• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نوح علیہ السلام کا بیٹا مومن تھا؟ عمار خان زاہدی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۸)اسوہ انبیاء علیہم السلام :
حضرت نوح ؑ اللہ رب العزت کے برگزیدہ پیغمبر ہیں انکی علو شان پر مسلمان اور اہل کتاب موید و متفق ہیں۔اور عصمت انبیاء کے عقیدہ کے مطابق وہ ہر قسم کے گناہوں سے مبرا و منزہ ہیں،لیکن انکی بشریت پر سب کا اتفاق ہے گو یہ صفت بشریت دیگر اہل البشر سے ہر اعتبار و معیار سے بلند و ارفع ہے چاہے افکار و اعمال ہوں یا سیرت و کردار ۔اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل عالم انسانیت کے لئے اسوہ و ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد goalجسکی پیروی کر کے انسان خالق و مخلوق اور دین و دنیا ، حیات عارضی و ابدی میں کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔انبیاء کا اسوہ حسنہ اسی صورت میں قابل اتباع و تقلید قرار پاسکتا ہے جب وہ بشری عادات و خصائل اور عقل و جذبات کے حامل ہوں انکا اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرتا ، کھانا پینااور دیگر ضروریات زندگی کا پورا کرنا ایسا ہی ہو جیسا دیگر انسانوںکا ہے اور اسپر نصوص ، تجربہ و تاریخ سب شاہدہیں کہ ایسا ہی ہے ۔
قرآنی قصص کا مقصد (اور یہی مقصد صحف سابقہ میں تذکرہ انبیاء سے تھا مگر تحریف لفظی و معنوی اور خود ساختہ تفسیر و تاویل سے یہ مقصد بجائے ہدایت و رہنمائی اعلیٰ سیرت و کردار کے ،باعث ضلال و گمراہی ہو گیا) اسی سورۃ ہود ۱۲۰ کے مطابق{رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کے لئے بیان فرما رہے ہیں آپ کے پاس اس سورۃ میں بھی حق پہنچ چکا جو نصیحت و وعظ ہے مومنوں کے لئے }۔گویا گزشتہ ا نبیاء کے اسوہ کی پیروی میں ہی نجات و کامیابی ہے۔
ہر عظیم موجد نے کوئی بھی نئی چیز بنانے کے لئے ، اپنے سے پہلے لوگوں کی دریافتوں اور ایجادات کو ماڈل بنایا ہے۔ ہر بچے نے اپنے ارد گرد کی دنیا کو اپنا ماڈل بنایا ہے۔ (لامحدود طاقت از انتھونی رابنز، ص۴۵)۔ اسلام جو کہ تمام انبیاء و رسل کا دین رہا ہے اور اتباع النبی علیہم السلام اسکی بنیادی قدر ہے۔ باالفاظ دیگر پیغامبروں کے اسوہ ۔ نمونہ Model، اعلیٰ کردار و سیرت سے اکتساب فکر و عمل اہل ایمان سے اللہ کا مطالبہ رہا ہے۔ قصص الانبیاء کا مقصداسی سورۃ ہود ۱۱:۱۲۰ میں بیان فرمایا گیا کہ ان سے اللہ عزوجل آپ ﷺ کی دلی تسکین اور مومنوں کے لئے نصیحت کے سامان مہیا کرتاہے۔نیز رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کی تلقین کی گئی۔ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کا حکم (النحل۱۶۔۱۲۳)۔ لہذا یہاں بھی نوح ؑ اور انکے ناہنجار بیٹے کے درمیان مکالمہ کا مقصد و مدعایہی معلوم ہوتا ہے جس پر دیگر قرآئن و شواہد و آثار بھی موئد ہیں کہ اہل کتاب کے نسلی، نسبی، خاندانی تفاخر کی نفی ، انسانی جذبات اورشتوں کی ایمان و عمل کے بالمقابل بے وقعتی، نیز فرد individual کے بالمقابل جماعۃ (امت کے مفاد) کو اصل مطمع نظر قرار دیا گیا اسکے بجائے نوح ؑ کے جذبات و احساسات کو مرکزی مقام دے کر ہجرت کے امکان کو کشید کرنا ایک سعی نامسعود ہوگی جیسا کہ آپ (عمار ناصر صاحب )نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہAmal E.Marogyکی کتاب Kitab sibwayahi: syntax and pragmaticsکا حوالہ دیتے ہوئے مستشرقین کی (بلکہ مسیحیوں کا عام طرزتحقیق یہی ہے) روش کا ذکر کیا ہے کہ اس نے ایسے عجیب و غریب قیاسات کی مدد سے مسلمان علماء نحو کے فکری استفادہ کا تعلق عراق وغیرہ میں موجود مسیحی مکاتب و مدارس اور انکے ہاں رائج مباحث سے جوڑا ہے کہ سچ مچ ’’ماروںگھٹنا پھوٹے آنکھ ‘‘ کا محاورہ صادق آتا ہے۔اور یہ حقیقت بھی ہے۔ قیاس مع الفارق گویا انکی بنیادی قدر Valueہے۔
یعسوب، خدائے واحد کاعیسائی مصنف ص۵۰ پر لکھتا ہے: ’’ مرکز تو صرف ایک ہی ہے اور وہ خود خدا ہے یعنی باپ ، بیٹا اور روح القدس ۔ توریت ، زبور، صحائف انبیاء اور انجیل جیسا کہ میں نے پہلے کہا سائن پوسٹ sign postہیں جو خدا تعالیٰ کیطرف راہنمائی کرتے ہیں۔ ہم ان سائن پوسٹوں کی عزت کرتے ہیں کیونکہ حق تعالیٰ کی معرفت ان میں ہے لیکن انکی عزت کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم انکے سایہ ہی میں نہ بیٹھے رہیں بلکہ جس سمت وہ اشارہ کر رہے ہیں (یعنی تثلیث Trinity)اس طرف بڑھیں۔ ‘‘نیز Outline of Christianity vol2, p9بحوالہ عیسائیت تجزیہ و مطالعہ از پروفیسر ساجد میر ،ص۱۱۷پر ہے: ’’سکندریہ کے علماء(انطاکیہ کے بھی کہ عام چلن یہی ہے)کی عادت تھی کہ وہ ’’کلام‘‘ کے (عیسیٰ میں ) تجسم اور انھیں خدا کا بیٹا قرار دینے کے نظریہ کو پہلے ہی مسلمہ فرض کرکے اس سے (اپنے مباحث کی ) ابتداء کرتے تھے اور اسکے بعد ہی یہ سوال اٹھاتے تھے کہ اس عمومی نظریہ کی روشنی میں انجیل کی کس طرح تشریح و تعبیر کرنی ہے‘‘۔ یہ مسیحی طرز فکر ہے جو فرد کے جذبات کو بمقابلہ خدائی پکڑ و سزا زیادہ اہمیت دیتا ہے ’’گناہوںسے معافی پر ایمان ‘‘کے عقیدہ کی اصل یہی تصور ہے کہ فرد کو اطمینان حاصل ہوگیا ہے کہ اسکے گناہوں کا کفارہ مسیح ؑ نے مذعومہ صلیبی موت کی صورت میں دے دیا لہذا اب وہ شریعت ودیگر مذہبی پابندیوں سے آزاد ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۹)انبیاء علیہم السلام اور تنبیہ :
اپنے بندوں انبیاء و رسل کو اگر انکا محسن و مربی و رہنما عزوجل تنبیہ کرے تو اسمیں کوئی عیب و سبکی ہر گز نہیںبلکہ یہ محسن و مربی کی محبت ، خاص مقام اور توجہ دینے کی علامت ہے اور رہنمائی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب کوئی پیغمبر جو بالآخر انسان ہی ہیں اگرہ وہ کہیں بوجوہ کسی ایسی جانب متوجہ ہوں یا جھکائو ظاہر کرنے لگیں جوکہ اللہ علام الغیوب کی رضا و مشیت کے برخلاف ہو تو انھیں اسپر متنبہ کردیا جائے ۔ہاں یہ حق غیر اللہ کو دینا قطعاً نا انصافی و زیادتی ہو گی۔ان مقدس ہستیوں کی سیرت و کردار و عمل بلکہ پوری حیات طیبہ کل انسانیت کے لئے مشعل راہ اور مینارہ نور ہے۔دوم : قرآن و سنت سے یہ حقیقت ثابت شدہ بھی ہے ۔چند مثالیں: {اور ذالنون(یونس ؑ)(کو یاد کرو) جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر) ’’غصہ‘‘ کی حالت میں چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ آخر اندھیرے میں (اللہ کو) پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے اور بے شک میں قصور وار ہوں}(الانبیاء ۲۱: ۸۷)، الحاقہ۶۹:۴۴۔۴۷، العبس۸۰، غزوہ احد میں قیدیوں کا معاملہ،عائشہ ؓ کی جانب قلبی لگائو، شہد (یا لونڈی )کا معاملہ (التحریم ۶۶:۲)، کفار کی جانت مائل ہونے کا معاملہ،دائود ؑ اور دنبیوں کا معاملہ، سلیمان ؑ کے تخت پر دھڑ کا ڈال دیا جانا
، موسیٰ ؑ کا اللہ کوبچشم سر دیکھنے پر اصرار کرنا، آدم ؑ کا باوجود منع کے ممنوعہ پھل کھا لینا،لوط ؑ کا اللہ کی قوت نہ پکڑنے کا معاملہ۔ڈاکٹر مفتی عبدالواحد اسلامی عقائد، ص۶۸۔۷۳ میں رقمطراز ہیں: ’’ تمام انبیاء ؑ خدا کے پاک اور برگزیدہ بندے اور صغیرہ و کبیرہ گناہ سے معصوم تھے۔۔۔ واقعات گناہ کے نہیں ہیں یا تو سرے سے انمیں کچھ عیب ہی نہیں یا صرف بھول چوک کے ہیں یا غلط فہمی کے ہیں۔۔۔اسکو لغزش کہتے ہیں‘‘ ۔اسلام کا مطمع نظر بذریعہ انبیاء (جو چنے ہوئے بندے (فرد individualتھے )انکی سیرت و کردار کے نمونہ کے ذریعہ تزکیہ فرد،معاشرتی ومعاشی وسیاسی اصلاح تھا ۔
انبیاء کی تمام علو شان و عظمت و مرتبت عالیہ کے باوصف یہ بھی ناقابل تردید سچ ہے کہ وہ {انا بشرمثلکم یوحی الی } تھے، کھانا کھاتے، بازاروں میں چلتے پھرتے، رشتے داروں والے، انھی کی زبان بولنے والے، عقل و جذبات کے حامل تھے ۔ ابراہیم ۱۴: ۹۔۱۱ میں اللہ حکیم و خبیر پیغمبروں نوح، ھود اور صالح کا ذکر کرتا ہے پھر پیغمبروں کی زبانی کہلواتا ہے کہ {قالت لھم رسلھم ان نحن الا بشر مثلکم ولکن اللہ یمن علی من یشاء من عبادہ…ترجمہ :’’ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ ہم تمھارے ہی جیسے آدمی ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (نبوت) کا احسان کرتا ہے ۔۔}۔حضرت ابراہیم صاحبزادہ رسول ﷺ کی وفات پر آپ ﷺ اشک بار ہوئے تو صحابہ نے حیرت سے استفسار فرمایا آپ ﷺ بھی فرمایا ہاں میں بھی ۔نیز۔ حسن بن علی ؓ کو نبی ﷺ نے بوسہ دیا تو اعرابی نے کہا ہم تو ایسا نہیں کرتے آپﷺ نے فرمایا اگر تمھارے دلوں سے اللہ نے رحمت کو کھینچ لیا ہے تو میں اسمیں کیاکروں‘‘(صحیح بخاری: حدیث نمبر۵۵۸۶)۔
’’ہیجان Emotionآناً فاناً پیدا ہوتا ہے ۔ غیر متوقع صورت حال ہیجان کا باعث بن جاتی ہے‘‘(کاروان نفسیات سال سوم از غلام محی الدین ، رخشندہ شہناز ص۲۵۱)۔جذبات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب انسان ان سے متاثر ہوجاتا ہے تو کچھ عرصہ تک جو شے اسکے سامنے پڑجاتی ہے ، عام اس سے کہ اسے اس جذبہ سے تعلق ہو یا نہ ہو ، اسے جذبہ کی آنکھوں سے دیکھتا اور جذبہ ہی کے کانوں سے سنتا ہے‘‘(ماہیت جذبات،مبادی فلسفہ از عبدالماجد دریابادی، ص۱۲۱)
مختصر یہ کہ جذبات : محبت و انسیت و پیار، غصہ، حیرت، خوشی و غمی، رنج و دکھ وغیرہ انبیاء علیہم السلام بھی رکھتے تھے۔ لہذا شفقت پدری یا بوڑھے باپ کی اپنے ڈوبتے بیٹے کو دی گئی پکار کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے جبکہ قرآن سے اسکی دیگر مثالیں بھی ملتی ہیں ۔مثلاً حضرت زکریا ؑ کا کمزوری و بڑھاپے میں بیٹے کی خواہش کرنا(مریم ۱۹: ۴۔۵)۔ مولانا امین اصلاحی نے تدبر قرآن میں لکھا: ’’ شفقت پدری اور دعوت دونوں کی روح سموئی ہوئی ہے۔۔۔کہ اللہ کا قانون ایسا بے لاگ ہے کہ نوح ؑ کا بیٹا بھی نافرمان ہو تو اسکی گردن بھی عین باپ کے سامنے دبا دیتا ہے تو تابہ دیگراں چہ رسد۔ اسکے ایمان کا علم نوح ؑ کو نہ تھااور {الا من سبق علیہ القول }میں شامل ہے۔ مولانا حفظ الرحمان سیوھاروی قصص الانبیاء ، ص۷۵ پر لکھتے ہیں: ’’یہ سوال ( نوح ؑ کا ) نہ معصیت کا سوال تھا نہ عصمت انبیاء کے منافی اسلئے خطاب الہٰی نے اسے ’’نادانی‘‘ سے تعبیر کیانہ کہ گناہ و نافرمانی سے۔۔۔اسلام میں نسل و خاندان نہیں ایمان بااللہ کی اہمیت ہے‘۔‘انبیاء ؑکی عصمت کی دھجیاں جس طرح اہل کتاب نے بکھیری ہیں وہ بائبل کا قاری بخوبی جانتا ہے اور جس طرح کا نمونہ عمل practical modelفراہم کیا ہے اسکے بعد اہل مسیح ومغرب سے باعصمت کردار و سیرت کی توقع کرنا عبث ہے۔اباحت مغرب کی نمایاں صفت ہے ۔اسکے بالمقابل مسلمانوں کے ہاں عصمت انبیاء مضبوط بنیادوں پر استوار عقیدہ ہے ۔عصمت رسول ﷺ پر مغربی میڈیا (الیکٹرانک و پرنٹ )کا کیچڑ اچھالنا ، انبیاء کے بارے میں انکے اسی بگڑے تصور کا شاخسانہ ہے۔
سورۃمبارکہ ہود میں انسانی سیرت و کردار اور فطرت و میلان طبع کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے مثلاً: ھود۱۱: ۹۔۱۱۔{ناامید ، ناشکرا،اترانے والا، شیخی خور، اسکے بالمقابل صبر کرنے والے اور عمل صالحہ والے کامیاب ہیں} ۔نیز زیر بحث آیات کریمہ میں انسانی سلبی تعلق اور احساس و جذبات کا پہلو مشاہدہ کیا جاسکتا ہے مثلاً : (جوان بیٹے کو پکارا گیا )آجا سوار ہو جا (محبت و خوف و امید ) …(بیٹے کا جواب ) نہیں میں پہاڑ پر چڑھ کر بچ جائوں گا(ایمانی ،سلبی و جذباتی لاتعلقی کا اظہار۔یاد رہے رشتوں کا چنائو انسانی اختیار سے باہر ہے)…اے اللہ ۔ میرے اہل سے ہے (جذباتی اپیل)…تیرے اہل سے نہیں (نسلی تعلق عطا کرنے والے کی طرف سے نفی)…معافی کی درخواست(غلطی ، لغزش کا خوف) …سلامتی اور برکتوں کا نزول (عطائے ربانی)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ جواب جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے سابقہ استاد محمد عمران سلفی حفظہ اللہ جو آج کل بحرین میں قیام پذیر ہیں کی طرف سے موصول ہوا تو میں نے بغرض استفادہ یہاں بھی درج کر دیا
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محمد فیض الابرار صاحب نے بہت ہی اچھے انداز میں اس معاملے پر مفصل روشنی ڈالی ہے جو کہ یقیناً قابلِ ستائش ہے ۔میرا دل اس پر ”گارڈن ،گارڈن“ ہو گیا ہے۔ اللہ تعالٰی ان کے علم و عمل میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !
 
Top