• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز ۔ ایک منظم ضابطہ حیات ۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
نماز ۔ ایک منظم ضابطہ حیات
تحریر: ڈاکٹر عبدالقدیر خان

dr.a.quadeer.khan@gmail.com

اپنے پچھلے تین کالموں میں آپ کی خدمت میں وضو، غسل، تیمم اور نماز کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں کچھ خیالات کا اظہار کیا تھا۔ پچھلے کالم میں نماز کی اہمیت، اس کا فرض ہونا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات آپ کی خدمت میں پیش کئے تھے۔ اس کالم میں آپ کی خدمت میں نماز کی وہ تمام خصوصیات، اہمیت پیش کرنا چاہتا ہوں جو نماز کو ایک مکمل اور منظم ضابطہ حیات کا درجہ دیتی ہیں۔
پچھلے ایک کالم میں بوسنیا کے سابق صدر اور عالم دین ڈاکٹر عزّت بیگووچ کی مشہور کتاب ،’’اسلام ۔ مشرق و مغرب کے درمیان‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔ ڈاکٹر بیگووچ نے کہا ہے کہ وضو اور نماز میں حرکات نماز کو ایک نہایت پاکیزہ، معقول اور متناسب عمل قراردیا ہے۔ نماز کی تمام حرکات ایک فوجی ڈِسپلن کی طرح نظر آتی ہیں۔ یہی نہیں باجماعت نماز، جمعہ، عیدالفطر و عیدالاضحی کی نمازیں، لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں اور آپس میں میل جول اور محبت بڑھاتی ہیں۔
لیکن نماز کی روحانی و جسمانی اہمیت جس طرح ایک عرب بدّو نے محمداسد مرحوم (اللہ جنت نصیب کرے ان کو) سمجھائی وہ نہایت سادہ مگر دل میں بیٹھنے والی ہے۔ میں آپ کی خدمت میں اسکی تفصیل پیش کرنا چاہتا ہوں۔
آپ کو شاید علم ہو کہ محمداسد آسٹریا کے ایک یہودی تھے۔ نوجوانی میں مشرق وسطیٰ میں جرمنی کے مشہور اخبار فرانکفورٹر الگیمائینے(Frankfurter Algemeine) کے نمائندے کی حیثیت سے سعودی عرب میں مقیم تھے اور شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے نہایت قریبی مصاحبوں میں سے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ میں کئی برس ہماری نمائندگی بھی کی تھی اور حسب روایات سازشوں کا شکار ہوگئے تھے اور ملازمت چھوڑنا پڑی تھی۔ انھوں نے کئی اعلیٰ کتابیں اسلام پر لکھی ہیں جن میں سے خاص طور پر دو کتب ’’دی روڈ ٹو مکہ (The road to Makkah) اور ’’دی میننگ آف دی ہولی قرآن (The meaning of the holy Quran) نہایت ہی لاجواب اور قابل مطالعہ ہیں۔ وقت نکال کر ان کا مطالعہ کیجئے۔ پہلی کتاب میں ایک بدّو نے نماز میں حرکات یا اعمال کے بارے میں محمداسد کو جو بات تفصیل سے بتلائی وہ قابل مطالعہ و قابل غور ہے۔اسد اس وقت یروشلم یعنی بیت المقدس میں اپنے ماموں یا چچا (انگریزی زبان میں انکل کی جب تک میٹرنل یا پیٹرنل لکھ کر تشریح نہ کی جائے تو پتہ نہیں چلتا کون کیا ہے) ڈوریاں کے گھر میں مقیم تھے، یہ دوسری جنگ عظیم سے بہت پہلے کی بات ہے اس وقت یہودی نہایت عیاری سے اور مغربی حکمرانوں کی معاونت سے آہستہ آہستہ فلسطینی زمینوں پر قبضہ کررہے تھے اور اسرائیل کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ اسد بیان کرتے ہیں کہ ’’وہ اکثر پہلی منزل پر کھڑکی کے پاس بیٹھ کر گھر کے پیچھے واقع ایک احاطہ کو دیکھتے تھے جس کا مالک ایک حاجی عرب تھا۔ وہ گدھے کرائے پر دیتا تھا اور وہاں کسان سبزیاں وغیرہ لا کر بیچتے تھے جو پھر گدھوں کے ذریعے بازاروں میں بھیجی جاتی تھیں۔ یہ سامان اونٹوں پر وہاں لایا جاتا تھا۔ حاجی کے گھٹنوں میں گھٹیا (آرتھارائٹس) کا مرض تھا اور وہ ایک لکڑی کے سہارے وہاں گھومتا پھرتا تھا۔ دوسرے لوگ اس کی عزت کرتے تھے اور اسکے احکامات کی تکمیل کرتے تھے۔ میں بیٹھا دیکھتا رہتا اور حیران ہوتا تھا کہ یہ غریب لوگ تھے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے مگر ان کے چہروں، ان کی رفتار اور ان کے طرز گفتگو میں ایک شاہانہ جھلک تھی، وہ اپنی ثقافت اور مذہب پر مغرور تھے۔ میں نے دیکھا کہ دن میں وہ اپنے ساتھیوں کو کئی مرتبہ اکھٹا کرتا، خود آگے کھڑا ہوتا اور امامت کرتا۔ اگر موسم خشک ہوتا تو کھلے احاطہ میں ورنہ ورانڈوں میں۔ وہ سب ایک قطار میں کھڑے نہایت منظم طریقے سے امام (حاجی) کے پیچھے نماز ادا کرتے اور ان کا منہ مکّہ کی جانب ہوتا تھا۔ ان کی حرکات بالکل فوجیوں کی طرح ہوتی تھیں وہ ایک ساتھ جھکتے، ایک ساتھ زمین پر سر رکھتے، ایک ساتھ بیٹھتے وغیرہ وغیرہ۔ ہر شخص روحانی طور پر اپنے رب کے حضور میں ہوتا تھا وہ آنکھیں بند رکھتے تھے اور ہاتھ سینہ پر باندھے ہوئے ہوتے، ان کے ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کرتے نظر آتے تھے، آپ ان کو دیکھ کر یہ محسوس کرتے تھے کہ یہ لوگ اپنے جسم و روح کے ساتھ اپنی عبادت میں مصروف تھے۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگی کہ یہ لوگ ایک حقیقی عبادت اس قدر منظم طریقے اور انہماک سے ادا کرتے تھے۔ مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور ایک دن میں نے حاجی سے پوچھ ہی لیا کہ کیا تم یقین کرتے ہو کہ خدا تم سے یہ توقع کرتا ہے کہ تم بار بار جھک کر (رکوع)اور زمین پر سر رکھ کر (سجدہ) اسکی عبادت کرو، کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ تم کہیں خاموشی سے بیٹھ کر تنہائی میں، اپنے دل میں اپنے رب کی عبادت کرو۔ یہ تمام حرکات، اُٹھنا، بیٹھنا، سجدے کرنا کیوں ضروری سمجھتے ہو؟ میں یہ سوال کرکے اچانک پچھتایا کہ میں نے شاید حاجی کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کردیا ہو۔ مگر حاجی نے ذرا بھی کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے بغیر دانتوں والے منہ سے مسکرایا اور کہا: ’’پھر ہم اپنے رب کی عبادت کسطرح کریں؟ کیا اس نے ہمارے جسم و روح کو ایک ساتھ پیدا نہیں کیا؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر انسان کیوں نہ اپنے جسم اور روح سے ایک ساتھ عبادت کرے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم مسلمان کیوں اس طرح عبادت کرتے ہیں۔ ہم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرتے ہیں یہ جان کردنیا میں مسلمان کہیں بھی ہوں ان سب کا منہ اسی جانب ہوگا اور ہمیں احساس یکجہتی ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہیں۔ پہلے ہم سیدھے کھڑے ہوتے ہیں اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس یقین کیساتھ کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس میں ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ہم زندگی میں نیک اعمال کریں اور اللہ کے حکم کی تابعداری کریں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عظیم تر ہے اور اسکے علاوہ کوئی اور عبادت کے قابل نہیں پھر ہم اسکے سامنے جھکتے ہیں کہ ہم اس کی سب سے زیادہ عزّت کرتے ہیں اور اسکی شان و شوکت و قوت کی تعریف کرتے ہیں۔ اسکے بعد ہم اسکے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس خالق کے آگے خاک کے برابر ہیں اور ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ ہمارا خالق ہے اور ہمارا رازق ہے۔ پھر ہم زمین سے اپنا سر اُٹھاتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں وہ ہمارے گناہ معاف کردے، ہم پر اپنا کرم کرے، ہماری رہنمائی فرمائے، ہمیں صحت اور رزق عطا فرمائے۔ ہم پھر سجدہ ریز ہوتے ہیں اور خاک کو پیشانی پر لگاتے ہیں تاکہ اللہ کی طاقت و شان و شوکت کی قبولیت کا اظہار کریں۔ پھر ہم بیٹھ جاتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمارے پیغمبر محمدﷺ پر (جس نے اس کا مقام ہم تک پہنچایا) اسی طرح مہربانیاں کرے جس طرح اس نے اپنے پچھلے پیغمبروں پر کی تھیں۔ اور یہ کہ وہ ہم پر بھی اپنا کرم و مہربانی کرے اور ان لوگوں پر بھی جو اس کے احکامات و ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم اس سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس دنیا اور بعد میں آنے والی دنیا میں سرخرو کرے۔ آخر میں ہم اپنا چہرہ دائیں اور بائیں جانب گھما کر دنیا میں موجود تمام نیکو کاروں پر اللہ کی سلامتی اور مہربانی بھیجتے ہیں۔ یہی وہ طریقہ تھا جس پر ہمارے پیارے رسول ﷺ عمل کرتے تھے اور یہی طریقہ کار انہوں نے ہم مسلمانوں کو سکھایا ہے کہ ہمیشہ اسی طریقے سے اللہ کی عبادت کریں تاکہ ہم اپنی رضامندی، دل و جان سے خود کو اللہ کے آگے پیش کردیں۔ یہی اسلام اور اس کی روح ہے اور اس سے ہمیں خود بھی دلی سکون ملے گا اور اللہ کے ساتھ بھی روحانی تعلق رہیگا اور اپنی قسمت پر بھی قانع رہیں گے‘‘۔
’’حاجی نے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا تھا مگر جو کچھ اس نے کہا تھا میں نے اس کا بالکل صحیح مفہوم آپ کی خدمت میں پیش کردیا ہے اور مجھے بالکل اسی طرح یہ سب کچھ یاد ہے۔ برسوں بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ حاجی نے اس سادہ تشریح سے میرے لئے اسلام کا پہلا دروازہ کھول دیا تھا۔ لیکن میرے دل میں اس خیال کے جنم لینے سے بہت پہلے کہ اسلام میرا مذہب بن جائیگا میں نے جب بھی کسی شخص کو ایسے کھڑے دیکھا ۔ یہ اکثر و بیشتر ہوا، کہ وہ ننگے سر کسی چٹائی، دری یا زمین پر کھڑا اپنے سینے پر ہاتھ باندھے نماز میں مصروف ہے اور آنکھیں بند ہیں اور سر جھکا ہوا ہے اور مکمل طور پر، اپنے ماحول سے بے پروا ہو کر عبادت کررہا ہے خواہ وہ مسجد میں ہے یا کسی مصروف شاہراہ پر۔ وہ شخص خود سے مطمئن اور پُر امن ہے‘‘۔
آپ نے دیکھا کہ محمداسد نے جو چیز محسوس کی اور جو چیز دیکھی وہ ہزاروں نام نہاد مذہبی رہنما نہ کبھی محسوس کرسکے اور نہ دیکھ سکے۔ ایک کم تعلیمیافتہ عرب بدو نے جس خوبصورتی سے نماز کے ہر عمل کی تشریح کردی اور نہایت سادہ قابل فہم الفاظ میں کردی وہ ہمارے علمأ ہمارے لوگوں کو نہیں سمجھا سکے۔ آپ جب اس حاجی بدّو کی نماز کی تشریح پڑھتے ہیں تو پھر ایسا احساس ہوتا ہے کہ واقعی نماز پڑھتے وقت آپ پر بھی یہی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
دیکھئے اپنے پچھلے تین کالموں اور اس کالم میں آپ کو میں نے اسلام میں صفائی، پاکیزگی، وضو، غسل، تیمم اور نماز کے بارے میں اپنی معلومات و استعداد کے مطابق کچھ بنیادی باتیں بتلائی ہیں۔ آپ ذرا پاکیزگی، صفائی کی اہمیت پر غور کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے خود کلام مجید میں فرمایا ہے کہ وہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو خود کو پاک و صاف رکھتے ہیں۔ اسلام نے صفائی اور پاکیزگی کو ایک نہایت اہم اور اعلیٰ و واجب درجہ دیا ہے۔ ایک فرانسیسی فلسفی (Rosseau) نے کہا تھا کہ صفائی و پاکیزگی صرف معلومات تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک سرمایہ ہے۔
ہم پاکستانی مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ نہ ہی ہم اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہیں نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ہدایات و احکامات پر عمل پیرا ہیں اور نہ ہی صفائی و پاکیزگی جو نصف ایمان ہے پر عمل پیرا ہیں۔ مذہبی جماعتوں سے درخواست ہے کہ خدا کے واسطے سیاسی اقتدار کے پیچھے نہ دوڑیں، حقوق العباد کی جانب توجہ مبذول کریں اور اپنی دنیا اور آخرت سنواریں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
یہ تو طے ہے کہ دین اور دینی تعلیمات سیکھنے کے مراکز دینی مدارس، مساجد ، علمائے کرام اور ان کی تحاریر ہوا کرتی ہیں نہ کہ کالج یونیورسٹی، میڈیا ہاؤسز، اخباری مضامین و کالمز اور کالم نویس۔

پھر دینی موضوعات پر اخباری مضامین و کالم کو میں اتنی ”اہمیت“ کیوں دیتا ہوں کہ انہیں بار بار آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور یہ بھی ”توقع“ رکھتا ہوں کہ ”آپ“ ان مضامین پر اپنی رائے عوام الناس کے سامنے پیش کریں۔

میری ان ”حرکتوں“ کی حسب ذیل وجوہات ہیں۔
  • میرا ماننا ہے کہ بحیثیت مستند عالم دین ”آپ“ دین اور دینی موضوعات پر اتھارٹی ہیں۔ لہٰذا آپ ہی ان مضامین و کالم کی کمی بیشی اور خامیوں کی درست نشاندہی کرسکتے ہیں۔
  • ان کالمز اور مضامین کے پڑھنے والے ایسے لاکھوں افراد ہیں جو عام پڑھے لکھے مسلمان ہیں، جن کی رسائی دینی مدارس یا علمائے کرام تک نہیں ہے۔ لہٰذا وہ انہی اخباری مضامین میں بیان کردہ دینی تعلیمات کو ”حقیقت“ سمجھ لیتے ہیں۔
  • اخبارات کے لاکھوں قارئین تو دین سیکھنے کے لئے ”آپ“ تک نہیں پہنچ سکتے لیکن ”آپ“ تو انہی اخبارات اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ ان لاکھوں قارئین کو دین بھی سکھلا سکتے ہیں اور جو لوگ غلط یا ناقص دین عوام تک پہنچا رہے ہیں، ان کی ”تصحیح“ بھی کرسکتے ہیں۔
  • بس اسی وجہ سے میں اس دینی فورم کی معرفت ”آپ“ سے مخاطب ہوکر ایسے مضامین و کالم کی بالخصوص نشابدہی کرتا رہتا ہوں، جن میں عوام الناس کو (میری رائے میں) ”آپ“ کی رہنمائی درکار ہوتی ہے ۔
  • امید ہے کہ ”آپ“ میری اس “گستاخی“ کو معاف فرماتے رہیں گے، جب کبھی بھی یہ آپ کے شایان شان نہ ہوں۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
آپکی یہ گستاخی ناقابل معافی ھے؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

اور میری ناقص رائے میں آپ یہ گستاخی بار بار کریں۔

مجھے امید ھے کہ آپ اسے سرانجام دیتے رہیں گے
 
Top