محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
نماز وتر کے مسائل کا بیان۔
اور وتر کے معنی بے جوڑ کے ہیں۔ یہ ایک مستقل نماز ہے جو عشاء کے بعد سے فجر تک رات کے کسی حصہ میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اس نماز کی کم سے کم ایک رکعت پھر تین ، پانچ ، سات ، نو ، گیارہ ، تیرہ رکعت تک پڑھی جا سکتی ہیں۔
اہلحدیث ا ور امام احمد اور شافعی اور سب علماء کے نزدیک وتر سنت ہے اور امام ابو حنیفہ اس کو واجب کہتے ہیں حالانکہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سب علماء کے کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وتر سنت ہے ۔ لیکن اس مسلہ میں امام ابو حنیفہ نے ان دونوں صحابیوں کا بھی خلاف کیا ہے۔
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے نافع او ر عبداللہ ابن دینا ر سے خبر دی او رانہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ ساری نماز کو طاق بنادکے گی۔
صحیح بخاری، جلد 2 حدیث 990،باب وتر کابیان۔
اوراسی سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔
صحیح بخاری جلد 2 حدیث 991 باب وتر کا بیان۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المومینن میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے ﴿ آپ نے کہا کہ ﴾ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی لمبائی میں لیٹیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئےجب آدھی رات گزر گئی یا اس کےلگ بھگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے ، نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں ۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے او اچھی طرح وضو کیا اور نماز کےلیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دور کعت پھر دور رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ موذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کھڑےہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی ۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
صحیح بخاری ۔ جلد2 حدیث 992 ،باب وتر کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہاکہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عمر و بن حارث نے خبر دی ، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمدنے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا یک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔
صحیح بخاری ، جلد2 ، حدیث 993 ، باب وتر کا بیان۔
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، انہوں نےکہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتیں ﴿ وتر اور تہجد کی ﴾ پڑھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی ۔ مراد ان کی رات کی نماز تھی ۔ آپ کا سجدہ ان رکعتوں میں اتنا لمبا ہوتا تھا کہ سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی شخص بھی پچاس آیتیں پڑھ سکتا اور فجر کی نماز فرض سے پہلے آپ سنت دو رکعتیں پڑھتے اس کے بعد ﴿ ذرا دیر ﴾ داہنے پہلو پر لیٹ رہتے یہاں تک کہ موزن بلانے کے لیے آپ کے پاس آتا۔