استقبال قبلہ
نمازی کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ جب نماز کا ارادہ کرے تو قبلہ رخ ہوکر کھڑا ہو۔
آپؐ نے ایک آدمی کو نماز درست کرواتے ہوئے فرمایا:
" إذا قمت إلی الصلاة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فکبر" (صحیح بخاری:۶۲۵۱)
’’جب تم نماز کا قصد کرو تو اچھی طرح وضو کرلو پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہو۔‘‘
جس وقت اس عمل کو کرنا دشوار ہو وہاں عذر کے باعث اجازت ہے کہ کسی طرف بھی منہ کیا جاسکتا ہے مثلاً جنگل ، صحرا یا ایسی جگہ جہاں قبلہ کی سمت معلوم نہ ہوسکے اسی طرح جنگ کے دوران اور جب قبلہ رخ ہونا ممکن ہی نہ ہو۔
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
" فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُکْبَانًا " (البقرہ:۲۳۹)
’’اور تم کو خوف ہو تو پیادہ یا سوار (ہرصورت میں نماز ادا کرو)‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ بھاگتے ہوئے یا لڑتے ہوئے انسان کا رخ کسی طرف بھی ہوسکتا ہے لہٰذا وہ کسی سمت میں نماز ادا کرسکتا ہے اور اسی طرح عام حالات میں سواری پر نفل نماز ادا کرنی ہو تو سواری کا رخ ایک دفعہ قبلہ رخ کرلینا چاہئے اب نماز کے دوران سواری کا رخ بدل بھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے :
" أن رسول اﷲ کان إذا سافر فأراد أن یتطوع استقبل بناقتہ القبلة فکبرثم صلی حیث وجہہ رکابہ" (صحیح ابوداو:۱۰۸۴)
’’آپ جب سفر میں ہوتے اور نفل نماز کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی کا رخ قبلہ کی طرف کرلیتے اور تکبیر کہتے اورپھر نماز پڑھتے اور سواری کا رخ جدھر ہوتا سو ہوتا۔‘‘
لیکن یہ یاد رہے کہ سواری پر صرف نفل نماز ہوسکتی ہے آپؐ سے سواری پر فرض نماز ثابت نہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ :
" أن النبیؐ کان یصلي علی راحلتہ نحو المشرق فإذا أراد أن یصلي المکتوبة نزل فاستقبل القبلة" (صحیح بخاری:۱۰۹۹)
’’نبیؐ مشرق کی طرف سواری پر نماز پڑھتے اور جب فرض نماز کا ارادہ کرتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے۔‘‘