• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نواب وحید الزماں پر ایک دلچسپ کتابچہ

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
یہ بات اور لوگوں نے بھی محسوس کی ہے ۔ شروع شروع میں جب میں نے الحدیث پڑھنا شروع کیا تو اس طرح کا انداز بیان بہت کھٹکا پھر ایک دفعہ زبیر علی زئی صاحب کی ایک کتاب (کتاب مقدس ، بخاری محدث کے رد میں ) کے بارے میں استاد محترم عبد السلام فتحپوری صاحب حفظہ اللہ و یرعاہ کی رائے معلوم کی تو انہوں نے شیخ کے وسعت علمی کی داد دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایک بات بہت عجیب ہے کہ مخالف مذہب کے بڑے بڑے علماء کا نام بڑی خشکی سے لیتے ہیں ۔
اس سلسلے میں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا طرز عمل بہت خوب ہے ۔ اللہ انہیں جزائے دے ۔
خضر حیات بھائی !
ویسے تو شعیب بھائی نے جو تبصرہ کردیا ہے وہ کافی ہے لیکن میں بھی چند باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
جب بھی کسی کتاب کا رد لکھا جاتا ہے تو اس کتاب کے مصنف کا طرز تالیف بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہو ،وہ بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور اسی کے مطابق رد لکھنے والے مصنف کے رویہ میں بھی تغیر و تبدل ہوتا ہے۔اگر آپ اس کتاب "قرآن مقدس اور بخاری محدث" کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ شیخ موصوف کا طرز عمل ایک منکر حدیث کے خلاف بالکل درست ہے۔
ایک دفعہ زبیر علی زئی صاحب کی ایک کتاب (کتاب مقدس ، بخاری محدث کے رد میں ) کے بارے میں استاد محترم عبد السلام فتحپوری صاحب حفظہ اللہ و یرعاہ کی رائے معلوم کی تو انہوں نے شیخ کے وسعت علمی کی داد دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایک بات بہت عجیب ہے کہ مخالف مذہب کے بڑے بڑے علماء کا نام بڑی خشکی سے لیتے ہیں ۔
خیر القرون سے تعلق رکھنے والے ائمہ سلف صالحین،محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام اتنی خشکی سے کیوں لیا؟خشکی تو بہت چھوٹا لفظ ہے ۔۔۔جو الفاظ انہوں نے استعمال کئے میں ان کو لکھ کر ایک نئی بحث کا دروازہ نہیں کھولنا چاہتا۔اس کے لئے کتب رجال ہی کافی ہیں۔
مندرجہ بالا سوال کا جواب ملنے پر اس سوال کے جواب میں بھی ان شاءاللہ کافی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔

جو کچھ زاہد الکوثری کذاب اور اس کی ذریت بشمول مشہور وضاع حدیث امین اوکاڑوی نے اپنی کتابوں میں لکھ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔کیا اس کا جواب نرمی سے ہونا چاہیے یا جائز سختی کے ساتھ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے کسی بدعتی کی عزت کی ،اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی
اس حدیث کا نفاذ جس طریقے سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔۔۔اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ان لوگوں سے کیسا سلوک کرنا چاہیے یہ آپ ہی بتلا دیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (مقالات جلد اول،ص ٧٣) لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مسائل میں تشدد اہل علم کے ہاں معروف ہے۔
اس پر کیا تبصرہ کیا جائے ؟
اس سلسلے میں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا طرز عمل بہت خوب ہے ۔ اللہ انہیں جزائے دے
  • شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے روافض کے مشہور ایجنٹ مولوی اسحاق جھال والے(جس کو علمائے اہلحدیث(جن میں شیخ اثری حفظہ اللہ بھی شامل ہیں) ایک متفقہ فتویٰ کے ذریعے مسلک اہلحدیث کے خارج قرار دے چکے ہیں) کے رد میں ایک کتاب لکھی "مقام صحابہ"۔۔۔۔۔اور ہوسکتا ہے کہ ٩٩ فیصد قارئین کو اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ یہ کتاب کس کے رد میں لکھی گئی ہے۔اور حیر انگیز بات یہ ہے کہ اس کتاب میں شیخ اثری حفظہ اللہ نے ایک دفعہ بھی اس مولوی اسحاق جھال والے کا نام تو دور اس کے نام کی طرف ایک ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کیا۔کیا یہی وہ معتدل طرز عمل ہے جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے؟
    یہیں پر بس نہیں جب مولوی اسحاق جھال والے سے میرے بھائی نے جاکر اس کتاب کے بارے میں پوچھا کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟تو جناب نے پنجابی زبان میں ارشاد فرمایا:"اوئے اثری تے میرا بھرا ائے۔او اس طرح دا کم نہیں کر سکدا۔۔اے کم تے خبیب نے کیتا اے"۔

  • ایک اور واقعہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔۔۔چند ماہ قبل میں شیخ اثری کے پاس ادارۃ العلوم الاثریہ میں بیٹھا ہوا تھا تو وہاں پر شیخ معلمی رحمہ اللہ کی کتاب"التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل" کا تذکرہ ہوا کہ اس کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔تو شیخ اثری اس بات پر بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ اس کتاب کا ترجمہ اردو زبان میں نہیں ہونا چاہیے،اس میں تو بہت سی علمی بحثیں بھی ہیں جو عوام کو سمجھ نہیں آئیں گی اور جو زبان زاہد الکوثری نے استعمال کی ہے اس کا جواب بھی علامہ معلمی نے ترکی بہ ترکی دیا ہے۔لہٰذا ان کتب کو اردو تراجم کے ساتھ نہیں چھپنا چاہیے۔اس بات کے متصل بعد شیخ سے اجماع کی حجیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:اسی وجہ سے تو میں کہتا ہوں کہ ایسی بحثوں میں عوام کو پڑنا ہی نہیں چاہیے ۔۔۔
    یہ اعتدال ہے یا تساہل یا عوام کو بھی مقلد بنانے کی کوشش ؟
    "فلاح کی راہیں" پر اگر ایک نظر ہو جائے تو شیخ کا تساہل مزید واضح ہو جاتا ہے۔

  • میں شیخ اثری حفظہ اللہ کے ایک درس میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔جس میں شیخ "تزکیہ نفس"کے موضوع پر درس ارشاد فرما رہے تھے اور مثالیں رومی کی بیان فرما رہے تھے۔مثنوی رومی میں جو کچھ موصوف رومی نے لکھ دیا ہے اس کو دوبارہ لکھنے کی مجھ میں تو ہمت نہیں۔اس کے بارے میں کچھ مواد یہیں فورم پر موجود ہے۔
  • دیوبندیوں کے مشہور عالم جناب سرفراز خاں صفدر جب فوت ہوئے تو شاید بیماری کی وجہ سے شیخ اثری ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے تو بعد میں معذرت کا ایک خط لکھا ،جس کو آج تک دیوبندی اپنے رسالوں اور کتابوں میں بطور حوالہ پیش کرتے ہیں کہ اہلحدیث ایک طرف ہمیں حق پر نہیں سمجھتے اور ہمارا رد کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے علماء کے جنازوں میں شریک ہونے کے لئے بھی بے تاب ہیں۔
یہ چند نمونے مشتے از خروارے پیش کئے گئے ہیں ورنہ لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔لیکن ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ان سب باتوں سے شیخ اثری حفظہ اللہ کی تنقیص مقصود نہیں ہے۔۔۔صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان کا رویہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی نرم ہے برخلاف آپ کے کے مؤقف کے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اپنے مضمون کی اس طرح انڈیا سے چھپنے کی جتنی خوشی ہے اس سے کہیں زیادہ دکھ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے بارے میں تبصرہ نگار کے ناروا اور غیر مناسب طرزَ تحریر پر ہے۔
شیخ رفیق احمد رئیس سلفی نے شرح حدیث جبرائیل پر تبصرہ کرتے لکھا:

یہ بات بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ شیخ محترم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کہیں بھی اپنی طرف سے متن میں اضافے نہیں کئے اور اگر اس سے مراد بریکٹوں اور حاشیہ میں وضاحت وغیرہ ہے تو اس پر یہ تبصرہ سوائے تنقید برائے تنقید کے کچھ نہیں۔ کیونکہ بریکٹ میں یا حاشیہ میں اضافہ و وضاحت قطعا تحقیقی اصولوں کے خلاف نہیں۔ شاید ہمارے یہ تبصرہ نگار آج تک قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر کے تمام کام کو بھی تحقیقی اصولوں کے خلاف قرار دے دیں کہ وہ بھی ان کی نظر میں متن میں اضافہ قرار پائے، سبحان اللہ۔
ایک اور جگہ تبصرہ نگار نے لکھا:

کسی بات کے بارے میں کوئی نئی چیز بطور حوالہ پیش کرنا تو درست ہے لیکن ایک چیز اگر علامہ البانی رحمہ اللہ کو بھی نہیں ملی اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کو بھی نہیں ملی تو یہ ان دونوں محققین کی اپنی رائے ہے اور اپنی اپنی تلاش پر مبنی ہے۔ چنانچہ کیا تبصرہ نگار الہام کے بھی دعویدار ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے یہ بات علامہ البانی سے دیکھ کر لکھی ہے جبکہ نہ ملنا کوئی حوالہ نہیں ہوتا، ہاں مل جانا حوالہ ہوتا ہے۔ صرف ایک یہی بات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ تبصرہ نگار نے ایک پہلے سے بنے ذہن کے مطابق محض تنقید برائے تنقید کی ہے۔
شیخ کی ایک اور کتاب "اہل حدیث اور جنت کا راستہ" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

یہ بھی تبصرہ نگار کی اپنی لاعلمی کا شاخسانہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جو بھی کتب انڈیا سے شائع ہوئی ہیں شیخ محترم کی اجازت کے بغیر شائع ہوئی ہیں اور ناشرین نے ان کے ناموں میں بھی من چاہی تبدیلیاں کی ہیں اور متن کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ یہی رسالہ شیخ محترم کے مقالات کی پہلی جلد میں موجود ہے اور وہاں اس کا نام صرف "جنت کا راستہ" ہے۔ دیکھئے مقالات(ج١ص ٢٧) تبصرہ نگار نے پورا تبصرہ ان ناشرین کے گن گاتے ہوئے کالا کر دیا ہے اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے کھاتے میں جانے کس کس بات کا بتنگڑ بنا کر تنقید کا شوق پورا کیا ہے۔
اس پر مزید لکھا:

پتا نہین شاید تبصرہ نگار نے رسالے کو آنکھیں بند کر کے پڑھا ہے یا نام کی طرح متن میں بھی ناشرین نے کوئی فنکاری دکھائی ہے کیونکہ اصلی رسالے میں تو صرف چند فقہی مسائل ہی نہیں بلکہ عقیدہ و منہج کو سرِ فہرست بیان کیا گیا ہے اور یقینا جنت کا راستہ تو عقیدہ ومنہج ہی ہے ورنہ اعمال میں کون ایسا ہے جو اپنے اعمال کی بنا پر جنت میں جائے۔
فتاویٰ علمیہ پر تبصرہ کرتے لکھا:

ناشرین کا یہ لکھنا اتنی بڑی بات نہیں تھی کیونکہ بطور منہج یہ تو اہل حدیث کا امتیازی شعار ہے کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ہی نہیں بلکہ کسی بھی عالم کی کوئی بات اگر کتاب و سنت یا منہج سلف صالھین کے خلاف ہے تو وہ قابل قبول نہیں۔ مگر اس بات پر یہ تبصرہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ بطور منہج یہ بات تقریبا تمام اہل حدیث علماء کے فتاویٰ میں موجود ہے۔ دیکھئے فتاویٰ ثنائیہ و فتاویٰ علمائے اہل حدیث کے مقدمے۔ تبصرہ نگار کو بھی شوق ہے تو مردِ میدان بنیں شیخ محترم کے وہ مسائل جو کتاب و سنت کے دلائل اور سلف صالحین کے منہج کے خلاف ہوں با دلائل پیش کریں۔ شیخ محترم ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی کہی ہر بات پر ڈٹ جائیں بلکہ اللہ نے انہین غلطی سے رجوع کرنے کی صفت سے نوازا ہے۔ آپ کے دلائل پر بھی ضرور گور فرمائین گے لیکن خالی کارتوس چلانے کا کیا فائدہ۔۔۔؟
محترم تبصرہ نگار نے یہ بھی لکھا:

مجھے اس وقت ضرورت نہیں کہ میں محترم اسحاق بھٹی صاحب کی ذات کو اپنے تبصرے کے لئے وقف کروں۔ شخصیات کے بارے میں سنی سنائی باتیں لکھنا اور علمی کام کرنا ظاہر ہے دو الگ باتیں ہیں۔ رہی بات یہ کہ شیخ محترم مخالف مسلک کے علماء کا نام سابقے لاحقے کے بغیر لیتے ہیں تو عرض ہے کہ کیا یہ قرآنی حکم ہے یا حدیث یا سلف صالحین کا مستقل التزامی عمل۔۔۔؟ پہلے ثابت تو کریں کہ یہ ہے کیا؟ سلف صالحین کی کتب میں تو مخالف چھوڑ اپنے علماء کے ناموں کے ساتھ بھی سابقون لاحقوں کا التزام نہیں ملتا۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ سابقے لاحقے لگانا جرم ہے لیکن صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نہ لگانا بھی کوئی جرم نہیں۔ پھر اپنے ان مہربانوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے پر حجت نہیں۔ سلف صالحین نے کبھی بھی اہل بدعت کے لئے تعظیمی سابقے لاحقے نہیں لگائے اور شیخ محترم جن مخالف مسالک کے علماء کو اہل بدعت شمار کرتے ہیں ان کے ساتھ سابقے لاحقے نہیں لگاتے اور اگر یہ بات سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہے تو یہ مسئلہ ثابت کریں۔ کسی شخصیت پر تو یہ بحث ممکن ہے کہ وہ اہل بدعت میں سے ہے کہ نہیں اور اس کا حق ہم آپ سے نہین چھینتے کہ آپ فلاں یا فلاں کو اہل بدعت کی بجائے دلائل کے ساتھ اہل سنت مانیں لیکن اس اصول کو تو تسلیم کریں کہ جو اہل بدعت ثابت ہو اس کے ساتھ تعظیمی سابقے لاحقے منہج سلف صالحین کے خلاف ہیں۔ اس میں شیخ محترم کا مئوقف سخت نہین بلکہ کچھ اہل حدیث علماء تساہل کا شکار ہیں۔ والسلام
کسی مسئلہ میں اپنی رائے کا اظہار کرنا جرم نہیں ہے ۔ رفیق سلفی صاحب اور محترم بھائی طالب نور صاحب نے اپنا اپنا حق رائے استعمال کیا ہے جس خشکی و سختی کی طرف ہم توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ دونوں صاحبان کی تحریر کا موازنہ کرنے سے بالکل واضح ہے ۔
اظہار اختلاف یا تبصرہ کا ایک طریقہ رفیق سلفی صاحب کا ہے ۔۔۔۔ اور یہی کام طالب نور صاحب نے بھی کیا ہے لیکن اسلوب میں درشتی و خشکی بالکل واضح ہے ۔
بطور مثال کے شیخ الحدیث مولانا اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کی کتب ملاحظہ فرمائیں اور دوسری طرف زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی تحاریر کا بھی مطالعہ کریں مقصد دونوں بزرگوں کا ایک ہی ہے لیکن انداز تحریر میں زمین و آسمان کا فرق ہے علماء دیوبند و بریلی سے اختلاف اور ان پر تنقید سلفی صاحب نے بھی کی ہے جیساکہ زئی صاحب نے بھی ان کا رد کیا ہے لیکن دونوں جگہ طرز گفتگو میں فرق بالکل واضح ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر حیات بھائی !
ویسے تو شعیب بھائی نے جو تبصرہ کردیا ہے وہ کافی ہے لیکن میں بھی چند باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
جب بھی کسی کتاب کا رد لکھا جاتا ہے تو اس کتاب کے مصنف کا طرز تالیف بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہو ،وہ بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور اسی کے مطابق رد لکھنے والے مصنف کے رویہ میں بھی تغیر و تبدل ہوتا ہے۔اگر آپ اس کتاب "قرآن مقدس اور بخاری محدث" کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ شیخ موصوف کا طرز عمل ایک منکر حدیث کے خلاف بالکل درست ہے۔

خیر القرون سے تعلق رکھنے والے ائمہ سلف صالحین،محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام اتنی خشکی سے کیوں لیا؟خشکی تو بہت چھوٹا لفظ ہے ۔۔۔جو الفاظ انہوں نے استعمال کئے میں ان کو لکھ کر ایک نئی بحث کا دروازہ نہیں کھولنا چاہتا۔اس کے لئے کتب رجال ہی کافی ہیں۔
مندرجہ بالا سوال کا جواب ملنے پر اس سوال کے جواب میں بھی ان شاءاللہ کافی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔

جو کچھ زاہد الکوثری کذاب اور اس کی ذریت بشمول مشہور وضاع حدیث امین اوکاڑوی نے اپنی کتابوں میں لکھ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔کیا اس کا جواب نرمی سے ہونا چاہیے یا جائز سختی کے ساتھ؟

اس حدیث کا نفاذ جس طریقے سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کیا ۔۔۔اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ان لوگوں سے کیسا سلوک کرنا چاہیے یہ آپ ہی بتلا دیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (مقالات جلد اول،ص ٧٣) لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مسائل میں تشدد اہل علم کے ہاں معروف ہے۔
اس پر کیا تبصرہ کیا جائے ؟

  • شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے روافض کے مشہور ایجنٹ مولوی اسحاق جھال والے(جس کو علمائے اہلحدیث(جن میں شیخ اثری حفظہ اللہ بھی شامل ہیں) ایک متفقہ فتویٰ کے ذریعے مسلک اہلحدیث کے خارج قرار دے چکے ہیں) کے رد میں ایک کتاب لکھی "مقام صحابہ"۔۔۔۔۔اور ہوسکتا ہے کہ ٩٩ فیصد قارئین کو اس بات کا علم ہی نہ ہو کہ یہ کتاب کس کے رد میں لکھی گئی ہے۔اور حیر انگیز بات یہ ہے کہ اس کتاب میں شیخ اثری حفظہ اللہ نے ایک دفعہ بھی اس مولوی اسحاق جھال والے کا نام تو دور اس کے نام کی طرف ایک ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کیا۔کیا یہی وہ معتدل طرز عمل ہے جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے؟
    یہیں پر بس نہیں جب مولوی اسحاق جھال والے سے میرے بھائی نے جاکر اس کتاب کے بارے میں پوچھا کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟تو جناب نے پنجابی زبان میں ارشاد فرمایا:"اوئے اثری تے میرا بھرا ائے۔او اس طرح دا کم نہیں کر سکدا۔۔اے کم تے خبیب نے کیتا اے"۔

  • ایک اور واقعہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔۔۔چند ماہ قبل میں شیخ اثری کے پاس ادارۃ العلوم الاثریہ میں بیٹھا ہوا تھا تو وہاں پر شیخ معلمی رحمہ اللہ کی کتاب"التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل" کا تذکرہ ہوا کہ اس کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔تو شیخ اثری اس بات پر بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ اس کتاب کا ترجمہ اردو زبان میں نہیں ہونا چاہیے،اس میں تو بہت سی علمی بحثیں بھی ہیں جو عوام کو سمجھ نہیں آئیں گی اور جو زبان زاہد الکوثری نے استعمال کی ہے اس کا جواب بھی علامہ معلمی نے ترکی بہ ترکی دیا ہے۔لہٰذا ان کتب کو اردو تراجم کے ساتھ نہیں چھپنا چاہیے۔اس بات کے متصل بعد شیخ سے اجماع کی حجیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:اسی وجہ سے تو میں کہتا ہوں کہ ایسی بحثوں میں عوام کو پڑنا ہی نہیں چاہیے ۔۔۔
    یہ اعتدال ہے یا تساہل یا عوام کو بھی مقلد بنانے کی کوشش ؟
    "فلاح کی راہیں" پر اگر ایک نظر ہو جائے تو شیخ کا تساہل مزید واضح ہو جاتا ہے۔

  • میں شیخ اثری حفظہ اللہ کے ایک درس میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔جس میں شیخ "تزکیہ نفس"کے موضوع پر درس ارشاد فرما رہے تھے اور مثالیں رومی کی بیان فرما رہے تھے۔مثنوی رومی میں جو کچھ موصوف رومی نے لکھ دیا ہے اس کو دوبارہ لکھنے کی مجھ میں تو ہمت نہیں۔اس کے بارے میں کچھ مواد یہیں فورم پر موجود ہے۔
  • دیوبندیوں کے مشہور عالم جناب سرفراز خاں صفدر جب فوت ہوئے تو شاید بیماری کی وجہ سے شیخ اثری ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے تو بعد میں معذرت کا ایک خط لکھا ،جس کو آج تک دیوبندی اپنے رسالوں اور کتابوں میں بطور حوالہ پیش کرتے ہیں کہ اہلحدیث ایک طرف ہمیں حق پر نہیں سمجھتے اور ہمارا رد کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے علماء کے جنازوں میں شریک ہونے کے لئے بھی بے تاب ہیں۔
یہ چند نمونے مشتے از خروارے پیش کئے گئے ہیں ورنہ لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔لیکن ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ان سب باتوں سے شیخ اثری حفظہ اللہ کی تنقیص مقصود نہیں ہے۔۔۔صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان کا رویہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی نرم ہے برخلاف آپ کے کے مؤقف کے۔
آپ کی اس تحریر سے کم ازکم یہ اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ماشاء اللہ اسلوب میں سختی و خشکی نہیں آنے دیتے ۔۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے ۔
بھائی حق بات واضح کرنے میں کوئی سستی نہیں ہونی چاہیے لیکن احقاق حق اور ابطال باطل کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ میدان معرکہ کا تصور نہ ابھرے ۔
ارشاد الحق اثری صاحب کے بارے میں پہلے بھی چند ساتھیوں نے بتایا ہے کہ مسائل تصوف میں ان کا موقف درست نہیں ہے وکل یؤخذ من قولہ و یترک الا رسول اللہ
مولانا سرفراز صفدر کے جنازے میں عدم شرکت پر اثری صاحب کے طرز عمل میں مجھے تو قابل اعتراض بات محسوس نہیں ہوئی باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔
(طالب نور بھائی اور وقاص بھائی نے قدرے وضاحت سے لکھا بہتر یہی تھا کہ ان کے موقف سے اختلاف بھی وضاحت اور دلائل سے ہونا چاہیے تھا باوجودشدید خواہش کے میرے لیے ایسا کرنا اب ممکن نہیں کیونکہ ان دنوں والدین کی شفقتیں اور حرمین کی برکتیں ایسا مصروف کیے ہوئے ہیں کہ اس طرح کی مباحث کے لیے وقت نہیں مل رہا )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
طالب نور بھائی کی یہ کتاب عرصہ ہوا زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے ۔ لیکن ابھی تک غالبا انٹرنیٹ پر موجود نہیں ۔
کئی دفعہ ساتھیوں سے اس حوالے سے گفتگو ہو تو کتاب دیکھنے کے لیے اس لڑی کو دیکھتا ہوں ۔
اگر مطبوع کتاب نہیں میسر ہوسکتی تو کم از کم طالب نور بھائی کے پاس اس کا مواد تو موجود ہوگا ) اسی کی پی ڈی ایف انٹرنیٹ پر پیش کردینی چاہیے ۔
آزاد بھائی ! اس حوالے سے آپ کے پاس کوئی معلومات ہیں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
طالب نور بھائی کی یہ کتاب عرصہ ہوا زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے ۔ لیکن ابھی تک غالبا انٹرنیٹ پر موجود نہیں ۔
کئی دفعہ ساتھیوں سے اس حوالے سے گفتگو ہو تو کتاب دیکھنے کے لیے اس لڑی کو دیکھتا ہوں ۔
اگر مطبوع کتاب نہیں میسر ہوسکتی تو کم از کم طالب نور بھائی کے پاس اس کا مواد تو موجود ہوگا ) اسی کی پی ڈی ایف انٹرنیٹ پر پیش کردینی چاہیے ۔
آزاد بھائی ! اس حوالے سے آپ کے پاس کوئی معلومات ہیں ؟
یہ کتاب نیٹ پر آئی ہے کہ نہیں ۔؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
Top