• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ننھی چڑیا کی بے قراری!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ابو ہریرہ :
مقدس قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔گھوڑے اور اونٹ تھک چکے تھے۔مقدس مسافروں پر بھی تھکن کےآثار نمایاں نظرآ رہے تھے۔ قافلےکے سوار بہت نیک اور پیارے انسان تھے۔وہ سفر میں سواریوں پر بیٹھ کرخاموش رہنے یا آپس میں فضول اور بے مقصد گفتگو کرنے کی بجائے اللہ کا ذکر کر رہے تھے۔اس قافلے کا سالار بہت خوبصوت‘ باوقار اور نرم دل انسان تھا۔اس نےجب اپنے ہم سفروں پرتھکاوٹ اورسستی کے آثار دیکھے تو قافلے کو پڑاؤ کاحکم دے دیا۔محبوب سالاراور مشفق راہنما کاحکم سنتے ہی سب نےسواریوں کی لگامیں کھینچ لیں اورایک محفوظ وہموارجگہ پر پراؤ ڈال دیا۔

قافلہ والوں کاسامان ایک طرف رکھاجانے لگا۔سامان کا ڈھیر لگ گیا۔ سواریوں کو چارا ڈالا گیا اور آرام کے لیے چھوڑ دیا گیا۔تمام مسافرپڑاؤ کی جگہ آپس میں پیارومحبت بھری باتوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہےتھے کہ کیانماز کاوقت ہونے والا ہے‘تھوڑی دیر بعد ہم نماز ادا کریں گے۔اسی اثناء میں قافلے کاسالار اپنی کسی ضرورت کےتحت ایک طرف کو یہ کہتے ہوئے چل دیا کہ میں ابھی واپس آجاؤں گا۔

پیارے اور لا ڈلے ننھے منے بچو!......کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ مسافر اور اس قافلہ کاسالاراور راہبر کون تھا.....؟یہ بہت عظیم انسان تھا کہ جس ہستی کاذ کر ہمارے پیارے رب کریم نے قرآن مجید میں کیا ہے.....جس کے ساتھیوں کے متعلق اللہ کریم نے اپنی آخری آسمانی کتاب‘قرآن میں فرمادیا کہ میں دنیامیں ہی ان سےراضی ہوگیاہوں اور ان کےجنتی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔اس قافلہ کے سالار کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اس عظیم انسان کودنیا میں تمام جہانوں کےلیے رحمت بناکربھیجا..... اب پتہ چلاکہ یہ مقدس مسافر کون تھے.....؟؟ہاں!تو آپ صحیح سمجھے! بالکل درست کہاآپ نے.....یہ مقدس مسافر ہمارے پیارے سیدنا محمدﷺاور آپﷺکے صحابہ کرام تھے۔توان پاکباز انسانوں کا تعارف تھا۔توآیئے ! اب کہانی کی طرف دوبارہ آتے ہیں:

قافلے کاسالاریعنی ہمارے پیارے نبی ﷺکسی ضرورت کےتحت قافلہ کے پڑاؤسے تھوڑی دورچلے گئے۔صحابہ کرام اپنی باتوں اور کاموں میں مصررف ہوگئے۔اسی دوران اچانک صحابہ نےایک چڑیا کودیکھا۔ یہ معصوم سی چڑیا تھی۔یہ تتلی کی طرح اڑتی ہوئی ادھر آنکلی تھی۔

پیارے بچو!....صحابہ کرام نے اس کاتعاقب کیااور اس کے گھونسلے تک جاپہنچے۔گھونسلے میں اس کے کمزور سے دوننھے منے معصوم بچے سہمے سہمے‘ ڈرے ڈرے اور خوفزدہ سے ماں کےمنتظر بیٹھے تھے۔

صحابہ کرام نے جب یہ نظارہ دیکھا توبہت حیران اورخوش ہوئے۔ اچانک ایک صحابی نے آگے بڑھ کر اس چڑیا کے دونوں بچوں کو اٹھالیا۔ بچےہاتھوں میں آتے ہی سہم گئے۔وہ خوفزدو ہوکر دبک کربیٹھ گئے۔ بہت کمزور تھے.....چھوٹے چھوٹےپاؤں....ننھی ننھی سی چونچیں......کمزرو سے پرتھے ان کے.....وہ زورلگا کریا چونچ مارکر آزاد ہونا چاہیں تونہیں ہوسکتے تھے۔اس لیے کہ وہ انسان کے مضبوط وتوانا قوت والے ہاتھ کی گرفت میں تھے۔یہ ہاتھ اتنے طاقتور تھے کہ ان میں پکڑی تلوار جب کافروں پرعذاب الہٰی بن کربرستی توان کی گردن جسم سے علیحدہ کردیتی۔ یہ ننھی چڑیا کےننھے منے بچے ان ہاتھوں کونہ توکوئی نقصان پہنچا سکتے تھے اور نہ ہی آزاد ہو کرکھلی فضا میں اڑ سکتے تھے۔

صحابہ کرام ان کی معصومیت دیکھ کر ان کو پیار کر رہے تھے۔ صحابہ ان کی ننھی ننھی زبا نوں سے نکلنے والی آوازیں..چوں..چوں..چوں سن کر بہت محظوظ ہو رہے
تھے۔ خوشی سے ان کو دیکھتے ہوئے اپنی آراء اور تبصرے کررہےتھے۔

پیارےبچو....پھرپتہ چلاکیا ہوا؟.....ہاں توجب ان کی ماں نے یعنی ننھی چڑیانے دیکھاکہ صحابہ نےاس کےبچوں کوگھونسلے سےاٹھالیا ہے‘ت واسےایسے لگا جیسے اس کا دل دھڑ کنا چھوڑتا جار ہا ہو....اس کی سانسیں پھول گئیں....جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی... اسے اپنی آنکھوں کےآگےاندھیرا محسوس ہونےلگا...اسے صحیح طرح سےکچھ دکھائی نہ دے رہاتھا...اس کاننھا سا دل دھک دھک دھک دھڑک رہاتھا...جسم بے جان ہوتا جار ہاتھا...اڑنے کی طاقت ختم ہوتی جارہی تھی... آنکھیں نمناک تھیں.... دل غمگین تھا...وہ دل ہی دل میں رو رہی تھیں...چیخیں مار رہی تھی....اورزبان حال سے کہہ رہی تھی: یائے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اب کیاکروں؟.... ہائے میرے بچوں کو کون چھرائے گا... میرےبچوں کو کون آزادی دکوائے گا؟....کون گھونسلے تک واپس پہنچائے؟....وہ بہت نازک ہیں....ابھی چند دن پہلے ہی دنیا میں آئے ہیں....ابھی چند دن ہی توان کی عمر ہے.....اگران کی جان چلی گئی... اگرکہیں وہ زخمی ہوگئے...اگران کا سانس رک گیا....وہ ہاتھوں میں دب کریاسانس گھٹ کرمرگئے تو...میراکیابنے گا!!؟....یقینامیں بھی جیتے جی مرجاؤں گی۔ہائے۱کوئی آئے اورمیرےبچوں کو بچائے۔وہ اللہ کےدربار میں فریاد کرہی تھی کہ الہٰی میرے بچوں کی حفاظت فرمانا۔ننھی چڑیا کی قراری دیکھی نہیں جارہی تھی۔وہ بے قراری کےعالم میں دیوانہ وار ادھر ادھر اڑرہی تھی....اور رفضامیں محوپرواز تھی۔وہ نہایت سرعت اور رفتاری سے صحابہ کےسروں کےاوپر منڈلارہی تھی۔ وہ صحابہ کے ہاتھوں میں پکرے اپنے بچوں کوبھی دیکھ رہی تھی۔ایک صحابی نے پیارسے ننھے معصوم بچوں کراپنی جھولی می ڈال لیا۔یہ دیکھ کرچڑیا تڑپ اٹھی‘بے قراری کےعالم میں اڑتی ہوآئی اور اس کے سرپربیٹھ گئی۔لیکن کیاکرسکتی تھی!!؟کیونکہ تھی تووہ ایک کمزروسی ننھی سی چڑیا۔

اسے لگ رہا تھاکہ اس کاننھا سا حساس دل اپنے بچوں کی جدائی کےگم میں دھڑ کنا بند کردے گا....اور ہمشہ کےلیے بندہوجائےگا.....اورہمشہ کےلیے بند ہوجائےگا۔اس کی سانسیں رک جائیں گی اور وہ مرجائے گی...لیکن اس ےبچوں کاکیابنے گا!!؟یہی فکر اسےکھائے جارہی تھی۔

یہ ایک ماں کی تڑپ تھی‘اپنےبچوں کےلیے‘جودنیاکی ہر ماں کےدل میں ہمہ وقت مود رہتی ہے۔وہ ماں خواہ حیوانوں کی ہو یاانسانوں وپرندوں کی...صحابہ کرام اس کا دیوانہ وار اپنے سروں پہ منڈلا نا دیکھ رہے تھے...اوراس کے بچوں سے پیار کرکے‘لاڈ کرکے‘ان کواپنی طرف متوجہ کرنے کےلیے مختلف آوازیں نکال کرخوش اور محظوظ ہورہے تھے... لطف اندوز ہورہے تھے....ننھی چڑیا کویہ وہم ہوگیاتھاکہ کہیں صحابہ اس کے بچوں کونقصان نہ پہنچادیں....اسے نہیں پتہ تھاکہ یہ نرم دل نبی ﷺکےدل اورپیار کرنے والےصحابہ ہیں۔صحابہ تواس کے بچوں سے پیار کر رہے تھے جبکہ وہ پریشان ہورہی تھی کہیں ان کوکچھ ہونہ جائے۔

  • پیارے بچو!...پھر پتا ہےکیاہوا؟...ہم آپ کو بتاتے ہیں...صحابہ کرام اپنےاس مشغلہ میں مصروف تھے کہ اچانک ہمارے پیارے رسولﷺوہاں آگئے۔انہوں نےبے قرار ننھی چڑیاکو‘ فضامیں‘صحابہ کے سروں پر‘پریشانی کے عالم میں‘منڈلاتے دیکھا تو صحابہ سے اس کی وجہ پوچھی۔صحابہ نے بتایا کہ ہم نےاس کے دوبچوں کوپکڑرکھا ہے‘ یہ اسی لیے بے قرار ہو کر پرواز کر رہی ہے۔ رسول رحمتﷺکایہ سنناتھا کہ ننھی چڑیا کےحق میں غم اورتکلیف سےآپﷺکےچہرہ مبارک کارنگ بدل گیا۔آپﷺ غمناک و پریشان ہوگئے‘‘ بےقرار ہوگئے۔ آپﷺ سے ننھی چڑیا کی بےقراری اورغم دیکھا نہ گیا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام سےغصے کےعالم میں پوچھا:اس چڑیاکے بچے پکڑ کراس چریا کواللہ تعالیٰ کی ننھی مخلوق کو کس نے دکھ پہنچایا ہے....؟ صحابہ کرام نےبتایا کہ فلاں صحابی نےاس کےبچوں کوگھونسلے سےاٹھایا ہے‘اب ان سے لاڈپیار کر رہاہے اورکھیل رہا ہے۔آپﷺنےحکم دیا کہ اس کے بچے فورا چھوڑ دو۔صحابہ نے اسی وقت حکم کی تعمیل کی اوربچوں کو گھونسلے میں پہنچا دیا۔
اب وہ ننھی چڑیا اوراس کےننھے منے بچے رسو ل اللہﷺ کو پیار بھری نظروں سےدیکھ رہے تھے۔ان کی خوشی سے بھری چمکتی دمکتی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ رسول اللہﷺکا شکریہ اداکررہے ہیں‘کہ آپﷺ انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں کےلیے بھی نبی رحمت ہیں۔آپﷺ ہم جیسے چھوٹے چھوٹے پرندوں اور جانداروں کابھی اتنا خیال رکھتے ہیں... ہم سے اس قد رمحبت اور شفقت کابرتاؤ کرتے ہیں۔اے آخری رسول ﷺ....اےرحمتوں اورشفقتوں بھرے دل والے رسولﷺ!.... تیراشکریہ....شکریہ....شکریہ.....

صحابہ کرام ان کی خوشی کودیکھ رہےتھے۔پھرصحابہ نےحکم ملتے ہی پڑاؤ اٹھایااور چڑیاکے اپنے سفر (گھونسلہ) کی طرف روانہ ہونے کےبعد رسول اللہﷺ کے ساتھ سفرکرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔

پیارے مجاہد بچو !...دیکھاآ پ نے ہمارے پیارے نبی ﷺچڑیا کے بچوں کو گونسلے سے اٹھا لینے پر کتنے ناراض ہو ئےتھے۔آپﷺ نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیاَ۔ہمیں چاہیےکہ کسی چھوٹے سے چھوٹے جاندار کو بھی کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائیںاور نہ کسی کو اپنی قید میں بند رکھیں۔

ذرا سوچیں!.....اگر کوئی کو زبر دستی اٹھا لے جائے یا تکلیف پہنچائے تو اپ کی پیاری امی جان کا کس طرح برا حال ہو گا!!؟؟یہی حال ہر جاندار کی ماں کا ہوتا ہے۔ہمیں اپنے رسول ﷺکے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ننھے جانوروں سے شفقت اور پیار کرنا چاہئے‘ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچانی چاہئے۔اس سے اللہ تعا لیٰ پھر اس کا رسول خوش ہوتا ہے۔

***
 
Top