• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جنابت کے احکام

مندرجہ ذیل حالتوں میں مسلمان مرد اور عورت پر غسل کرنا فرض ہو جاتا ہے:
۱۔ جوش کے ساتھ منی خارج ہونے کے بعد۔ (اس میں احتلام بھی داخل ہے)
۲۔ صحبت کے بعد۔
۳۔ حیض کے بعد۔
۴۔ نفاس کے بعد (وہ خون جو بچے کی پیدائش پر جاری ہوتا ہے)

صحبت اور غسل جنابت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان غسل جنابت کا ایک مسئلہ زیر بحث آیا۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ غسل صرف دخول پر فرض ہو جاتا ہے انزال شرط نہیں۔ دوسرا گروہ بیان کرتا تھا کہ وجوب غسل کے لیے دخول کے ساتھ انزال بھی شرط ہے۔ سیّدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مرد، عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ جائے اور اس کا محل ختنہ عورت کے محل ختنہ کے ساتھ مس کرے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب نسخ (الماء من الماء) ووجوب الغسل بالتقاء الختانین، ۹۴۳.)
مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ صرف شرمگاہوں کے ملنے پر ہی مرد اور عورت جنبی ہو جاتے ہیں اور ان پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ انزال شرط نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھ کر صحبت کرو تو تم پر غسل واجب ہو گیا۔ اگرچہ منی نہ نکلے۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا التقی الختانان، ۱۹۲، مسلم، الحیض، ۷۸(۸۴۳).)

عورت بھی محتلم ہوتی ہے:
ام المومنین سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، اے ﷲ کے رسول! یقیناً اﷲ حق سے نہیں شرماتا (میں بھی آپ سے مسئلہ پوچھتی ہوں) کیا عورت پر غسل ہے جب کہ اس کو احتلام ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ لیکن جب پانی (منی کا نشان) دیکھے‘‘ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا۔ اے ﷲ کے رسول! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں (ہوتا ہے) تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب اذا احتلمت المراۃ، ۲۸۲۔ ومسلم، الحیض، باب وجوب الغسل علی المراۃ بخروج المنی منھا، ۳۱۳.)
اس میں آخری جملہ بددعا نہیں، محض ایک محاورہ ہے، مراد تنبیہ کرنا ہوتا ہے۔ (ع، ر)

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو تری کو تو دیکھتا ہے لیکن اسے احتلام کی کیفیت یاد نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ غسل کرے گا پھر ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جسے یہ احساس ہے کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن منی کا کوئی نشان نہیں پاتا تو آپ نے فرمایا اس پر کوئی غسل نہیں۔
(ابو داؤد، الطھارۃ الرجل یجد البلۃ فی منامہ، ۶۳۲.)
معلوم ہوا کہ عورت یا مرد نیند سے اٹھ کر اگر تری یعنی نشان منی دیکھیں تو (یہ احتلام کی علامت ہے لہٰذا) ان پر غسل کرنا فرض ہو جاتا ہے اور اگر احتلام کی کیفیت انہیں یاد ہو لیکن نشان نہ پائیں تو غسل فرض نہیں ہو گا ایسی صورت میں شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جنبی کے بالوں کا مسئلہ:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے اﷲ کے رسول! میں اپنے سر کے بال خوب مضبوط گوندھتی ہوں۔ کیا میں انہیں غسل جنابت اور غسل حیض کے وقت کھولا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کا کھولنا ضروری نہیں۔ تیرے لیے کافی ہے کہ تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہائے، پس تو پاک ہو جائے گی۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ۸۵۔ ۰۳۳.)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی کہ سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ عورتوں کو غسل جنابت کے لیے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں آپ فرمانے لگیں، ابن عمرو پر تعجب ہے، انہوں نے عورتوں کو تکلیف میں ڈال دیا وہ انہیں سر منڈوانے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے۔ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے اور میں اپنے (بال کھولے بغیر) سر پر تین چلو سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔
(مسلم، الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ، ۱۳۳.)
معلوم ہوا غسل جنابت یا غسل حیض کے لیے بال کھول کر دھونا واجب نہیں البتہ غسل حیض کے لیے بالوں کا کھولنا بہتر ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل حیض کے لیے فرمایا:
’’اپنے بال کھولو اور غسل کرو۔‘‘
(ابن ماجہ، الطھارۃ، باب فی الحائض کیف تغتسل، ۱۴۶بو صیری نے کہا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔)

جنبی کے ساتھ ملنا جلنا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن بحالت جنابت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں آپ کے ساتھ ہو لیا۔ آپ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں چپکے سے نکل گیا اور گھر جا کر غسل کیا پھر واپس آیا۔ آپ ابھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’اے ابوہریرہ! تو کہاں گیا تھا‘‘میں نے سارا حال کہہ سنایا تو آپ نے فرمایا: ’’سبحان اﷲ، تحقیق مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب عرق الجنب، وان المسلم لا ینجس، ۳۸۲ ومسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس، ۱۷۳.)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا، اسکا مطلب یہ ہے کہ مومن حقیقتاً نجس اور پلید نہیں ہوتا۔ جنابت، حکمی نجاست ہے، حسی نہیں یعنی شریعت نے مصلحت کی بنا پر ایک حالت میں حکماً اس پر غسل واجب کیا ہے۔ پس جنبی کے ساتھ ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، اختلاط و ارتباط اور کھانا پینا سب جائز ہے۔

مذی کے خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مذی کثرت سے آتی تھی۔ آپ کو مسئلہ معلوم نہ تھا کہ مذی کے خارج ہونے پر غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اس لیے بالمشافہ دریافت کرتے حجاب آیا تو اپنے دوست سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ مسئلہ دریافت کریں۔ سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ نے فرمایا: ’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ کو دھو لو اور (نماز کے وقت) وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لم یر الوضوء الامن المخر جین من القبل والدبر، حدیث ۸۷۱۔ و مسلم، الحیض، باب المذی، ۳۰۳.)
اور فرمایا: ’’کپڑے پر جہاں مذی لگی ہو ایک چلو پانی لے کر چھڑک لینا کافی ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب فی المذی، ۰۱۲، ترمذی، الطھارۃ، باب فی المذی یصیب الثوب، ۵۱۱، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔)

مذی، منی، ودی کا فرق:
مذی: اس چپکتے ہوئے لیس دار پانی کو کہتے ہیں جو شہوت کے وقت ذکر کے سرے پر نمودار ہوتا ہے۔
منی: عضو مخصوص سے لذت اور جوش کے ساتھ ٹپک کر خارج ہونے والا سفید مادہ ہوتا ہے جس سے انسان پیدا ہوتا ہے اور اس کے خروج سے آدمی پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔
ودی: وہ گاڑھا سفید پانی جو پیشاب سے قبل یا بعد خارج ہوتا ہے۔ اس کے نکلنے پر غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔

سیلان رحم موجب غسل نہیں:
جن عورتوں کو سفید رطوبت یعنی لیکوریا کی شکایت ہوتی ہے اس سے بھی غسل لازم نہیں ہوتا۔ حسب معمول نمازیں ادا کرنی چاہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حیض کے مسائل

حیض اس سیاہی مائل خون کو کہتے ہیں جو بالغہ عورت کے رحم سے ہر ماہ نکلتا ہے۔ عام طور پر اس کی مدت تین سے سات دن تک ہوتی ہے۔

حیض و نفاس کے ایام میں ممنوع اعمال:
۱ ۔ نماز اور روزہ کی ممانعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ رمضان کے روزے رکھتی ہے۔‘‘
(بخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، ۴۰۳۔ مسلم، الایمان، باب بیان نقصان الایمان۹۷.)
ایک عورت معاذۃ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضا تو دیتی ہے، نماز کی نہیں؟ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں حیض آیا کرتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا مگر نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔"
(مسلم، الحیض، باب وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلوۃ، ۵۳۳.)

۲ ۔ حائضہ سے صحبت کرنے کی ممانعت:
حیض کی حالت میں عورت سے مجامعت کرنا سخت گناہ ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
(فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ) (البقرۃ: ۲۲۲)
’’پس (ایام) حیض میں عورتوں سے کنارہ کشی کرو (یعنی صحبت نہ کرو)۔‘‘
اگر کوئی اس گناہ کا مرتکب ہو جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص بحالت حیض اپنی عورت سے صحبت کرے تو اسے چاہیے کہ ایک دینار یا نصف دینار خیرات کرے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ باب اتیان الحائض، ۴۶۲ امام حاکم۱/۱۷۱۔۲۷۱ اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ۔)
دینار ساڑھے چار ماشے سونے کا ہوتا ہے نصف دینار سوا دو ماشے سونا ہوا۔ سونے کی قیمت صدقہ کرے یعنی کسی مستحق کو دے دے اور آئندہ کے لیے توبہ کرے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر حیض کا رنگ سرخ ہے تو ایک دینار اور اگر حیض کا رنگ پیلا ہے تو نصف دینار خیرات کرے۔
(ترمذی الطھارۃ، باب ماجاء فی الکفارۃ فی ذالک: ۷۳۱، ابو داود: ۵۶۲ البانی نے موقوف روایت کو صحیح کہا۔)

۳ ۔ طواف کعبہ کی ممانعت۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو گئی، راستہ میں مجھے حیض شروع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کیا تجھے حیض آ گیا ہے؟" میں نے عرض کیا کہ ہاں! آپ نے فرمایا: ’’یہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے جو اس نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے، پس تم ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتے ہیں سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے، اور وہ تم (حیض سے پاک ہو کر) غسل کرنے کے بعد کرنا۔‘‘
((بخاری: الاضاحی باب الاضحیۃ للمسافر والنساء:۸۴۵۵، مسلم: ۹۱۱۔(۱۱۲۱).)

حیض اور نفاس میں جائز امور
حائضہ کو چھونا اور اس کے ساتھ کھانا جائز ہے:
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب عورت حیض (یعنی ماہواری کا خون) سے ہوتی تو یہودی اس کے ساتھ کھاتے پیتے نہیں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حائضہ سے ہر کام کرو سوائے جماع کے"۔
(مسلم، الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زوجھا۲۰۳.)
یعنی حائضہ سے کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا، اسے چھونا اور بوس وکنار وغیرہ سب باتیں جائز ہیں سوائے مجامعت کے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے (حالت حیض میں) ازار باندھنے کا حکم دیتے، سو میں ازار باندھتی۔ آپ مجھے گلے لگاتے تھے اور میں حیض والی ہوتی تھی۔"
(بخاری، الحیض، باب مباشرۃ الحائض، حدیث ۰۰۳، ومسلم، الحیض، باب مبا شرۃ الحائض فوق الازار، ۳۹۲.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (میں اپنی اعتکاف گاہ) سے مجھے بوریا پکڑانے کا حکم دیا۔ میں نے کہا، میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زوجھا۸۹۲.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ’’نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم میری گود کو تکیہ بنا کر قرآن حکیم کی تلاوت کرتے تھے حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔‘‘
(بخاری، الحیض، باب قراء ۃ الرجل فی حجر امراتہ وھی حائض، ۷۹۲۔ مسلم:۱۰۳.)

حائضہ کا قرآن پڑھنا اور ذکر اذکار کرنا:
حالت جنابت و حیض میں قرآن حکیم کی تلاوت کے حرام ہونے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔
اذکار کی بابت امام نووی فرماتے ہیں: ’’حائضہ کے لیے تسبیح و تحمید، تکبیر اور دیگر دعائیں اور اذکار بالاجماع جائز ہیں۔‘‘ (المجموع)
اس کی دلیل ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے۔ آپ فرماتی ہیں: میں حج کے دنوں میں حائضہ ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیت ﷲ کے طواف کے علاوہ ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔‘‘
(بخاری، الحیض، باب الامر بالنفساء اذا نفسن، ۴۹۲ ومسلم: ۱۱۲۱.)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ حائضہ طواف کعبہ کے علاوہ حج کے باقی تمام اعمال کر سکتی ہے۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی عورتوں کو بھی عید کے روز عید گاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ لوگوں کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعا کے ساتھ دعا کریں لیکن نماز نہ پڑھیں۔"
(بخاری، العیدین، باب اعتزال الحیض المصلی ۱۸۹، مسلم: ۰۹۸.)
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں ﷲ کا ذکر کرتے تھے۔"
(مسلم الحیض، باب ذکر اللہ تعالی فی حال الجنابۃ وغیرھا، ۳۷۳.)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حائضہ اور جنبی ذکر، اذکار کر سکتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ کوئی ایسی صریح اور صحیح نص موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ حیض و نفاس والی عورت کے لیے قرآن مجید پڑھنے کی ممانعت ہے۔
(فتاوی اسلامیہ، اول۹۱۳.)
البتہ حیض، نفاس اور جنابت کی حالت میں قرآن مجید کا چھونا جائز نہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ جسے حدثِ اکبر لاحق ہو اس کے لیے قرآن پکڑنا جائز نہیں صرف امام داؤد نے اس کی مخالفت کی۔
(نیل الاوطار.)

استحاضہ کا مسئلہ
استحاضہ وہ خون ہوتا ہے جو ایام حیض کے بعد خاکی یا زرد رنگ کا جاری ہوتا ہے۔ یہ ایک مرض ہے۔ جب عورت اپنے حیض کی عادت کے دن پورے کر لے پھر اسے غسل کر کے نماز شروع کر دینی چاہیے کیونکہ خون استحاضہ کا حکم خون حیض کے حکم سے مختلف ہے۔
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا: "اے ﷲ کے رسول! مجھے خون استحاضہ آتا ہے اور میں (بوجہ خون استحاضہ) پاک نہیں ہوتی کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، خون استحاضہ ایک (اندرونی) رگ سے (بہتا) ہے اور یہ، خون حیض نہیں ہے۔ پس جب تجھے حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دے اور جس وقت خون حیض بند ہو جائے (اور خون استحاضہ شروع ہو) تو اپنے استحاضہ کے خون کو دھو اور نمازپڑھ۔‘‘
(بخاری الحیض، باب الاستحاضۃ، ۶۰۳ ومسلم، الحیض، باب المستحاضۃ وغسلھا، ۳۳۳.)
سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیض کا خون سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور پہچانا جاتا ہے اگر یہ آئے تو نماز سے رک جا اور اگر کوئی اور رنگ ہو تو وضو کر اور نماز پڑھ اس لیے کہ یہ رگ (استحاضہ) کا خون ہے۔‘‘
(أبو داود: الطہارۃ، باب: من قال إذا أقبلت الحیضۃ تدع الصلاۃ: ۶۸۲.)
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’ہم حیض کے علاوہ باقی دنوں میں پیلے یا مٹیالے رنگ کی کچھ پرواہ نہیں کرتی تھیں۔‘‘
(بخاری: ۶۲۳، أبو داود الطھارۃ باب فی المراۃ تری الصفرۃ: ۷۰۳.)
حاصل کلام یہ کہ مستحاضہ پاک عورت کی طرح ہے۔
خون حیض بلوغت کی علامت ہے اگر یہ عادت کے مطابق آئے تو یہ صحت کی علامت ہے، اس کے برعکس استحاضہ بیماری کی علامت ہے چونکہ یہ خون، حیض سے پہلے بھی آتا ہے اور حیض کی مدت گزر جانے کے باوجود نہیں رکتا اس لیے بعض خواتین اسے بھی حیض سمجھ کر نماز چھوڑے رکھتی ہیں لہٰذا اس مسئلہ کو بالوضاحت سمجھنا ضروری ہے:
۱: خون حیض گاڑھا، سیاہ اور کسی قدر بدبودار ہوتا ہے۔ جب اس کی مدت ختم ہوتی ہے تو خاکی یا زرد رنگ کا خون اگر جاری رہتا ہے تو وہ استحاضہ کا خون ہے۔
۲: اگر خاتون حیض اور استحاضہ کا فرق پہچانتی ہے تو وہ اس کے مطابق عمل کرے گی یعنی حیض آنے پر نماز چھوڑ دے گی اور حیض کے بعد استحاضہ کے دوران ہر نماز کے لیے الگ وضو کرکے نماز ادا کرے گی۔
۳: اگر اسے دونوں خونوں کی پہچان نہیں ہے البتہ حیض اسے عادت کے مطابق آتا ہے تو وہ عادت کے دنوں میں نماز ترک کرے گی اور ان کے بعد جو خون آئے گا اسے استحاضہ سمجھے گی۔
۴: اگر اسے دونوں خونوں کی پہچان نہیں ہے اور حیض بھی عادت کے مطابق نہیں آتا تو وہ اپنی قریبی رشتہ دار خاتون (جو مزاج اور عمر میں اس جیسی ہو مثلاً بہن وغیرہ) کی عادت کے مطابق عمل کرے گی حتیٰ کہ اسے پہچان ہو جائے یا اس کی اپنی عادت بن جائے، وﷲ اعلم۔ (ع، ر)

مستحاضہ کے احکام:
۱۔ حیض کے خاتمہ کے بعد عورت غسل کرے گی۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ بنت جیش رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرو۔
( بخاری الوضو،باب غسل الدم : ۸۲۲.)
۳۔ عورت ہر وہ کام کرے گی جو ایک پاک عورت کرتی ہے یعنی وہ نماز ادا کرے گی، روزہ رکھے گی، اعتکاف کرے گی، خانہ کعبہ کا طواف کرے گی
۴۔ مستحاضہ عورت سے صحبت کرنا جائز ہے۔ سیدہ حمنہ بنت جحش سے روایت ہے کہ ’’انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا اور ان کے خاوند (اس حال میں) ان سے صحبت کرتے تھے۔‘‘
(أبو داود: الطہارۃ، باب: المستحاضۃ یغشاہا زوجہا: ۰۱۳.)

نفاس کا حکم
بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے، اسے نفاس کہتے ہیں۔
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن بیٹھا کرتی تھیں (نماز وغیرہ نہیں پڑھتی تھیں)۔
(ابو داؤد الطھارۃ، باب ماجاء فی وقت النفساء، ۱۱۳،۔ ترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی کم تمکث النفساء ، ۹۳۱۔ ابن ماجہ، ۸۴۶، اسے امام حاکم ۱/۵۷۱ اور حافظ ذہبی نے صحیح ، جبکہ امام نووی نے حسن کہا۔)
اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمھم اللہ کے نزدیک نفاس کے خون کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ اگر چالیس روز کے بعد بھی خون جاری رہے تو اکثر اہل علم کے نزدیک وہ خون استحاضہ ہے جس میں عورت ہر نماز کے لیے وضو کرتی ہے۔
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’نفاس کی مدت چالیس دن ہے الا یہ کہ خون پہلے ہی بند ہو جائے۔‘‘ (بیہقی)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر عورت کو ولادت کے بعد خون آتا ہی نہیں تو اس پر ضروری ہے کہ وہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔‘‘
نفاس اور حیض کے خون کا حکم ایک جیسا ہے یعنی ان حالات میں نماز، روزہ اور جماع منع ہے۔
الشیخ مفتی عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب نفاس والی عورت چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے تو اس کے لیے غسل ،نماز اور رمضان کے روزے رکھنا واجب ہے اور اہل علم کا اجماع ہے کہ اس کا شوہر سے ملنا بھی حلال ہے۔ یاد رہے کہ نفاس کی کم سے کم کوئی حد مقرر نہیں ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ،اول۵۲۳.)
فضیلۃ الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب تیسرے ماہ عورت کا بچہ ضائع ہو جائے تو اسے پاک ہو نے تک کوئی نماز نہیں پڑھنی کیونکہ جب اس حالت میں اسقاط ہو کہ بچے کے اعضاء بننا شروع ہو گئے تو بچہ ضائع ہو نے کے بعد خارج ہو نے والے خون کا حکم نفاس کا ہو گا۔ جب تک خون باقی ہے نماز نہیں پڑھے گی۔ علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب بچہ 81 دنوں کا ہو جائے تو اس میں اعضاء پیدا ہونا ممکن ہیں۔ اگر 80 دنوں سے کم کا بچہ ضائع ہو جائے تو یہ خون فاسد ہو گا۔ اس کی وجہ سے نماز کو نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ،اول ۷۲۳.)

نفاس کی نمازوں کی قضا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام نفاس کی نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب ماجاء فی وقت النفساء، ۲۱۳۔ اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غسل کا بیان

غسل جنابت کا طریقہ:
غسل جنابت کرنے والا سب سے پہلے غسل کرنے کا ارادہ یعنی نیت کرے گا۔
ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر شرمگاہ کو دھویا، پھر بایاں ہاتھ، جس سے شرمگاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا پھر اس کو دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ دھویا، پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے پھر سر پر پانی ڈالا اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا۔ تین بار سر پر پانی ڈالا، پھر تمام بدن پر پانی ڈالا، پھر جہاں آپ نے غسل کیا تھا اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے میں نے غسل کے بعد جسم صاف کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا دیا مگر آپ نے نہیں لیا۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب تفریق الغسل والوضوء ۵۶۲، ومسلم، الحیض، باب صفۃ غسل الجنابۃ، ۷۱۳.)

سر کا مسح :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کسی حدیث میں (غسل جنابت کا وضو کرتے وقت) سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔‘‘
(فتح الباری، شرح صحیح البخاری)
سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔ امام نسائی نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے: ’’جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا۔‘‘
(نسائی، الغسل، باب ترک مسح الراس فی الوضوء من الجنابۃ، حدیث ۲۲۴.)
امام ابو داود فرماتے ہیں:
’’میں نے امام احمد سے سوال کیا کہ جنبی جب (غسل سے قبل) وضو کرے تو کیا سر کا مسح بھی کرے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ مسح کس لیے کرے جب کہ وہ اپنے سر پر پانی ڈالے گا۔‘‘

ایک ہی برتن میں میاں بیوی کا اکھٹے غسل کرنا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
’’میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے نہاتے اور دونوں اس سے چلو بھر بھر کر لیتے تھے۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب تخلیل الشعر، ۳۷۲، مسلم: الحیض باب القدر المستحب من الماء:۱۲۳.)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے ایک لگن سے پانی لے کر غسل کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگن میں بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا چاہا تو انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! میں جنبی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک پانی جنبی (یعنی ناپاک) نہیں ہوتا۔‘‘
(أبو داود: الطہارۃ، باب: الماء لا یجنب: ۸۶.)

غسل کے لیے پردہ:
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا بنت ابی طالب سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی۔ آپ غسل کر رہے تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ پر کپڑے سے پردہ کئے ہوئے تھیں۔
(بخاری، الغسل، باب التستر فی الغسل عند الناس: ۰۸۲ ومسلم، الحیض، باب تستر المغتسل بثوب و نحوہ ۶۳۳.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ ہر ایک سے اپنے ستر کی حفاظت کرو"۔
صحابی نے عرض کیا کہ اگر کوئی اکیلا ہو تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔"
(ابو داؤد، الحمام، ما جاء فی التعری، ۷۱۰۴.)
سیدنایعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو ننگا (بغیر کپڑوں کے) نہا رہا تھا آپ نے خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا کہ
"بے شک اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا ہے وہ حیا اور پردہ کو پسند کرتا ہے پس جب تم غسل کرو تو پردہ کرو۔"
(ابو داؤد، الحمام، النھی عن التعری،۲۱۰۴.)
البتہ تنہائی میں ننگے غسل کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ
’’بنی اسرائیل ننگے ہو کر اکٹھے نہاتے تھے جبکہ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام اکیلے (ننگے) نہاتے تھے۔‘‘
(بخاری، الغسل، من اغتسل عریاناً۸۷۲، مسلم، الحیض،جواز الاغتسال عریاناً فی الخلوۃ،۹۳۳.)

ایک ہی غسل سے زیادہ بیویوں سے مباشرت:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں ایک غسل کے ساتھ اپنی بیویوں کے پاس چکر لگاتے (یعنی مباشرت کرتے)
(مسلم، الحیض، جواز نوم الجنب واستحباب:۹۰۳.)
گویا کئی دفعہ مباشرت کرنے کے بعد ایک ہی غسل کرنا جائز ہے جبکہ ہر مباشرت کے بعد غسل کرنا مستحب ہے۔
سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں اپنی مختلف بیویوں کے پاس گئے اور آپ نے ہر بیوی کے قریب جاتے ہوئے غسل کیا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ایک ہی غسل فرما لیتے (تو کیا کافی نہ تھا ) آپ نے فرمایا یہ زیادہ طہارت اور پاکیزگی کا باعث ہے۔
(ابو داؤد الطھارۃ الوضوء لمن اراد ان یعود، ۹۱۲.)

غسل جنابت کا وضو کافی ہے:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل (جنابت) کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔"
(ترمذی، الطھارۃ، باب الوضوء بعد الغسل، حدیث: ۷۰۱ وابو داؤد، الطھارۃ ، باب فی الوضوء بعد الغسل، حدیث: ۰۵۲، اسے امام حاکم ، ذہبی اور ترمذی نے صحیح کہا۔)
یعنی غسل کے شروع میں وضو کرتے تھے، اس کو کافی جانتے اور (نماز کے لیے) دوبارہ وضو نہیں فرماتے تھے۔ لیکن اس میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ دوران غسل، شرم گاہ کو ہاتھ نہ لگے۔ (ص،ی)

جمعہ کے دن غسل:
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔‘‘
(بخاری: ۷۷۸، ومسلم، الجمعۃ: ۴۴۸.)
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہفتے میں ایک دن (جمعہ کو) غسل کرے۔ اس میں اپنا سر دھوئے اور اپنا بدن دھوئے۔‘‘
(بخاری، الجمعۃ، باب ھل علی من لم یشھد الجمعۃ غسل ۷۹۸ ومسلم، الجمعہ ۹۴۸.)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جمعہ کے دن ہر بالغ مسلمان پر نہانا واجب ہے۔‘‘
(بخاری، الجمعہ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ، ۹۷۸ ومسلم، الجمعۃ، باب وجوب غسل الجمعۃ علی کل بالغ من الرجال ۶۴۸.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے اچانک سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم نماز سے پیچھے کیوں رہے ہو؟ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے اذان سنی تو وضو کر لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہیے کہ وہ غسل کرے۔
(صحیح بخاری، الجمعہ،فضل الجمعہ،۲۸۸.مسلم:۵۴۸.)
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جمعہ کے دن جس نے وضو کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الرخصۃ فی ترک الغسل یوم الجمعۃ، ۴۵۳، ترمذی، الجمعۃ، الوضوء یوم الجمعۃ، ۷۹۴.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل جمعہ سنت موکدہ ہے۔

میت کو غسل دینے والا غسل کرے:
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مُردے کو غسل دے اسے چاہیے کہ وہ خود بھی نہائے۔‘‘
(ابو داود، الجنائز، باب فی الغسل من غسل المیت، ۱۶۱۳، ترمذی، الجنائز ۳۹۹۔ ابن ماجہ: ۳۶۴۱۔ اسے ابن حبان ۱۵۷ اور ابن حزم ۲/۳۲ نے صحیح کہا۔)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم پر میت کو غسل دینے سے کوئی غسل واجب نہیں کیونکہ تمہاری میت طاہر مرتی ہے نجس نہیں، لہٰذا تمہیں ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔‘‘
(بیہقی ۱/۶۰۳، اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ابن حجر نے حسن کہا۔)
دونوں احادیث کو ملانے سے مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ جو شخص میت کو غسل دے، اس کے لیے نہانا مستحب ہے، ضروری نہیں۔ چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’ہم میت کو غسل دیتے (پھر) ہم میں سے بعض غسل کرتے اور بعض نہ کرتے۔‘‘
( بیہقی ۱/۶۰۳۔ حافظ ابن حجر نے اسے صحیح کہا۔)

نو مسلم غسل کرے:
سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ "پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل کریں"۔
(ابوداود، الطھارۃ، باب فی الرجل یسلم فیؤمر بالغسل، ۵۵۳۔ ترمذی، ابواب السفر، باب ما ذکر فی الاغتسال عندما یسلم الرجل، ۵۰۶ اسے امام نووی نے حسن، امام ابن خزیمہ ۱/۶۲ حدیث ۴۵۱۔۵۵۱ اور ابن حبان ۴۳۲ نے صحیح کہا۔)

عیدین کے روز غسل:
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عیدین کے دن غسل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک یہ غسل، غسل جمعہ پر قیاس کرتے ہوئے مستحب ہے۔
نافع کہتے ہیں کہ "سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے روز غسل کیا کرتے تھے"۔
(موطا امام مالک ۱/ ۷۱.)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جمعہ، عرفہ، قربانی اور عید الفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔‘‘
(بیہقی ۳/۸۷۲.)

احرام کا غسل:
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "حج کا احرام باندھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا"۔
(ترمذی، الحج، باب ماجاء فی الاغتسال عند الاحرام: ۰۳۸ امام ترمذی نے اسے حسن کہا۔)

مکہ میں داخل ہونے کا غسل:
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرتے تھے"۔
(بخاری، الحج،باب الاغتسال عند دخول مکۃ، ۳۷۵۱۔ مسلم، الحج، باب استحباب المبیت بذی طوی عند ارادۃ دخول مکۃ: ۹۵۲۱.)

مسواک کا بیان
سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو مسواک کرتے۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب السواک، حدیث ۵۴۲، مسلم، الطھارۃ، باب السواک، ۵۵۲.)
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ہر دو رکعت کے بعد مسواک کرتے۔‘‘
(مسلم: الطہارۃ، باب: السواک: ۶۵۲.)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسواک منہ کے لیے طہارت کا سبب اور ﷲ کی رضا مندی کا ذریعہ ہے۔‘‘
(نسائی، الطھارۃ، باب الترغیب فی السواک حدیث ۵ اسے امام نووی اور ابن حبان نے صحیح کہا۔)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب بھی میرے پاس جبرائیل آتے تو مجھے مسواک کرنے کا حکم کرتے تھے۔" مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ میں اپنے منہ کی اگلی جانب نہ چھیل لوں۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی۷/۹۴ امام بخاری نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔)
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر میں اپنی امت کے لیے مشکل نہ جانتا تو ہر نماز سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘
(بخاری، الجمعۃ، باب السواک یوم الجمعۃ، ۷۸۸۔ و مسلم، الطھارۃ، باب السواک: ۲۵۲.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے پسند تو اس بات کو کیا کہ وہ ہر فرض نماز سے پہلے مسواک کرے لیکن مشقت کے ڈر سے حکم دے کر فرض نہیں کیا۔ اللھم صل علی محمد و علی آل محمد. (ع ر)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وضو کا بیان

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ) (المائدہ: ۶)
’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو اور اپنے سر کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں دھو۔‘‘

مسنون وضو سے گناہوں کی بخشش:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس وقت بندہ مومن وضو شروع کرتا ہے پھر کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جس وقت ناک جھاڑتا ہے اس کے ناک کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جس وقت چہرہ دھوتا ہے اس کے چہرے کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ چہرہ دھوتے وقت گناہ داڑھی کے کناروں سے بھی گرتے ہیں اور جس وقت وہ ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے گناہ جھڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ دونوں ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی جھڑ جاتے ہیں۔ پھر جس وقت مسح کرتا ہے تو اس کے سر سے گناہ جھڑ جاتے ہیں، یہاں تک کہ دونوں کانوں سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ پھر جس وقت پاؤں دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں سے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی جھڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ سب گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ باب خروج الخطایا مع ماء الوضوء: ۴۴۲.)
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ اپنی امت کو (میدان حشر میں) دوسری امتوں کے (بے شمار لوگوں کے) درمیان کس طرح پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میرے امتی وضو کے اثر سے سفید (نورانی) چہرے اور سفید (نورانی) ہاتھ پاؤں والے ہوں گے۔ اس طرح ان کے سوا اور کوئی نہیں ہو گا۔"
(مسلم، الطھارۃ باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضوء، ۷۴۲.)

وضو سے بلندی درجات:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "طہارت آدھا ایمان ہے۔"
(مسلم، الطھارۃ، باب تبلغ الحلیۃ حیث یبلغ الوضوء ۰۵۲.)
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے دوست محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’(جنت میں) مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ، باب فضل الوضوء ۳۲۲.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ جس کے سبب اللہ تعالی گناہوں کو دور اور درجات کو بلند کرتا ہے؟‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا۔ اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مشقت (بیماری یا سردی) کے وقت کامل اور سنوار کر وضو کرنا، کثرت سے مسجدوں کی طرف جانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرناگناہوں کو دور اور درجات کو بلند کرتا ہے۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ، باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ، ۱۵۲.)

تحیۃ الوضو سے جنت لازم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص وضو کرے اور خوب سنوار کر اچھا وضو کرے۔ پھر کھڑا ہو کر دل اور منہ سے (ظاہری و باطنی طور پر) متوجہ ہو کر دو رکعت (نفل) نماز ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، ۴۳۲.)
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے وقت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے بلال! میرے سامنے اپنا وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا اور جس پر تجھے ثواب کی بہت زیادہ امید ہے کیونکہ میں نے اپنے آگے جنت میں تیری جوتیوں کی آواز سنی ہے‘‘
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’میرے نزدیک جس عمل پر مجھے (ثواب کی) بہت زیادہ امید ہے وہ یہ ہے کہ میں نے رات یا دن میں جب بھی وضو کیا تو اس وضو کے ساتھ جس قدر نفل نماز میرے مقدر میں تھی ضرور پڑھی (یعنی ہر وضو کے بعد نوافل پڑھے)۔‘‘
(بخاری، التھجد، باب فضل الطھور باللیل والنھار۔۔۔۹۴۱۱۔ ومسلم، فضائل الصحابہ باب من فضائل بلال، ۸۵۴۲.)

نیند سے جاگ کر پہلے ہاتھ دھوئیں:
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نیند سے جاگو تو اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالو جب تک کہ اس کو تین بار نہ دھو لو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس ہاتھ نے رات کہاں گزاری۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب الاستجمار و ترا، ۲۶۱، ومسلم، الطھارۃ باب کراھۃ غمس المتوضی و غیرہ یدہ المشکوک فی نجاستھا فی الاناء قبل غسلھا ثلاثا ۸۷۲.)

تین بار ناک جھاڑیں:
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نیند سے بیدار ہو پھر وضو کا ارادہ کرو تو (پانی چڑھا کر) تین بار ناک جھاڑو کیونکہ شیطان ناک کے بانسے میں رات گزارتا ہے۔‘‘
(بخاری بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس و جنودہ، ۵۹۲۳ ومسلم الطھارۃ، باب الایتار فی الاستنثار والاستجمار، ۸۳۲.)
سونے والے کے ناک کے بانسے میں شیطان کے رات گزارنے کی اصلیت اور حقیقت ﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارا فرض ایمان لانا ہے کہ واقعی شیطان رات گزارتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسنون وضو کی مکمل ترتیب:
۱۔ وضو کرنے سے پہلے دل میں وضو کرنے کی نیت کریں۔
۲۔ وضو کے شروع میں ’’بسم ﷲ‘‘ ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
’’بسم ﷲ‘‘ کہہ کر وضو کرو۔‘‘
(نسائی، الطھارۃ، باب التسمیۃ عند الوضوء، ۸۷۔ ابن خزیمۃ: ۴۴۱ امام نووی نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔)
واضح رہے کہ وضو کی ابتدا کے وقت صرف ’’بسم ﷲ‘‘ کہنا چاہیے۔ ’’الرحمن الرحیم‘‘ کے الفاظ کا اضافہ سنت سے ثابت نہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص وضو کے شروع میں بسم اللّہ نہیں کہتا اس کا وضو نہیں۔‘‘
(ابود اؤد، الطھارۃ باب التسمیۃ علی الوضوء: ۱۰۱، حافظ منذری وغیرہ نے شواہد کی بنا پر حسن کہا۔)
اگر بسم ﷲ بھول گئی اور وضو کے دوران یاد آئی تو فوراً پڑھ لے وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بھول معاف ہے۔ (ع،ر)
۳۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دینے والیوں سے کہا داہنی طرف سے اور وضو کے مقاموں سے ان کا غسل شروع کرو۔‘‘
(بخاری: ۷۶۱، مسلم: الجنائز باب فی غسل المیت۲۴۔(۹۳۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتی پہننے، کنگھی کرنے، طہارت کرنے اور غرض تمام کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے۔
(بخاری، الوضوء باب التیمن فی الوضوء والغسل، ۸۶۱، مسلم، الطھارۃ باب التیمن فی الطھور وغیرہ، ۸۶۲.)
۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے۔
(بخاری، الوضوء، باب الوضوء ثلاثا، ثلاثا، ۹۵۱ ومسلم: ۶۲۲.)
۵۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو مکمل کرو اور ہاتھوں کو دھوتے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرو، اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو سوائے اس کہ تم روزہ دار ہو۔ (یعنی روزہ کی حالت میں مبالغہ نہ کرو)
(ابو داود، الطھارۃ باب فی الاستنثار، ۲۴۱۔ ترمذی، الطھارۃ، باب فی تخلیل الاصابع، ۸۳۔ اسے ترمذی، حاکم ۱/۷۴۱، ۸۴۱ اور نووی نے صحیح کہا۔)
۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چلو لے کر آدھے سے کلی کی اور آدھا ناک میں ڈالا اور ناک کو بائیں ہاتھ سے جھاڑا، یہ عمل تین دفعہ کیا۔
(بخاری، الوضوء باب من مضمض واستنشق من غرفۃ واحدۃ، حدیث ۱۹۱ و باب الوضوء من التور، ۹۹۱،۔ مسلم:۵۳۲.)
۷۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار منہ دھویا۔
(بخاری، الوضوء، باب مسح الراس کلہ ۵۸۱ ومسلم، الطھارۃ باب: فی وضوء النبیV ۵۳۲.)
۸۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی کا خلال کرتے تھے۔
(ترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی تخلیل اللحیۃ، ۱۳ ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو پانی کا ایک چلو بھر کے اپنی ٹھوڑی کے نیچے داخل کرتے اور اس کے ساتھ اپنی داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے کہ
’’میرے رب نے مجھے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ تخلیل اللحیۃ،۵۴۱.)
۹۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔
(بخاری، الصوم باب سواک الرطب والیابس للصائم، ۴۳۹۱ ومسلم: ۶۲۲.)
۱۰۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح کیا۔ دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصہ سے شروع کرکے گدی تک پیچھے لے گئے۔ پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔
(بخاری: الوضوء، باب: مسح الرأس: ۵۸۱، مسلم: ۵۳۲.)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کا ایک دفعہ مسح کیا۔
(بخاری: ۶۸۱، مسلم الطھارۃ باب فی وضوء النبی۸۱۲۔( ۵۳۲).)
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے وضو میں سر کا مسح تین بار کیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا۔
(ابو داؤد، الطھارۃ صفۃ وضوء النبی۷۰۱.)
یعنی سر کا مسح تین دفعہ کرنا بھی جائز ہے۔
۱۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کانوں کا مسح کیا شہادت کی انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں میں ڈال کر کانوں کی پشت پر انگوٹھوں کے ساتھ مسح کیا۔
(ابن ماجہ، الطھارۃ، باب ماجاء فی مسح الاذنین، ۹۳۴، ترمذی، الطھارۃ، مسح الاذنین ظاھر ھما و باطنھما، حدیث ۶۳ اسے ابن خزیمہ ۱/۷۷ حدیث ۸۴۱ نے صحیح کہا۔)
۱۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دایاں پاؤں ٹخنوں تک تین بار دھویا اور بایاں پاؤں بھی ٹخنوں تک تین بار دھویا۔
(بخاری الصوم باب السواک الرطب والباس للصائم: ۴۳۹۱، ومسلم : ۶۲۲.)
۱۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جب وضو کرو تو ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرو۔"
(ترمذی، الطھارۃ، باب فی تخلیل الاصابع، ۹۳۔ ابن ماجہ الطھارۃ، باب تخلیل الاصابع، ۷۴۴۔ اسے ترمذی نے حسن کہا۔)
سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ اپنے پاؤں کی انگلیوں کا خلال ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے کر رہے تھے۔
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب غسل الرجلین، ۸۴۱، ترمذی، الطھارۃ، باب فی تخلیل الاصابع، حدیث ۰۴۔ امام مالک نے حسن کہا۔)
۱۴۔ سیّدنا حکم بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کر کے وضو کرتے تو اپنی شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا دیتے۔‘‘
(أبو داود: الطہارۃ، باب: فی الانتضاح: ۶۶۱، نسائی: الطہارۃ، باب: النضح: ۵۳۱.)
۱۵۔ سیّدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ اگر زخم پر پٹی بندھی ہوئی ہو تو وضو کرتے وقت پٹی پر مسح کر لواور ارد گرد کو دھو لو۔
(السنن الکبری للبیہقی۱/۸۲۲ امام بیہقی نے اسے صحیح کہا۔)

تنبیہات:
۱۔ کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر جس حدیث میں ہے اسے (ابو داود حدیث۹۳۱) امام نووی اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے۔ امام نووی اور امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ ایک چلو سے آدھا پانی منہ میں اور آدھا ناک میں ڈالنا ہے۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کانوں کا تعلق سر سے ہے۔‘‘
(دارقطنی ۱/۸۹ اسے ابن جوزی وغیرہ نے صحیح کہا ہے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کانوں کے لیے نئے پانی کی ضرورت نہیں۔ کانوں کے مسح کے لیے نئے پانی لینے والی روایت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شاذ کہا ہے۔
۳۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (گدی کے نیچے) گردن کے (الگ) مسح کے بارے میں قطعًا کوئی صحیح حدیث نہیں۔ گردن کے مسح کی روایت کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وضو کے بعد کی دعائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص پورا وضو کرے اور پھر کہے:
۱۔(( اَشْہَدُ اَن لَّا إِلٰہَ اِلَّا ﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ.))
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
"تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئے جاتے ہیں کہ جس سے چاہے داخل ہو۔"
(مسلم، الطھارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، ۴۳۲.)
ابو داود (الطھارۃ، حدیث ۔۰۷۱) کی ایک روایت میں اس دعا کو آسمان کی طرف نظر اٹھا کر پڑھنے کا ذکر ہے مگر یہ روایت صحیح نہیں۔ اس میں ابو عقیل کا چچا زاد بھائی مجہول ہے۔ ترمذی کی روایت:۵۵ میں دعا اللھم جعلنی من التوابین۔۔۔] بھی مذکور ہے مگر انہوں نے اسے مضطرب (ضعیف کی ایک قسم) قرار دیا ہے۔ (ع،ر)
۲۔ (( سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنَّ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ.))
’’اے اﷲ! تو اپنی تمام تر تعریفات کے ساتھ (ہر عیب سے) پاک ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘
(نسائی عمل الیوم واللیلۃ/ اسے امام حاکم، حافظ ذہبی اور ابن حجر نے صحیح کہا ہے۔)
(کسی مجلس کے خاتمہ پر بھی یہی دعا پڑھی جاتی ہے)

وضو کی خود ساختہ دعائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے وضو کے شروع میں (بسم اﷲ) اور بعد میں شہادتین کا پڑھنا ثابت ہے۔ لیکن بعض لوگ وضو میں ہر عضو دھوتے وقت ایک ایک دعا پڑھتے ہیں اور وہ دعائیں مروجہ کتب نماز میں پائی جاتی ہیں۔ واضح ہو کہ یہ دعائیں سنت پاک اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت نہیں ہیں۔ اللہ تعالی نے جب اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مکمل کر دیا تو پھر دینی اور شرعی امور میں کمی بیشی کرنا کسی امتی کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہر عضو کے لیے مخصوص اذکار کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وضو کے دیگر مسائل:
۱۔ وضو کے اعضاء کا ایک ایک اور دو دو بار دھونا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی منگوایا۔ اپنا چہرہ، اپنے دونوں ہاتھ اور اپنے پاؤں ایک ایک مرتبہ دھوئے اور فرمایا :
’’یہ وہ وضو ہے جس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں کرتا۔‘‘
پھر آپ نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے اعضاء دو دو مرتبہ دھوئے اور فرمایا:
’’یہ وہ وضو ہے جس نے ایسا وضو کیا اللہ تعالیٰ اسے دو گنا اجر دے گا۔‘‘
پھر آپ نے وضو کا پانی منگوایا اور تین تین مرتبہ اعضاء دھوئے اور فرمایا :
’’یہ میرا اور مجھ سے پہلے انبیاء کا وضو ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۶۲.)
ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب علماء کا اتفاق ہے کہ اعضاء کا ایک ایک بار دھونا بھی کافی ہے۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وضو کی کیفیت دریافت کی تو آپ نے اسے اعضاء کا تین تین بار دھونا سکھایا اور فرمایا:
’’اس طرح کامل وضو ہے۔ پھر جو شخص اس (تین تین بار دھونے) پر زیادہ کرے پس تحقیق اس نے (ترک سنت کی بنا پر) برا کیا اور (مسنون حد سے تجاوز کر کے) زیادتی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے اپنی جان پر) ظلم کیا۔‘‘
(بخاری: ۵۸۱، مسلم: ۵۳۲.)

وضو کے بعض اعضا تین بار اور بعض دو بار دھونا بھی درست ہے۔
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، حدیث ۵۳۱، نسائی : ۰۴۱ اسے امام ابن خزیمہ اور امام نووی نے صحیح ، جبکہ حافظ ابن حجر نے جید کہا۔)
۲۔ سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جس سے وہ وضو کے بعد پانی خشک کیا کرتے تھے۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۹۹۰۲.)

۳۔ خشک ایڑیوں کو عذاب:
سیّدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے سے مدینے کی طرف لوٹے۔ راستے میں ہمیں پانی ملا۔ ہم میں سے ایک جماعت نے نماز عصر کے لیے جلد بازی میں وضو کیا۔ ان کی ایڑیاں خشک تھیں ان کو پانی نہیں پہنچا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’(خشک) ایڑیوں کے لیے آگ سے خرابی ہے۔ پس وضو پورا کیا کرو۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ، باب وجوب غسل الرجلین بکما لھما، ۱۴۲.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو بڑی احتیاط سے سنوار کر اور پورا کرنا چاہیے۔ اعضاء کو خوب اچھی طرح اور تین تین بار دھونا چاہیے تاکہ ذرہ برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔

۴۔ اعضا کو پہ در پہ دھونا:
وضو کرتے ہوئے اعضاء کے دھونے میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہے اور وضو ایک ہی وقت میں کیا جائے اعضا کے دھونے میں وقفہ اور تاخیر نہ ہو۔
ایک شخص نے وضو کیا اور اپنے قدم پر ناخن کے برابر جگہ خشک چھوڑ دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا:
’’واپس جا اور اچھی طرح وضو کر۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ، باب وجوب استیعاب جمیع اجزاء محل الطھارۃ، ۳۴۲.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خشک جگہ دھونے کا حکم دینے کی بجائے پورا وضو کرنے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اعضا کو پہ در پہ دھونا ضروری ہے۔ اگر ناخنوں پر نیل پالش لگی ہو یا پینٹ لگا ہو تو وضو سے پہلے اسے اتارنا ضروری ہے تاکہ جلد تک پانی پہنچ سکے۔

۵۔ کوئی شخص اپنے ساتھی کو وضو کرائے تو جائز ہے:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب آپ وضو کرنے لگے تو مغیرہ آپ پر پانی ڈالنے لگے آپ نے وضو کیا۔
(بخاری: ۲۸۱، مسلم: ۴۷۲.)

۶۔ ایک وضو سے کئی نمازیں:
سیّدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نمازیں ایک وضو سے پڑھیں اور موزوں پر مسح بھی کیا۔ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آج کے دن آپ نے وہ کام کیا جو آپ پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے عمر میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا۔ (تاکہ لوگوں کو ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا جواز معلوم ہو جائے)‘‘
(مسلم، الطھارۃ باب جواز الصلوات کلھا بوضوء واحد، ۷۷۲.)
معلوم ہوا کہ ہر نماز کے لیے وضو فرض نہیں بلکہ افضل ہے۔

۷۔ دودھ پینے سے کلی کرنا:
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا پھر کلی کی اور فرمایا اس میں چکنائی ہے۔
(بخاری، الوضوء باب ھل یمضمض من اللبن؟، ۱۱۲، ومسلم، الحیض، باب نسخ الوضوء مما مست النار، ۸۵۳.)
آپ نے بکری کا شانہ کھایا اس کے بعد نماز پڑھی اور دوبارہ وضو نہ کیا۔
(بخاری، الوضوء باب من لم یتوضا من لحم الشاۃ والسویق، ۷۰۲، مسلم: ۴۵۳.)
آپ نے ستو کھائے پھر کلی کر کے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔
(بخاری، الوضوء، باب من مضمض من السویق ولم یتوضا، حدیث ۹۰۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
موزوں پر مسح کرنے کابیان:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ میں نے وضو کے وقت چاہا کہ آپ کے دونوں موزے اتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انہیں رہنے دو میں نے انہیں طہارت کی حالت میں پہنا تھا پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب اذا ادخل رجلیہ وھما طاھرتان، ۶۰۲، مسلم: الطہارۃ، باب: المسح علی الخفین: ۴۷۲.)
اگر کوئی موزے اور جرابیں وضو کے بغیر پہن لے اور ان پر بھول کر مسح کر کے نماز پڑھے تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں ’’اس کی نماز باطل ہے اسے ان نمازوں کو دہرانا ہو گا جو اس نے مسح سے پڑھی ہیں کیونکہ مسح کے درست ہونے کے لیے اہل علم کے اجماع کے مطابق شرط یہ ہے کہ جرابوں کو بحالت وضو پہنا ہو۔ (فتاوی اسلامیہ،اول۱۱۳.)
شریح بن ہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کرنے کی مدت کے متعلق پوچھا تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے (مسح کی مدت) تین دن رات اور مقیم کے لیے ایک دن رات مقرر فرمائی ہے۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ باب التوقیت فی المسح علی الخفین، ۶۷۲.)
فضیلۃ الشیخ مفتی محمد الصالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ موزوں پر مسح کی مدت کا آغاز اس وقت سے ہو گا جب وہ وضو ٹوٹنے کے بعد پہلا مسح کرے گا۔ یہی قول راجح ہے ۔ مثلاً کسی نے فجر کی نماز کے وقت (جرابیں) موزے پہنے۔ ظہر کے وقت وہ بے وضو تھا اور اس نے ظہر کی نماز میں مسح کیا تو مسح کی مدت کا آغاز ظہر سے ہو گا۔ مقیم کیلیے دوسرے دن ظہر کی نماز میں اور مسافر کے لیے چوتھے دن ظہر کی نماز میں مدت مسح ختم ہو جائے گی۔ (وہ ظہر کے لیے پاؤں دھوئے گا) (فتاوی اسلامیہ،اول۶۱۳.)
سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم سفر میں ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین راتوں تک پاخانہ، پیشاب یا سونے کی وجہ سے نہ اتاریں (بلکہ ان پر مسح کریں) ہاں جنابت کی صورت میں (موزے اتارنے کا حکم دیتے)۔
(ترمذی الطھارۃ، باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم، ۶۹۔ نسائی:۷۲۱ اسے امام ترمذی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور نووی نے صحیح کہا۔)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی ہونا مسح کی مدت کو ختم کر دیتا ہے۔ اس لیے غسل جنابت میں موزے اتارنے چاہئیں البتہ بول و براز اور نیند کے بعد موزے نہیں اتارنے چاہئیں بلکہ معینہ مدت تک ان پر مسح کر سکتے ہیں۔

جرابوں پر مسح کرنے کا بیان:
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے وقت صحابہ کو پگڑیوں اور جرابوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ، باب المسح علی العمامۃ ۶۴۱۔ اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)

صحابہ رضی اللہ عنہم کا جرابوں پر مسح کرنا:
سیّدنا عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی جرابوں پر اپنی چپل کے تسموں سمیت مسح کیا۔ (بیہقی ۱/۵۲) عمرو بن حریث فرماتے ہیں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کرتے ہوئے آپ نے اپنی جرابوں پر جو، جوتوں (چپلوں) میں تھیں مسح کیا۔ (ابن ابی شیبہ و ابن المنذر) ابن حزم رحمہ اللہ نے ۲۱ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جرابوں پر مسح کرنا ذکر کیا ہے۔ جن میں سیّدنا عبد ﷲ بن مسعود، سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیّدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں۔ اسی طرح سیدنا سہل بن سعدرضی اللہ عنہ جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ ۱/۳۷۱) سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بھی جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ ۱/۳۷۱) نیز سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اپنی ٹوپی اور سیاہ رنگ کی جرابوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔ (السنن الکبری للبیہقی ۱/ ۵۸۲) ابن قدامہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جرابوں پر مسح کرنے کے جواز پر اجماع ہے۔ (مغنی، لابن قدامہ ۱/ ۲۳۳ مسئلۃ ۶۲۴)

لغت عرب سے ’’جورب‘‘ کے معنی:
لغت عرب کی معتبر کتاب قاموس ۱/۶۴ میں ہے ہر وہ چیز جو پاؤں پر پہنی جائے، جورب ہے۔ ’’تاج العروس‘‘ میں ہے جو چیز لفافے کی طرح پاؤں پر پہن لیں وہ جورب ہے۔ علامہ عینی لکھتے ہیں جورب بٹے ہوئے اون سے بنائی جاتی ہے اور پاؤں میں ٹخنے سے اوپر تک پہنی جاتی ہیں۔ ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ میں شارح حدیث امام ابو بکر ابن العربی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں۔ جَوْرَبْ وہ چیز ہے جو پاؤں کو ڈھانپنے کے لیے اون کی بنائی جاتی ہے۔ ’’عمدۃ الرعایہ‘‘ میں ہے جرابیں روئی یعنی سوت کی ہوتی ہیں اور بالوں کی بھی بنتی ہیں۔ ’’غایۃ المقصود‘‘ میں ہے کہ جرابیں چمڑے کی، صوف کی اور سوت کی بھی ہوتی ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ جَوْرَبْ لفافے یا لباس کو کہتے ہیں وہ لباس خواہ چرمی ہو، یا اونی ہم اس پر مسح کر سکتے ہیں۔

پگڑی پر مسح:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی اور موزوں پر مسح فرمایا۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب المسح علی الخفین، ۵۰۲.)
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں اور پگڑی پر مسح کیا۔"
(مسلم، الطھارۃ، باب المسح علی الناصیۃ والعمامۃ، ۵۷۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جن کاموں کے لیے وضو کرنا واجب ہے ان کا بیان

نماز:
فرض نماز ہو یا نفل، نماز جنازہ یا کوئی اور نماز وضو کے بغیر قبول نہیں ہوتی۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر آئے۔ آپ کے پاس کھانا لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا آپ وضو نہیں کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے صرف نماز پڑھنے کے لیے وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
(ابو داؤد الاطعمۃ باب فی غسل الیدین عند الطعام: ۰۶۷۳.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی مال حرام سے خیرات قبول ہوتی ہے۔‘‘
(مسلم: ۴۲۲. )
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کا وضو ٹوٹ جائے جب تک وہ وضو نہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا۔‘‘
(بخاری: ۵۳۱، مسلم: ۵۲۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جن کاموں کے لیے وضو کرنا سنت ہے ان کا بیان
۱۔ طواف کعبہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضو کیا پھر کعبہ کا طواف کیا۔
(بخاری الحج، من طاف بالبیت: ۴۱۶۱، مسلم ۵۳۲۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خانہ کعبہ کا طواف نماز کی طرح ہے سوائے اس کے کہ تم اس میں کلام کر سکتے ہو پس اس میں اچھی بات کے علاوہ گفتگو نہ کرو۔‘‘
(ترمذی: ابواب الحج:۰۶۹.)
بعض اہل علم کے نزدیک طواف کعبہ کے لیے وضو کرنا واجب ہے۔

۲۔ قرآن مجید پکڑنے کے لیے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قرآن مجید کو صرف طاہر ہی ہاتھ لگائے۔"
(مؤطا ۹۱۴، ارواء الغلیل.)
متعدد محدثین کرام نے طاہر سے باوضو ہونا ہی مراد لیا ہے۔ سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے مصعب کو وضو کر کے قرآن مجید پکڑنے کا حکم دیا۔
(مؤطا ۱/۲۴، ارواء الغلیل.)

۳۔ اللہ کا ذکر:
سیدنا مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے سلام کیا جب آپ پیشاب کر رہے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ فراغت کے بعد آپ نے وضو کر کے اس کا جواب دیا اور فرمایا:
"میں نے مناسب نہ سمجھا کہ طہارت کے بغیر اللہ کا ذکر کروں۔‘‘
(ابو داؤد، الطھارۃ باب فی الرجل ایرد السلام وھو یبول، ۷۱۔ ابن ماجہ، الطھارۃ باب الرجل یسلم علیہ وھو یبول ۰۵۳، حاکم ۱/۷۶۱، ذہبی اور نووی نے صحیح کہا۔)
سیدنا ابو جہم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا آپ نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا پھر آپ دیوار کے پاس آئے، اپنے چہرہ اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر سلام کا جواب دیا۔‘‘
(بخاری، التیمم باب التیمم فی الحضر: ۷۳۳، مسلم: ۹۶۳.)

۴۔ اذان سے پہلے وضو:
سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہنے سے پہلے وضو کیا۔
(ابو داؤد، کتاب الخراج الامام یقبل ھدایا المشرکین،۵۵۰۳.)

۵۔ جنبی آدمی سونے یا کھانے سے قبل وضو کرے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو بلایا۔ جب وہ آیا تو اس کے سر کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’’شاید تم جلدی میں نہائے ہو؟ اس نے کہا ہاں ﷲ کے رسول!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’(حالت جنابت میں) اگر کسی سے فوری ملنا ہو اور نہانے میں دیر لگے تو وضو کرنا ہی کافی ہے۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لم یرالوضوء الامن المخرجین من القبل والدبر، ۰۸۱۔ ومسلم، الحیض، ۵۴۳.)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا میں رات کو جنبی ہوتا ہوں تو کیاکروں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’شرمگاہ دھو ڈال، وضو کر اور سو جا۔‘‘
(بخاری، الغسل، باب الجنب یتوضا ثم ینام ۰۹۲، مسلم، الحیض باب جواز نوم الجنب، ۶۰۳.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حالت جنابت میں کھانا یا سونا چاہتے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے۔
(بخاری، الغسل، باب الجنب یتوضا ثم ینام، ۸۸۲، مسلم، الحیض، باب جواز نوم الجنب: ۵۰۳.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے اور پھر دوبارہ کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ دونوں کے درمیان وضو کرے۔‘‘
(مسلم، الحیض، باب جواز نوم الجنب ۸۰۳.)

۴۔ ہر نماز کے لیے وضو:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔‘‘
(بخاری: الوضوء، باب: الوضو من غیر حدث: ۴۱۲.)

۵۔ غسلِ واجب کرنے سے پہلے وضو کرنا:
۶۔ سونے سے پہلے وضو کرنا:
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"جب تم اپنے بستر پر لیٹنے کا ارادہ کرو تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرو۔"
(بخاری: ۷۴۲.)
 
Top