• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز: چند اہم مسائل

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نماز میں سلام کا جواب
نماز میں سلام کا جواب صرف ہاتھ کے اشارہ سے دیا جاسکتا ہے چونکہ نماز میں کلام نماز کو باطل کردیتا ہے اس لئے نمازی کا ہاتھ کے اشارہ سے جواب دے دینا ہی کافی ہے یا پھر نماز سے فارغ ہوکر جواب دے دیا جائے۔
= عبداللہؓ کہتے ہیں کہ:
" کنا نسلم علی النبی! وھو في الصلاة فیرد علینا من عند النجاشی سلمنا علیہ فلم یرد علینا وقال " إن فی الصلاۃ شغلا" (صحیح بخاری:۱۱۹۹)
’’آپؐ نماز میں ہوتے اور ہم آپ ؐ پر سلام بھیجتے تو آپ جواب دے دیتے جب ہم نجاشی(حبشہ )سے واپس آئے تو آپؐ کو سلام کیا آپؐ نے ہمیں جواب نہ دیا (بعد میں) آپؐ نے فرمایا کہ میں نماز میں مشغول تھا۔‘‘
= حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ میں نبیؐ کے پاس سے گزرا آپؐ نماز اداکررہے تھے میں نے سلام کیا تو آپؐ نے سلام کا جواب انگلی کے اشارے سے دیا۔ (صحیح ابوادود:۸۱۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غسل ِ واجب میں وضو شامل ہے
غسل ِ واجب کے بعد دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں کیونکہ وضو اسی غسل میں شامل ہے یا اگر نواقض وضو میں سے کوئی عارضہ لاحق ہوجائے ، مثلاً شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانا وغیرہ تو غسل کے بعد نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہوگا۔
= حضرت میمونہؓ آپؐ کے غسل جنابت کا طریقہ یوں بیان کرتی ہیں:
’’فغسل کفیہ مرتین أو ثلاثا ثم أدخل یدہ فی الإناء ثم أفرغ بہ علی فرجہ وغسلہ بشمالہ ثم ضرب بشمالہ الأرض فدلکھا دلکا شدیدا ثم توضأ وضوء ہ للصلوۃ ثم أفرغ علی رأسہ ثلاث حفنات مل ء کفہ ثم غسل سائر جسدہ ثم تنحی عن مقامہ ذلک فغسل رجلیہ‘‘ (صحیح مسلم:۳۱۷)
’’پس آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھوئے پھر اپنا (دایاں) ہاتھ برتن میں ڈالا اور اس کے ساتھ اپنی شرمگاہ پر پانی انڈیلہ اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا پھر بایاں ہاتھ زمین پرمارا اور اسے اچھی طرح رگڑا پھر (سر کے مسح تک) نماز کے وضو کی طرح وضو کیا پھر تین چلو پانی بھر کر سر پر ڈالے پھرسارے بدن کو (پانی ڈال کر) دھویا پھر اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔‘‘
= حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
’’کان رسول اﷲ یغتسل ویصلي الرکعتین وصلاة الغداة ولا أراہ یحدث وضوء ا بعد الغسل‘‘ (صحیح ابوداود:۲۲۵)
’’آپ ؐ غسل کرتے اور دورکعتیں فجر کی دو رکعتیں اور فرض پڑھتے اور غسل کے بعد نیا وضو نہ کرتے تھے۔‘‘
ملحوظہ:
= غسل کرتے ہوئے سر کو پہلے دائیں اور پھر بائیں سے دھونا مسنون ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
" فبدأ بشق رأسہ الأیمن ثم الأیسر" (صحیح بخاری:۲۵۸)
’’پس آپؐ سر کے دائیں حصے سے (پانی ڈالنا) شروع کرتے پھر بائیں طرف۔‘‘
= عورت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اپنی مینڈھیاں کھولے بلکہ اگر وہ گندھے ہوئے بالوں پرہی پانی انڈیل لیتی ہے تو اس کی اجازت ہے۔ حضرت اُم سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے نبیؐ سے پوچھا کہ میں سر پر سختی سے مینڈھیاں باندھنے والی عورت ہوں توکیا غسل جنابت کے لئے میں اس کو کھول لیا کروں۔ آپؐ نے فرمایا:
" لا إنما یکفیک أن تحثی علی رأسک ثلاث حثیات ثم تفیضین علیک الماء فتطھرین " (صحیح مسلم:۳۳۰)
’’نہیں نہیں یہی کافی ہے کہ تو تین لپ پانی کے اپنے سر پر ڈال لے پھراپنے اوپر پانی بہالے پس تو پاک ہوجائے گی۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اَوقات نماز
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دن رات میں پانچ وقت نماز فرض کی ہے اور اسی طرح ہر نماز کو بھی اس کے وقت پر پڑھنے کا حکم فرمایا جیساکہ اس کا ارشاد ہے:
" إنَّ الصَّلوة کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا"
’’بے شک مومنوں پر نماز مقرر ہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔‘‘
پانچوں نمازوں کا ابتدائی وقت
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں:
" فصلی الظہر حین زالت الشمس وکان الفئ قدر الشراک ثم صلی العصر حین کان الفئ قدر الشراک وظل الرجل ثم صلی المغرب حین غابت الشمس ثم صلی العشاء حین غاب الشفق ثم صلی الفجر حین طلع الفجر" (صحیح نسائی:۵۱۰)
’’آپ نے ظہر کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد جبکہ زوال فئ کا سایہ جو تے کے تسمے کے برابر تھا اس وقت پڑھائی پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب زوال فئ کا سایہ تسمے اور آدمی کے برابر ہوگیا پھر مغرب کی نماز پڑھائی جس وقت سورج غروب ہوگیا پھر عشاء کی نماز سرخی غائب ہوجانے پر پڑھائی پھر جب فجر طلو ع ہوئی تو فجر کی نماز پڑھائی۔‘‘
مندرجہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ:
ظہر: جب جوتے کے تسمہ کے برابر زوال کا سایہ پہنچ جائے
عصر: جب آدمی کے برابر سایہ پہنچ جائے
مغرب: سورج غروب ہونے پر
عشاء: سرخی غائب ہونے پر
فجر : طلوع فجر سے
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پانچوں نمازوں کا اول و آخر وقت
٭ حضرت ابوہریرؓہ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
" للصلاة أولاً وآخراً وإن أول وقت صلاة الظہر حین تزول الشمس وآخر وقت حین یدخل وقت العصر وإن أول وقت صلاة العصر حین یدخل وقتھا وإن آخر وقتھا حین تصفر الشمس وإن أول وقت المغرب حین تغرب الشمس وإن آخر وقتھا حین یغیب الافق وإن أول وقت العشاء الآخرة حین یغیب الافق وإن آخر وقتھا حین ینتصف اللیل وإن أول وقت الفجر حین یطلع الفجر وإن آخر وقتھا حین تطلع الشمس " (صحیح ترمذی:۱۲۹)
’’بے شک ہر نماز کے لئے اول اور آخری وقت ہے ظہر کی نماز کا ابتدائی وقت جب سورج ڈھل جائے اور آخری وقت جب نماز عصر کا وقت شروع ہو عصر کی نماز کا اول وقت وہی ہے جب یہ اپنے وقت میں داخل ہوجائے اور آخری وقت جب سورج زرد ہوجائے مغرب کی نماز کا اول وقت جب سورج غروب ہوجائے اور آخری جب سرخی غائب ہوجائے عشاء کا اول وقت جب سرخی غائب ہوجائے اور آخری وقت جب آدھی رات گزر جائے۔‘‘
٭ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل ؑ نے کعبہ کے پاس دو مرتبہ نماز میں میری امامت کی۔
" فصلی الظہر فی الاولی منھما حین کان الفئ مثل الشراک،ثم صلی العصر حین کان کل شئ مثل ظلہ،ثم صلی المغرب حین وجبت الشمس وأفطر الصائم،ثم صلی العشاء حین غاب الشفق ثم صلی الفجر حین برق الفجر وحرم الطعام علی الصائم وصلی المرۃ الثانیۃ الظہر حین کان ظل کل شئ مثلہ لوقت العصر بالامس ثم صلی العصر حین کان ظل کل شئ مثلیہ،ثم صلی المغرب لوقتہ الاول ثم صلی العشاء الآخرة حین ذہب ثلث اللیل ثم صلی الصبح حین اسفرت الأرض ثم التفت إلیّ جبریل فقال یا محمد! ھذا وقت الانبیاء من قبلک والوقت فیما بین ھذین الوقتین " (صحیح ترمذی:۱۲۷)
’’پس اُنہوں نے ظہر کی نماز پہلی مرتبہ جب زوال فئ کا سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہو تب پڑھائی ، پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مساوی ہوگیا پھر مغرب کی اس وقت کہ جب سورج غروب ہوگیا اور روزہ دار نے روزہ کھول لیا پھر شفق (سرخی) ختم ہونے پر عشاء کی نماز پڑھائی، پھر عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب پوہ پھوٹ پڑی اور صائم پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے۔اور دوسری مرتبہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا پھر عصر کی نماز جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوا پڑھائی، پھر مغرب کی نماز اس کے اول وقت میں پڑھائی، پھر عشاء کی نماز ثلث لیل کو پڑھی، پھر فجر کی نماز جب زمین روشن ہوگئی اس وقت پڑھی،پھر جبریل ؑ نے میری طرف توجہ کی اور بولے اے محمد! یہ اوقات تجھ سے پہلے انبیاء میں تھے اور (نماز) کا وقت ان دو اوقات کے درمیان میں ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سفر میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کرکے پڑھنا
حضرت ابوذرغفاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبیؐ کے ساتھ سفر پر تھے مؤذن نے ظہر کی اذان کہنا چاہی :
فقال النبی! " أبرد" ثم أراد أن یوذن فقال لہ " أبرد " حتی رأینا فئ التلول فقال النبی! " إن شدة الحر من فیح جھنم فإذا اشتد الحرفابردوا بالصلاة " (صحیح بخاری:۵۳۹)
’’آپؐ نے فرمایا ٹھنڈا کرو۔ پھر موذن نے ارادہ کیا کہ اذان کہے تو آپؐ نے اسے پھر فرمایا کہ ٹھنڈا کرو یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا پھر آپ ؐ نے فرمایا: بے شک گرمی کی شدت جہنم کے سانس میں سے ہے، پس جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عشاء کی نماز میں تاخیر
عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ آپؐ نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" لولا أن اشق علی أمتی لأمرتھم أن یؤخروا العشاء إلی ثلث اللیل أو نصفہ " (صحیح ترمذی:۱۴۱)
’’اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انہیں عشاء کی نماز ایک تہائی یا آدھی رات تک موخر کرنے کا حکم کرتا۔‘‘
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:
مکثنا ذات لیلة ننتظر رسول اﷲ لصلاة العشاء فخرج إلینا حین ذھب ثلث اللیل أو بعدہ فلا ندري أشئ شغلہ أم غیر ذلک فقال حین خرج: " أتنتظرون ھذہ الصلاة؟ لولا أن تثقل علی أمتي لصلیت بھم ھذہ الساعة " ثم أمر المؤذن فأقام الصلاة۔(صحیح ابوداود:۴۰۵)
’’ایک رات ہم نبیؐ کے پاس تھے اور آپؐ عشاء کی نماز کے لئے انتظار کررہے تھے پس وہ ہماری طرف اس وقت آئے جب رات آدھی یا اس سے کچھ زیادہ ہوچکی تھی نامعلوم آپ کس چیزمیں مصروف تھے یا کچھ اور کررہے تھے جب آپ نکلے تو فرمایا: کیا تم اس نماز کا انتظار کررہے ہو اگر یہ نہ ہو تاکہ یہ میری امت پربھاری ہوجائے گا تو میں ان کو اس وقت نماز پڑھاتا پھر آپؐ نے اذان کا حکم دیا اور نماز کھڑی کی۔‘‘
ملحوظہ:
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے جبکہ باقی نمازوں کا اپنے اول وقت میں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے نبیؐ سے افضل عمل کے متعلق پوچھا تو
فرمایا: " الصلاة في أول وقتھا " (صحیح ابن خزیمہ:۳۲۷)
’’اول وقت میں نماز پڑھنا‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عصرکا وقت معلوم کرنے کا طریقہ
٭ پہلا طریقہ:
ایک لکڑی لے کرزوال سے تھوڑی دیر پہلے سپاٹ زمین پر گاڑ دیں سایہ گھٹ رہا ہوگا،گھٹتے گھٹتے جب ایک جگہ رک جائے یہی زوال کا وقت ہے جو چند ثانیے تک رہتا ہے رکے ہوئے سایہ کی پیمائش کرلیں سایہ جب لکڑی کے برابر ہوجائے پیمائش کئے ہوئے فاصلے کو لکڑی کے برابر کے آئے ہوئے سایہ سے ملا کر نشان لگا لیں اب جب سایہ اس نشان پر پہنچے گا تو یہ ظہر کا آخری اور عصر کا اول وقت ہوگا اور ایک مثل ہوگا۔
٭ وسری طریقہ :
لکڑی کو گاڑ دیا جائے اور زوال کا سایہ جب رُک جائے تو اس لکڑی کو نکال کر سایہ کی انتہا پر گاڑ دیا جائے جب سایہ بڑھنا شروع ہو اور لکڑی کے مثل ہوجائے بس یہی عصر کا اول وقت ہے۔
ملحوظہ:
سایہ پیمائش کرتے ہوئے کسی بھی صورت میں زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہوگا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اوقات و مقامات مکروہہ

اَوقات
٭ حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ سے روایت ہے کہ:
" ثلاث ساعات کان رسول اﷲ! ینھانا أن نصلي فیھن،أو أن نقبر فیھن موتانا،حین تطلع الشمس بازغة حتی ترتفع،وحین یقوم قائم الظہیرة حتی تمیل وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب" (صحیح نسائی :۵۴۶)
’’نبی ؐ نے ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا، جب سورج طلوع ہورہا ہو یہاں تک کہ بلندہوجائے۔جب سورج نصف آسمان پر ہویہاں تک کہ وہ ڈھل جائے (یعنی زوال کا وقت) اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہوجائے۔‘‘
٭ ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ :
" نہی رسول اﷲ! عن صلاتین: بعد الفجر حتی تطلع الشمس،وبعد العصر حتی تغرب الشمس" (صحیح بخاری:۵۸۸)
’’رسول اللہؐ نے دو (وقتوں میں) نمازوں سے منع فرمایا فجر (کی نماز) کے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور عصر (کی نماز کے) بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔‘‘
لہٰذا مکروہ اوقات یہ ہوئے:
1۔نماز فجر کے بعد سے جب تک سورج اچھی طرح نکل نہ آئے
2۔زوال کے وقت
3۔عصر کی نماز کے بعد سے سورج جب تک غروب نہ ہوجائے
ملحوظہ:
٭ اگر کسی کی صبح کی سنتیں رہ گئی ہوں صرف اس کے لئے اجازت ہے کہ وہ پڑھ لے جیساکہ حضرت قیسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے مجھے فجر کی نماز کے بعد نما زپڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا
" مھلا یا قیس اصلاتان معا"(صحیح ترمذی:۳۴۶)
اے ابا قیس! کیا تو دو نمازیں پڑھ رہا ہے۔ میں نے کہایارسول اللہؐ صبح کی دو سنتیں مجھ سے رہ گئی تھیں آپ ؐ نے فرمایا: " فلا إذن " (تب اجازت ہے)
٭ اسی طرح اگر نماز پڑھتے پڑھتے فجر اور عصر کے وقت سورج طلوع اور غروب ہوگیا اس کی باقی نمازدرست ہوگی۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا:
" من أدرک من العصر رکعة قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک ومن أدرک من الفجر رکعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک " (صحیح مسلم:۶۰۹)
’’جس نے عصر کی نماز میں سے سورج غروب ہونے سے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی اور جس نے فجر کی نما زمیں سے سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی۔‘‘
٭ اسی طرح مسجد حرام ان ممنوعہ اوقات سے مستثنیٰ ہے اس میں دن رات کی کسی بھی گھڑی میں نمازاور کوئی دوسری عبادت کی جاسکتی ہے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
" یابني عبد مناف،لا تمنعوا أحدا طاف بہذا البیت وصلی اَیّة شاء من لیل أونہار " (صحیح ترمذی:۶۸۸)
’’اے بنی عبدمناف! کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو خواہ وہ رات دن کی کسی گھڑی میں بھی (یہ عبادت) کررہا ہو۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مقامات

قبرستان اور حمام:
قبرستان اور حمام میں نبیؐ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" الارض کلھا مسجد إلا الحمام والمقبرة " (صحیح ابوداود:۴۶۳)
’’حمام اور قبرستان کے علاوہ ساری زمین پرسجدہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اونٹوں کے باڑا میں:
اونٹوں کے باڑ ا میں نماز پڑھنا منع ہے۔
حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ سے اونٹوں کے باڑا میں نما زپڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا:
" لا تصلوا فی مبارک الابل " (صحیح ابوداود:۴۶۴)
’’اونٹوں کے باڑوں میں نماز نہ پڑھو‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تعداد رکعات فرائض و نوافل نماز پنجگانہ

فرائض:
ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد 17 ہے جو کہ روایات اور امت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں۔
سنت مؤکدہ:
اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپؐ کی عادت اور معمول تھا کہ تعداد زیادہ سے زیادہ 12 ہے جس کی تاکید و ترغیب بھی آپ ؐ سے منقول ہے۔
حضرت اُم حبیبہؓ فرماتی ہیں:
" سمعت رسول اﷲ یقول: "من صلی اثنی عشرة رکعة فی یوم ولیلة بنی لہ بیت فی الجنة " (مسلم:۷۲۸)
’’میں نے رسول اللہؐ سے سنا جو شخص دن اور رات میں ۱۲ رکعات پڑھ لے ان کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے‘‘
فجر:
تعداد رکعات :4 ( 2 نفل+ 2 فرض)
نوافل:
حضرت اُم المومنین حضرت حفصہؓ فرماتی ہیں کہ :
’’کان إذا سکت المؤذن من الاذان الصلاة الصبح وبدأ الصبح رکع رکعتین خفیفتین قبل أن تقام الصلاۃ‘‘
’’جب موذن اذان کہہ لیتا صبح صادق شرو ع ہوجاتی تو آپؐ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے ہلکی سی دو رکعت پڑھتے۔‘‘
فرائض:
حضرت ابو برزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ آپؐ صبح کی نماز پڑھاتے:
" وکان یقرأ فی الرکعتین أو أحدھما ما بین الستین إلی المائة" (بخاری:۷۷۱)
’’ اورآپؐ دو رکعتوں میں یا کسی ایک میں ساٹھ سے سو تک آیات تلاوت فرماتے تھے۔‘‘
ملحوظہ:
آپ ؐ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پرمداومت ثابت ہے جیساکہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
"أن النبیؐ لم یکن علی شيء من النوافل أشد معاہدة منہ علی رکعتین قبل الصبح" (صحیح مسلم:۷۲۴)
’’بے شک نبیؐ نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام صبح کی سنتوں کا کرتے تھے۔‘‘
ظہر:
ظہر کی زیادہ سے زیادہ رکعات 12 (2؍4 نفل+4 فرض+2؍4 نفل)
نوافل:
= حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ :
" کان یصلي فی بیتي قبل الظہر أربعا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین " (صحیح مسلم:۷۳۰)
’’آپؐ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آکر دو رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
= ابن عمرؓ فرماتے ہیں:
" صلیت مع النبيﷺ سجدتین قبل الظہر السجدتین بعد الظہر " (صحیح بخاری:۷۲)
’’میں نے نبیؐ کے ساتھ دو رکعات ظہر سے پہلے اور دو ظہر کی نماز کے بعد پڑھے۔‘‘
= حضرت اُم حبیبہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" من حافظ علی أربع رکعات قبل الظہر وأربع بعدھا حرم علی النار" (صحیح ابوداود:۱۱۳۰)
’’جس شخص نے ظہر سے قبل اور بعد چار چار رکعات نوافل کا اہتمام کیا اس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ہے۔‘‘
ملحوظ:
مذکورہ بالا روایات سے ظہر کی کم از کم 4 رکعات نوافل موکدہ ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
" أن النبی کان لا یدع أربعا قبل الظہر رکعتین قبل الغداة " (صحیح بخاری:۱۱۸۲)
’’نبیؐ ظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات کبھی نہ چھوڑتے۔‘‘
فرائض:
حضرت ابوقتادہ سے روایت ہے کہ
’’أن النبی کان یقرأ فی الظہر في الأولیین بأم الکتاب وسورتین،وفی الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۶)
’’بے شک نبیؐ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے…الخ‘‘
عصر:
کل رکعات8 (4 نفل +4 فرض)
نوافل:
= حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ :
" کان النبیؐ یصلي قبل العصر أربع رکعات" ( صحیح ترمذی:۳۵۳)
’’نبیؐ عصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
" کنا نحرز قیام رسولؐ اﷲ فی الظہر والعصر۔۔۔فحزرنا قیامہ فی رکعتین الاولیین من العصر علی قدر قیامہ فی الاخریین من الظہر وفی الاخریین من العصر علی النصف من ذلک " (صحیح مسلم:۴۵۲)
’’ ہم رسول اللہؐ کے ظہر اور عصر کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے… عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس طرح کرتے کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعتوں کا قیام عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف ہوتاتھاـ۔‘‘
ملحوظہ:
= عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات نوافل غیر موکدہ ہیں،کیونکہ اس پر آپؐ کا دوام ثابت نہیں۔البتہ آپؐ نے ان نوافل کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا:
" رحم اﷲ امرأ صلی قبل العصر أربعا " (صحیح ابوداود:۱۱۳۲)
’’جس شخص نے عصر سے قبل چار رکعات نوافل ادا کئے اللہ اس پر رحم فرمائے۔‘‘
= ظہر اور عصر کے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعات کرکے پڑھنا بھی نبیؐ سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
" یصلي قبل الظہر أربعا وبعدھا رکعتین وقبل العصر أربعا یفصل بین کل رکعتین بالتسلیم " (صحیح ترمذی:۴۸۹)
’’اور نبیؐ نے ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کئے اور دو بعد میں اسی طرح چار رکعات نوافل عصر کی نماز سے پہلے ادا کئے اور آپؐ نے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا۔‘‘
مغرب:
کل رکعات 5 (3 فرض+ 2 نفل)
فرائض:
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے (سفر میں) مغرب اور عشاء اکٹھی کیں:
" فصلی المغرب ثلاثا ثم صلی العشاء رکعتین ثم قال ھکذا رسول اﷲیصنع فی ھذا المکان " (صحیح نسائی :۴۷۰)
’’ اور انہو ں نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات پڑھائیں اور فرمایا کہ اس جگہ رسول اللہؐ نے اسی طرح کیا تھا۔‘‘
نوافل:
حضرت عائشہؓ نبیؐ کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:
" وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین " (صحیح مسلم:۷۳۰)
’’اور وہ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے۔‘‘
ملحوظہ:
مغرب کی نما زسے پہلے دو رکعت نفل بھی آپؐ سے ثابت ہیں۔حضرت عبداللہ المزنی سے روایت ہے کہ
" أن رسول اﷲصلی قبل المغرب رکعتین " (ابن حبان:۱۵۸۶)
’’رسول اللہﷺنے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل ادا کیے۔‘‘
لیکن یہ دو رکعت موکدہ نہیں ہیں۔ عبداللہ بن المزنی سے ہی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
" صلوا قبل صلاة المغرب" قال فی الثالثة " لمن شائ " کراھیة أیتخذھا الناس سنة " (صحیح بخاری:۱۱۸۳)
’’مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھو تین دفعہ فرمایا اور تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے۔ تاکہ کہیں لوگ اسے موکدہ نہ سمجھ لیں۔‘‘
عشاء:
عشاء کی کل رکعات کم ازکم ایک وتر کے ساتھ 7 (4فرض +2؍4نفل+1 وتر) ہیں
فرائض:
حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ ؓ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپؓ نے جواب دیا:
" أما أنا واللہ فإنی کنت أصلی بہم صلاة رسول اللہ ما أخرم عنہا أصلی صلاة العشاء فأرکد فی الأولیین،وأخف فی الأخریین قال:ذاک الظن بک یا أبا إسحاق " (صحیح بخاری:۷۵۵)
’’اللہ کی قسم میں انہیں نبی ؐ کی نماز کی طرح کی نماز پڑھاتا تھأ اور اس سے بالکل روگردانی نہ کرتا تھا۔میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکا۔ حضرت عمر فرمانے لگے: اے ابو اسحاق تمہارے بارے میرا یہی گمان تھا۔‘‘
عشاء کے فرضوں کے بعد نبیؐ سے 2 اور 4 نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
نوافل:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں:
" صلیت مع النبیؐ… وسجدتین بعد العشائ… الخ " (صحیح بخاری؛۱۱۷۲)
’’میں نے نبیؐ کے ساتھ ۔ ۔ ۔ عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی۔‘‘
= ابن عباسؓ فرماتے ہیں:ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے گھر میں گزاری:
" فصلی رسول اﷲ العشاء ثم جاء فصلی أربع رکعات ثم نام" (صحیح بخاری:۶۹۷)
’’آپؐ نے عشاء کی نماز پڑھائی پھر گھر آئے اور چار رکعات نوافل ادا کئے اور سوگئے۔‘‘
ملحوظہ:
نبیؐ کے عام حکم کہ
" بین کل اذانین صلاة بین کل اذانین صلاة " ثم قال في الثالثة " لمن شائ " (صحیح بخاری:۶۲۷)
’’آپؐ نے فرمایا ہر دو آذانوں (آذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے ہر دو آذانوں کے درمیان نماز ہے تیسری دفعہ آپؐ نے فرمایا جو چاہے۔‘‘
ثابت ہوتا ہے کہ ہر نماز کی امامت سے پہلے دو رکعت نماز کی ترغیب ہے۔ لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے بھی دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔
وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپؐ سے ثابت ہے جیسا کہ اُم سلمہؓ سے روایت ہے کہ:
" أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین " (صحیح ترمذی:۳۹۲)
’’آپؐ وتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے‘‘
وتر:
آپؐ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔
= حضرت ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل " (صحیح ابوداود:۱۲۶۰)
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
+ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں:
" کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس …الخ " (صحیح ابن ماجہ:۹۸۰)
’’آپﷺ نماز وتر سات رکعات یا پانچ رکعات بھی پڑھا کرتے تھے‘‘
وتر پڑھنے کا طریقہ:
1۔تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :
" کان یوتر برکعة وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعة"
’’آپ ؐ ایک رکعت کے ساتھ وتر بناتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔
مزید ابن عمرؓ کے متعلق ہے کہ:
’’صلی رکعتین ثم سلم ثم قال أدخلو إلیّ ناقتي فلانة ثم قام فأوتر برکعة‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۹۱،۹۲)
’’انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیاپھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر بنایا۔‘‘
2۔پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
" کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرة رکعة یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرہا" (صحیح مسلم:۷۳۷)
’’رسول اللہﷺ رات کی نماز 5 وترسمیت تیرا رکعت پڑھا کرتےتھے۔وتروں کی آخری رکعت میں ہی بیٹھتے تھے‘‘
3۔ سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔حضرت عائشہؓ سے ہی روایت ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں کہ:
" کان رسول اﷲ! یوتر بسبع أو بخمس لا یفصل بینہن بتسلیم ولا کلام " (صحیح ابن ماجہ :۹۸۰)
’’نبیؐ سات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘
4۔ نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ حضرت عائشہؓ نبیؐ کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:
"ویصلي تسع رکعات لایجلس فیھا الا في الثامنة … ثم یقوم فیصلي التاسعة " (صحیح مسلم:۷۴۶)
’’آپؐ نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘
 
Top