• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نوح علیہ السلام کا بیٹا مومن تھا؟ عمار خان زاہدی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
عمار ناصر صاحب کی یہ توجیہ بعید محسوس ہوتی ہے :

انبیاء پر ان کےزمانے میں ایمان لانے والوں کےبارے میں یہ خیال رکھنا کہ مومن ہونے کے باوجود وہ اس سخت درجہ کے نافرمان تھے کہ عذاب میں غرق کردیے گئے ، ایسی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ البتہ ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ نبی کے قریبی رشتہ دار ایمان نہ لائے اور عذاب کا شکار ہوگئے ۔

جس طرح نوح علیہ السلا نے اپنے بیٹے کے بارےمیں ہمدردی کا اظہار کیا اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملتی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کے لیے دعائے استغفار کی اور پھر انہیں اس بات پر تنبیہ کی گئی ، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی آتا ہے آپ نے اپنے بعض قریبی رشتہ داروں کے لیے دعا کی تو یہ آیت نازل ہوئی :
ما کان للنبی والذین آمنوا أن یستغفروا للمشرکین و لوکانوا أولی قربی من بعد ما تبین لہم أنہم أصحب الجحیم ۔
گویا قرابت داری کی بنا پر کسی کے حق میں ہمدردی کا اظہار ہوجانا یہ ایک فطری امر ہے ، ہاں اللہ تعالی کی تنبیہ کے بعد ڈتے رہنا نافرمانی اور سرکشی ہے جس سے انبیاء کی ذات کوسوں دور ہے ۔
واللہ اعلم ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
یہ کوئی نئی توجیہ تو نہیں ،،اس سے پہلے بھی پیش کی جا چکی ہے ۔
صاحب مضمون نے شاید تاثر دینے کی کوشش کی ہے ،کہ میں نے تمام تفاسیر کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے
اور یہ مقام کسی واضح اور ٹھوس توجیہ کے بغیر چھوڑ دیا ہے
حالانکہ ایسا نہیں ۔۔اس سے پہلے علامہ رازی ؒ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :
فنقول: إن أمة نوح عليه السلام كانوا على ثلاثة أقسام كافر يظهر كفره ومؤمن يعلم إيمانه وجمع من المنافقين، وقد كان حكم المؤمنين هو النجاة وحكم الكافرين هو الغرق، وكان ذلك معلوما، وأما أهل النفاق فبقي حكمهم مخفيا وكان ابن نوح منهم وكان يجوز فيه كونه مؤمنا، وكانت الشفقة المفرطة التي تكون من الأب في حق الابن تحمله على حمل أعماله وأفعاله لا على كونه كافرا، بل على الوجوه الصحيحة، فلما رآه بمعزل عن القوم طلب منه أن يدخل السفينة فقال: سآوي إلى جبل يعصمني من الماء وذلك لا يدل على كفره لجواز أن يكون قد ظن أن الصعود على الجبل يجري مجرى الركوب في السفينة في أنه يصونه عن الغرق، وقول نوح:
لا عاصم اليوم من أمر الله إلا من رحم لا يدل إلا على أنه عليه السلام كان يقرر عند ابنه أنه لا ينفعه إلا الإيمان والعمل الصالح، وهذا أيضا لا يدل على أنه علم من ابنه أنه كان كافرا فعند هذه الحالة كان قد بقي في قلبه ظن أن ذلك الابن مؤمن، فطلب من الله تعالى تخليصه بطريق من الطرق إما بأن يمكنه من الدخول في السفينة، وإما أن يحفظه على قلة جبل، فعند ذلك أخبره الله تعالى بأنه منافق وأنه ليس من أهل دينه، فالزلة الصادرة عن نوح عليه السلام هو أنه لم يستقص في تعريف ما يدل على نفاقه وكفره، بل اجتهد في ذلك وكان يظن أنه مؤمن، مع أنه أخطأ في ذلك الاجتهاد، لأنه كان كافرا فلم يصدر عنه إلا الخطأ في هذا الاجتهاد، كما قررنا ذلك في أن آدم عليه السلام لم تصدر عنه تلك الزلة إلا لأنه أخطأ في هذا الاجتهاد، فثبت بما ذكرنا أن الصادر عن نوح عليه السلام ما كان من باب الكبائر وإنما هو من باب الخطأ في الاجتهاد، والله أعلم.


اب علامہ رازی سے اتفاق اور عدم اتفاق پڑھنے والے کی فہم وادراک پر ہے
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ایمان لانے کے باوجودہجرت نہ کرنا ایک عجیب بات محسوس ہو تی ہے جب کہ اللہ تعالٰی نےاہلِ ایمان کومخصوص حالات میں ہجرت نہ کرنے پر جہنم کی سزاسنائی ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿٩٧﴾
جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکاناہے۔
قرآن، سورت النساء، آیت نمبر 97

لہذاجب وہاں سے نکلنے کا راستہ بھی تھا اور حکم بھی تو آخر ایمان لانے کےباوجود وہاں سے ہجرت نہ کرنا ایک غیر معقول بات لگتی ہے پیغمبر آخرانسان ہی ہوتا ہے انسانی جذبات سے وہ خالی تو نہیں ہو سکتا لہذا اسی بات کا زیادہ امکان ہے کہ حضرت نوحؑ اُس وقت شفقتِ پدری کی بناء پر اپنے پیٹے کو ایمان لانے اور کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دے رہے ہوں۔
اس جگہ پر حضرت نوح ؑ کا اپنی بیوی کو نہ پکارنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ بیٹا مؤمن تھا اسی لیے اس کو پکارا گیا ہو سکتا ہے کہ اس وقت حضرت نوح ؑ کی بیوی ان کی نظروں کے سامنے نہ ہو یا ان کی طرف سے بالکلیہ مایوس ہو چکے ہوں اور بیٹے سے ایمان لانے کی توقع بنسبت اپنی بیوی سے زیادہ ہو اس لیے اسے پکارا گیا ہو۔
جب حضرت نوحؑ نے عذاب کے ختم ہونے کے بعد اللہ تعالٰی سے اپنے بیٹے کی سفارش کرنا چاہی تو اللہ تعالٰی نے حضرت نوح ؑ کو صاف منع کر دیا کیونکہ اسی سلسلے میں اللہ تعالٰی نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ:-

وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
قرآن، سورت نوح، آیت نمبر 37

یہ آیت بتلاتی ہے کہ حضرت نوحؑ کو اللہ تعالٰی نے ظالموں کے حق میں بات کرنے کی ممانعت فرمائی تھی اس لیے جب حضرت نوحؑ شفقتِ پدری کے جذبے کے تحت اپنے بیٹے کی سفارش کر بیٹھے تو اللہ تعالٰی نے حضرت نوحؑ کو تنبیہ فرمائی:-

قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾
جواب میں ارشاد ہوا "اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے"۔
قرآن، سورت نوح، آیت نمبر 46

اگر حضرت نوح ؑ کا بیٹا ایمان والا ہوتا تو اللہ تعالٰی اس کے ایمان کی تصریح فرما دیتے لیکن ایسا نہیں فرما گیا۔
حضرت نوحؑ اپنے بیٹے کے لیے باپ ہونے ساتھ ساتھ ایک پیغمبر بھی تھے لہذا باپ کی حیثیت سے حکم کی تعمیل نہ کرنا نافرمانی ہے اور ایک پیغمبر کی حیثیت سے حکم کو پورا نہ کرنا دوہری نا فرمانی ہے جو نا قابلِ معافی جرم ہے۔
یہاں اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ حضرت نوحؑ کا بیٹا مؤمن نہیں تھا اس لیے اس نے حضرت نوحؑ کی بات ماننے سے انکار کیا اور یہ بات بھی بعید از عقل معلوم ہوتی ہے کہ اگر ایک بیٹا اپنے پیغمبر جوباپ بھی تھا ایمان رکھتا تھا تو آخر اسے کشتی میں سوار نہ ہونے سے کیا چیز مانع تھی ؟ جبکہ عذاب کے آثار وہ بخوبی دیکھ چکا تھا۔

باقی رہا حضرت نوحؑ کا اپنے بیٹے کو
يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ﴿٤٢﴾ (سورۃ ھود ،آیت نمبر42) کہنا تواس سے اسکا ایمان والا ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ قرآن مجید میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے حکم ِ خداوندی سے روگردانی کی تو اس سے فرمایا يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿٣٢﴾ (سورۃالحجر ،آیت نمبر32)

دیکھیں یہاں مَعَ السَّاجِدِينَ فرما نے کے باوجوداس کو سجدہ کرنے والوں سے خارج کر دیا گیا ہے۔
لہذا اسکو محض
مَّعَ الْكَافِرِينَ کی بناءپرایمان والا قرار دینا صحیح نہیں لگتا۔
تو معلوم ہوا کہ یہاں
مَّعَ الْكَافِرِينَ ، مِّنَ الْكَافِرِينَ ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
واللہ اعلم !
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ایک تو یہ یونی کوڈ میں نہیں کہ ایک ایک کا اقتباس لے کر ہمارے بھائی جواب دیں پھر بھی ماشاءاللہ تمام بھائیوں نے ٹھوس دلائل سے انکی تفسیر کا رد کر دیا اللہ جزائے خیر دے امین
میں بھی ایک بات کا لکھ دیتا ہوں کہ انہوں نے اسکی تائید میں جو پہلا نمبر لکھا ہے اس میں کہا ہے کہ نوح علیہ اسلام کو واضح حکم تھا کہ ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا کہ اس میں ظالموں کو نہیں بلانا تو پھر اگر وہ بیٹا کافر تھا تو وہ ظالم بھی ہوا تو اسکو کشتی میں کیوں بلایا تو اسکا جواب بھی انہوں نے خؤد ہی اسی پہلے نمبر میں اگلی آیت لکھ کر دے دیا ہے کہ اس حکم کے بعد اللہ تعالی نے پھر جب کشتی بن جانے پر حکم دیا وہ یہ تھا کہ احمل فیھا من کل زوجین اثنین واھلک الا من سبق---- یعنی اللہ خود جب اھل کو سوار کرانے کا حکم دے رہے ہیں (سوائے کچھ کے جن کا نوح علیہ اسلام کو علم نہیں) تو پھر یہ توجیہ زیادہ بہتر نہیں ہو سکتی کہ اسی حکم کو انہوں نے پہلے حکم میں تخصیص سمجھتے ہوئے سوال کیا
ویسےبھی یہ توجیہ انکے پہلے نمبر سے زیادہ درست ہو سکتی ہے کیونکہ انہوں نے جب بیٹے کا سوال کیا تو یہی کہا کہ ان ابنی من اھلی یعنی انکو جو لگا تھا کہ اللہ تعالی نے انکے لئے کچھ اھل کو سوار کرانے کی اجازت دی ہے تو ہو سکتا ہے کہ انکا بیٹا اس میں آ جائے واللہ اعلم
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
نوح علیہ السلام کا بیٹا مومن تھا؟
عمار خان زاہدی
وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلاَ تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ
اور وہ کشتی پہاڑوں جیسی (طوفانی) لہروں میں انہیں لئے چلتی جا رہی تھی کہ
نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پکارا
اور وہ ان سے الگ (کافروں کے ساتھ کھڑا) تھا:
اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا
اور کافروں کے ساتھ نہ رہ
11:42

وَنَادَى نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ
اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا: اے میرے رب!
بیشک میرا لڑکا (بھی) تو میرے گھر والوں میں داخل تھا
اور یقینًا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے
11:45

قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
ارشاد ہو: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے،
پس مجھ سے وہ سوال نہ کیا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو،
میں تمہیں نصیحت کئے دیتا ہوں کہ کہیں تم نادانوں میں سے (نہ) ہو جانا
11:46

ان تین آیات کا بغور مطالعہ فرمائیں تو نوح علیہ السلام کا بیٹا مومن نہیں تھا۔ واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جزاک الله -

T H K بھائی اور کنعان بھائی - دونوں نے قرآن حکیم کی آیات سے بڑے مفصل دلائل پیش کیے -

مزید یہ کہ :

آیات کے سیاق و سباق سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ سلام یہ سمجھ تھے کہ اگر ان کا بیٹا بچ گیا تو شاید وہ توبہ و تائب کرکے ان پر ایمان لے آے گا - اور اگر نہیں بچ سکا تو شاید ایک پیغمبرکا بیٹا ہونے کے ناتے الله اس کے عذاب میں کمی کردے گا- یہی وجہ ہے کہ جب الله رب العزت نے فرمایا :.

قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ سوره ھود ٤٦

فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والو ں میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ-

تو اس پر حضرت نوح علیہ سلام نے الله سے پناہ مانگی -

قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُنْ مِنَ الْخَاسِرِينَ سوره ھود ٤٧

کہا (نوح نے) اے رب میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وہ بات پوچھوں جو مجھے معلوم نہیں اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اورمجھ پر رحم نہ کیا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
{… وھی تجری بھم فی موج کالجبال ونادی نوح ابنہ وکان فی معزل یبنی الرکب معنا ولا تکن مع الکافرین۔قال ساوی الی جبل یعصمنی من الماء،قال لا عاصم الیوم من امراللہ الا من الرحم، وحال بینھماالموج فکان من المغرقین…}(ھود۱۱:۴۲۔۴۷)
اسلام کا تصور ِنجات :
آدم علیہ السلام تا محمد ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ’’اسلام ‘‘ ہے۔ اسلام میں نجات کے دو بنیادی قاعدے یا اصول موجود ہیں:
۱۔ قانون عدل و انصاف Rule of Justice
۲۔ قانون ترحم Rule of Mercy
۱)۔۔ نجات کی اصل Primary بنیاد ’’ایمان و اعمال صالحہ ‘‘ ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: {زمانے کی قسم ! درحقیقت انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے}(العصر:۱ ۔۳)
۲)۔۔جبکہ فروعی یا Secondaryبنیاد ’’شفاعت ‘‘ہے۔رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ((اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرو، اچھے اعمال پر استقامت اختیار کرو،لیکن یہ بھی خوب جان لو ! تم میں سے کوئی شخص اپنے اعمال کے بل بوتے پر نجات نہیں پاسکے گا۔صحابہ نے پوچھا کیا آپ ﷺبھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! میں بھی صرف اسی صورت نجات پائوں گا کہ اللہ اپنی رحمت اور فضل کے ساتھ مجھے ڈھانپ لے))(صحیح مسلم: صفۃ القیامہ والجنۃ والنار ،باب ۱۸، حدیث۷۱۱۷)
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ حدیث مبارکہ ایمان اور عمل کی بناء پر نجات کے بنیادی اصول کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ چونکہ ہر انسان گناہوں میں مبتلا ہے لہذا اسے اپنے نیک اعمال کی بنیاد پر غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ ہر انسان اللہ رب العزت کی رحمت و فضل ہی سے نجات پاسکتا ہے۔ ایک اچھا اور سچا مومن اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے نیک اعمال کئے جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے۔گویا:
۔۱۔ نجات کے لئے صحیح ایمان اور صحیح عقیدہ شرط ِ اول ہے۔۲۔صحیح اور مسنون اعمال یعنی اعمال صالحہ شرط ثانی ہے۔ ۳۔محض عمل پر انحصار نہیں بلکہ اللہ کی رحمت کے بغیر نجات ممکن نہیں۔۴۔روز قیامت اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ رحم بھی فرمائے گااس نے اپنے آپ پر رحمت کو لازم کر لیا ہے اسی قاعدے کے تحت شفاعت ہوگی۔ (اسلام میں نجات کا تصور اور عقیدہ شفاعت از خلیل الرحمان چشتی ، ص۹۔۲۴، نیزراہ نجات ،سورۃ العصر کی روشنی میں ازڈاکٹر اسرار احمد)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام کا تصور ِ ایمان:
ڈاکٹر مفتی عبدلواحد ، اسلامی عقائد ص ۲۱۱ پر’’ ایمان ‘‘کے ضمن میں فرماتے ہیں:’’لغت عرب میں ایمان کے معنی تصدیق کے ہیں یعنی کسی کو سچا سمجھ کر اسکی بات پر یقین کرنا اور اس کو قبول کرنا اور ماننا۔جبکہ اصطلاح شریعت میں وہ تمام دینی امور جنکا دین محمدی سے ہونا یقینی اور بدیہی طور پر ثابت ہے ان کو نبی کے بھروسہ پر دل سے سچا جاننے اور ماننے کو ایمان کہتے ہیں۔‘‘
’’لہذا اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں قوت نظریہ و قوت عملیہ میں کامل ہیں (قوت نظریہ کے کمال سے یہ مراد ہے کہ موافق شرع کے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو جانتے ہیں اور رسول ﷺ کو برحق مانتے ہیںاور جس قدر چیزوں کی رسول ﷺ نے خبر دی ہے انکو سچا جانتے ہیں اور اسکو ’’ایمان ‘‘کہتے ہیں اور قوت عملیہ کی تکمیل سے مرا د یہ ہے کہ اپنے اخلاق کو درست کرتے ہیںیعنی جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کی معرفت منع کی ہیں ان سے بچتے ہیںاور جنکا حکم دیا ہے انکو بجا لاتے ہیں)تو وہ لوگ مر کر عالم قدس یعنی علیین میں کہ جو برزخ ہے حشر تک رہتے ہیں بعد خراب ہونے اس عالم لے یعنی قیامت کے بعد کہ جب انکو کمال تزکیہ حاصل ہوجاتا ہے عالم قدس کے اعلیٰ طبقے میں کہ جس کو جنت کہتے ہیں جاتے ہیں‘‘(مولانا عبدالحق حقانی دہلوی، حقانی عقائد اسلام ، ص۱۶۲)
ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ ، اسلام کی چار بنیادیں ، ص ۱ پر وضاحت کرتے ہیں کہ ایمان کی تین شرائط ہیں : اقرار باللسان ، تصدیق بالقلب اورعمل بالجوارح یعنی ہمارے ہاتھ، پائوں آنکھیں ، زبان ، کان اس ایمان کا ساتھ بھی دیں جسکا ہم دعو یٰ کر رہے ہیں ۔ اگر یہ سب چیزیں ہمارے دعوے کا ساتھ نہیں دے رہیں تو اسکا مطلب ہو گا کہ ایمان اپنی جگہ موجود نہیں ۔ اسلئے ایمان کو جانچنے کا معیار صرف عمل ہے۔حرمین کے علماء کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ تصدیق بالقلب تو ہمارے بس میں نہیں کہ اسکو جانیں ، اقرار باللسان سبھی کرتے ہیں، مومن بھی منافق بھی۔ اب یہ دیکھنے کے لئے کہ تصدیق سچ مچ ہے بھی یا نہیں ، ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں سو ئے اسکے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسکا عمل اسکی زبان کی تصدیق کررہا ہے یا نہیں۔مثلاً ایک شخص کہہ رہا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لایا ۔ اذان ہو رہی ہے لیکن وہ دکان بند نہیں کرتا نماز کے لئے نہیں جاتا ۔ ہم یہ نہیں کہیں گے کہ تو گناہگار آدمی ہے ، تو نماز نہیں پڑھتا ہم کہیںگے کہ تیرے دل میں ایمان نہیں ہے، تیرے دل میں ایمان ہوتا تو ُاذان کی آواز سنتے ہی تیرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ، تیرے ہاتھ سے یہ ترازو گر جاتا اور تو سیدھا مسجد کی طرف چلا جاتا۔اسی حوالہ سے وہ سعودی عرب کا اپنا ذاتی تجربہ پیش کرتے ہیں۔نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا{ اور اللہ تعالیٰ تمھارے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے ادا کی گئی نماز کو ضائع نہیں کرے گا} (البقرۃ۲:۱۴۳)اس آیۃ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان کہا ہے اور نماز معلوم ہے کہ قلب، لسان اور اعضاء کے عمل کا نام ہے۔(علامہ حافظ بن احمد الحکمی ، صحیح اسلامی عقیدہ ،ص ۱۲۸ )۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی مناہج و اسالیب ِ اجتہاد (شریعہ اکیڈمی)، ص۹ پر رقمطراز ہیں: ’’دین کے تین ستون ہیں : پہلا ستون ایمان ہے جسکی بنیاد ، توحید ، رسالت، آخرت اور اعمال کے حساب وکتاب اور جزا و سزا کے عقیدہ کے نام پر ہے۔ ایمان نام ہے تصدیق قلبی کا۔ دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ایمان کی لہریں اندرونی کیفیات کے ساتھ ظاہری زندگی کے ہر شعبہ کو ایمان کے تقاضوںڈھال دیتی ہیں‘‘۔
ڈاکٹر مفتی عبدالواحد ، اسلامی عقائد ، ص۲۱۳پر تحریر کرتے ہیں:’’جمہور محدثین اور امام شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ، اعمال صالحہ کو کامل ایمان کا جزو کہتے ہیں یعنی اعمال صالحہ کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوگا ہاں ناقص ایمان رہے گااسی لئے یہ حضرات بھی اسکے قائل ہیں بے عمل اور بد عمل کو اگر سزا ہوئی تو بالآخر مغفرت ہو جائے گی۔ اوپر والا قول جو کہ حنفیہ کا ہے(اعمال صالحہ سے ایمان کو تقویت اور رونق حاصل ہوتی ہے لیکن اعمال ایمان کا جزو نہیں ۔ اسی وجہ سے برے اعمال سے ایمان ختم نہیں ہوتا البتہ رونق جاتی رہتی ہے) اس قول میں حقیقی فرق نہیں ہے صرف نزاع لفظی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اہل کتاب کا تصور نجات :
عہد عتیق میں نجات حاصل کرنے کے لئے انسان پر جو شرائط عائد ہوتی ہیں انمیں سے سب سے اہم خدا پر مکمل بھروسہ تھا۔ دوسری جو پہلی کا فطری نتیجہ تھی وہ خدا کی اخلاقی شریعت کی جسے مختلف مجموعہ قوانین میں بیان کیا گیا ہے فرمانبرداری کرنا تھا، لیکن خدا صرف شریعت کے الفاظ کی پابندی نہیں چاہتا ۔ گناہوں کی معافی کے لئے توبہ ضروری تھی اور اکثر گناہوں کے لئے توبہ کے عمل کے طور پر قربانیاں چڑھانی پڑتی تھیں۔(قاموس الکتاب ، مولفہ ایف ۔ایس۔ خیراللہ ، ص۱۰۲۹ )
پروفیسر ساجد میر ، عیسائیت تجزیہ و مطالعہ ، ص۱۷۵ پر اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ نجات کا طریقہ ’’ایمان ‘‘اور’’ عمل‘‘ تھا۔مگر عمل میں کمی و کوتاہی کی تلافی کے لئے توبہ کا طریقہ تھا جسکا ایک ذریعہ قربانی بھی تھا۔۔۔اً ’’تم میری طرف پھر کر میرے حکموں کو مانو اور انپر عمل کرو۔۔۔‘‘(نحمیاء۱:۹)تاہم پولس نے کفارہ (Atonement) ، ازلی گناہ(Original sin) وغیرہ کی بنیاد رکھی۔نجات کے نظریئے کوعیسائی عقیدہ میں نمایاں ترین جگہ حاصل ہے اتنی نمایاں کہ اکثر عیسائی ایماندار وںکے نزدیک یہ (عیسائیت کا) اعلیٰ ترین نظریہ ہے۔ حتیٰ کہ یسوع کے خدا ہونے کے نظریہ کی اہمیت بھی اسی لئے ہے کہ کفارہ کو موثر بنانے کے لئے اسکا ماننا ضروری ہے ۔انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ،بحوالہ عیسائیت از پروفیسر ساجد میر، ص۱۸۵)۔نیز یاد رہے رسولوں کا عقیدہ جسے مسیحی اپنا کلمہ یا مسیحی اقرار لایمان قرار دیتے ہیں اسمیں بھی ’’گناہوں کی معافی ‘‘کا عقیدہ شامل ہے (مسیحی اقرار الایمان ،ص۱،۲)
 
Top