنا
افضل کا مقتدی بننا

اماموں پر وبال
زبردستی امام بننا
فاسق کو امامت سے ہٹانا
فاسق فاجر یعنی گناہ گار مسلمان کی اقتدا میں نماز پڑھنا

قریب کی مسجد میں نماز پڑھنا
کسی عذر کے سبب امام کے پیچھے نماز ختم کر نا
نماز دو دفعہ ادا کرنا

امام کی تبدیلی
نماز پڑھا کر امام کا مقتدیوں کی طرف منہ پھیرنا
مسجد سے عورتوں کا مردوں سے پہلے نکلنا
امام کی اقتداء کے احکام

امام کو لقمہ دینا
عورت کی امامت
امام اور مقتدی کے درمیان دیوار کا حائل ہونا


مساجد کے احکام
مسجد کی فضیلت

بعض مساجد میں نمازوں کا ثواب
خانہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز ادا کرنا

مسجد جانے کی فضیلت
تحیۃ المسجد (مسجد کا تحفہ)
قبرستان اور حمام میں نماز کی ممانعت

مسجد میں ممنوع کام
پیاز اور لہسن کھا کر مسجد میں آنا
مسجد میں تھوکنا
مسجد میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا
مسجد کو گزر گاہ بنانا
مسجد میں آواز بلند کرنا
مسجد میں خرید و فروخت

مسجد میں جائز کام
مسجد میں سونا
مسجد میں کھانا
مسجد میں جنگی مشقیں
مسجد میں مشرک داخل ہو نا
مسجد میں شعر پڑھنا
مسجد میں گفتگو کرنا

مسجد میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت کی دعا
فجر کی نماز کے لیے مسجد جاتے ہوئے دعا


نماز کی سنتوں کا بیان
نفل اور سنتیں گھر میں پڑھنا
موکدہ سنتوں کے باعث بہشت میں گھر

ظہر سے پہلے چار رکعت
ظہر کے بعد چار رکعت
عصر سے پہلے چار رکعت
مغرب سے پہلے دو رکعتیں
جمعہ کے بعد کی سنتیں
فجر کی سنتوں کی فضیلت
فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو لیٹنا

سنتوں کی قضا
فرض نماز کی جماعت کے دوران انفرادی طور پر سنتوں کا پڑھنا
فجر کی سنتیں فرضوں کے بعد پڑھنا
فجر کی دو سنتوں کو سورج نکلنے کے بعد پڑھنا
نفل نماز


تہجداور وتر
فضیلت

نیند سے بیدار ہونے کی دعائیں
تہجد کی دعائے استفتاح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت

طاقت سے بڑھ کر مشقت کی ممانعت
نماز وتر کا وقت
تہجد میں قراء ت

قیام اللیل کا طریقہ
تین وتروں کی قراء ت
مغرب کی نماز کی مشابہت کی ممانعت
وتر کی ایک رکعت
ایک رات میں کئی وتر پڑھنے کی ممانعت
وتر کی قضا

قنوت وتر
قنوت وتر رکوع سے قبل
قنوت نازلہ

قیام رمضان
قیام رمضان گیارہ رکعت
نماز تراویح میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا
سحری اور نماز فجر کا درمیانی وقفہ


نماز جمعہ
جمعہ بہترین دن
جمعہ کی فرضیت
جمعہ کی فضیلت

جمعہ کے متفرق مسائل
دیہات میں جمعہ
بارش میں جمعہ
عید کے دن جمعہ
جمعہ میں تشہد میں ملنا
جمعہ سے پہلے نوافل کی تعداد
ظہر احتیاطی کی بدعت
(محض) جمعہ کے دن روزہ رکھنا

جمعہ کے دن درود شریف کی کثرت
خطبہ جمعہ کے مسائل
مختصر خطبہ
دوران خطبہ فضول کام سے بچنا
مسجد میں بیٹھنے کے لیے جگہ خاص کرنا
گردنیں پھلانگنے کی ممانعت
جمعہ کے خطبہ میں اپنی جگہ بدلنا
دوران خطبہ دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھنا

خطبہ میں صرف ایک ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کرنا
کھڑے ہو کر خطبہ دینا
خطبہ چھوڑ کر ضرورت پوری کرنا
دوران خطبہ گوٹ مار کر بیٹھنا
خطبہ میں سیاہ رنگ کا عمامہ پہننا
خطبہ جمعہ سے پہلے تقریر کرنا
غیر عربی زبان میں خطبہ دینا
خطیب کے علاوہ کسی اور کا نماز جمعہ پڑھانا
جمعہ کی اذان


نماز عیدین
مسائل و احکام
غسل کرنا
صدقہ فطر ادا کرنا
عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا

بغیر اذان اور تکبیر کے نماز پڑھنا
عیدگاہ میں نفل
نماز عید سے پہلے کھانا
دیہات میں نماز عید

عید کی نماز اگلے دن ادا کرنا
نماز عید کا وقت
عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل کرنا

عید گاہ میں عورتیں
تکبیرات عید

نماز عید کا طریقہ
عید کا خطبہ سننا سنت ہے
عید الاضحی کے دن نماز عید پڑھ کر قربانی کرنا


نماز سفر
سفر کی مسافت

مسافر بغیر خوف کے قصر کرے
قصر کی حد

سفر میں اذان اور جماعت
مقیم امام کے پیچھے مسافر کی نماز
سفر میں سنتوں کا بیان
مسافر کی امامت

دو نمازوں کا جمع کرنا

نماز استخارہ کا بیان

نماز کسوف(سورج اور چاند گرہن کی نماز)

نماز استسقاء
بارش کے لیے دعامیں ہاتھ اٹھانا
استسقاء کی دعائیں
چادر کا پلٹنا


نماز اشراق ، چاشت،ضحی ، صلاۃ الاوابین
فجر کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور سورج نکلنے کے بعد دو رکعت پڑھنا


نماز تسبیح

الصلاۃ التوبہ

لیلۃ القدر کے نوافل

پندرھویں شعبان کے نوافل


احکام الجنائز
بیمار پرسی کی فضیلت

عیادت کی دعائیں
وصیت کرنا
کسی کے انجام کے متعلق اظہار کرنا

تجہیز و تکفین
عالم نزع میں تلقین
اللہ تعالیٰ کے بارے میں نیک گمان رکھنا
اللہ تعالیٰ سے امید اور گناہوں سے خوف
مکہ یا مدینہ میں مرنے کی تمنا کرنا
موت کی آرزو کی ممانعت
میت کو بوسہ دینا
میت پر چادر ڈالنا

فوت ہونے والے کے دوستوں اور رشتے داروں کو مرنے کی اطلاع دینا
نوحہ کرتے ہوئے یا تکبر اور ریا کے لیے مرنے والے کی موت کا اعلان کرنا

میت کی آنکھیں بند کرنا
میت کو جلد دفن کرنا

میت کا غسل
میاں بیوی کاایک دوسرے کو غسل دینا

میت کا کفن
مرنے سے پہلے اپنا کفن تیار کرنا

میت کا سوگ
اچانک موت
موت کے وقت پیشانی پر پسینہ
جس گھر میں وفات ہو ان کے ہاں کھانا پکا کر بھجوانا
تعزیت کے مسنون الفاظ

نماز جنازہ
اما م کا جنازہ کے لیئے کھڑے ہونے کا مقام
جنازہ کی تکبیرات
جنازہ میں سورت فاتحہ
نمازجنازہ کی دعائیں

جنازہ کے مسائل
نماز جنازہ کا سراً پڑھنا
بلند آواز سے جنازہ
جنازے کے لیے کھڑے ہونا

مسجد میں نماز جنازہ
جس جنازے کے ساتھ خلاف شرع کام ہوں اس کے ساتھ جانا
مردہ پیدا ہونے والے بچہ کا جنازہ

کبیرہ گناہ کے مرتکب شخص کا نماز جنازہ
جنازے کے ساتھ چلنا
نمازہ جنازہ کی صفیں طاق بنانا

قبر پر نماز جنازہ
غائبانہ نماز جنازہ

تدفین کے اوقات
قبر گہری بنانا
میت کو پائوں کی طرف سے قبر میں داخل کرنا
عورت کی میت کو قبر میں نامحرم مرد کااتارنا
قبرستان میں روشنی کے لیے چراغ لے جانا
میت کو قبر میں رکھتے وقت کی دعا
لحد بنانا

ایک قبر میں ایک سے زائد افراد کو دفن کرنا
قبر پر چھڑکائو
تدفین کے بعد دعا
قبر پر بطور علامت پتھر نصب کرنا
قبر پر مٹی ڈالنا

قبر پربیٹھنا
قبروں کو پختہ بنانے کی ممانعت

قبر کشائی
قبروں کی زیارت
عورتوں کا قبرستان جانا

اہل قبور کے لیے دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھانا
ایصال ثواب کے طریقے

جنازے اور دفن کرنے کے بعد کی بدعات
نماز جنازہ کے بعد دعا
مغفور اورمرحوم کے الفاظ کہنا
بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھنا

قبر پر قرآن خوانی
قبرپر اذان اور اقامت کہنا
کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑے ہونا

ساتواں یا چالیسواں منانا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم، أما بعد:
گزشتہ پندرہ سالوں میں نماز نبوی کو جو شرفِ قبولیت حاصل ہوئی، جس طرح عامۃ المسلمین نے اس سے استفادہ کر کے اپنی نمازوں کی اصلاح فرمائی۔ پاکستان، ہندوستان، سعودی عرب بلکہ دنیا کے اکثر حصوں میں جس طرح اس کی اشاعت ہوئی یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کا فضل وکرم ہے اور پھر میرے والدین کی دعاؤں کا اثر ہے۔
نماز نبوی کا چھٹا ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔نماز نبوی کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صرف صحیح احادیث کا التزام کیا گیا ہے بطور دلیل حدیث کے حوالے کے ساتھ اس امام کا ذکر کیا گیا ہے جس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے نماز نبوی کے تیسرے ایڈیشن(جسے دارالسلام نے ۱۹۹۸ میں شائع کیا تھا)میں موجود احادیث کی تصحیح کی ذمہ داری اٹھائی تھی ۔محمد پبلشر اسلام آباد اور سعودی عرب میں شائع شدہ نماز نبوی اضافہ شدہ ہیں۔ اضافہ جات کے لیے میں نے الشیخ ناصر الدین البانی کی السلسلۃ الصحیحہ اور سعودی عرب کی فتوی کمیٹی الجنۃ الدائمۃ للافتاء والارشادکے مفتیان کرام سماحۃالشیخ عبدالعزیزبن باز،فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین اور الشیخ عبداللہ بن جبرین کے فتاوی ( فتاوی اسلامیہ) سے استفادہ کیا ہے ۔جن کی تصحیح کے ذمہ دار الشیخ زبیر علی زئی نہیں چونکہ اصل کتاب پر محنت انہوں نے کی ہے لہٰذا کوئی تحقیق و تخریج میں سے ان کا نام خارج نہیں کر سکتا۔علماء کرام سے گزارش ہے کہ اگر کوئی ضعیف حدیث کتاب میں موجود ہو تو مجھے آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کر سکوں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے، میرے والدین، میرے اہل وعیال، میرے اساتذہ، اس کتاب کے ناشرین اور تصحیح وتنقیح کرنے والے علمائے کرام کو اجر وثواب میں شریک فرمائے اور اس کتاب کو ہم سب کے لیے ذخیرۂ خرت بنائے۔ آمین یا رب العالمین
سید شفیق الرحمن
۵/ جمادی الثانی/ ۱۴۳۱ ہجری،۲۰/ مئی/ ۲۰۱۰ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تمام تر حمد و ثنا اس اللہ کے لیے ہے۔ جس نے اپنے بندوں پر نماز فرض کی، اسے قائم کرنے اور اچھے طریق سے ادا کرنے کا حکم دیا، اس کی قبولیت کو خشوع و خضوع پر موقوف فرمایا، اسے ایمان اور کفر کے درمیان امتیاز کی علامت اور بے حیائی اور برے کاموں سے روکنے کا ذریعہ بنایا۔
اﷲ کی حمد و ثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہو، جنہیں اللہ تعالی نے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ) (النحل: ۴۴)
’’اور ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں کے لیے نازل کئے گئے ہیں آپ ان کی توضیح و تشریح کر دیں، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، ﷲ کے حکم کی تعمیل میں کمر بستہ ہو گئے۔ اور جو شریعت آپ پر نازل ہوئی آپ نے اسے بالعموم پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا تاہم نماز کی اہمیت کے پیش نظر اسے نسبتاً زیادہ واضح شکل میں پیش کیا اور اپنے قول و عمل سے اس کا عام پرچار کیا یہاں تک کہ ایک بار نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر نماز کی امامت فرمائی، قیام اور رکوع منبر پر کیا، نیچے اتر کر سجدہ کیا پھر منبر پر چڑھ گئے اور نماز سے فارغ ہو کر فرمایا:
’’میں نے یہ کام اس لیے کیا تاکہ تم نماز ادا کرنے میں میری اقتدا کر سکو اور میری نماز کی کیفیت معلوم کر سکو۔‘‘
(بخاری: الجمعۃ، باب: الخطبۃ علی المنبر: ۷۱۹۔ مسلم: المساجد، باب: جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلاۃ: ۴۴۵.)
نیز اس سے بھی زیادہ زور دار الفاظ میں اپنی اقتدا کو و اجب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
((صلوا كما رأيتموني أصلي))
’’تم اس طر ح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: الأاذان للمسافر: ۱۳۶.)

’’اﷲ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جو شخص اچھی طرح وضو کرے، وقت پر نماز ادا کرے رکوع، سجود اور خشوع کا اہتمام کرے تو اس انسان کا ﷲ پر ذمہ ہے کہ اسے معاف کر دے اور جو شخص ان باتوں کو ملحوظ نہ رکھے اس کا الله پر کوئی ذمہ نہیں ہے، چاہے تو اسے معاف کرے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘
(سنن أبی داؤد: الصلوٰۃ، باب: فی المحافظۃ علی الصلوٰت: ۵۲۴ ۔ امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام کے بعد اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی صلوٰۃ و سلام ہو، جو نیکو کار اور پرہیز گار تھے۔ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت، نماز، اقوال اور افعال کو نقل کر کے امت تک پہنچایا اور صرف آپ کے اقوال و افعال کو ہی دین اور قابل اطاعت قرار دیا۔ نیز ان نیک انسانوں پر صلوٰۃ و سلام ہو جو ان کے نقش قدم پر چلتے رہے اور چلتے رہیں گے۔

اما بعد! اسلام میں نماز کا اہم مرتبہ ہے اور جو شخص اس کو قائم کرتا ہے اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا وہ اجر و ثواب اور فضیلت و اکرام کا مستحق ہے پھر اجر و ثواب میں کمی بیشی کا معیار یہ ہے کہ جس قدر کسی انسان کی نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے زیادہ قریب ہو گی وہ اسی قدر اجر و ثواب کا زیادہ حقدار ہو گا اور جس قدر اس کی نماز نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مختلف ہو گی اسی قدر کم اجر و ثواب حاصل کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک بندہ نماز ادا کرتا ہے لیکن اس کے نامہء اعمال میں اس (نماز) کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا یا نصف حصہ لکھا جاتا ہے۔‘‘
(سنن ابی داؤد، الصلوۃ، باب ماجاء فی نقصان الصلوۃ، ۰۹۷۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند نماز ادا کرنا اس وقت ممکن ہے جب ہمیں تفصیل کے ساتھ آپ کی نماز کی کیفیت معلوم ہو اور ہمیں نماز کے واجبات، آداب، ہیئات اور ادعیہ و اذکار کا علم ہو۔ پھر اس کے مطابق نماز ادا کرنے کی کوشش بھی کریں تو ہم امید رکھتے ہیں کہ پھر ہماری نماز بھی اسی نوعیت کی ہو گی جو بے حیائی اور منکر باتوں سے روکتی ہے اور ہمارے نامۂ اعمال میں وہ اجر و ثواب لکھا جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ (صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)

یہاں یہ ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ایمان باﷲ تمام اعمال صالحہ کی اصل ہے۔ اگر الله پر صحیح ایمان نہیں تو تمام اعمال بے کار، لغو اور بے سود ہیں۔ الله پر صحیح ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو یکتا، بے مثل اور بے مثال مانا جائے۔ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح توحید کے بغیر نجات ممکن نہیں اسی طرح شرک کی موجودگی میں نجات ناممکن ہے۔ الله فرماتا ہے:
(الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ (الانعام:۲۸)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا تو ایسے ہی لوگوں کے لیے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق (آیت بالا میں) ظلم سے مراد شرک ہے۔ (بخاری، الایمان، باب ظلم دون ظلم، حدیث۲۳، مسلم ۴۲۱.)
اس سے ثابت ہوا کہ بعض لوگ ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:
(وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ) (یوسف:۶۰۱)
’’اور بہت سے لوگ الله پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں۔‘‘
لہٰذا نماز کی قبولیت کے لیے شرط اول یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ذات و صفات میں یکتا مانا جائے اور تسلیم کیا جائے کہ الله کی نہ بیوی ہے اور نہ ہی اولاد۔ کوئی الله کے نور کا ٹکڑا ’’نور من نور الله‘‘ نہیں۔ الله کا کسی انسان میں اتر آنے کا عقیدہ، حلول، وحدت الوجود اور وحدت الشہود کھلا شرک ہے۔ یہ بھی مانا جائے کہ کائنات کے تمام امور صرف اللہ تعالی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ عزت و ذلت اسی کے پاس ہے۔ ہر نیک و بد کا وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے، نفع و نقصان کا مالک بھی وہی ہے، اور الله کے مقابلہ میں کسی کو ذرا سا بھی اختیار نہیں۔ ہر چیز پر اسی کی حکومت ہے اور کوئی الله کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ صرف اللہ تعالی ہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے علاوہ ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ یہ بھی صرف اللہ تعالی کا حق ہے کہ وہ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ یعنی دین نازل کرے کیونکہ حلال و حرام کا تعین کرنا اور دین سازی اسی کا حق ہے بلکہ حقیقی اطاعت صرف الله ہی کے لیے ہے۔ چونکہ اللہ تعالی نے یہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمارے پاس بھیجا، لہٰذا آج اللہ تعالی کی اطاعت کا واحد ذریعہ وہ احکام ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام اور ان کے ذریعے پوری امت تک پہنچائے۔ اور ائمہ حدیث رحمھم اللہ نے انہیں کتب احادیث میں جمع کر دیا۔
کتاب و سنت کی بجائے کسی مرشد، پیر یا امام کے نام پر فرقہ بندی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور کسی پارلیمنٹ کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کے تمام معاملات پر مشتمل ایسے تعزیراتی، مالیاتی، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور بین الاقوامی قوانین بنائے جو الله کے نازل کردہ احکام کے مطابق نہ ہوں۔ نماز کی ادائیگی سے قبل ان عقائد پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کیونکہ الله کی بارگاہ میں کسی عمل کی قبولیت کا انحصار بالترتیب تین چیزوں پر ہے:
۱۔ عقیدہ کی درستگی
۲۔ نیت کی درستگی
۳۔ عمل کی درستگی
ان میں سے کسی ایک میں خلل واقع ہونے سے سارا عمل مردود ہو جاتا ہے۔ اور یاد رہے کہ کتاب الله، سنت ثابتہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مجموعی طرز عمل اور اجماع امت ہی وہ کسوٹی ہے جس پر کسی عقیدہ یا عمل کی صحت کو پرکھا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ’’تجدید ایمان‘‘ کا مطالعہ کیجیے جس میں، میں نے عقیدہ سے متعلق آیات و احادیث جمع کی ہیں۔
الحمد للہ نماز نبوی کی ترتیب میں کوشش کی گئی ہے کہ احادیث صحیحہ سے مدد لی جائے۔ اس سلسلہ میں ’’القول المقبول فی تخریج صلاۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ جو کہ حکیم محمد صادق سیالکوٹی کی کتاب ’’صلٰوۃ الرسول‘‘ پر عبد الروؤف سندھو فاضل مدینہ یونیورسٹی کی تحقیق و تخریج ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور جن دوستوں نے اس کتاب کی ترتیب و تزئین میں تعاون کیا ہے ان تمام معاونین کی اخروی نجات کا ذریعہ بنائے۔ خصوصاً عبدالرشید صاحب (ناظم ادارہ علوم اسلامیہ، سمن آباد، جھنگ) کو اللہ تعالی جزائے خیر دے جنہوں نے اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کر پوری کتاب کا مطالعہ کیا اور بعض مقامات پر اصلاح فرمائی۔ آمین
میں حافظ عبد العظیم اسد صاحب دارالسلام لاہور کا خصوصی طور پر مشکور ہوں جنہوں نے دارالسلام سے اس کتاب کی اشاعت کی اور الشیخ حافظ زبیر علی زئی سے اس کی تخریج کروائی۔ الشیخ زبیر علی زئی صاحب جید اہل حدیث عالم ہیں۔ انہیں روایات کی اسناد پر خصوصی مہارت حاصل ہے انہوں نے دار السلام کی شائع کردہ ایڈیشن میں موجود احادیث کی صحت کی ذمہ داری قبول فرمائی۔ اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے ۔
اس کے علاوہ شیخ عبد الصمد رفیقی صاحب سمیت علماء کرام کی ایک جماعت نے کتاب کی تصحیح و تنقیح کی۔ ان کے قیمتی حاشیہ سے کتاب بہت زیادہ مفید و مقبول ہو گئی۔ اللہ تعالی ان علماء کرام کو بھی جزائے خیر دے ۔ آمین
اور ان تمام دوستوں کو جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں مدد کی ہے اللہ تعالی انہیں دین و دنیا میں حسنہ عطا فرمائے۔ ان کو جزائے خیر دے اور ان کی یہ محنت قبول فرمائے اور ہم سب کو عقیدہ صحیحہ اپنانے اور سنت کے مطابق اعمال کرنے کی توفیق دے۔ آمین
نوٹ:۔۔۔ احادیث نمبر مکتبہ دار السلام اور بیت الافکار الدولیہ کی شائع کردہ کتبِ احادیث کے مطابق ہیں ۔ حاشیہ میں ع،ر سے مراد الشیخ عبدالصمد رفیقی اور ص،ی سے مراد الشیخ صلاح الدین یوسف اور ز،ع سے مراد زبیر علی زئی ہیں۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
سید شفیق الرحمن
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مقدمۃ التحقیق

قارئین کرام!
نماز، دین کا انتہائی اہم رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن مجید اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ تمام مسلمانوں کا نماز کے فرض عین ہونے پر اجماع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا:
’’پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘
(بخاری کتاب الزکوٰۃ باب وجوب الزکوٰۃ: ۵۹۳۱، مسلم: ۹۱.)
اور یہ بھی فرمایا:
’’تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘
(بخاری، ۱۳۶.)
نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ائمہ مسلمین نے نماز کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ مثلاً ابو نعیم الفضل بن دکین رحمہ اللہ (متوفی218ھ)۔ علاوہ ازیں عصر حاضر میں بھی اردو اور علاقائی زبانوں میں متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ مگر عصر حاضر کی ان کتب میں ضعیف بلکہ موضوع (من گھڑت) روایات بھی موجود ہیں۔
جناب ڈاکٹر سید شفیق الرحمن صاحب نے عوام و خواص کے لیے عام فہم اردو میں ’’نماز نبوی‘‘ کے نام سے کتاب مرتب کی ہے ۔ جس میں انہوں نے کوشش کی ہے کہ کوئی ضعیف حدیث شامل نہ ہونے پائے۔ راقم نے بھی تحقیق و تخریج کے دوران اس بات کی بھر پور سعی کی ہے کہ اس میں صرف مقبول احادیث کو لایا جائے اب میری معلومات کے مطابق اس میں کوئی ضعیف روایت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ انسان غلطی اور خطا کا پتلا ہے لہٰذا اہل علم سے درخواست ہے کہ اگر کسی حدیث کی علت پر مطلع ہوں تو راقم کو آگاہ کریں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تلافی کی جا سکے۔
ابو طاہر حافظ زبیر علی زئی محمدی
فارغ التحصیل جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ، وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد
ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات (پنجاب یونیورسٹی)
رابطہ: حافظ زبیر علی زئی بمقام حضرو ضلع اٹک
(رحمہ اللہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خطبہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم
إن الحمد لله نستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور انفسنا وسيئات اعمالنا، فمن يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، واشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله، أما بعد، فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهديِ هديُ محمد، وشر الأمور محدَثاتها، وكل بدعة ضلالة
(مسلم: الجمعۃ، باب: تخفیف الصلاۃ والخطبۃ، حدیث: ۸۶۸ و۷۶۸ ترمذی ۵۰۱۱.)
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء: ۱)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (آل عمران: ۲۰۱)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٧١﴾ (الأحزاب)
’’بلا شبہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور ہم اس سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اور نفس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ اپنے در سے دھتکار دے اس کے لیے کوئی رہبر نہیں ہو سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود بر حق صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
’’حمد وصلاۃ کے بعد یقیناً تمام باتوں سے بہتر بات اللہ کی بات ہے اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور تمام کاموں سے بد ترین کام وہ ہیں جو (اللہ کے دین میں) اپنی طرف سے نکالے جائیں اور ہر بدعت (دین میں نیا کام) گمراہی ہے۔‘‘
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور (پھر) اس جان سے اس کی بیوی کو بنایا اور (پھر) ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں اور انہیں (زمین پر) پھیلایا، اللہ سے ڈرتے رہو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں (کو قطع کرنے) سے ڈرو بیشک اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔‘‘
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ ئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ایسی بات کہو جو محکم (سیدھی اور سچی) ہو، اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘
(دارمی: النکاح، باب: فی خطبۃ النکاح، حدیث: ۸۹۱۲.)


تنبیہات:
۱۔ مسلم، سنن نسائی اور مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں خطبہ کا آغاز (إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ) سے ہے لہٰذا (الْحَمْدُ لِلّٰہِ) کی بجائے (إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ) کہنا چاہیے۔
۲۔ (نُؤْمِنُ بِہِ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ) کے الفاظ صحیح احادیث میں موجود نہیں ہیں۔
۳۔ احادیث صحیحہ میں (نَشْہَدُ) جمع کا صیغہ نہیں بلکہ (أَشْہَدُ) واحد کا صیغہ ہے۔
۴۔ یہ خطبہ نکاح، جمعہ اور عام وعظ و ارشاد، درس وتدریس کے موقع پر پڑھا جاتا ہے، اسے خطبۂ حاجت کہتے ہیں، اسے پڑھ کر آدمی اپنی حاجت اور ضرورت بیان کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کتاب و سنت کی اتباع کا حکم
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (المائدہ ۵:۳)
’’(اے مسلمانوں) آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا ہے۔‘‘
یہ آیت 9 ذوالحجۃ 10 ہجری کے دن میدان عرفات میں نازل ہوئی۔ اس کے نازل ہونے کے تین ماہ بعد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل اور اکمل دین امت کو سونپ کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور امت کو وصیت فرما گئے:
’’میں تمہارے اندر ایسی دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہو گے یعنی الله کی کتاب اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، موطا امام مالک:۲/۹۹۸، القدر، باب النھی عن القول بالقدر، حاکم (۱/۳۹)۔ ابن حزم نے اسے صحیح کہا۔)
معلوم ہوا کہ اسلام کتاب و سنت میں محدود ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسئلہ و فتویٰ صرف وہی صحیح اور قابل عمل ہے جو قرآن و سنت کے ساتھ مدلل ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’میری تمام امت جنت میں داخل ہو گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ عرض کیا گیا (اے ﷲ کے رسول) انکار کرنے والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا۔‘‘
(بخاری: الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول اللهحدیث ۰۸۲۷.)
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور مؤثر نصیحت فرمائی۔ وعظ سن کر ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور دل دہل گئے۔ ایک شخص نے کہا: اے ﷲ کے رسول! یہ وعظ تو ایسا ہے جیسے کسی رخصت کرنے والے کا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں خاص وصیت کیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ﷲ سے ڈرتے رہنا اور اپنے (امیر کی جائز بات) سننا اور ماننا اگرچہ (تمہارا امیر) حبشی غلام ہی ہو۔ میرے بعد جو تم میں زندہ رہے گا وہ سخت اختلاف دیکھے گا۔ اس وقت تم میری سنت اور خلفائے راشدین کا طریقہ لازم پکڑنا اسے دانتوں سے مظبوط پکڑے رہنا اور (دین کے اندر) نئے نئے کاموں (اور طریقوں) سے بچنا۔ بیشک ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
(سنن ابی داؤد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، ۷۰۶۴ و سنن ترمذی، العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدعہ حدیث ۶۷۶۲.)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ کوئی بدعت حسنہ نہیں۔
سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’ہر بدعت گمراہی ہے خواہ لوگ اسے نیکی سمجھیں۔‘‘
(السنۃ، لمحمد بن نصر المروزی ص۲۸، شرح الاصول للالکائی ۱/۲۹.)
امام مالک رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا:
’’جس شخص نے اسلام میں نیکی سمجھ کر کوئی نئی چیز ایجاد کی تو اس نے گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت میں خیانت سے کام لیا (نعوذ بالله) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو چیز دین نہ تھی و ہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔‘‘
(الاعتصام للشاطبی۱/۹۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حدیث کے معاملہ میں چھان بین اور احتیاط:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ) (النحل: ۴۴)
’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں پر ان تعلیمات کو واضح کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یاد رکھو مجھے قرآن مجید اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز (سنت) دی گئی ہے۔‘‘
(ابو داؤد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، ۴۰۶۴ ابن حبان (۷۹) نے صحیح کہا۔)
اور جس طرح اللہ تعالی نے اپنی اطاعت کو فرض کیا ہے اسی طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی لازم قرار دیا ہے ۔ فرمایا:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ)(محمد:۳۳)
’’اے اہل ایمان! ﷲ کی اطاعت کرو اور (اس کے) رسول کی اطاعت کرو۔ اور (اس اطاعت سے ہٹ کر) اپنے اعمال کو باطل نہ کرو‘‘
معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی طرح سنت نبوی بھی شرعی دلیل اور حجت ہے مگر سنت سے دلیل لینے سے قبل اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ آیا وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آخری زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تمہیں ایسی ایسی احادیث سنائیں گے جنہیں تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے نہیں سنا ہو گا۔ لہٰذا ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال دیں۔‘‘
(مسلم، المقدمہ، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحملھا، ۷.)
مزید فرمایا:
’’جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولے اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنالے۔‘‘
(بخاری، العلم، باب اثم من کذب علی النبی، ۸۰۱، مسلم ۲.)
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے (بات) پہنچا دینے کا حکم دینے کے بعد اپنی ذات پاک پر جھوٹ بولنے والے کو آگ کی وعید سنائی لہٰذا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے ضعیف کی بجائے صحیح اور باطل کی بجائے حق کے پہنچا دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس چیز کے پہنچا دینے کا جس کی نسبت آپ کی طرف کر دی گئی۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے‘‘
(مسلم، المقدمہ۔ باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع حدیث ۵.)
امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابن سیرین، ابراہیم نخعی، طاؤس اور دیگر تابعین رحمھم اللہ کا یہ مذہب ہے کہ حدیث صرف ثقہ سے ہی لی جائے گی اور محدثین میں سے میں نے کسی کو اس مذہب کا مخالف نہیں پایا۔‘‘ (التمھید لابن عبد البر)
متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت ہے کہ وہ حدیث کے بیان کرنے میں انتہائی احتیاط برتا کرتے تھے۔
ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے سے محض اس لیے گریز کیا کہیں ایسا نہ ہو کہ حدیث میں زیادتی یا کمی ہو جائے اور وہ آپ کے اس فرمان (جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے اس کا ٹھکانا آگ ہے) کے مصداق قرار پائیں۔‘‘
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو شخص ضعیف حدیث کے ضعف کو جاننے کے باوجود اس ضعف کو بیان نہیں کرتا تو وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گناہ گار اور عوام الناس کو دھوکا دیتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی بیان کردہ احادیث کو سننے والا ان سب پر یا ان میں سے بعض پر عمل کرے اور ممکن ہے کہ وہ سب احادیث یا بعض احادیث اکاذیب (جھوٹ) ہوں اور ان کی کوئی اصل نہ ہو جبکہ صحیح احادیث اس قدر ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ضعیف احادیث کی ضرورت ہی نہیں بہت سے لوگ ضعیف اور مجہول اسانید والی احادیث کو جاننے کے باوجود بیان کرتے ہیں محض اس لیے کہ عوام الناس میں ان کی شہرت ہو اور یہ کہا جائے کہ ’’ان کے پاس بہت احادیث ہیں اور اس نے بہت کتابیں تالیف کر دی ہیں‘‘ جو شخص علم کے معاملے میں اس روش کو اختیار کرتا ہے اس کے لیے علم میں کچھ حصہ نہیں اور اسے عالم کہنے کی بجائے جاہل کہنا زیادہ مناسب ہے۔‘‘
(مقدمہ صحیح مسلم ۱/۷۷۱ ۔۹۷۱.)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ضعیف حدیث سے واجب یا مستحب عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے اس نے اجماع کی مخالفت کی۔‘‘
(التوسل والوسیلہ)
یحییٰ بن معین، ابن حزم اور ابو بکر ابن العربی رحمھم اللہ کے نزدیک فضائل اعمال میں بھی صرف مقبول احادیث ہی قابل استدلال ہیں۔ (قواعد التحدیث)
شیخ احمد شاکر، شیخ البانی اور شیخ محمد محی الدین عبد الحمید اور دیگر محققین کا مؤقف بھی یہی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’محققین محدثین اور ائمہ رحمھم اللہ کا کہنا ہے کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یا آپ نے کیا ہے، یا آپ نے کرنے کا حکم دیا ہے، یا منع کیا ہے، اور یہ اس لیے کہ جزم کے صیغے روایت کی صحت کا تقاضا کرتے ہیں لہٰذا ان کا اطلاق اسی روایت پر کیا جانا چاہیے جو ثابت ہو ورنہ انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والے کی مانند ہو گا مگر (افسوس کہ) اس اصول کو جمہور فقہاء اور دیگر اہل علم نے ملحوظ نہیں رکھا، سوائے محققین محدثین کے اور یہ قبیح قسم کا تساہل ہے کیونکہ وہ (علماء) بہت سی صحیح روایات کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ ’’ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی‘‘ اور بہت سے ضعیف روایات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’آپ نے فرمایا‘‘ ’’اسے فلاں نے روایت کیا ہے‘‘ اور یہ صحیح طریقے سے ہٹ جانا ہے۔ (مقدمہ المجموع)
معلوم ہوا کہ صحیح اور ضعیف روایات کی پہچان اور ان میں تمیز کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیر ثابت شدہ حدیث کی نسبت کرنے سے بچا جاسکے۔ علاوہ ازیں عملا جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے مفاد پرست علماء سوء صرف فضائل ہی نہیں بلکہ عقائد و اعمال کو بھی مردود بلکہ موضوع (من گھڑت) روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ’’اول تو یہ احادیث بالکل صحیح ہیں اگر کوئی حدیث ضعیف ہوئی تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بالاتفاق قابل قبول ہوتی ہے۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ دین اسلام کا اصل محافظ اللہ تعالی ہے لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ دین الٰہی کی کوئی بات مروی نہ ہو یا مروی تو ہو مگر اس کی تمام روایات ضعیف (حسن لغیرہ سے کمتر) ہوں، اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک چیز دین الہی نہ ہو مگر مقبول احادیث کے ذخیرے میں موجود ہو۔ دوسرے الفاظ میں جو اصل دین ہے وہ مقبول روایات میں موجود ہے۔ اور جو دین نہیں ہے ان روایات پر موثر جرح موجود ہے ان حقائق کے پیش نظر ضروری ہے کہ ضعیف حدیث سے استدلال کا دروازہ بند رہنے دیا جائے۔ واﷲ أعلم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
طہارت کا بیان

نماز کے لیے وضو شرط ہے۔ وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح وضو کے لیے پانی کا پاک ہونا شرط ہے۔

کنویں اور دریا کا پانی پاک:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا:
’’کیا ہم بضاعہ کے کنویں سے وضو کر سکتے ہیں؟‘‘ یہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں بدبو دار چیزیں پھینکی جاتی ہیں۔ (بضاعہ کا کنواں ڈھلوان پر تھا اور بارش وغیرہ کا پانی ان چیزوں کو بہا کر کنویں میں لے جاتا تھا)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْمَآءُ طَہُوْرٌ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْءٌ.))
’’پانی پاک ہے (اور اس میں دوسری چیزوں کو پاک کرنے کی صلاحیت ہے) اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ باب ما جاء فی بئر بضاعۃ حدیث ۶۶ ترمذی، الطھارۃ، باب ما جاء ان الماء لا ینجسہ شئی (حدیث۶۶) اسے ترمذی نے حسن جبکہ امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، ابن حزم، نووی نے صحیح کہا)
معلوم ہوا کہ کنوئیں کا پانی پاک ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دریائی اور سمندری پانی پاک کرنے والا ہے۔ اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب الوضوء بماء البحر، حدیث ۳۸۔ ترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی ماء البحرانہ طھور، حدیث ۹۶، اس حدیث کو ترمذی، حاکم (۱/۰۴۱۔۱۴۱)، امام ذہبی اور نووی (المجموع ۱/۲۸) نے صحیح کہا۔)

کھڑے پانی کے احکام:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جنبی ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے‘‘
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ پھر وہ کیا کرے؟
فرمایا: ضرورت کا پانی لے کر (باہر غسل) کرے۔
(مسلم الطھارۃ، باب النھی عن الاغتسال فی الماء الراکد: ۳۸۲.)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے اور پھر غسل کرنے سے منع فرمایا۔
(بخاری، الوضوء، باب البول فی الماء الدائم، حدیث ۹۳۲، مسلم ۲۸۲.)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے اور پھر اس سے وضو کرنے سے منع فرمایا۔
(ترمذی، الطھارۃ، باب کراھیۃ البول فی الماء الراکد، حدیث ۸۶، اسے ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے۔ اس کے رجال متفق علیہ ہیں دیکھئے صحیفہ ہمام بن منبہ۔)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہانے کی جگہ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔
(ابو داؤد ،البول فی المستحم،۸۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
رفع حاجت کے آداب

بیت الخلا میں جاتے اور نکلتے وقت کی دعا:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کے لیے بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو فرماتے:
((اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَآءِثِ))
’’اے ﷲ! تحقیق میں تیری پناہ پکڑتا ہوں نر اور مادہ ناپاک جنوں (کے شر) سے۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب ما یقول عند الخلاء ۲۴۱۔ مسلم، الحیض، باب ما یقول اذا اراد دخول الخلاء ۵۷۳.)

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بیت الخلا جنوں اور شیطانوں کے حاضر ہونے کی جگہ ہے جب تم بیت الخلا میں جانے کا ارادہ کرو تو کہو:
((اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَآءِثِ))
’’میں ﷲ کی پناہ لیتا ہوں، نر اور مادہ خبیث جنوں (کے شر) سے۔‘‘
(ابو داؤد: ۶، ابن ماجہ: ۶۹۲، ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)

ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا سے نکلتے تو فرماتے:
((غُفْرَانَکَ))
’’اے ﷲ میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوں۔‘‘
(ابو داود، الطھارۃ باب ما یقول الرجل اذا خرج من الخلاء، ۰۳ ترمذی ۷۔ اس کو حاکم، (۱/۸۵۱) ذہبی اور نووی نے صحیح کہا۔)

قضائے حاجت کے وقت قبلہ کو منہ یا پیٹھ کرنا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے بیت الخلا میں قبلے کی طرف پیٹھ کی نہ اس کی طرف منہ کیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۹۰۱.)

سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم قضاء حاجت کو آؤ تو قبلے کی طرف منہ کرو نہ پیٹھ۔‘‘
(بخاری، الصلوۃ، باب قبلۃ أہل المدینۃ وأھل الشام والمشرق، ۴۹۳۔ مسلم، الطھارۃ، ۴۶۲)
صحرا اور کھلی فضا میں قبلہ کی طر ف منہ یا پیٹھ کرنے کی ممانعت پر امت کا اتفاق ہے۔ البتہ اگر کمرہ یا اوٹ ہو تو بعض علماء نے قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے کی رخصت دی ہے۔
جیسا کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں سیدہ حٖفصہ کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف سے پشت کر کے قضائے حاجت کرتے ہوئے دیکھا۔
(بخاری، الوضوء، من تبرز علی لبنتین،۵۴۱۔ مسلم، الطہارہ، الاستطابۃ،۶۶۲.)

مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو کوئی مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا کرے وہ طاق ڈھیلے لے۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب الاستجمار وترا، ۲۶۱، مسلم ۷۳۲.)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین (ڈھیلوں) سے استنجا کرنے کا حکم دیا۔
(ابو داود، الطھارۃ، باب کراھیۃ استقبال القبلۃ عند قضاء الحاجۃ، ۸ وسنن نسائی (۰۴) اسے امام دار قطنی اور نووی نے صحیح کہا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ڈھیلوں سے کم کے ساتھ استنجاء کرنے سے اور گوبر اور ہڈی کے ساتھ استنجا کرنے سے منع فرمایا۔
(مسلم، الطھارۃ، باب الاستطابۃ، حدیث ۲۶۲.)

پانی کے ساتھ استنجا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے ساتھ استنجا فرماتے تھے۔
(بخاری، الوضوء، باب الاستنجاء بالماء، ۰۵۱ ومسلم، الطھارۃ، باب الاستنجاء بالماء من التبرز، ۰۷۲.)

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: (فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ أَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُ الْمُطَّہِّرِیْنَ) (ان میں ایسے مرد ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ خوب پاک رہیں، اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے انصار! اللہ تعالیٰ نے پاکیزگی کی وجہ سے تمہاری تعریف کی ہے، تم کیسے طہارت کرتے ہو؟‘‘
انہوں نے کہا کہ ہم ہر نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، جنابت کا غسل کرتے ہیں اور پانی کے ساتھ استنجا کرتے ہیں۔
(ابن ماجہ الطھارۃ باب الاستنجاء بالماء: ۵۵۳.)

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صحابیات کو فرماتی ہیں کہ اپنے شوہروں کو پانی کے ساتھ استنجا کرنے کا حکم دو بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے۔
(ابو داؤد، کیف التکشف عند الحاجۃ، ۴۱.)

قضائے حاجت کے وقت چھپنا:
سیدنا عبد اللہ بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت کے وقت چھپنے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ پسند تھی وہ زمین سے بلند جگہ یا کھجور کے درختوں کا جھنڈ تھا۔
(ترمذی، الطہارۃ، الاستنجاء بالماء،۹۱.)

سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کا اردہ فرماتے تو زمین کے قریب ہو نے سے پہلے اپنا کپڑا نہیں اٹھاتے تھے۔
(مسلم، الحیض، ما یستتر بہ لقضاء الحاجۃ، ۲۴۳.)
ان روایات سے واضح ہے کہ قضائے حاجت کے وقت چھپنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کو جاتے تو (اتنی دور جا کر) بیٹھتے کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکتا۔
(ابو داؤد الطہارۃ، باب التخلی عند قضاء الحاجۃ، حدیث ۱ و ۲.)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب دو آدمی قضائے حاجت کے لیے بیٹھیں تو ایک دوسرے سے چھپ کر بیٹھیں اور آپس میں گفتگو نہ کریں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو تا ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۰۲۱۳.)

بیٹھ کر پیشاب کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے جیسا کہ اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’جو شخص تمہیں بیان کرے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے اس کو سچا نہ جانو، آپ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔‘‘
(ترمذی: الطہارۃ، باب: النہی عن البول قائماً: ۲۱.)
اگرچہ کسی عذر کی بنا پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی گنجائش بھی ہے۔

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قوم کے کوڑے کرکٹ کی جگہ پر آئے اور آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔‘‘
(بخاری: الوضوء، باب: البول قائماً وقاعداً: ۴۲۲، مسلم: ۳۷۲.)

پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کی سخت تاکید:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا:
’’ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور باعث عذاب کوئی بڑی چیز نہیں (پھر فرمایا) کیوں نہیں بے شک وہ کبیرہ گناہ ہے۔ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من الکبائر ان لایستتر من بولہ، حدیث ۶۱۲ ومسلم، ۲۹۲.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کے چھینٹوں سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے، اپنے کپڑوں کو نہیں بچاتے، پیشاب کر کے استنجا کئے بغیر فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاجامے، پتلون اور جسم وغیرہ پیشاب سے آلودہ ہو جاتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیشاب سے نہ بچنا باعث عذاب اور گناہ ہے۔

رفع حاجت کے احکام:
۱۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دو لعنت کا سبب بننے والے کاموں سے بچو۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا، وہ کیا ہیں۔
آپ نے فرمایا:
’’لوگوں کے راستے میں اور سایہ دار درختوں کے نیچے رفع حاجت کرنا۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ، باب النھی عن التخلی فی الطرق والظلال۔ ۹۶۲.)

۲۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی پیشاب کرتے ہوئے دائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو نہ پکڑے اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔‘‘
(بخاری الوضوء، باب النھی عن الاستنجاء بالیمین، ۳۵۱، ۴۵۱۔ مسلم، الطھارۃ باب النھی عن الاستنجاء بالیمین ۷۶۲.)

۳۔ سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔
(مسلم، الحیض، باب التیمم، ۰۷۳.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رفع حاجت کی حالت میں کلام کرنا صحیح نہیں ہے۔

۴۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا جاتے میں ایک برتن میں پانی لاتا آپ اس سے استنجا کیا کرتے تھے پھر اپنا ہاتھ زمین پر ملتے پھر ایک اور برتن میں پانی لاتا جس سے آپ وضو کیا کرتے تھے۔‘‘
(أبو داود: الطھارۃ، باب: الرجل یدلک یدہ بالأرض إذا استنجی: ۵۴ ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
اور طہارت کے بعد ہاتھ کو مٹی یا صابن سے دھونا چاہیے تا کہ ہاتھ میں بدبو نہ رہے۔
معلوم ہوا کہ استنجا اور وضو کا برتن علیحدہ ہونا چاہیے (ع، ر)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نجاستوں کی تطہیر کا بیان

ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کر دیا اور لوگ اس کے پیچھے پڑ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:
’’اسے چھوڑ دو اور (جگہ کو پاک کرنے کے لیے) اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب صب الماء علی البول فی المسجد، ۱۲۲ و مسلم، الطھارۃ، باب وجوب غسل البول و غیرہ من النجاسات اذا حصلت فی المسجد، ۴۸۲.)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلا کر فرمایا:
’’مسجد پیشاب اور گندگی کے لیے نہیں بلکہ ﷲ کے ذکر، نماز اور قرآن پڑھنے کے لیے (ہوتی) ہیں۔‘‘
(ابن ماجۃ، الطھارۃ، باب الارض یصیبھا البول کیف تغسل، ۹۲۵.)

حیض آلود کپڑا:
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جس کپڑے کو حیض (ماہواری) کا خون لگ جائے تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اسے چٹکیوں سے مل کر پانی سے دھو ڈالنا چاہیے اور پھر اس میں نماز ادا کر لی جائے۔‘‘
(بخاری، الوضوء باب غسل الدم، ۷۲۲، مسلم، الطھارۃ باب نجاسۃ الدم و کیفیۃ غسلہ، ۱۹۲.)
منی کا دھونا:
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی اور آپ اس کپڑے میں نماز پڑھنے تشریف لے جاتے تھے اور دھونے کا نشان کپڑے پر ہوتا تھا۔
(بخاری، الوضوء باب غسل المنی و فرکہ، ۹۲۲، ومسلم، الطھارۃ باب حکم المنی: ۹۸۲.)

شیر خوار بچے کا پیشاب:
سیدہ ام قیس رضی اللہ عنہا اپنے چھوٹے (شیر خوار) بچے کو جو کھانا نہیں کھاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائیں اور آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ بچے نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوا کر کپڑے پر چھینٹے مارے اور اسے دھویا نہیں۔
(بخاری، الوضوء، باب بول الصبیان، ۳۲۲، ومسلم، الطھارۃ، باب حکم بول الطفل الرضیع، ۷۸۲.)
سیدہ لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا (جو ابھی شیر خوار ہی تھے) میں نے عرض کیا: کوئی اور کپڑا پہن لیں اور تہ بند مجھے دے دیں تاکہ میں اسے دھو دوں، تو آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جاتے ہیں۔"
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب بول الصبی یصیب الثوب، ۵۷۳۔ ابن ماجہ، الطھارۃ باب ماجاء فی بول الصبی الذی لم یطعم، ۲۲۵۔ اسے ابن خزیمہ (۲۸۲) حاکم (۱/۶۶۱) اور ذہبی نے صحیح کہا۔)

کتے کا جوٹھا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کتا کسی کے برتن میں پانی (وغیرہ) پی لے تو برتن کو سات بار پانی سے دھوئے اور پہلی بار مٹی سے مانجھے۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ، باب حکم و لوغ الکلب ۱۹۔(۹۷۲).)

مردار کا چمڑا:
ایک بکری مر گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے اور پوچھا کہ تم نے اس کا چمڑہ اتار کر رنگ کیوں نہیں لیا تاکہ اس سے فائدہ اٹھاتے؟ لوگوں نے کہا وہ تو مردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اس کا صرف کھانا حرام ہے۔"
(بخاری، البیوع، باب جلود المیتۃ قبل ان تدبغ، ۱۲۲۲، مسلم الحیض، باب طھارۃ جلود المیتۃ بالدباغ، ۳۶۳.)

ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہماری بکری مر گئی۔ ہم نے اس کے چمڑے کو رنگ کر مشک بنا لی۔ پھر ہم اس میں نبیذ (کھجور کا مشروب) ڈالتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی ہو گئی۔
(بخاری، الایمان والنذور، باب اذا حلف ان لا یشرب نبیذا ۶۸۶۶.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ بکری کا چمڑا اتار کر استعمال کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
’’مردار کا چمڑا دباغت دینے (مسالے کے ساتھ رنگنے) سے پاک ہو جاتا ہے۔‘‘
(ابو داود، اللباس، باب فی أھب المیتۃ، ۵۲۱۴، اسے ابن السکن اور حاکم نے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال استعمال کرنے سے منع فرمایا۔
(ابو داود، اللباس، باب فی جلود النمور، ۲۳۱۴۔ ترمذی، اللباس، باب ما جاء فی النھی عن جلود السباع، ۱۷۷۱۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا)

بلی کا جوٹھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بلی کا جوٹھا نجس نہیں ہے۔‘‘
(ابو داود، الطھارۃ، باب سور الھرۃ، ۵۷۔ ترمذی الطھارۃ، باب ماجاء فی سور الھرۃ، ۲۹۔ اسے ترمذی، حاکم، ذہبی اور نووی نے صحیح کہا۔)
 
Top