• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نواب وحید الزماں پر ایک دلچسپ کتابچہ

ج انصاری

مبتدی
شمولیت
دسمبر 11، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
194
پوائنٹ
16

آج مطالہ کی میز پر نواب وحید الزماں حیدرآبادی مسلک و نظریہ ایک تحقیقی جائزہ نامی کتابچہ ہے ابوعبد اللہ شعیب محمدصاحب اس کے مؤلف ہیں ۔ زیر مطالہ کتاب نواب وحید الزماں کے بارے میں ایک چشم کشا تحریر ہے ۔ اس کے مطالعہ سے قارئین یقینی طور پر اس بات کو جان لیں گے کہ نواب وحید الزماں کی زندگی میں تین ادوار آئے ہیں پہلے وہ حنفی تھے پھر نیم غیر مقلد بنے اور آخر میں قریب قریب شیعہ ہوگئے اسی طرح نواب صاحب کے بارے میں یہ بات بھی متحقق ہو جائے گی کہ وہ معروف صوفی عالم فضل رحمٰن گنج مرادابادی کے ہاتھ پر سلسلہ نقشبندیت میں بیعت بھی تھے ۔ اور ان کی زندگی کے تینوں ادوار میں نقشبندیت سے تعلق اور اپنے پیر سے
عقیدت برقرار رہی تھی ۔ کتاب میں ان شبہات کا بھی مدلل اور مستند حوالے سے جواب دیا گیا ہے ۔ جنکے سہارے علامہ وحید الزماں کی کتب اور اقوال و عبارات کو اہل حدیث کا نظریہ و مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ امید ہی نہیں بلکہ یقین ہیں کہ کتاب کا مطالعہ کرنے والا نواب وحید الزماں کی زندگی کے تین ادوار سے نہ صرف واقف ہوگا بلکہ معاندین کے پھیلائے ہوئے شبہات کی حقیقت سے بھی واقف ہو جائے گا ۔اس کتابچے کو ہندوستان میں پہلی مرتبہ
مکتبہ الفہیم مئو نے شائع کیا ہے میری اپنی معلومات کی حد تک پاکستان میں کتابی صورت میں یہ مضمون شائع نہیں ہوا ہے ۔ ہاں غالبا ضرب مؤمن میں چھپا ہے۔ ابو عبد اللہ شعیب محمد صاحب کون ہیں قارئین معلومات فراہم کریں تو بہتر ہوگا ۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
جی ہاں یہ مضمون ضرب مومن نہیں بلکہ ضرب حق شمارہ نمبر ٢١ میں چھپ چکا ہے۔
ضرب حق شمارہ نمبر ٢١
اس کے علاوہ نواب وحید الزمان حیدرآبادی پر ایک بہت ہی تحقیقی مضمون"غالی مقلدین اور وحید الزمان کی کتابیں" ضرب حق شمارہ نمبر ٣٣ میں شائع ہو چکا ہے جو کہ مشہور مناظر اور محقق شیخ ابو الاسجد محمد صدیق رضا حفظہ اللہ کی تصنیف ہے۔
ضرب حق شمارہ نمبر ٣٣
اس مضمون کا بقیہ حصہ شمارہ نمبر ٣٤ میں چھپ چکا ہے اور وہ رسالہ بھی ان شاءاللہ میں جلد ہی سکین کر کے اپلوڈ کر دوں گا۔
ابو عبداللہ شعیب محمد بھائی، طالب نور کی آئی ڈی سے یہاں موجود ہیں آپ ان کے تھریڈز کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔باقی اپنا تعارف وہ خود ہی کروا دیں گے جب فورم پر آئیں گے۔
 

ریحان ہندی

مبتدی
شمولیت
فروری 13، 2013
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
0
نواب وحیدالزماں حیدرآبادی والے کتابچہ پر شیخ رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اللہ علی گڑھ نے ممبئی سے شائع ہونے والے انقلابی ماہنامہ ’’دی فری لانسر‘‘ کے جنوری ٢٠١٣ کے شمارہ میں شاندار تبصرہ کیا ہے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
نواب وحیدالزماں حیدرآبادی والے کتابچہ پر شیخ رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اللہ علی گڑھ نے ممبئی سے شائع ہونے والے انقلابی ماہنامہ ’’دی فری لانسر‘‘ کے جنوری ٢٠١٣ کے شمارہ میں شاندار تبصرہ کیا ہے۔
یہ وہ تبصرہ ہے جو شیخ رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اللہ نے کیا ہے،اس تبصرے میں حافظ زبیر علی زئی حفطہ اللہ کی بھی چند کتب پر تبصرہ کیا گیا ہے:
مکتبہ الفہیم،مئو ناتھ بھنجن کے تحائف علمیہ
تحریر : رفیق احمد رئیس سلفی
-----------------------
تعلیمات کتاب وسنت پر مبنی اور سلفی نقطہ نظر کی حامل کتابوں کی اشاعت میںآ ج کل جن اشاعتی اداروں کے نام لیے جاسکتے ہیں،ان میں سب سے نمایاں نام مکتبہ الفہیم،مئو ناتھ بھنجن، یوپی،کاہے۔دو حقیقی نوجوان بھائیوں برادران عزیز شفیق الرحمن اور عزیز الرحمن نے بڑی محنت،توجہ اور لگن سے دعوت،علم اور تحقیق کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے اور اللہ کی توفیق اور اس کے فضل وکرم سے اس میں روز بہ روز استحکام آتا جارہا ہے۔خوبصورت طباعت اور دیدہ زیب سرورق آج کی شناخت ہے لیکن اسلامیات میں اس کی طرف توجہ کم رہی ہے۔خالص تجارتی بنیاد پر کتابوں کی خوبصورت اشاعت کاسلسلہ علوم وفنون کے دیگر شعبوں میں ایک عام سی بات ہے لیکن اردو زبان میں اسلامیات کی کتابیں اس توجہ سے محروم رہی ہیں۔اب بحمداللہ اس میدان میں ہمارے کچھ باذوق تاجر اترے ہیں اور انھوں نے اس خلا کو پر کرنے کی جدوجہدشروع کردی ہے جو اب تک ہم محسوس کررہے تھے۔
ہندوستان میں سلفی علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد مدارس میں درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہی ہے۔ان میں کم ہی لوگ ہیں جواس مشغلہ کے ساتھ تصنیف وتالیف کاذوق رکھتے ہیں۔ہاں چند حضرات ایسے ضرور ہیں جو تدریس کے ساتھ تصنیف وتحقیق کا بھی کام کررہے ہیں اوروہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔شاید کوئی ایسا تحقیقی وتصنیفی ادارہ قائم کرنے میں ابھی تک ہم ناکام ہیں یااس کی ضرورت واہمیت نہیں سمجھتے کہ چند محققین اور تصنیف وتالیف کاذوق رکھنے والوں کوایک جگہ جمع کیا جائے اور ان سے حالات وظروف کے مطابق کتابیں تیار کرائی جائیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ نئے موضوعات پر جدید کتابیں دیکھنے کوآنکھیں ترستی ہیں اور افسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے وسائل کیوں نہیں فراہم کرپارہے ہیں۔پڑوسی ملک پاکستان میں بعض سلفی اداروں نے اپنے یہاں اس کا اہتمام کیا ہے اور بعض اہم شخصیات نے اپنے آپ کواس کام کے لیے فارغ کرلیا ہے۔پڑوسی ملک کے ان اداروں اور شخصیات کا احسان ہے کہ ان کے ذریعے جو کتابیں تیار ہوتی ہیں،ہمارے بعض ادارے ان کوبڑی آن بان اورشان سے شائع کرتے ہیں اور قارئین کے ہاتھوں میں پہنچارہے ہیں۔علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے،اسے عام ہونا چاہیے۔ مصنف کے کچھ تحفظات ہوتے ہیں،ان کی رعایت ضرور ہونی چاہیے اور خیر سگالی کاایک ماحول بناکراس بابرکت سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے۔
سلفی اشاعتی اداروں میں ابھی تک اس کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا کہ مصنف کو رائلٹی دی جائے اور مصنف کے لیے منافع کا حصہ فیصد میں مقرر کردیا جائے۔ علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں جو نقطہ نظراپنایا تھا،میں سمجھتا ہوں کہ اسے اسلامیات کے شعبہ میں عام ہونا چاہیے۔ اسلامیات کی انگریزی کتابیں جو ناشرین شائع کرتے ہیں اور جن میں بڑی تعداد غیر مسلموں کی ہے،وہ مصنفین کو معاوضہ دیتے ہیں اور ہر ایڈیشن پر نفع کا کچھ حصہ مصنفین کے لیے مختص کرتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی نشریات کے قارئین کی قوت خرید بہت اچھی ہے اور وہ گراں سے گراں قیمت پر بھی کتابیں خریدتے ہیں۔اردواسلامیات کے قارئین کوشاید ابھی تک اس کااحساس نہیں ہے کہ کتابیں کتنی محنت سے تیار کی جاتی ہیں اور مصنف کا کتناوقت اس پر صرف ہوتا ہے۔دانستہ طور پر اس قضیہ کا ذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ ہمارے ملک میں اردواسلامیات کے انتاج میں جو کمی ہے،اس کو پورا کرنے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے اشاعتی ادارے اقدام کریں اور علم وتحقیق کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں بلکہ انھیں غم دوراں سے بے فکر بناکر سکون واطمینان عطا کریں تاکہ کاروان علم وادب تیزگام ہوسکے اور جدید موضوعات پر اعلی علمی کتابیں ترتیب پاسکیں۔اہل علم کی سرپرستی کسی زمانے میں حکمران وقت کیاکرتے تھے اور وہ مصنفین کو بے نیاز کرکے انھیں جوئے شیر لانے پر آمادہ کرتے تھے۔اب نہ وہ حکومتیں باقی ہیں اور نہ علما پرور حکمراں لیکن علوم شریعت کی ضرورت تو باقی ہے اور صبح قیامت تک رہے گی۔اس کے لیے تو کوئی نہ کوئی جتن کرنا ہی پڑے گا۔مجھے تفصیلات کا علم تو نہیں ہے لیکن اس تعلق سے جماعت اسلامی کے اشاعتی ادارے نے اپنے یہاں کچھ اصول اور ضابطے متعین کیے ہیں۔بہر حال یہ ایک ضمنی بات تھی جو درمیان میں آگئی ۔ایک لحاظ سے یہ ضروری بھی تھی۔سمندر کی ساکت سطح پر لہریں اٹھانے کے لیے کسی نہ کسی کوتو پتھرپھینکنا ہی پڑے گا۔لہریں اٹھیں گی تودیر سویر اس کے کچھ نہ کچھ نتائج سامنے ہی آئیں گے۔
مکتبہ الفہیم کے میرے یہ نوجوان دوست مجھ سے للہ فی اللہ محبت کرتے ہیں اور میری کوئی ٹوٹی پھوٹی تحریر کہیں دیکھتے ہیں تواسے محبت سے پڑھتے ہیں اور اپنے تبصروں سے مستفید کرتے ہیں۔یہ نوجوان تعلیم یافتہ ہیں،ذوق سلیم رکھتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ موقع ومحل کی نزاکتوں کاادراک رکھتے ہیں۔اپنی علم دوستی اور علما نوازی میں بھی ممتاز ہیں۔بعض دوسرے ناشرین کی طرح نہ خشک مزاج ہیں اور نہ درشت رو بلکہ خوش مزاجی اور خندہ روئی ان کی شناخت ہے۔مئو میں ایک سفر کے دوران ان سے ملنے،ان کے مکتبہ کی زیارت کرنے اور ان کے دولت کدے پر پرتکلف ظہرانہ سے لطف اندوز ہونے کاشرف حاصل ہے۔اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں کہ پارچہ بافی کے شہر میں انھوں نے علم وتحقیق کی جو شمع جلائی ہے وہ نہ صرف جلتی رہے بلکہ اس کی روشنی دور دور تک پھیلے اور تاریکیوں کا دائرہ سمٹتا چلاجائے۔
مکتبہ الفہیم نے 2012 میں جو نئی کتابیں شائع کی ہیں،ان میں سے چند کتابیں راقم سطور کو تحفے میں بھیجی ہیں۔ایک کتاب کے سلسلے میں ان کی خواہش ہے کہ اس کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے کیوں کہ وہ فقہ وفتاوی کی بڑی اہم کتاب ہے۔کسی کتاب کا تنقیدی مطالعہ اور اس کے حسن وقبح پر اظہار خیال بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔اس کے لیے ذہن کی آمادگی کے ساتھ ساتھ فرصت اور مہلت بھی ضروری ہے اور یہی وہ گوہر نایاب ہے جو علمی اور غیر علمی گہما گہمی میں مجھ جیسے کم زورانسان کوحاصل نہیں ہے۔بہرحال ان کی خواہش کی تکمیل کسی دوسرے موقع پران شاء اللہ کی جائے گی،سردست ان کی مرسلہ کتابوں کی ایک سیر قارئین ذی اکرام کو کرادینا ضروری ہے تاکہ علم وتحقیق کی اس رفتار سے انھیں واقفیت ہوجائے جو مکتبہ الفہیم کے یہاں پائی جاتی ہے۔

(۱)یہ ہے ہماری دعوت:
علامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ للہ کاایک محاضرہ ”ہذہ دعوتنا“کے عنوان سے ہے۔عربی محاضرے کو ابومعاذ خالد بن عبدالعال نے کاغذ پر منتقل کیا ہے اور اس کی تحقیق وتخریج کے بعد کویت سے اسے شائع کیا ہے۔اردو ترجمہ ایک پاکستانی صاحب قلم ابوضیاء محمود احمد غضنفر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔اس محاضرہ میں علامہ البانی نے سلفی دعوت کی تشریح فرمائی ہے اور اس کے اصول بیان فرمائے ہیں۔فقہ کے بعض مختلف فیہ مسائل کا حوالہ دے کر انھوں نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے۔منہج سلف کی تفہیم میں اس کتاب سے کافی مدد ملتی ہے۔مرتب اور مترجم کسی نے بھی وضاحت نہیں کی کہ یہ محاضرہ کہاں اور کس تاریخ کو علامہ رحمہ اللہ نے پیش کیا تھا۔معروف محقق شیخ محمد عزیر شمس نے بھی اس رسالے کا اردو ترجمہ کیا تھا،ان کامقصد بھی اس کو شائع کرنا تھا۔میرے دوست مولاناارشد سراج الدین مکی کے پاس اس کی کاپی موجود ہے۔دیکھئے شیخ عزیر کا ترجمہ کتابی صورت میں کب شائع ہوتا ہے۔
علامہ البانی کے اس نوعیت کے کئی ایک محاضرات ہیں،چند ایک عربی میں شائع بھی ہوچکے ہیں۔ کاش کوئی صاحب علم سب کوایک ساتھ جمع کرکے کتابی صورت میں مرتب کردیتا اور پھران کااردو ترجمہ بھی کردیا جاتا۔

(۲)شرح حدیث جبریل:
شیخ عبد المحسن العباد کی تصنیف ہے۔اردو ترجمہ مولانا حافظ زبیر علی زئی صاحب نے کیا ہے۔حدیث جبریل کو محدثین نے اصول اسلام کی تفہیم کے لیے بڑا اہم قرار دیا ہے اور واقعہ ہے کہ مکمل اسلام اس حدیث میں اجمالی طور پر سامنے آگیا ہے۔مترجم نے نہ صرف عربی کتاب کاترجمہ کیا ہے بلکہ اپنے تحقیقی ذوق کی بناپر نصوص کی تحقیق بھی کی ہے اور جگہ جگہ حواشی لگاکرکتاب کی افادیت میں اضافہ کیا ہے۔کہیں کہیں ان کے اضافے متن کتاب میں بھی ہیں۔یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔مصنف کی عبارتوں کے درمیان دخل اندازی تحقیق و تصنیف کے تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف ہے۔
ایک حاشیہ میں انھوں نے لکھا ہے کہ عزرائیل کا نام کسی حدیث یا صحیح آثار سلف میں منقول نہیں ہے۔یہ بات علامہ البانی نے ”احکام الجنائز وبدعھا“میں تحریر کی ہے۔مترجم کو چاہیے تھا کہ ان کا حوالہ دیتے کیوں کہ علامہ البانی سے پہلے کسی مصنف نے اتنی صراحت کے ساتھ شاید یہ بات نہیں لکھی ہے۔
ایک دوسرے حاشیہ میں مترجم محترم نے لکھا ہے کہ اللہ کے ننانوے اسمائے حسنی کی طرح بعض لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے بھی ننانوے نام گنائے ہیں لیکن کسی صحیح حدیث میں اس ترتیب وتفصیل سے ان کا ذکر نہیں ملتا ہے۔

(۳)اہل حدیث اور جنت کا راستہ:
مولانا حافظ زبیر علی زئی کی تالیف ہے۔اس کتاب میں مصنف نے اسلام کے بنیادی اصولوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مسلک اہل حدیث کے بعض امتیازی مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جن کا تعلق نماز سے ہے اور صدیوں سے جن پر داد تحقیق دی جارہی ہے۔آج بھی بعض حضرات ان مسائل پر لکھتے اور بولتے رہتے ہیں۔دیکھئے کب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔کتاب کانام کچھ عجیب سا ہے۔زیر بحث مسائل جنت میں لے جائیں گے یااہل حدیث ہونے کے بعد جنت ملے گی۔دونوں میں سے کوئی بات مصنف محترم نے واضح نہیں کی ہے۔فقہ کے چنداختلافی مسائل کواہل حدیث کے امتیازی مسائل قرار دینا میری ناقص سمجھ میں بڑی غلط تعبیر ہے اور تعبیر کی اس غلطی نے بعض بڑی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔کتاب وسنت کی جملہ تعلیمات کوزیرعمل لانا اور اس کی عملی صورت کی تعیین میں منہج سلف کو پیش نظر رکھنا جماعت اہل حدیث کا مابہ الامتیاز ہے۔عقائد،عبادات،معاملات اور اخلاقیات کے تمام شعبوں میں نصوص کتاب وسنت کو یکساں اہمیت دینا اور حسب استطاعت ان پر عمل کرنا اہل حدیثیت ہے۔فقہی فروعات کو اہل حدیث کی پہچان قرار دینا اس کی دعوت کو سبوتاژ کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے بہت سے نوجوان علم وعمل سے اپنی زندگی کو مزین کرنے کی بجائے فقہ کے ان چندمسائل پر مناظرہ کرتے اور دوسرے مسلمانوں سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

(۴)نواب وحیدالزماں حیدر آبادی:مسلک ونظریہ۔ایک تحقیقی جائزہ:
یہ کتاب ابوعبداللہ شعیب محمد نام کے کسی مصنف کی تصنیف ہے۔میں ذاتی طور پرمصنف سے واقف نہیں ہوں اور نہ عرض ناشرمیں ان کا کوئی تعارف کرایا گیا ہے۔یہ ہماری دینی کتابوں کی ایک بڑی کمی ہے۔مصنف کے تعارف سے اس کے علمی مقام کااندازہ ہوتا ہے اوراس کی تصنیف کی وقعت میں اضافہ ہوتا ہے۔مناظر قسم کے بعض اہل بدعت اور پرستاران تقلید نے جماعت اہل حدیث کے افکار ونظریات کو باطل قرار دینے کے لیے یہ کمزور سہارا تلاش کیاہے کہ بعض علما کی تحریروں سے ایسی عبارتیں منتخب کرکے جو کتاب وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں،جماعت اہل حدیث کو مطعون کرتے رہتے ہیں۔ان میں نمایاں نام نواب وحیدالزماں حیدرآبادی کا ہے۔ان غریبوں کو یہ نہیں معلوم کہ جب جماعت اہلحدیث تقلید کے خلاف ہے اور ائمہ اربعہ کی تقلید نہیں کرتی تو اس کے بعض علما کی تحریروں کا حوالہ دینا سب سے بڑی جہالت ہے۔ہم ان سے پہلے ایسی تحریروں کی تردید کرتے ہیں اور اپنی براء ت کا اعلان کرتے ہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں۔بہر حال فاضل مصنف نے اس مختصر لیکن بیش قیمت کتاب میں نواب موصوف کے بارے میں مکمل تحقیق پیش کی ہے اور کئی علمائے اہل حدیث کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ ان کی نظر میں کبھی اہل حدیث فکراور مسلک کے ترجمان نہیں تھے۔بلکہ اپنے قدیم عقیدے کی بہت سی ناہمواریاں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور اپنی کتابوں میں ان کو درج بھی کردیتے تھے۔نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ نے جب ان سے ترمذی کے علاوہ باقی کتب ستہ کا ترجمہ کرایا اور اس کی اشاعت فرمائی وہاں عجلت میں لگتا ہے، حیدرآبادی کے حواشی اور تعلیقات پر نظر ثانی نہیں کی گئی اوراس میں بھی کچھ باتیں درآئی ہیں۔لغات الحدیث سے توایک شیعہ مصنف نے اپنے کام کی تمام باتوں کوجمع کرکے ایک کتاب کی شکل میں شائع کردیا ہے۔امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے نواب موصوف کے بارے میں جماعت اہل حدیث کا موقف سامنے آجائے گا اور مناظرہ باز حضرات ان کا حوالہ دے کر اہل حدیثوں پر تنقید کرنا بند کردیں گے۔

(۵)حجیت حدیث:
مولانا محمداسماعیل سلفی گجرانوالہ کے چار اہم اور مفصل مقالات:حدیث کی تشریعی اہمیت، جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث،سنت قرآن کے آئینے میں،حجیت حدیث آں حضرت ﷺ کی سیرت کی روشنی میں،کاایک بیش قیمت مجموعہ ہے۔مولاناسلفی جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں بڑامعتبر نام ہے۔ان کی تحریروں میں صلابت فکر بھی ہے،حسن استدلال بھی،علمی متانت بھی ہے اور وقار وسنجیدگی بھی۔ ”مقالات حدیث“کے عنوان سے ان کی ایسی تحریروں کا بڑا خوبصورت مجموعہ،جن کا تعلق حدیث سے ہے، پاکستان سے شائع ہوچکا ہے اور اسی کی نقل ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی کے ادارے نے بھی ہندوستان میں شائع کردی ہے۔انکار حدیث کا منظراور پس منظر سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔اسی طرح جماعت اسلامی کے قائدین کی تحریروں میں جو کمزوری پائی جاتی ہے اورانکار حدیث کے چور دراوزے کھلتے ہیں،ان سے واقف ہونے کے لیے بھی اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔مخالفین کے تعلق سے کیا اسلوب اختیار کرنا چاہیے اور مناظرانہ تحریروں کو کس رنگ میں ہونا چاہیے،یہ کتاب اس کی بہت خوبصورت مثال ہے ۔کاش ہمارے تنقید نگار اس سے سبق حاصل کرتے اور بھونڈے انداز کوترک کرکے علمی اور معروضی رویہ اپناتے۔

(۶)فتاوی علمیہ:
مولانا حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے فتاوی کا مجموعہ ہے جو دوضخیم جلدوں میں ہے۔ بردران عزیزنے اسے بہت عمدہ کا غذ پر دیدہ زیب انداز میں شائع کیا ہے۔پہلی بار کوئی اردو کتاب ایسی دیکھنے کو ملی ہے جسے ہاتھ میں لیتے ہی پڑھنے کو جی چاہے۔میں نے ابھی کتاب کو یہاں وہاں سے سرسری دیکھا ہے۔اس لیے محتویات پر تبصرہ ان شاء اللہ بعد میں کروں گا۔ناشرین نے کتاب کے آغاز میں یہ لکھ کر اپنی پوزیشن صاف کرلی ہے کہ کتاب وسنت اور منہج سلف کے خلاف علی زئی صاحب کے جو تفردات ہیں،ادارے کوان سے اتفاق نہیں ہے۔اس نوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندرون میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔لیکن شاید قارئین کے لیے یہ نوٹ کافی نہ ہو کیوں کہ ا ن میں کتنے صاحب علم ایسے ہیں جواس کی تمیز کرپائیں گے کہ کون سا فتوی منہج سلف کے مطابق ہے اور کون اس کے خلاف ہے۔اگراس میں تفردات ہیں تو وہیں حاشیہ دے کر اس کی وضاحت ضروری تھی یاالگ سے چند صفحات لگاکر ان کی نشان دہی کردی جاتی لیکن شاید اس کا موقع نہیں ملا یا کوئی صاحب علم اس بار گراں کواٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوا۔مصنف تحقیق حدیث اوراس کی تخریج میں ید طولی رکھتے ہیں،اپنی بات مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں،انھیں کسی کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ کسی کی پرواہ کرتے ہیں۔پوری دیانت داری اور بے باکی سے اپنے افکار ونظریات کااظہار کرتے ہیں۔محتویات کتاب کوایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں اسلام کے تمام شعبوں سے متعلق سوالات کے جوابات ہیں اور عملی زندگی میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں،ان کا حل پیش کیا گیا ہے۔پاکستان کے مشہور بزرگ مصنف مولانامحمداسحاق بھٹی صاحب نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ”گلستان حدیث“میں کیا ہے اور یہ شکایت کی ہے کہ وہ مخالف مسلک کے علمائے کرام کانام سابقے اور لاحقے کے بغیر لیتے ہیں۔اس رویے کو محترم بھٹی صاحب نے جماعت اہل حدیث کے معتبر علما کے معروف رویے کے خلاف بتایا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اس سلسلے میں اپنے طرز تخاطب پر نظر ثانی کریں اور دوسرے مسالک کے علمائے کرام کے نام اس انداز میں ذکرکریں جوان کے اپنے حلقے میں مروج ہے۔
مکتبہ الفہیم نے ان کتابوں کی اشاعت کرکے دین اور علم کی ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔امید ہے کہ باذوق حضرات ان سے ضرور استفادہ کریں گے۔ماہ نامہ دی فری لانسر میں تنقیدوتبصروں کا ایک خاص انداز ہے،وہ مجھے پسند بھی ہے۔خاص طور پر برادر عزیز شعبان بیدار کے اشاراتی تبصرے۔وہ ایک شاعر ہیں اور رموز وکنایات سے ان کا رشتہ بڑا گہرا اور قریبی ہے۔ اس قسم کے تبصرے ایک منفرد اسلوب کے غماز ہیں۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی خاص عنایت ہے جو ہمارے شاعر دوست کے اوپر ہے۔اس عنایت اور نعمت کو کوئی دوسراان سے کیسے چھین سکتا ہے۔وہ مجھ جیسے کم علم کو بھی اپنی تنقیدوں کاموضوع بنانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔میری سادہ تحریروں کو اگرانھوں نے رموز وکنایات کا لباس پہنادیا تو دیکھئے پھر کیا ہوتا ہے۔شیخ صلاح الدین مقبول کی شاعری پر جو تبصرہ انھوں نے کیا ہے،واقعہ یہ ہے کہ اردوادب میں وہ ایک اہم اضافہ ہے۔اللہ کرے کہ ان کاقلم اسی طرح رواں دواں رہے اور مستقبل کے تاریخ ادب اردو کے موٴرخ کو ایک الگ صنف ادب کا اضافہ کرنا پڑے۔کاش ہمارے نوجوان سلفی علما اس نوجوان ادیب کو نمونہ بنالیں اور اپنی تحریروں میں وہی خوبیاں پیدا کریں جو بیدار کا امتیاز ہیں۔عرصہ سے میری خواہش ہے کہ احادیث نبویہ کا خوبصورت ادبی ترجمہ کیا جائے، اگر فری لانسر کے نوجوان ادیبوں نے اپنی محنت جاری رکھی توان شاء اللہ ہماری اپنی صفوں میں ایسے ادیب پیدا ہوں گے جواس خواب کی تعبیر ثابت ہوں۔
لنک
یہ مضمون پڑھ کر شیخ رفیق احمد رئیس سلفی صاحب کے بارے میں بھی ایک تبصرے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ماشاء اللہ محترم رفیق سلفی صاحب نے خوب لکھا ہے ۔
شعبان بیدار صاحب جن کا تذکرہ ’’ نوجوان ادیب ‘‘ کے حوالے سے کیا گیا ہے لگتا ہے محدث فورم پر غالبا محترم سرفراز فیضی صاحب پچھلے سال ان کی کچھ تحاریر پیش کرچکے ہیں ۔
شعبان بیدار صفوی اور ان کے مضامین کے ہم شدت سے منتظر ہیں ۔
کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ یہ ’’ فری لانسر ‘‘ نیٹ پر دستیاب ہے کہ نہیں ؟
سرفراز فیضی اور کفایت اللہ بھائی توجہ فرمائیں ۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
ماشاء اللہ محترم رفیق سلفی صاحب نے خوب لکھا ہے ۔
شعبان بیدار صاحب جن کا تذکرہ ’’ نوجوان ادیب ‘‘ کے حوالے سے کیا گیا ہے لگتا ہے محدث فورم پر غالبا محترم سرفراز فیضی صاحب پچھلے سال ان کی کچھ تحاریر پیش کرچکے ہیں ۔
شعبان بیدار صفوی اور ان کے مضامین کے ہم شدت سے منتظر ہیں ۔
کوئی بھائی بتا سکتا ہے کہ یہ ’’ فری لانسر ‘‘ نیٹ پر دستیاب ہے کہ نہیں ؟
سرفراز فیضی اور کفایت اللہ بھائی توجہ فرمائیں ۔
خضر بھائی ! میں نے اپنی آخری پوسٹ میں "فری لانسر" کا انٹرنیٹ لنک دیا ہوا ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
رفیق صاحب صاحب کے تبصرہ پر کفایت اللہ بھائی کچھ لکھنے والے تھے پر انہیں موقع نہیں مل سکا.
میں بھی کچھ لکھنا چاہتا تھا پر میں پہلے سے ایک بحث میں الجھا ہوا ہوں.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پاکستان کے مشہور بزرگ مصنف مولانامحمداسحاق بھٹی صاحب نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ”گلستان حدیث“میں کیا ہے اور یہ شکایت کی ہے کہ وہ مخالف مسلک کے علمائے کرام کانام سابقے اور لاحقے کے بغیر لیتے ہیں۔اس رویے کو محترم بھٹی صاحب نے جماعت اہل حدیث کے معتبر علما کے معروف رویے کے خلاف بتایا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اس سلسلے میں اپنے طرز تخاطب پر نظر ثانی کریں اور دوسرے مسالک کے علمائے کرام کے نام اس انداز میں ذکرکریں جوان کے اپنے حلقے میں مروج ہے۔
یہ بات اور لوگوں نے بھی محسوس کی ہے ۔ شروع شروع میں جب میں نے الحدیث پڑھنا شروع کیا تو اس طرح کا انداز بیان بہت کھٹکا پھر ایک دفعہ زبیر علی زئی صاحب کی ایک کتاب (کتاب مقدس ، بخاری محدث کے رد میں ) کے بارے میں استاد محترم عبد السلام فتحپوری صاحب حفظہ اللہ و یرعاہ کی رائے معلوم کی تو انہوں نے شیخ کے وسعت علمی کی داد دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایک بات بہت عجیب ہے کہ مخالف مذہب کے بڑے بڑے علماء کا نام بڑی خشکی سے لیتے ہیں ۔
اس سلسلے میں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا طرز عمل بہت خوب ہے ۔ اللہ انہیں جزائے دے ۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم،
محترم انصاری بھائی کا شکریہ کہ انہوں نے انڈیا سے چھپنے والے اس کتابچے کا تعارف یہاں کروا دیا اور ساتھ ٹائیٹل پیج بھی دے دیا۔ رہی بات مصنف کی تو راقم کوئی عالم تو ہے نہیں کہ اس کا علمی تعارف ضروری ہو۔ اگر پھر بھی کسی کو جاننے کا شوق دامنگیر ہو تو یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
انصاری بھائی سے گزارش ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس رسالے کی پی ڈی ایف مہیا کر سکیں تو مہربانی ہو گی۔
والسلام
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اپنے مضمون کی اس طرح انڈیا سے چھپنے کی جتنی خوشی ہے اس سے کہیں زیادہ دکھ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے بارے میں تبصرہ نگار کے ناروا اور غیر مناسب طرزَ تحریر پر ہے۔
شیخ رفیق احمد رئیس سلفی نے شرح حدیث جبرائیل پر تبصرہ کرتے لکھا:
کہیں کہیں ان کے اضافے متن کتاب میں بھی ہیں۔یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔مصنف کی عبارتوں کے درمیان دخل اندازی تحقیق و تصنیف کے تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف ہے۔
یہ بات بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ شیخ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کہیں بھی اپنی طرف سے متن میں اضافے نہیں کئے اور اگر اس سے مراد بریکٹوں اور حاشیہ میں وضاحت وغیرہ ہے تو اس پر یہ تبصرہ سوائے تنقید برائے تنقید کے کچھ نہیں۔ کیونکہ بریکٹ میں یا حاشیہ میں اضافہ و وضاحت قطعا تحقیقی اصولوں کے خلاف نہیں۔ شاید ہمارے یہ تبصرہ نگار آج تک قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر کے تمام کام کو بھی تحقیقی اصولوں کے خلاف قرار دے دیں کہ وہ بھی ان کی نظر میں متن میں اضافہ قرار پائے، سبحان اللہ۔
ایک اور جگہ تبصرہ نگار نے لکھا:
ایک حاشیہ میں انھوں نے لکھا ہے کہ عزرائیل کا نام کسی حدیث یا صحیح آثار سلف میں منقول نہیں ہے۔یہ بات علامہ البانی نے ”احکام الجنائز وبدعھا“میں تحریر کی ہے۔مترجم کو چاہیے تھا کہ ان کا حوالہ دیتے کیوں کہ علامہ البانی سے پہلے کسی مصنف نے اتنی صراحت کے ساتھ شاید یہ بات نہیں لکھی ہے۔
کسی بات کے بارے میں کوئی نئی چیز بطور حوالہ پیش کرنا تو درست ہے لیکن ایک چیز اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کو بھی نہیں ملی اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کو بھی نہیں ملی تو یہ ان دونوں محققین کی اپنی رائے ہے اور اپنی اپنی تلاش پر مبنی ہے۔ چنانچہ کیا تبصرہ نگار الہام کے بھی دعویدار ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے یہ بات علامہ البانی سے دیکھ کر لکھی ہے جبکہ نہ ملنا کوئی حوالہ نہیں ہوتا، ہاں مل جانا حوالہ ہوتا ہے۔ صرف ایک یہی بات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ تبصرہ نگار نے ایک پہلے سے بنے ذہن کے مطابق محض تنقید برائے تنقید کی ہے۔
شیخ کی ایک اور کتاب "اہل حدیث اور جنت کا راستہ" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
کتاب کانام کچھ عجیب سا ہے۔زیر بحث مسائل جنت میں لے جائیں گے یااہل حدیث ہونے کے بعد جنت ملے گی۔دونوں میں سے کوئی بات مصنف محترم نے واضح نہیں کی ہے۔
یہ بھی تبصرہ نگار کی اپنی لاعلمی کا شاخسانہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جو بھی کتب انڈیا سے شائع ہوئی ہیں شیخ محترم کی اجازت کے بغیر شائع ہوئی ہیں اور ناشرین نے ان کے ناموں میں بھی من چاہی تبدیلیاں کی ہیں اور متن کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ یہی رسالہ شیخ محترم کے مقالات کی پہلی جلد میں موجود ہے اور وہاں اس کا نام صرف "جنت کا راستہ" ہے۔ دیکھئے مقالات(ج١ص ٢٧) تبصرہ نگار نے پورا تبصرہ ان ناشرین کے گن گاتے ہوئے کالا کر دیا ہے اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے کھاتے میں جانے کس کس بات کا بتنگڑ بنا کر تنقید کا شوق پورا کیا ہے۔
اس پر مزید لکھا:
فقہ کے چنداختلافی مسائل کواہل حدیث کے امتیازی مسائل قرار دینا میری ناقص سمجھ میں بڑی غلط تعبیر ہے اور تعبیر کی اس غلطی نے بعض بڑی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔کتاب وسنت کی جملہ تعلیمات کوزیرعمل لانا اور اس کی عملی صورت کی تعیین میں منہج سلف کو پیش نظر رکھنا جماعت اہل حدیث کا مابہ الامتیاز ہے۔
پتا نہین شاید تبصرہ نگار نے رسالے کو آنکھیں بند کر کے پڑھا ہے یا نام کی طرح متن میں بھی ناشرین نے کوئی فنکاری دکھائی ہے کیونکہ اصلی رسالے میں تو صرف چند فقہی مسائل ہی نہیں بلکہ عقیدہ و منہج کو سرِ فہرست بیان کیا گیا ہے اور یقینا جنت کا راستہ تو عقیدہ ومنہج ہی ہے ورنہ اعمال میں کون ایسا ہے جو اپنے اعمال کی بنا پر جنت میں جائے۔
فتاویٰ علمیہ پر تبصرہ کرتے لکھا:
میں نے ابھی کتاب کو یہاں وہاں سے سرسری دیکھا ہے۔اس لیے محتویات پر تبصرہ ان شاء اللہ بعد میں کروں گا۔ناشرین نے کتاب کے آغاز میں یہ لکھ کر اپنی پوزیشن صاف کرلی ہے کہ کتاب وسنت اور منہج سلف کے خلاف علی زئی صاحب کے جو تفردات ہیں،ادارے کوان سے اتفاق نہیں ہے۔اس نوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندرون میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
ناشرین کا یہ لکھنا اتنی بڑی بات نہیں تھی کیونکہ بطور منہج یہ تو اہل حدیث کا امتیازی شعار ہے کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ہی نہیں بلکہ کسی بھی عالم کی کوئی بات اگر کتاب و سنت یا منہج سلف صالھین کے خلاف ہے تو وہ قابل قبول نہیں۔ مگر اس بات پر یہ تبصرہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ بطور منہج یہ بات تقریبا تمام اہل حدیث علماء کے فتاویٰ میں موجود ہے۔ دیکھئے فتاویٰ ثنائیہ و فتاویٰ علمائے اہل حدیث کے مقدمے۔ تبصرہ نگار کو بھی شوق ہے تو مردِ میدان بنیں شیخ محترم کے وہ مسائل جو کتاب و سنت کے دلائل اور سلف صالحین کے منہج کے خلاف ہوں با دلائل پیش کریں۔ شیخ محترم ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی کہی ہر بات پر ڈٹ جائیں بلکہ اللہ نے انہین غلطی سے رجوع کرنے کی صفت سے نوازا ہے۔ آپ کے دلائل پر بھی ضرور گور فرمائین گے لیکن خالی کارتوس چلانے کا کیا فائدہ۔۔۔؟
محترم تبصرہ نگار نے یہ بھی لکھا:
پاکستان کے مشہور بزرگ مصنف مولانامحمداسحاق بھٹی صاحب نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب ”گلستان حدیث“میں کیا ہے اور یہ شکایت کی ہے کہ وہ مخالف مسلک کے علمائے کرام کانام سابقے اور لاحقے کے بغیر لیتے ہیں۔اس رویے کو محترم بھٹی صاحب نے جماعت اہل حدیث کے معتبر علما کے معروف رویے کے خلاف بتایا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اس سلسلے میں اپنے طرز تخاطب پر نظر ثانی کریں اور دوسرے مسالک کے علمائے کرام کے نام اس انداز میں ذکرکریں جوان کے اپنے حلقے میں مروج ہے۔
مجھے اس وقت ضرورت نہیں کہ میں محترم اسحاق بھٹی صاحب کی ذات کو اپنے تبصرے کے لئے وقف کروں۔ شخصیات کے بارے میں سنی سنائی باتیں لکھنا اور علمی کام کرنا ظاہر ہے دو الگ باتیں ہیں۔ رہی بات یہ کہ شیخ محترم مخالف مسلک کے علماء کا نام سابقے لاحقے کے بغیر لیتے ہیں تو عرض ہے کہ کیا یہ قرآنی حکم ہے یا حدیث یا سلف صالحین کا مستقل التزامی عمل۔۔۔؟ پہلے ثابت تو کریں کہ یہ ہے کیا؟ سلف صالحین کی کتب میں تو مخالف چھوڑ اپنے علماء کے ناموں کے ساتھ بھی سابقون لاحقوں کا التزام نہیں ملتا۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ سابقے لاحقے لگانا جرم ہے لیکن صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نہ لگانا بھی کوئی جرم نہیں۔ پھر اپنے ان مہربانوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے پر حجت نہیں۔ سلف صالحین نے کبھی بھی اہل بدعت کے لئے تعظیمی سابقے لاحقے نہیں لگائے اور شیخ محترم جن مخالف مسالک کے علماء کو اہل بدعت شمار کرتے ہیں ان کے ساتھ سابقے لاحقے نہیں لگاتے اور اگر یہ بات سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہے تو یہ مسئلہ ثابت کریں۔ کسی شخصیت پر تو یہ بحث ممکن ہے کہ وہ اہل بدعت میں سے ہے کہ نہیں اور اس کا حق ہم آپ سے نہین چھینتے کہ آپ فلاں یا فلاں کو اہل بدعت کی بجائے دلائل کے ساتھ اہل سنت مانیں لیکن اس اصول کو تو تسلیم کریں کہ جو اہل بدعت ثابت ہو اس کے ساتھ تعظیمی سابقے لاحقے منہج سلف صالحین کے خلاف ہیں۔ اس میں شیخ محترم کا مئوقف سخت نہین بلکہ کچھ اہل حدیث علماء تساہل کا شکار ہیں۔ والسلام
 
Top