• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تکبیر اولیٰ:

(۱) (قبلہ کی جانب منہ کرکے) ﷲ اکبر کہتے ہوئے رفع الیدین کریں۔ یعنی دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھائیں۔
سیدنا عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’ میں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے نماز کی پہلی تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے ۔ رکوع کی تکبیر کے وقت بھی ایسا ہی کیا اور جب ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘‘ کہا تو بھی ایسا ہی کیا اور فرمایا: ’’رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ‘‘ اور سجدہ میں جاتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ایسا نہ کیا۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب الی این یرفع یدیہ؟ ۸۳۷، مسلم: ۰۹۳.)

(۲) سیدنامالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’بیشک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر کہتے تو ہاتھوں کو کانوں تک بلند فرماتے، جب رکوع کرتے ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے پھر بھی ایسا ہی کرتے‘‘
(مسلم، الصلوۃ، باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین ۱۹۳.)
شیخ البانی فرماتے ہیں کہ (رفع یدین کرتے وقت) ہاتھوں سے کانوں کو چھونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ان کا چھونا بدعت ہے یا وسوسہ۔ مسنون طریقہ ہتھیلیاں کندھوں یا کانوں تک اٹھانا ہے۔ ہاتھ اٹھانے کے مقام میں مرد او رعورت دونوں برابر ہیں۔ ایسی کو ئی صحیح حدیث موجود نہیں جس میں یہ تفریق ہو کہ مرد کانوں تک اور عورتیں کندھوں تک ہاتھ بلند کریں۔
اسے تکبیر اولیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ نماز کی سب سے پہلی تکبیر ہے اور اس سے نماز شروع ہوتی ہے اور اسے تکبیر تحریمہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ ہی بہت سی چیزیں نمازی پر حرام ہو جاتی ہیں۔ (ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سینے پر ہاتھ باندھنا:

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھے۔
(ابن خزیمہ ۱/۳۴۲ (۹۷۴) اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا.)
سیدنا ہلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے دیکھا۔
( مسند أحمد ۵/۶۲۲، ۳۱۳۲۲، حافظ ابن عبد البر اور علامہ عظیم آبادی نے اسے صحیح کہا.)
سیدنا سہل بن سعدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کویہ حکم دیا جاتا تھا:
’’نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی (ذراع) پر رکھیں‘‘
(بخاری، الاذان ،باب وضع الیمنی علی الیسری، ۰۴۷.)
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی (کی پشت) اس کے جوڑ اور کلائی پر رکھا۔
( نسائی۔ الافتتاح، باب موضع الیمین من الشمال فی الصلاۃ: ۰۹۸، اسے ابن حبان حدیث ۵۸۴ ابن خزیمہ حدیث ۰۸۴ نے صحیح کہا .)
ہمیں بھی دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر اس طرح رکھنا چاہیے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آجائے اور دونوں کو سینے پر باندھاجائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہو سکے۔
رہی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت کہ سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر زیر ناف رکھا جائے۔
(ابوداود،الصلاۃ، باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ حدیث۶۵۷.)
اسے امام بیہقی اور حافظ ابن حجر نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام نووی فرماتے ہیں کہ اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔اس روایت کی سند عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی الواسطی کے ضعیف ہونے اور زیاد بن زید کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عورتوں اور مردوں کی طریقہ نماز میں فرق :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز اسی طرح پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘
(بخاری :۱۳۶.)
یعنی ہو بہو میرے طریقے کے مطابق سب عورتیں اور سب مردنماز پڑھیں ۔ پھر اپنی طرف سے یہ حکم لگانا کہ عورتیں کندھوں تک ہاتھ اٹھائیں اور مرد کانوں تک ۔ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف اور عورتیں سجدہ کرتے وقت زمین پر کوئی اور ہیئت اختیار کریں اور مرد کوئی اور ۔۔۔ یہ دین میں مداخلت ہے۔ یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے شروع کر کے السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہنے تک عورتوں اور مردوں کے لیے ایک ہیئت اور ایک ہی شکل کی نماز ہے۔ سب کا قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسۂ استراحت، قعدہ اور ہر ہر مقام پر پڑھنے کی دعائیں یکساں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں بتایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سینے پر ہاتھ باندھنے کے بعد کی دعائیں :

۱: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (اولیٰ) اور قراءت کے درمیان کچھ دیر چپ رہتے۔ پس میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تکبیر او رقراءت کے درمیان خاموش رہ کر کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا! میں یہ پڑھتا ہوں:
’’اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ‘‘
’’اے ﷲ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جیسے تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے۔ اے ﷲ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسا کہ سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے اے ﷲ! میرے گناہوں کو (اپنی بخشش کے) پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال‘‘
( بخاری، الاذان باب ما یقول بعد التکبیر، ۴۴۷ ومسلم:۸۹۵.)

۲: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں ایک شخص نے کہا:
’’ﷲُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَّالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا وَّسُبْحَانَ ﷲِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا.‘‘
’’اﷲ سب سے بڑا ہے۔ بہت بڑا ۔ ساری تعریف اس کی ہے۔ وہ (ہر عیب سے) پاک ہے۔ صبح اور شام ہم اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں‘‘سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے ، میں نے ان کلمات کو کبھی نہیں چھوڑا۔
(مسلم، المساجد، باب ما یقال بین تکبیرۃ الاحرام والقراء ۃ، ۱۰۶.)

۳: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کہتے:
’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ.‘‘
’’اے ﷲ تو پاک ہے، (ہم) تیری تعریف کے ساتھ (تیری پاکی بیان کرتے ہیں) تیرا نام (بڑا ہی) با برکت ہے، تیری بزرگی بلند ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
( ترمذی، الصلاۃ،باب ما یقول عند افتتاح الصلاۃ، ۳۴۲۔ وابو داؤد:۶۷۷، ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب الافتتاح الصلوۃ ۶۰۸. اسے حاکم ۱/ ۵۳۲ او رحافظ ذہبی نے صحیح کہا ہے۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعوذ:

سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز میں کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور پڑھتے:
’’اَعُوْذُ بِاﷲِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ.‘‘
’’اﷲکی پناہ مانگتا ہوں جو (ہر آواز کو) سننے والا (اور ہر چیز کو) جاننے والا ہے، مردود شیطان (کے شر) سے، اس کے خطرے سے ، اس کی پھونکوں سے اور اس کے وسوسے سے۔‘‘
(أبو داؤد، الصلاۃ ، باب من رای الاستفتاح، بسبحانک:۵۷۷۔ اسے ابن خزیمہ حدیث ۷۶۴ نے صحیح کہاہے۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سورۃ فاتحہ

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
’’اﷲ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو نہایت مہربان بے حد رحم کرنے والا ہے۔ ساری تعریف اﷲ کے لیے ہے جو تمام مخلوقات کا رب ہے۔ بے حد رحم کرنے والا بے حد مہربان ہے۔ بدلے کے دن کا مالک ہے۔ (اے ﷲ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ہمیں سیدھے راستے پر چلا، ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا جن پر غضب نہیں کیا گیا جو گمراہ نہیں ہوئے۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر،سیّدنا عمر اورسیّدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ۔وہ قراءت (الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) سے شروع کرتے اور سورۃ فاتحہ سے پہلے یا بعد میں (بلند آواز سے) (بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) نہیں پڑھتے تھے۔
( بخاری، الاذان، باب ما یقول بعد التکبیر، ۳۴۷، مسلم: ۹۹۳.)
آپ (بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) آہستہ پڑھتے تھے۔
(ابن خزیمۃ، ۵۹۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز اور سورۂ فاتحہ:

سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے (نماز میں) سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔‘‘
( بخاری، الاذان، باب وجوب القراء ۃ للامام والماموم فی الصلوات کلھا ۶۵۷، مسلم:۴۹۳.)

امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب باندھتے ہیں:
’’نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا ہر نمازی پر واجب ہے خواہ امام ہو یا مقتدی، مقیم ہو یا مسافر، نماز سری ہو یا جہری۔‘‘

سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے آپ نے قرآن پڑھا پس آپ پر پڑھنا بھاری ہو گیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:
’’شاید تم امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہو۔؟‘‘
ہم نے کہا ہاں ، اے اﷲ کے رسول !
آپ نے فرمایا:’’سوائے فاتحہ کے اور کچھ نہ پڑھا کروکیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ نہ پڑھے۔‘‘
(ابوداود، الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ فی صلاتہ ۳۲۸، ترمذی، الصلاۃ باب ما جاء فی القراء ۃ خلف الامام، ۱۱۳۔ اسے ابن خزیمہ، ابن حبان اور بیہقی نے صحیح جبکہ امام ترمذی نے حسن کہا ہے۔)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی پس وہ (نماز) ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں (پھر بھی پڑھیں؟)
تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (ہاں) تو اس کو دل میں پڑھ۔
( مسلم، الصلاۃ،باب وجوب القراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، حدیث ۵۹۳.)

سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ فارغ ہو کر ان کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا کیا تم اپنی نماز میں امام کی قراءت کے دوران میں پڑھتے ہو؟ سب خاموش رہے۔ تین بار آپ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایسا نہ کرو تم صرف سورت فاتحہ دل میں پڑھ لیا کرو۔‘‘
( ابن حبان: ۵/۲۵۱، ۲۶۱۔ بیہقی۲/۶۶۱، مجمع الزوائد میں امام ہیثمی فرماتے ہیں: اس کے سب راوی ثقہ ہیں، ابن حجر نے حسن کہا )

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ مقتدیوں کو امام کے پیچھے (چاہے وہ بلند آواز سے قرائت کرے یا آہستہ آوازسے) الحمد شریف دل میں ضرور پڑھنی چاہیے۔
مزید تحقیق کے لیے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب ’’الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام فی الجھریہ‘‘ (ز، ع)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آمین کا مسئلہ

جب آپ اکیلے نماز پڑھ رہے ہوں یا جب ظہر اور عصر امام کے پیچھے پڑھیں تو آمین آہستہ کہیں۔ لیکن جب آپ جہری نماز میں امام کے پیچھے ہوں تو جس وقت امام (وَلَا الضَّآلِّیْنَ) کہے تو امام بھی سنت کی پیروی میں آمین پکار کے کہے۔ اور آپ کو امام کے آمین شروع کرنے کے بعد اونچی آواز سے آمین کہنی چاہیے۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ) پڑھا پھر آپ نے بلند آواز سے آمین کہی۔
(ترمذی، الصلاۃ،باب ماجاء فی التامین، ۸۴۲، ابوداود، الصلاۃ، باب التامین وراء الامام، ۲۳۹۔ ترمذی نے حسن جبکہ ابن حجر اور امام دار قطنی نے صحیح کہا ہے۔)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی تو اس کے پہلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں‘‘
(بخاری، الاذان، باب جھر الامام بالتامین، ۰۸۷ مسلم، الصلاۃ باب التسمیع والتحمید :۰۱۴.)
امام ابن خزیمہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام اونچی آواز سے آمین کہے کیونکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم اسی صورت میں دے سکتے ہیں جب مقتدی کو معلوم ہو کہ امام آمین کہہ رہا ہے۔ کوئی عالم تصور نہیں کرسکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنے کا حکم دیں جب کہ وہ اپنے امام کی آمین کو سن نہ سکے۔ ( صحیح ابن خزیمہ ۱/۶۷۲.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس مقتدی نے ابھی سورت فاتحہ شروع یا ختم نہیں کی وہ بھی آمین کہنے میں دوسروں کے ساتھ شریک ہو گا۔ تا کہ ا سے بھی گزشتہ گناہوں کی معافی مل جائے ۔ وﷲ اعلم (ع،ر)

سیدنا عبد ﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے مقتدیوں نے اتنی بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج گئی۔
( بخاری تعلیقا، باب: جھر الامام بالتامین، مصنف عبد الرزاق ۲/۶۹ امام بخاری نے اسے بصیغہ جزم ذکر کیا ہے۔)

سیدناعکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے دیکھا کہ امام جب (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ) کہتا تو لوگوں کے آمین کی وجہ سے مسجد گونج جاتی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲/ ۷۸۱.)

عطابن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے دو سو (۰۰۲) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ بیت ﷲ میں جب امام (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ) کہتا تو سب بلند آواز سے آمین کہتے‘‘
(السنن الکبری للبیہقی ۲/۹۵ کتاب الثقات لابن حبان، اس کی سند امام ابن حبان کی شرط پر صحیح ہے.)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس قدر یہودی سلام اور آمین سے چڑتے ہیں اتنا کسی اورچیز سے نہیں چڑتے ‘‘
( ابن ماجہ ، اقامۃ الصلاۃ، باب الجھر بآمین۔ ۶۵۸۔ اسے امام ابن خزیمہ اور بوصیری نے صحیح کہا)
حافظ ابن عبد البررحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس شخص پر سخت ناراض ہوتے جو بلند آواز سے آمین کہنے کو مکروہ سمجھتا۔ کیونکہ یہودی آمین سے چڑتے ہیں۔
.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آداب تلاوت

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْحَمْدُللہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھتے پھر ٹھہر کر الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ پھر ٹھہر کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن پڑھتے تھے۔ یعنی آپ ہر آیت پر توقف فرماتے (بعد والی آیت کو پہلی آیت کے ساتھ نہیں ملاتے تھے)۔‘‘
(ابوداود ، الحروف والقراء ات، ۱۰۰۴، اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ۔)
مذکورہ حدیث کثرت طرق کے ساتھ مروی ہے۔ اس مسئلہ میں اس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ائمہ سلف صالحین کی ایک جماعت ہر آیت پر توقف فرماتی تھی اگرچہ مابعد کی آیت معنی کے لحاظ سے پہلی آیت کے ساتھ متعلق ہوتی تھی پھر بھی قطع کرکے پڑھتے تھے۔ تلاوت قرآن کا مسنون طریقہ یہی ہے لیکن آج جمہور قراء اس طرح تلاوت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ﷲ کے حکم کے مطابق آہستہ آہستہ قرآن پاک کی تلاوت فرماتے بلکہ ایک ایک حرف الگ الگ پڑھتے ۔ یوں معلوم ہوتا کہ چھوٹی سورت، لمبی سورت سے بھی زیادہ لمبی ہوگئی۔ چنانچہ آپ کا ارشاد ہے کہ: ’’حافظ قرآن کو کہا جائے گا: جس طرح تم دنیا میں آہستہ آہستہ پڑھا کرتے تھے اسی طرح تم قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت کی سیڑھیاں چڑھتے چلو۔ تمہاری منزل وہاں ہے جہاں تمہارا قرآن مجید (پڑھنا) ختم ہوگا۔
( ابو داود:۴۶۴۱ ابن حبان اور ترمذی فضائل القران ۴ ۱۹۲ نے صحیح کہا ۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اچھی آواز سے قرآن پڑھنا:

سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن مجید کواچھی آواز سے پڑھو۔
( ابو داود، باب کیف یستحب التر تیل فی القراء ۃ: ۸۶۴۱، اسے امام ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الله کی کتاب کا علم حاصل کرو۔ اس کو ذہن میں محفوظ کرو اور اسے خوبصورت آواز سے پڑھو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اونٹ کے گھٹنوں کی رسی اگر کھول دی جائے تو وہ اتنی تیزی سے نہیں بھاگتا جتنا تیزی سے قرآن پاک حافظہ سے نکل جاتا ہے ۔‘‘
( دارمی، فضائل القرآن، باب فی تعاھد القرآن، ۲۵۳۳، ومسند احمد ۴/ ۶۴۱، ۰۵۴۲۱.)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قرآن مجید کا حافظ رات دن تلاوت کرتا رہتا ہے تو اسے یاد رہتا ہے اور اگر وہ تلاوت نہ کرے تو قرآن بھول جاتا ہے ۔
(مسلم، الصلاۃ، فضائل القرآن، باب الامر بتعھد القران ۹۸۷.)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالی نے کوئی چیز اتنی توجہ سے نہیں سنی جتنی توجہ سے اس نے نبی علیہ السلام کا بہترین آواز کے ساتھ قرآن مجید کا پڑھنا سنا‘‘
( بخاری، فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن، ۳۲۰۵، ومسلم: ۲۹۷.)
 
Top