• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ننگے سر نماز پڑھنا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد اور معروف عرب عالم جناب ابو عبیدہ مشہور بن حسن
اپنی بے مثال کتاب ’’ القول المبين في أخطاء المصلين ‘‘ میں لکھتے ہیں :


’’ قال الألباني: ((والذي أراه: أن الصلاة حاسر الرأس مكروهة، ذلك أنه من المسلَّم به:
استحباب دخول المسلم في الصلاة في أكمل هيئة إسلاميّة للحديث:
((فإن الله أحق أن يُتَزَيَّن له)) (1)
، وليس من الهيئة الحسنة في عرف السّلف، اعتياد حسر الرأس، والسيّر كذلك في الطرقات والدخول كذلك في أماكن العبادات، بل هذه عادة أجنبيّة، تسرّبت إلى كثير من البلاد الإسلاميّة، حينما دخلها الكفار، وجلبوا إليها عاداتهم الفاسدة، فقلّدهم المسلمون فيها، فأضاعوا بها وبأمثالها من التقاليد شخصيتهم الإسلاميّة، فهذا العرض الطاري (2)
لا يصلح أن يكون مسوغاً لمخالفة العرف الإسلامي السابق، ولا إتخاذه حجة لجواز الدخول في الصّلاة حاسر الرأس.
وأما استدلال بعض إخواننا من أنصار السّنة في مصر على جوازه، قياساً على حسر المحرم في الحج، فمن أبطل قياس قرأته عن هؤلاء الإخوان، كيف، والحسر في الحج شعيرة إسلامية، ومن مناسكه التي لا تشاركه فيه عبادة أخرى، ولو كان القياس المذكور صحيحاً، للزم القول بوجوب الحسر في الصلاة، لأنه واجب في الحج.
وهذا إلزام لا انفكاك لهم عنه، إلا بالرجوع عن القياس المذكور، ولعلهم يفعلون)) (3) .
ولم يثبت أنه - صلى الله عليه وسلم - صلّى ـ في غير الإحرام ـ وهو حاسر الرأس، دون عمامة، مع توفّر الدّواعي لنقله أو فعله. ومن زعم ثبوت ذلك، فعليه الدّليل، والحقّ أحق أن يتّبع (4) .
ومن الجدير بالذّكر، أن صلاة الرجل حاسر الرأس مكروهة فقط، وإلا فهي صحيحة، كما أطلقه البغوي وكثيرون (1) ، فامتناع العوام عن الصلاة خلف حاسر الرأس، غير صحيح، نعم، هو أولى المصلين، بأن تتوافر فيه شروط التمام والكمال، وأن يكون وقّافاً ملتزماً بسنة النبي - صلى الله عليه وسلم -.
والله الموفق.

_________
(1) وأوله: ((إذا صلى أحدكم فليلبس ثوبيه، فإن الله....)) . أخرجه الطحاوي في ((شرح معاني الآثار)) : (1/221) والطبراني والبيهقي في ((السنن الكبرى)) : (2/236) وإسناده حسن، كما في ((مجمع الزوائد)) : (2/51) . وانظر: ((السلسلة الصحيحة)) : رقم (1369) ..
(2) الوارد في حديث ابن عباس: ((أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان ربما نزع قلنسوته، فجعلها سترة بين يديه)) . وهو حديث ضعيف.

قال الألباني: ((ويكفي دلالة على ذلك ـ أي ضعفه ـ تفرّد ابن عساكر به. وقد كشفت عن علّته في ((الضعيفة)) (2538)) ) وقال أيضاً: ((إنه لو صح، فلا يدل على الكشف مطلقاً، فإن ظاهره: أنه كان يفعل ذلك عند عدم تيسّر ما يستتر به، لأن اتخاذ السترة أهم، للأحاديث الواردة فيها)) .
(3) تمام المنة في التعليق على فقه السنة: (ص164 ـ 165) .


ترجمہ :
امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میری نظر (اور تحقیق) میں ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ یہ بات طےشدہ ہے کہ مسلمان کے لیے مکمل اسلامی ہیئت اختیار کرنے کے بعد ہی نماز میں داخل ہونا مستحب ہے کیونکہ حدیث میں ہے:
"فان اللہ احق ان یتزین لہ" (اخرجہ الطحاوی فی "شرح الآثار" و الطبرانی والبیہقی فی "السنن الکبری")

"اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے"
ننگے سر رہنے کی عادت، ننگے سر راستوں میں چلنا اور اسی طرح عبادات کی جگہوں میں داخل ہو جانا سلف صالحین کے عرف میں اچھی ہیئت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ غیرمسلموں کی عادت ہے جو کفار اپنی فتوحات کے ساتھ لے کر آئے اور بہت سے مسلمان ممالک میں یہ عادت (عامۃ الناس میں) سرایت کر گئی جسے اپنا کر انہوں نے اپنی اسلامی شخصیت کو ضائع کر دیا۔ پس یہ جدید صورتحال سابق اسلامی عرف کی مخالفت کی دلیل نہیں بن سکتی اور نہ اس سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز نکالا جا سکتا ہے۔
مصر میں "انصار السنۃ" کے بھائیوں نے حج میں ننگے سر رہنے سے ننگے سر نماز پڑھنے پر جو قیاس کیا ہے وہ ان بھائیوں کے غلط ترین قیاسات میں سے ہے۔ یہ دلیل کیسے درست ہو سکتی ہے جبکہ حج میں ننگے سر رہنا اسلامی شعیرہ ہے اور اس کے مناسک میں سے ہے جس میں کوئی دوسری عبادت شریک نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ قیاس صحیح ہوتا تو نماز میں ننگے سر رہنا بھی واجب ہوتا کیونکہ یہ حج میں واجب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے حالت احرام کے سوا کبھی بھی عمامے کے بغیر نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ ایسی بات ہوتی تو ضرورنقل کی جاتی۔ اگرکوئی اس کے خلاف سمجھتا ہے تو دلیل اسی کے ذمے ہے۔ حق بات پیروی کی زیادہ مستحق ہوتی ہے۔
یہ یاددہانی کرنا بھی ضروری ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا صرف مکروہ ہی ہے، لیکن (ایسا کرنے والے کی نماز باطل نہیں ہوتی) بلکہ نماز صحیح ہوتی ہے۔ ۔ ۔ پس ننگے سر والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روکنا درست نہیں ہے البتہ (امام کو خیال کرنا چاہیے) کہ اسے دوسروں سے زیادہ تمام و کمال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کا خیال رکھنا چاہیے اور اس کا پابند ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔
(القول المبین فی اخطاء المصلین ص 56 تا 58، مشہور حسن سلمان)
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ایک بات کا اضافہ کرتا چلو ۔
کہ ننگے سر نماز پڑھنی اگر مکروہ اور بے ادبی ہوتی ،
تو اللہ تعالیٰ کبھی حج وعمرہ میں ایسی مکروہ اور بے ادب فعل کو واجب نہ کرتا ۔

واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
جولائی 11، 2016
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
22
السلام علیکم

سر کے ڈھانپنا/نہ ڈھانپنا آپ اسے عمرہ و حج کے احکامات کے ساتھ کیسے ملا رہے ہیں؟ کیا آپ گھر میں بھی احرام باندھ کر نماز ادا کرتے ہیں؟ جس سے ایک شولڈر بھی ننگا رکھنا ہوتا ھے۔

والسلام
گھر میں سر ڈھانپنے کا تو کوئ تصور ہی نہیں
ہاں حج عمرہ کے کرتے ہوئے جب نماز کا ٹائم آجائے
تو جس بندے کے پاس,علم ہوگا اسے پتہ ہوگا کہ اللہ کے نبی کا فرمان ہے جس کے کندھے ننگے ہوں اس کی نماز نہیں ہوتی لہذا وہ کندھا ڈھانپ لے گا
لیکن مسجد احرام میں نماز پڑھتے ہوئے ٹوپی پہننا شرط نہیں کہ جس نے ٹوپی نا پہنی اس کی نماز نہیں ہوگی.
وہاں تو کافی ٹوپی کیا ننگے سر پورے سر کے بال اتروا کے کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو کیا ان پے بھی گستاخی کا فتوی لگے گا کیا.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
یہ یاددہانی کرنا بھی ضروری ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا صرف مکروہ ہی ہے، لیکن (ایسا کرنے والے کی نماز باطل نہیں ہوتی) بلکہ نماز صحیح ہوتی ہے۔ ۔ ۔ پس ننگے سر والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روکنا درست نہیں ہے البتہ (امام کو خیال کرنا چاہیے) کہ اسے دوسروں سے زیادہ تمام و کمال کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کا خیال رکھنا چاہیے اور اس کا پابند ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔
(القول المبین فی اخطاء المصلین ص 56 تا 58، مشہور حسن سلمان)
جزاک اللہ خیرا. دلائل کی روشنی میں یہ موقف درست معلوم ہوتا ہے. واللہ اعلم بالصواب
 
Top