• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جن کاموں کے کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو ناک پر ہاتھ رکھ کر لوٹو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ باب استئذان المحدث للامام، ۴۱۱۱۔ اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)

۱۔ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص شرمگاہ کو ہاتھ لگائے پس وہ وضو کرے۔‘‘
(ابو داود، الطھارۃ، باب الوضوء، من مس الذکر، ۱۸۱۔ اسے امام ترمذی (الطھارۃ باب الوضوء من مس الذکر، ۲۸) نے حسن صحیح کہا۔)
یہ حکم تب ہے جب کپڑے کے بغیر براہ راست ہاتھ لگے۔ واللہ اعلم (ع،ر)

۲۔ مذی خارج ہو جانے سے وضو:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر مذی خارج ہو تو شرمگاہ کو دھو لو اور (نماز کے وقت) وضو کرو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، ۸۷۱۔ و مسلم‘‘ ۳۰۳.)

۳۔ نیند سے وضو:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دونوں آنکھیں سرین کی سربند (تسمہ) ہیں۔ پس جو شخص سو جائے اسے چاہیے کہ دوبارہ وضو کرے۔‘‘
(ابوداود، الطھارۃ، باب فی الوضوء من النوم، ۳۰۲۔ ابن ماجہ، الطھارۃ باب الوضوء من النوم، ۷۷۴۔ اسے ابن الصلاح اور امام نووی نے حسن کہا۔)
سیّدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر میں اپنے موزے تین دن اور تین راتوں تک پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں بلکہ ان پر مسح کریں۔
(سنن الترمذی ،الطھارہ،باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم۔حدیث ۶۹.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
ٹیک لگا کر یا لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹے گا بیٹھے بیٹھے اونگھنے سے نہیں۔(ع،ر)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب رسول نماز عشاء کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اونگھتے تھے اور وضو کئے بغیر نماز ادا کر لیتے تھے۔
(مسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان نوم الجالس لا ینقض الوضوء:۶۷۳.)

۴۔ ہوا خارج ہونے سے وضو:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نماز پڑھ رہے ہو اور ہوا خارج ہو جائے تو جا کر وضو کرو۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۴۱۴۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جسے خیال آیا کہ نماز میں اس کی ہوا خارج ہوئی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز اس وقت تک نہ توڑے جب تک (ہوا نکلنے کی) آواز نہ سن لے یا اسے بدبو محسوس ہو۔‘‘
(بخاری، الوضوء، باب من لا یتوضا من الشک حتی یستیقن، ۷۳۱، مسلم: ۱۶۳.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب تک ہوا خارج ہونے کا مکمل یقین نہ ہو جائے وضو نہیں ٹوٹتا لہٰذا جسے پیشاب کے قطروں یا وہم کی بیماری ہو اسے بھی جان لینا چاہیے کہ وضو ایک حقیقت ہے، ایک یقین ہے یہ یقین سے ہی ٹوٹتا ہے۔ شک یا وہم سے نہیں۔
اگر کوئی مریض ہو اور ہر وقت اس کی ہوا خارج ہوتی رہتی ہو، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے کسی وقت بھی ہوا بند نہ ہوتی ہو یا بند کرنے سے اسے تکلیف ہو تو فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص معذور ہے۔ ہوا خارج ہونے سے اس کا وضو اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ اس کا حکم اس شخص کا سا ہو گا جس کی ناپاکی دائمی ہے البتہ وقت نماز شروع ہو نے کے بعد اسے ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہو گا۔
(فتاوی اسلامیہ، اول۷۶۶.)

قے، نکسیر اور وضو:
قے یا نکسیر آنے سے وضو ٹوٹ جانے والی روایت (ابن ماجہ :۱۲۲۱) کو امام احمد اور دیگر محدثین نے ضعیف کہا ہے بلکہ اس سلسلے کی تمام روایات سخت ضعیف ہیں۔ لہٰذا ’’براءت اصلیہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ خون نکلنے سے وضو فاسد نہیں ہوتا۔ اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جو غزوہ ذات رقاع میں پیش آیا جب ایک انصاری صحابی رات کو نماز پڑھ رہے تھے کسی دشمن نے ان پر تین تیر چلائے جن کی وجہ سے وہ سخت زخمی ہو گئے اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا مگر اس کے باوجود وہ اپنی نماز میں مشغول رہے۔
(ابوداود، الطھارۃ، باب الوضوء من الدم، ۸۹۱۔ اسے امام حاکم ۱/۶۵۱ اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم نہ ہوا ہو یا آپ کو علم ہوا اور آپ نے انہیں نماز لوٹانے یا خون بہنے سے وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ بتایا مگر صحیح احادیث میں اس کا ذکر نہ ہو۔
اسی طرح جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو آپ اسی حالت میں نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کے جسم سے خون جاری تھا۔
(موطا امام مالک، الطھارہ، باب العمل فیمن غلبہ الدم من جرح او رعاف ۱/ ۹۳ والسنن الکبری للبیہقی ۱/ ۷۵۳.)
اس سے معلوم ہوا کہ خون کا بہنا ناقض وضو نہیں ہے۔

بیوی کا بوسہ لینا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ازواج مطہرات کا بوسہ لیا اور پھر وضو کئے بغیر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
(ابو داؤد، الوضوء من القبلۃ،۸۷۱، ترمذی ،ترک الوضوء من القبلۃ،۶۸.)
فضیلۃ الشیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چھونے سے خواہ بغیر کسی چیز کے حائل ہوئے اور خواہ شہوت کے ساتھ چھونے سے بوسہ دینے اور ساتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (فتاوی اسلامیہ،اول۹۹۲. ) (البتہ اگر اسی حالت میں مذی خارج ہو جائے تو واجب ہے کہ) آلہ تناسل، خصیتین اور کپڑے کے آلودہ حصے کو دھویا جائے اور نماز کے لیے وضو کیا جائے۔ (فتاوی اسلامیہ، اول۰۱۳.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تیمم کا بیان

پانی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی کو وضو یا غسل کی نیت کر کے اپنے ہاتھوں اور منہ پر ملنا تیمم کہلاتا ہے۔
پانی نہ ملنے کی کئی صورتیں ہیں مثلا مسافر کو سفر میں پانی نہ ملے۔ یا پانی کے مقام تک پہنچنے میں جان کا ڈر ہو۔ مثلا گھر میں پانی نہیں ہے باہر کرفیو نافذ ہے یا پانی لانے میں کسی دشمن یا درندے سے جان کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں ہم تیمم کر سکتے ہیں خواہ یہ وجہ برسوں موجود رہے تیمم بھی بدستور جائز رہے گا۔
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے اگرچہ دس برس پانی نہ پائے۔‘‘
(ابوداود، الطھارۃ، باب الجنب یتیمم، ۲۳۳، وترمذی، الطھارۃ، باب التیمم للجنب اذا لم یجد الماء حدیث ۴۲۱۔ اسے ترمذی، امام حاکم ۱/۶۷۱۔ ۷۷۱ ۔ اور امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلے جب بیدا یا ذات الجیش پہنچے تو میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر گر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ڈھونڈنے کے لیے ٹھہر گئے، لوگ بھی ٹھہر گئے وہاں پانی نہ تھا، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے انہوں نے غصہ کیا اور مجھے برا بھلا کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی بالکل نہ تھا تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔‘‘
سیدنا اسید بن خضیر انصاری رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے ابو بکر کی اولاد یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے (یعنی اس سے پہلے بھی تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فائدہ دیا)۔ پھر ہم نے اونٹ کو اٹھایا تو ہار اس کے نیچے سے نکلا۔
(بخاری، کتاب التیمم: ۴۳۳، مسلم: ۷۶۳.)

جنابت کی حالت میں تیمم :
اگر پانی نہ ملے یا پانی اتنا کم ہو کہ وضو نہ ہو سکے تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔
سیّدنا عمران رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو اچانک آپ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو لوگوں سے الگ بیٹھا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:
"اے فلاں! لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟"
اس نے کہا مجھے جنابت پہنچی اور پانی نہ مل سکا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تجھ پر مٹی (سے تیمم کرنا) لازم ہے۔ پس وہ تیرے لیے کافی ہے۔‘‘
(بخاری، التیمم، باب الصعید الطیب وضوء المسلم ۴۴۳۔ و مسلم، المساجد، باب قضاء الصلوۃ الفائتۃ ۲۸۶.)

زخمی یا مرض کی حالت میں تیمم :
اگر کسی کمزور یا بیمار آدمی کو احتلام ہو جائے اور شدید سردی ہو یا پانی بہت ٹھنڈا ہو اور غسل کرنا اس کے لیے ہلاکت یا بیماری کا موجب ہو تو اسے تیمم کر کے نماز پڑھ لینی چاہیے۔ محتلم، حائضہ اور نفاس سے فارغ ہونے والی عورتیں بھی بوقت ضرورت تیمم کر کے نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس لیے کہ تیمم عذر کی حالت میں وضو اور غسل دونوں کا قائم مقام ہے۔
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سردی کا موسم تھا ایک آدمی کو غسل جنابت کی ضرورت پیش آئی۔ اس نے اس بارے میں دریافت کیا تو اسے غسل کرنے کو کہا گیا۔ اس نے غسل کیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ جب اس واقعہ کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ اﷲ ان کو مارے بیشک اللہ تعالی نے مٹی کو پاک کرنے والا بنایا ہے۔" (وہ تیمم کر لیتا۔)
(ابن خزیمۃ ۱/۸۳۱ ۳۷۲ ابن حبان، ۱۰۰۲ اسے حاکم ۱/۵۶۱ اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو غزوہ ذات السلاسل میں بھیجا گیا، وہ بیان کرتے ہیں ایک سخت سردی کی رات کو مجھے احتلام ہو گیا مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے غسل کیا تو کہیں ہلاک نہ ہو جاوں لہٰذا میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز فجر پڑھ لی جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اس بات کا ذکر کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
"عمرو تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ حالت جنابت میں نماز ادا کر لی"
میں نے کہا مجھے اللہ کا یہ فرمان یاد آگیا (وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْما)(النساء :۲۹ ) اور اپنے نفسوں کو قتل مت کرو بے شک اللہ نہایت مہربان ہے۔ میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا۔
(ابو داؤد الطھارۃ اذا خاف الجنب البرد،۴۳۳.)

تیمم کا طریقہ:
سب سے پہلے تیمم کرنے کی نیت یعنی ارادہ کرے پھر پاک زمین پر ہاتھ مارے دونوں ہاتھوں کا مسح کرے۔ پھر اپنے چہرے کا مسح کرے۔
سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ سفر کی حالت میں جنبی ہو گئے اور (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) خاک میں لوٹے اور نماز پڑھ لی۔ پھر (سفر سے آکر) یہ حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو آپ نے فرمایا:
’’تمہارے لیے صرف یہی کافی تھا۔ (اور) پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان پر پھونک ماری پھر ان کے ساتھ اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا۔‘‘
(بخاری، التیمم، باب المتیمم ھل ینفخ فیھما؟ ۸۳۳۔ ومسلم الحیض، باب التیمم، ۸۶۳.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمار سے کہا کہ
’’تمہارے لیے صرف یہی کافی تھا۔ (اور) پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان پر پھونک ماری پھر ان کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں پر مسح کیا پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔‘‘
(بخاری، التیمم باب التیمم ضربۃ ۷۴۳.)
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی پھر انہیں پانی مل گیا اور ابھی نماز کا وقت باقی تھا، پس ان میں سے ایک نے وضو کیا اور نماز لوٹائی اور دوسرے نے نماز نہ لوٹائی، پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا پس آپ نے اس شخص سے کہا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی کہ
’’تم نے سنت پر عمل کیا اور تمہاری (تیمم والی) نماز تمہارے لیے کافی ہے اور دوسرے شخص سے کہا جس نے نماز لوٹائی تھی کہ تیرے لیے زیادہ اجر ہے۔‘‘
(نسائی الغسل، باب التیمم لمن یجد الماء بعد الصلوۃ حدیث ۳۳۴ حاکم اور حافظ ذہبی نے بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہا۔)

تنبیہات:
- قرآن مجید کے حکم (فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّبًا) (النساء ۴/۳۴) کی رو سے تیمم، پاک مٹی سے کرنا چاہیے۔
- تیمم جیسے مٹی سے جائز ہے اسی طرح شور والی زمین اور ریت سے بھی جائز ہے۔
- ایک تیمم سے (وضو کی طرح) کئی نمازیں پڑھ سکتے ہیں کیونکہ تیمم وضو کا قائم مقام ہے۔ جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے انہی چیزوں سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر نماز پڑھ لینے کے بعد پانی کی موجودگی کا علم ہو جائے تو پانی سے وضو کر کے نماز دھرانے یا نہ دھرانے کا اختیار ہے۔ تاہم اگر دہرا لے تو بہتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نماز: فرضیت، فضیلت اور اہمیت
نماز وہ اہم فریضہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے معراج کی رات براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کیں۔ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی تم اللہ کے پاس لوٹ کر جاؤ اور تخفیف چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر گئے حتیٰ کہ پانچ نمازیں رہ گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے محمد! دن رات کی پانچ نمازیں ہیں، ہر نماز میں دس نمازوں کا ثواب ہے تو یہ وہی پچاس نمازیں ہوئیں۔‘‘
(مسلم: الإیمان، باب: الإسراء برسول اللہ: ۲۶۱.)

سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر کتنی عنایت ہے کہ پانچ نمازیں پڑھیں پچاس کا اجر ملے۔
قرآن مجید میں بہت سی آیات میں نماز کا ذکر ہے:
(إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ) (العنکبوت: ۵۴)
’’بے شک نماز بے حیائی اور منکر باتوں سے روکتی ہے‘‘
(قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلّٰی) (الأعلی: ۴۱، ۵۱)
’’بیشک فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی۔‘‘
(قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾) (المؤمنون: ۲)
’’ایماندار لوگ کامیاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرتے ہیں۔‘‘
(وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿٩﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿١١﴾) (المؤمنون: ۹ ۔ ۱۱)
’’اور جو اپنی نمازوں پر محافظت کرتے ہیں، یہی لوگ ایسے وارث ہیں جو جنت الفردوس کے مالک ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا:
’’ان کو دعوت دو کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اگر وہ یہ بات مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ نے تم پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘
(بخاری: الزکاۃ، باب: وجوب الزکاۃ: ۵۹۳۱، مسلم: ۹۱.)

اس فرضیت سے بچے اور پاگل مستثنیٰ ہیں:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین انسان مرفوع القلم ہیں:
۱: سویا ہوا جاگنے تک
۲: نا بالغ بچہ بالغ ہونے تک
۳: پاگل انسان عقل درست ہونے تک۔‘‘
(أبو داود: الحدود، باب: فی المجنون یسرق: ۳۰۴۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اولاد کو نماز سکھانے کا حکم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور جب وہ دس برس کے ہوں تو انہیں ترک نماز پر مارو اور ان کے بستر جدا کر دو۔‘‘
(ابو داؤد، الصلوۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ، ۵۹۴۔ ترمذی، الصلوۃ، باب ماجاء متی یؤمر الصبی بالصلوۃ؟ ۷۰۴ اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے والدین کو ارشاد فرما رہے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو سات برس کی عمر میں ہی نماز کی تعلیم دے کر نماز کا عادی بنانے کی کوشش کریں اور اگر دس برس کے ہو کر نماز نہ پڑھیں تو والدین تادیبی کاروائی کریں انہیں سزا دے کر نماز کا پابند بنائیں اور دس برس کی عمر کا زمانہ چونکہ بلوغت کے قریب کا زمانہ ہے اس لیے انہیں اکٹھا نہ سونے دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فضیلت نماز:

سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پانچ نمازیں، ان گناہوں کو جو ان نمازوں کے درمیان ہوئے، مٹا دیتی ہیں اور (اسی طرح) ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، جب کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا گیا ہو۔‘‘
(مسلم، الطھارۃ باب الصلوٰت الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ ورمضان إلی رمضان مکفرات لما بینہن ما اجتنبت الکبائر ۳۳۲.)
مثلاً فجر کی نماز کے بعد جب ظہر پڑھیں گے تو دونوں نمازوں کے درمیانی عرصے میں جو گناہ، لغزشیں اور خطائیں ہو چکی ہو نگی ﷲ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ اسی طرح رات اور دن کے تمام صغیرہ گناہ نماز پنجگانہ سے معاف ہو جاتے ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
’’بھلا مجھے بتاؤ اگر تمہارے دروازے کے باہر نہر ہو اور تم اس میں ہر روز پانچ بار نہاؤ، کیا (پھر بھی جسم پر) میل باقی رہے گا؟‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ ’’نہیں‘‘
آپ نے فرمایا: ’’یہی مثال پانچوں نمازوں کی ہے، اللہ تعالی ان کے سبب گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب الصلوات الخمس کفارۃ ۸۲۵ و مسلم، المساجد، باب المشی إلی الصلاۃ تمحی بہ الخطایا: ۷۶۶)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور فرمایا خوش ہو جاؤ! خوش ہو جاؤ! جس نے پانچ نمازیں پڑھیں اور کبیرہ گناہ سے اجتناب کیا وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۵۴۳.)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو قیام کرتا ہے اور صبح کو چوری کرتا ہے تو آپ نے فرمایا:
’’عنقریب وہ باز آجائے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۸۴۳.)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ (میں نے گناہ کیا اور بطور سزا) میں حد کو پہنچا ہوں پس مجھ پر حد قائم کریں۔ آپ نے اس سے حد کا حال دریافت نہ کیا (یہ نہ پو چھا کہ کونسا گناہ کیا ہے؟) اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس شخص نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ نماز پڑھ چکے تو وہ شخص پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ اے ﷲ کے رسول! تحقیق میں حد کو پہنچا ہوں پس مجھ پر ﷲ کا حکم نافذ کیجیے۔ آپ نے فرمایا:
’’کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟‘‘
اس نے کہا ’’پڑھی ہے‘‘
آپ نے فرمایا: ’’اﷲ نے تیرا گناہ بخش دیا ہے۔‘‘
(مسلم، التوبۃ، باب قولہ تعالی: (ان الحسنات یذھبن السیئات): ۴۶۷۲.)
اﷲ کی رحمت اور بخشش کتنی وسیع ہے کہ نماز پڑھنے کے سبب ﷲ نے اس کا گناہ جسے وہ اپنی سمجھ کے مطابق ’’حد کو پہنچنا‘‘ کہہ رہا تھا معاف کر دیا معلوم ہوا نماز گناہوں کو مٹانے والی ہے۔

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاڑے کے موسم میں نکلے، پت جھڑ کا موسم تھا۔ آپ نے ایک درخت کی دو شاخیں پکڑ کر انہیں ہلایا تو پتے جھڑنے لگے آپ نے فرمایا:
’’اے ابو ذر!‘‘ میں نے کہا اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا:
’’مسلمان جب نماز پڑھتا ہے اور اس کے ساتھ ﷲ کی رضا چاہتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑے ہیں۔‘‘
(مسند احمد ۵/ ۹۷۱ ۹۸۸۱۲ امام منذری ۱/ ۸۴۲ نے اسے حسن کہا۔)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پاکیزگی ایک تہائی ہے۔ رکوع ایک تہائی ہے اور سجدہ ایک تہائی ہے۔ جس نے اسے کما حقہ ادا کیا تو اس کی نماز قبول کی جائے گی اور اس کے سارے اعمال قبول ہوں گے اور جس کی نماز مردود ہو گئی اس کے سارے اعمال مردود ہوں گے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۷۳۵۲.)

سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص آفتاب کے طلوع و غروب سے پہلے (فجر اور عصر کی) نماز پڑھے گا وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیھما، ۴۳۶.)

سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص نماز عشاء باجماعت ادا کرے (اسے اتنا ثواب ہے) گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا اور پھر صبح کی نماز باجماعت پڑھے (تو اتنا ثواب پایا) گویا تمام رات نماز پڑھی۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ، ۶۵۶.)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارے پاس فرشتے رات اور دن کو آتے ہیں۔ (آنے اور جانے والے فرشتے) نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوتے ہیں۔ جو فرشتے رات کو رہے وہ آسمان کو چڑھتے ہیں تو ان کا رب ان سے پوچھتا ہے (حالانکہ وہ اپنے بندوں کا حال خوب جانتا ہے): تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ کہتے ہیں ہم نے ان کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھتے تھے اور ہم ان کے پاس اس حال میں گئے کہ وہ نماز پڑھتے تھے۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب فضل صلوۃ العصر، ۵۵۵۔ و مسلم :۲۳۶.)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’منافقوں پر فجر اور عشاء سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں۔ اگر انہیں ان نمازوں کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ان میں ضرور پہنچیں اگرچہ انہیں سرین پر چلنا پڑے۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب فضل العشاء فی الجماعۃ، ۷۵۶۔ و مسلم، المساجد، باب فضل صلٰوۃ الجماعۃ، ۱۵۶.)
سرین پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاؤں سے چلنے کی طاقت نہ ہو تو ان نمازوں کے ثواب اور اجر کی کشش انہیں چوتڑوں کے بل چل کر مسجد پہنچنے پر مجبور کر دے یعنی ہر حال میں پہنچیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر لوگ اذان دینے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کا ثواب جانتے تو اس کے لیے قرعہ ڈالتے، اگر انہیں ظہر کی نماز کے لیے جلدی مسجد میں جانے کا ثواب معلوم ہوتا تو ایک دوسرے سے آگے بڑھتے، اگر انہیں فجر اور عشا کی نماز باجماعت کا اجر معلوم ہوتا تو گھسٹتے ہوئے (مسجد) آتے۔‘‘
(بخاری الاذان باب الاستھام فی الاذان: ۵۱۶، مسلم: ۷۳۴.)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر اس قدر پیاری تھی کہ جب جنگ خندق کے دن کفار کے حملے اور تیر اندازی کے سبب یہ نماز فوت ہو گئی تو آپ کو شدید رنج پہنچا اس پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:
’’ہمیں کافروں نے درمیانی نماز، نماز عصر، سے باز رکھا، اللہ تعالی ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔‘‘
(بخاری، الجھاد والسیر باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ والزلزلۃ ۱۳۹۲، ومسلم، المساجد، باب الدلیل لمن قال الصلوۃ الوسطی ھی صلاۃ العصر، ۷۲۶، ۸۲۶.)

ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خوش ہو جاؤ۔ یہ تمہارا رب ہے جس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کر رہا ہے اور فرما رہا ہے میرے بندوں کی طرف دیکھو جنہوں نے ایک فرض ادا کیا اور دوسرے کے منتظر ہیں۔
(ابن ماجہ، المساجد، لزوم المساجد وانتظار الصلاۃ، ۱۰۸.)

نمازی اور شہید:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک قبیلہ کے دو شخص ایک ساتھ مسلمان ہوئے، ان میں سے ایک جہاد فی سبیل ﷲ میں شہید ہو گیا اور دوسرا ایک سال کے بعد فوت ہوا۔ سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا اس شہید سے پہلے جنت میں داخل ہو گئے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ شہید کا رتبہ تو بہت بلند ہے اس لیے جنت میں اسے پہلے داخل ہونا چاہیے تھا۔ میں نے خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی (یعنی اس تقدیم و تاخیر کی وجہ پوچھی) تو آپ نے فرمایا:
’’جس شخص کا بعد میں انتقال ہوا کیا تم اس کی نیکیاں نہیں دیکھتے کس قدر زیادہ ہو گئیں؟ کیا اس نے ایک رمضان کے روزے نہیں رکھے؟ اور (سال بھر کی فرض نمازوں کی) چھ ہزار اور اتنی اتنی رکعتیں زیادہ نہیں پڑھیں؟ (ان نمازوں اور روزوں کی برکت سے وہ جنت میں پہلے چلا گیا)۔‘‘
(مسند احمد ۲/۳۳۳، ۰۸۳۸ امام منذری ۱/۴۴۲ اور امام ہیثمی ۰۱/۷۰۲ نے اسے حسن کہا۔)
یہی قصہ سیّدنا طلحہ بن عبد ﷲ رضی اللہ عنہ خود ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں یہ قصہ کس درجہ ایمان افروز اور نماز کی رغبت دلانے والا ہے۔ سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صبح لوگوں کو اپنا خواب سنایا۔ سب کو اس بات پر تعجب ہوا کہ شہید کو (جنت جانے کی) اجازت بعد میں کیوں ملی؟ حالانکہ اسے پہلے ملنی چاہیے تھی۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ نے فرمایا:
’’اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے، بتاؤ! کیا بعد والے شخص نے ایک سال عبادت (زیادہ) نہیں کی؟۔ اس نے ایک رمضان کے روزے نہیں رکھے؟۔ اس نے ایک سال کی نمازوں کے اتنے اتنے سجدے زیادہ نہیں کئے؟۔ سب نے عرض کیا۔ جی ہاں ﷲ کے رسول! تو آپ نے فرمایا:
’’پھر تو ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہو گیا۔‘‘
(ابن ماجہ، تعبیر الرویا، باب تعبیر الرویا، ۵۲۹۳۔ ابن حبان ، ۶۶۴۲ نے اسے صحیح کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ترک نماز کفر کا اعلان ہے:

سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑ دینا ہے۔‘‘
(مسلم، الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوۃ، ۲۸.)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان نماز دیوار کی طرح حائل ہے۔
دوسرے لفظوں میں نماز کا ترک مسلمان کو کفر تک پہنچانے والا عمل ہے۔

سیّدنا بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہمارے اور منافقوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے نماز چھوڑ دی پس اس نے کفر کیا۔‘‘
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلوۃ، باب ما جاء فیمن ترک الصلوۃ۔ ۹۷۰۱۔ ترمذی ۱۲۶۲ اسے ترمذی، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا۔)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو جو امن حاصل ہے، وہ قتل نہیں کئے جاتے اور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور ان کا نماز پڑھنا گویا مسلمانوں کے درمیان ایک عہد ہے جس کے سبب منافقوں کی جان اور ان کا مال مسلمانوں کی تلوار اور یلغار سے محفوظ ہے اور جس نے نماز ترک کی تو اس نے اپنے کفر کا اظہار کر دیا۔ مسلمان بھائیو! غور کرو کس قدر خوف کا مقام ہے کہ ترک نماز کفر کا اعلان ہے۔
عبد اﷲ بن شقیق رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اعمال میں سے کسی چیز کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔‘‘
(ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلوۃ، ۲۲۶۲ اسے امام حاکم ۱/۷اور ذہبی نے صحیح کہا۔)

سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’جو شخص فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دے تو یقیناً اس (کی بابت ﷲ کا معاف کرنے) کا ذمہ ختم ہو گیا۔‘‘
(ابن ماجہ، الفتن، باب الصبر علی البلاء، ۴۳۰۴ اس کی سند امام ذہبی اور ابن حجر کی شرط پر حسن ہے۔)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم دین میں سب سے پہلی چیز جو گم پاؤ گے وہ امانت ہو گی اور آخری چیز نماز ہو گی ۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۹۴۷۱.)

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک نماز چھوڑی تو گویا اس سے دنیا اپنے تمام تر سامان کے ساتھ چھین لی گئی اور جس شخص نے نشے کی وجہ سے چار مرتبہ نماز چھوڑی تو اللہ پر لازم ہے کہ اسے اہل جہنم کا پیپ (طینۃ الخیال) پلائے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۹۱۴۳.)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے تو گویا اس کا اہل اور مال ہلاک کر دیا گیا۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب اثم من فاتتہ العصر، ۲۵۵، مسلم، المساجد، باب التغلیظ فی تفویت صلاۃ العصر ۶۲۶ .)

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے نماز عصر چھوڑ دی پس اس کے اعمال باطل ہو گئے۔‘‘
(بخاری: مواقیت الصلوۃ باب التبکیر بالصلوۃ فی یوم غیم، ۴۹۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اہمیت نماز:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’تحقیق قیامت کے دن لوگوں کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا۔‘‘
(ابو داؤد، الصلوۃ، باب قول النبی کل صلوۃ لا یتمھا صاحبھا تتم من تطوعہ، ۴۶۸ حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا۔)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندے کا سب سے پہلا حساب نماز کے بارے میں لیا جائے گا۔ اگر وہ درست ہوئی تو اس کے سارے اعمال درست ہوں گے اور اگر وہ خراب ہوئی تو اس کے سارے اعمال خراب ہوں گے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۵۳۱.)

سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ﷲ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟
آپ نے فرمایا: ’’وقت پر نماز پڑھنا‘‘
میں نے کہا پھر کونسا؟
آپ نے فرمایا: ’’ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘‘
میں نے کہا پھر کون سا؟
آپ نے فرمایا: ’’اﷲ کے راستہ میں جہاد کرنا۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب فضل الصلوۃ لوقتھا، ۷۲۵، مسلم الایمان، باب بیان کون الایمان باللہ تعالی افضل الاعمال، ۵۸.)

سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام تھا:
’’نماز اور غلام کے بارے میں اﷲ سے ڈرو۔‘‘
(ابن ماجہ، الوصایا، باب ھل اوصی رسول ﷲ ۸۹۶۲ ابن حبان، ۰۲۲۱، اسے امام بوصیری نے صحیح کہا۔)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز دین کا ستون ہے۔‘‘
(ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی حرمۃ الصلوۃ ۶۱۶۲ اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے۔)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’قیامت کے دن جب ﷲ تعالیٰ بعض دوزخیوں پر رحمت کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ دوزخ سے ایسے لوگوں کو باہر نکال لیں جو ﷲ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں کرتے تھے۔ فرشتے انہیں نشان سجدہ سے پہچان کر دوزخ سے نکال لیں گے (کیونکہ) سجدہ کی جگہوں پر اللہ تعالی نے دوزخ کی آگ کو حرام کر دیا ہے وہاں آگ کا کچھ اثر نہ ہو گا۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب فضل السجود، ۶۰۸ و مسلم، الایمان، معرفۃ طریق الرویۃ ۲۸۱.)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! خواہ کتنا ہی آپ زندہ رہیں آخر ایک دن مرنا ہے اور جس سے چاہیں کتنی محبت کریں آخر ایک دن جدا ہو جانا ہے اور آپ جیسا بھی عمل کریں اس کا بدلہ ضرور ملنا ہے اور اس میں کوئی تردد نہیں کہ مومن کی شرافت تہجد کی نماز میں ہے اور مومن کی عزت لوگوں (کے مال) سے استغناء (برتنے) میں ہے۔‘‘
(مستدرک حاکم۔ ۴/۴۲۳، ۵۲۳ امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح اور حافظ منذری نے حسن کہا۔)
یعنی جو کچھ ﷲ نے دیا ہے اس پر صبر، شکر اور قناعت کرے اور لوگوں کے مال میں طمع و حرص نہ رکھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’میں نے خواب میں اپنے با برکت اور بلند قدر پروردگار کو بہترین صورت میں دیکھا، پس اس نے کہا، اے محمد! میں نے کہا: اے میرے رب میں حاضر ہوں۔ ﷲ نے فرمایا مقرب فرشتے کس بات میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا۔ اﷲ نے تین بار پوچھا۔ میں نے ہر بار یہی جواب دیا۔ پھر میں نے اﷲ کو دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا۔ یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالی کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنی چھاتی کے درمیان محسوس کی (ﷲ کا ہاتھ اور انگلیاں دراصل یہ اللہ تعالی کی صفات ہیں ان کی کیفیت ہم نہیں جانتے، ہم انہیں مخلوق کے ہاتھ اور انگلیوں سے تشبیہ نہیں دیتے بلکہ دیگر غیبی امور کی طرح ﷲ کی ان صفات پر بھی ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ الحمد ﷲ [ع،ر]۔) پھر میرے لیے ہر چیز ظاہر ہو گئی۔ اور میں نے سب کو پہچان لیا۔ پھر فرمایا اے محمد! میں نے کہا۔ میرے رب! میں حاضر ہوں۔ اﷲ نے فرمایا مقرب فرشتے کس بات میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کفارات (گناہوں کا کفارہ بننے والی نیکیوں) کے بارے میں۔ اﷲ نے فرمایا وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا نماز باجماعت کے لیے پیدل چل کر جانا اور نماز کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا اور مشقت (سردی یا بیماری) کے وقت پورا وضو کرنا۔ اللہ تعالی نے فرمایا اور کس چیز میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: درجات کی بلندی کے بارے میں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ لوگوں کو کھانا کھلانا، گفتگو میں نرم انداز اختیار کرنا اور رات کو تہجد کی نماز ادا کرنا جب لوگ سو رہے ہوں درجات کی بلندی کا باعث ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اپنے لیے جو چاہو دعا کرو‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں نے یہ دعا کی:
(( اَللَّہُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاَنْ تَغْفِرَ لِیْ وَتَرْحَمَنِیْ وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ وَاَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّقَرِّبُ اِلَی حُبِّکَ.))
’’اے اﷲ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نیکیوں کے کرنے کا اور برائیوں کے چھوڑنے کا اور مسکینوں کے ساتھ محبت کرنے کا اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور اگر تیرا کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنے کا ارادہ ہو تو مجھے آزمائش سے بچا کر موت دے دینا اور میں تجھ سے تیری اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ اور میں تجھ سے وہ عمل کرنے کی توفیق مانگتا ہوں جو (مجھے) تیری محبت کے قریب کر دے‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرا یہ خواب حق ہے پس اس کو یاد رکھو اور دوسرے لوگوں کو بھی یہ خواب سناؤ۔‘‘
(ترمذی، تفسیر القرآن، ومن سورۃ ص، ۵۳۲۳۔امام ترمذی نے حسن صحیح کہا۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے صبح کی نماز پڑھی، وہ ﷲ کی پناہ میں ہے۔ پس اللہ تعالی تم سے اپنی پناہ کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ جس سے وہ یہ مطالبہ کرے گا یقیناً اس کو اپنی گرفت میں لے کر منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب فضل صلوۃ العشاء و الصبح فی جماعۃ: ۷۵۶.)
معلوم ہوا کہ صبح کی نماز پڑھنے والے کو ستانا سخت گناہ ہے کیونکہ وہ اللہ کی پناہ میں ہے اور جو اللہ کی پناہ میں خلل ڈالے گا اس کو اللہ جہنم میں ڈال دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جبرئیل کی امامت

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خانہ کعبہ کے پاس جبرائیل علیہ السلام نے میری امامت کی۔ پس مجھے ظہر کی نماز پڑھائی۔۔۔اور مجھے عصر کی نماز پڑھائی۔۔۔اور مجھے مغرب کی نماز پڑھائی۔۔۔ اور مجھے عشاء کی نماز پڑھائی ۔۔۔ اور مجھے فجر کی نماز پڑھائی۔‘‘
(ابو داؤد، الصلوۃ، باب فی المواقیت، ۳۹۳۔ ترمذی، الصلوۃ، باب ما جاء فی مواقیت الصلاۃ، ۹۴۱۔ اسے امام ترمذی، ابن خزیمہ، حاکم، ذہبی اور ابوبکر ابن العربی نے صحیح کہا۔)
امامت جبرائیل علیہ السلام کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کا درجہ اتنا بلند، اس کی اہمیت ﷲ کے نزدیک اتنی اعلی و ارفع، اور اسے مخصوص ہیئت، مقررہ قاعدوں، متعینہ ضابطوں اور نہایت خشوع و خضوع سے ادا کرنا اس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے تعلیم امت کے لیے جبرائیل کو ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ جبرائیل علیہ السلام نے ﷲ کے حکم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی کیفیت، ہیئت، اس کے اوقات اور اس کے قاعدے سکھائے اور پھر آپ جبرائیل کے بتائے اور سکھائے ہوئے وقتوں، طریقوں، قاعدوں اور ضابطوں کے مطابق نماز پڑھتے رہے اور امت کو بھی حکم دیا:
’’تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب الاذان للمسافر: ۱۳۶.)

نماز میں خشوع اور خضوع
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾)( المومنون: ۱، ۲)
’’بے شک مومن کامیاب ہو گئے جو اپنی نماز خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔‘‘
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح (دل لگا کر) کر جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے، اور اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ خیال کر کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
(بخاری: الإیمان، باب: سوال جبریل النبی عن الإیمان: ۰۵، مسلم: ۹.)
جب انسان نماز میں یہ تصور کرے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا کم از کم اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور تعظیم پیدا ہو گی، وہ اپنی نماز خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرے گا۔ نماز میں بے جا حرکات و سکنات نہیں کرے گا، بے ادبی اور بد تہذیبی کے ساتھ نماز ادا نہیں کرے گا بلکہ نماز سکون اور اطمینان کے ساتھ ادا کرے گا۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، پس جس نے اچھا وضو کیا ان کو خشوع کے ساتھ پڑھا اور ان کا رکوع پورا کیا تو اس نمازی کے لیے اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ وہ اس کو بخش دے گا اور جو ایسا نہ کرے اللہ کا کوئی عہد نہیں ۔چاہے بخش دے چاہے عذاب دے۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: المحافظۃ علی الصلوٰت: ۵۲۴ امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بلا ضرورت حرکت کرنا ادب اور تعظیم کے منافی :

جو شخص نماز میں یہ تصور کرے کہ وہ احکم الحاکمین کے سامنے کھڑا ہے تو وہ پوری دلجمعی اور حضور قلب کے ساتھ نماز ادا کرے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا جسم متحرک رہے، کبھی ایک پیر پر زور دے کبھی دوسرے پیر پر، کبھی داڑھی سے کھیلنا شروع کرے اور کبھی بغیر ضرورت کھجلی کرتا رہے، کبھی قمیص کی سلوٹیں دور کرے اور کبھی سر کے رومال کو ہلاتا رہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(وَقُوْمُوْ لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ) ( البقرۃ: ۸۳۲)
’’اور اللہ کے سامنے (نماز میں) ادب سے کھڑے رہو‘‘

نقش و نگار والی چادر اور جائے نماز منع:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی ہے کہ نمازی کے سامنے کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو اس کی توجہ نماز سے ہٹا دے اور اس طرح اس کے حضور قلب میں فرق آئے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، پھر فرمایا:
’’میری اس چادر کو ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اس کی چادر میرے پاس لے آؤ، اس (چادر کی دھاریوں) نے مجھے نماز میں خشوع سے غافل کر دیا۔‘‘
(بخاری: الصلاۃ، باب: إذا صلی فی ثوب لہ اعلام: ۳۷۳، مسلم: المساجد، باب: کراہۃ الصلاۃ فی ثوب لہ اعلام: ۶۵۵.)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے گھر میں ایک پردہ لٹکا رکھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ پردہ ہٹا دو، اس کی تصویریں نماز میں میرے سامنے آتی ہیں۔‘‘
(بخاری: الصلاۃ، باب: ان صلی فی ثوب مصلب أو تصاویر: ۴۷۳.)

سیّدنا عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھر کے قبلہ کی طرف کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو نمازی کو غافل کرے۔
(ابو داؤد، المناسک باب فی دخول الکعبۃ، ۰۳۰۲.)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں آنکھیں کھول کر رکھتے تھے لہٰذا خضوع کے لیے آنکھیں بند کرنا درست نہیں ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ نماز میں کمال حضور اور خضوع لازمی ہے اور جو چیز آدمی کو نماز میں اپنی طرف متوجہ کرے اس کو دور کر دینا چاہیے، مگر افسوس آج مسجدوں میں موبائل کی موسیقی والی آوازیں گونجتی ہیں حتیٰ کہ خانۂ کعبہ بھی اس موسیقی سے محفوظ نہیں رہا اس طرح یہ لوگ اپنی اور دوسرے لوگوں کی نمازوں کے خشوع اور خضوع کو خراب کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مسجدوں کے محراب اور دیواروں کو آراستہ کیا جاتا ہے، ان پر نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، مسجد کی قالین اور جائے نماز پر نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، حالانکہ مساجد سادگی کا نمونہ ہونی چاہئیں تاکہ نماز میں سکون اور اطمینان ہو اور پوری توجہ کے ساتھ ایک مسلمان نماز ادا کر سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں مسجدوں کو مزین کروں۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
البتہ تم بھی مساجد کی زینت کرو گے جیسے ان کو یہود و نصاریٰ نے مزین کیا۔
(أبو داود: الصلاۃ، باب: فی بناء المسجد: ۸۴۴، ابن حبان نے صحیح کہا۔)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ لوگ مسجدوں پر فخر کریں گے۔‘‘
(أبو داود: ۹۴۴، ابن خزیمہ: ۳/۱۸۲ (۲۲۳۱) نے صحیح کہا۔)
فتوی کمیٹی الجنۃ الدائمۃ للافتاء والارشاد سعودی عرب کا فتویٰ ہے کہ نماز کے لیے ادا کئے جانے والے مصلوں پر آیات قرآنی ہونی چاہیے نہ حیوانات اور پرندوں کی تصاویر، کیونکہ مصلوں پر آیات قرآنی لکھنے سے قرآن مجید کی بے ادبی اور بے حرمتی ہے نیز جان دار اشیاء کی تصویریں جائز نہیں ہیں۔ اسی طرح نماز کے لیے استعمال کئے جانے والے مصلوں کے لیے یہ بھی شرط نہیں ہے کہ ان پر حرمین شریفین یا دیگر مساجد کی تصاویر بنی ہوں بلکہ اس طرح کی تصویریں مکروہ ہیں کیونکہ ان کی طرف دیکھنے سے نماز کے خشوع وخضوع میں فرق آجاتا ہے اور شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔
(فتاوی اسلامیہ ،ص۳۳.)

نماز میں ادھر ادھر دیکھنا منع:
نماز پڑھتے ہوئے نگاہیں نیچی ہونی چاہئیں، یہ بات نماز میں اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے ہونے کے خلاف ہے کہ نمازی نظروں کو اونچا کرے یا اِدھر اُدھر دیکھے۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا بندے کی نماز میں شیطان کا حصہ ہے۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: الالتفات فی الصلاۃ: ۱۵۷.)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ نماز میں اپنی نگاہیں اوپر اٹھاتے ہیں۔‘‘
آپ نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’لوگ ایسا کرنے سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نظریں اچک لی جائیں گی۔‘‘
(بخاری: ۰۵۷.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نیند اور بھوک کی حالت میں پہلے نماز پڑھنے کی ممانعت:

نماز میں توجہ اور حضور قلب برقرار رکھنا اتنا ضروری ہے کہ آپ نے نیند کی شدید طلب کی موجودگی میں نفل نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص نماز میں اونگھے اسے چاہیے کہ لیٹ جائے یہاں تک کہ اس کی نیند پوری ہو جائے، جو کوئی نیند میں نماز پڑھے گا تو اس کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ سے معافی مانگ رہا ہے یا اپنے آپ کو بد دعا دے رہا ہے۔‘‘
(بخاری: الوضوء، باب: الوضوء من النوم: ۲۱۲، مسلم: باب: أمر من نعس فی صلاتہ: ۶۸۷.۔)
اسی طرح اگر بھوک لگی ہو اور کھانا بھی موجود ہو تو نماز میں کھانے کا خیال آ سکتا ہے، جس کی وجہ سے دلجمعی کے ساتھ نماز ادا کرنا مشکل ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کھانا کھانے کا حکم دیا۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہارے سامنے شام کا کھانا رکھا جائے اور اُدھر نماز کے لیے جماعت بھی کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھاؤ اور نماز کے لیے جلدی نہ کرو یہاں تک کہ کھانے سے فارغ ہو جاؤ۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے کھانا لایا جاتا اور جماعت بھی کھڑی ہو جاتی تو وہ نماز کے لیے نہیں جاتے تھے یہاں تک کہ کھانے سے فارغ ہو جاتے، حالانکہ وہ امام کی قراءت کی آواز بھی سن رہے ہوتے تھے۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: إذا حضر الطعام وأقیمت الصلاۃ: ۳۷۶، مسلم: ۹۵۵.)
نماز میں دلجمعی ہی کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ پاخانہ یا پیشاب کی اگر حاجت ہو تو پہلے اس سے فراغت حاصل کرو۔

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کھانا موجود ہو یا پاخانہ و پیشاب کی حاجت ہو تو نماز نہیں ہوتی۔‘‘
(سنن ابی داوؤد، الطھارۃ، باب أیصلی الرجل وھو حاقن؟ حدیث ۸۸ سنن ترمذی،۲۴۱۔ اسے امام ترمذی، حاکم (۱/۸۶۱) اور ذہبی نے صحیح کہا۔)

سیدنا عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کو رفع حاجت کی طلب ہو اور جماعت کھڑی ہو گئی ہو تو پہلے وہ حاجت سے فراغت پائے پھر نماز پڑھے۔‘‘
(مسلم: المساجد، باب: کراہیۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام: ۰۶۵.)
بول و براز کے دباؤ کی حالت میں اگر نماز پڑھے گا تو نماز میں چین، خضوع اور اطمینان حاصل نہ ہو گا اس لیے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فراغت حاصل کرنے کو مقدم فرمایا۔
 
Top