• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نومولود کے کان میں آذان واقامت کہنا

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
بسم اللہ االرحمٰن الرحیم​
نومولود کے کان میں آذان واقامت کہنا
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہےاس کی تعلیمات انتہائی مکمل اور جامع ہیں۔ اور زندگی کے ہرگوشہ کے لیے اس میں تعلیمات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ہم پر عظیم احسان ہے کہ اس نے ہر معاملے میں پیدائش سے لیکر موت تک ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ ایک بچہ کی پیدائش سلسلے میں بھی دین کے احکامات نہایت واضح ہیں۔بچے کی پیدائش کے سلسلہ میں جو اسلامی احکامات ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ بچے کے دائیں کان میں اذان دی جائے۔اور یہ کام پیدائش کے فوراً بعد نومولود کو نہلانے کے بعد کرنا چاہیے بشرطیکہ کوئی جسمانی عوارض لاحق نہ ہوں ۔علمائے کرام نے اسب بارے میں جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں وہ یہ ہیں کہ اذان کے کلمات سے شیطان بھاگتا ہے۔ جس کی وجہ سے نومولود اس کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس میں یہ بھی مصلحت بیان کی جاتی ہے کہ بچہ کے دنیا میں آتے ہی اس کو جو دعوت ملتی ہے وہ ہے عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت اور نماز کی دعوت ۔گویا یہ نومولود شیطانی دعوت سے پہلے رحمانی دعوت سن لیتا ہے۔
اذان دینے میں حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہےکہ بچہ سب سے پہلے اپنے خالق کا نام سن لیتا ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
والأظہر أن حکمۃ الأذان فی الأذن أنہ یطرق وسمعہ أول وہلۃ ذکر اللہ تعالی علی وجہ الدعاء إلی الإیمان
بچے کے کان میں اذان دینے کی حکمت یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذکر کوایمان کی دعاء کی صورت میںسن لیتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب'' تحفۃ المودود باحکام المولود''میں نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کو مستحب لکھا ہے۔
اس بارے میں متعدد احادیث ہیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے جس کو حضرت ابورافع ؓ نے روایت کیا ہےفرماتے ہیں'' کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت حسنؓ کی پیدائش پر اُن کے کان میں اذان پڑھی'' ۔
سنن ابو داؤد، کتاب الأدب، باب فی الصبی يولد فيؤذن فی أذنہ، وجامع ترمذی)
دوسری حدیث امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں ذکر کی ہے:
حضرت حسنؓ بن علیؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے یہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان اقامت پڑھے تو وہ بچہ ام الصبیان(ایک بیماری ہے) سے محفوظ رہے گا۔( بیہقی)
یہ حدیث مجمع الزوائد ،کنز العمال اور الجامع الصغیر وغیرہ میں بھی موجودہے۔
اگرچہ کچھ محدثین حضرات نے اس کوضعیف قرار دیا ہے مگر کچھ محدثین کرام نے اس کے ضعیف ہونے کی نفی بھی کی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کسی حدیث کی سندمیں ضعف ہو مگر اُمت اُس حدیث پر تواتر سے عمل کرتی آرہی ہو تو اس حدیث کی سند کا ضعف اس حدیث کو مسترد کرنے کی دلیل نہیں بنے گا۔
اوردوسری روایت جوکہ جامع ترمذی،ابو دائود،مصنف عبدالرزاق،مسند احمد،المعجم الکبیراور بیہقی کی بسند حسن حدیث پاک ہے:
عن عاصم بن عبید اللہ أخبرنی عبید اللہ بن أبی رافع قال رأیت أو قال أذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی أذن الحسن بن علی حین ولدتہ فاطمۃ
حضرت عاصم بن عبید اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھے عبید اللہ بن ابی رافع نے خبر دی کہ وہ کہتے ہیں میں نے دیکھا یا کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے کان میں اذان دی جب یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے تولد ہوئے۔
اور مرقات المفاتیح کی روایت کے مطابق:
روی أن عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کان یؤذن فی الیمنی ویقیم فی الیسری إذا ولد الصبی قلت قد جاء فی مسند أبی یعلی الموصلی، عن الحسین رضی اللہ عنہ مرفوعامن ولد لہ ولد فأذن فی أذنہ الیمنی وأقام فی أذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہتے تھے۔
اور''مسند ابویعلی موصلی'' میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاروایت ہے کہ آپ نے فرمایا جب بچہ پیدا ہو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھی جائے تو بچہ ام الصبیان (آسیبی کی قسم کی ایک بیماری ) کی بیماری سےمحفوظ رہے گا۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
بسم اللہ االرحمٰن الرحیم

نومولود کے کان میں آذان واقامت کہنا
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہےاس کی تعلیمات انتہائی مکمل اور جامع ہیں۔ اور زندگی کے ہرگوشہ کے لیے اس میں تعلیمات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ہم پر عظیم احسان ہے کہ اس نے ہر معاملے میں پیدائش سے لیکر موت تک ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ ایک بچہ کی پیدائش سلسلے میں بھی دین کے احکامات نہایت واضح ہیں۔بچے کی پیدائش کے سلسلہ میں جو اسلامی احکامات ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ بچے کے دائیں کان میں اذان دی جائے۔اور یہ کام پیدائش کے فوراً بعد نومولود کو نہلانے کے بعد کرنا چاہیے بشرطیکہ کوئی جسمانی عوارض لاحق نہ ہوں ۔علمائے کرام نے اسب بارے میں جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں وہ یہ ہیں کہ اذان کے کلمات سے شیطان بھاگتا ہے۔ جس کی وجہ سے نومولود اس کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس میں یہ بھی مصلحت بیان کی جاتی ہے کہ بچہ کے دنیا میں آتے ہی اس کو جو دعوت ملتی ہے وہ ہے عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت اور نماز کی دعوت ۔گویا یہ نومولود شیطانی دعوت سے پہلے رحمانی دعوت سن لیتا ہے۔
اذان دینے میں حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہےکہ بچہ سب سے پہلے اپنے خالق کا نام سن لیتا ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
والأظہر أن حکمۃ الأذان فی الأذن أنہ یطرق وسمعہ أول وہلۃ ذکر اللہ تعالی علی وجہ الدعاء إلی الإیمان
بچے کے کان میں اذان دینے کی حکمت یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذکر کوایمان کی دعاء کی صورت میںسن لیتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب'' تحفۃ المودود باحکام المولود''میں نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کو مستحب لکھا ہے۔
اس بارے میں متعدد احادیث ہیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے جس کو حضرت ابورافع ؓ نے روایت کیا ہےفرماتے ہیں'' کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت حسنؓ کی پیدائش پر اُن کے کان میں اذان پڑھی'' ۔
سنن ابو داؤد، کتاب الأدب، باب فی الصبی يولد فيؤذن فی أذنہ، وجامع ترمذی)
دوسری حدیث امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں ذکر کی ہے:
حضرت حسنؓ بن علیؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے یہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان اقامت پڑھے تو وہ بچہ ام الصبیان(ایک بیماری ہے) سے محفوظ رہے گا۔( بیہقی)
یہ حدیث مجمع الزوائد ،کنز العمال اور الجامع الصغیر وغیرہ میں بھی موجودہے۔
اگرچہ کچھ محدثین حضرات نے اس کوضعیف قرار دیا ہے مگر کچھ محدثین کرام نے اس کے ضعیف ہونے کی نفی بھی کی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کسی حدیث کی سندمیں ضعف ہو مگر اُمت اُس حدیث پر تواتر سے عمل کرتی آرہی ہو تو اس حدیث کی سند کا ضعف اس حدیث کو مسترد کرنے کی دلیل نہیں بنے گا۔
اوردوسری روایت جوکہ جامع ترمذی،ابو دائود،مصنف عبدالرزاق،مسند احمد،المعجم الکبیراور بیہقی کی بسند حسن حدیث پاک ہے:
عن عاصم بن عبید اللہ أخبرنی عبید اللہ بن أبی رافع قال رأیت أو قال أذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی أذن الحسن بن علی حین ولدتہ فاطمۃ
حضرت عاصم بن عبید اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مجھے عبید اللہ بن ابی رافع نے خبر دی کہ وہ کہتے ہیں میں نے دیکھا یا کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے کان میں اذان دی جب یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے تولد ہوئے۔
اور مرقات المفاتیح کی روایت کے مطابق:
روی أن عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کان یؤذن فی الیمنی ویقیم فی الیسری إذا ولد الصبی قلت قد جاء فی مسند أبی یعلی الموصلی، عن الحسین رضی اللہ عنہ مرفوعامن ولد لہ ولد فأذن فی أذنہ الیمنی وأقام فی أذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہتے تھے۔
اور''مسند ابویعلی موصلی'' میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاروایت ہے کہ آپ نے فرمایا جب بچہ پیدا ہو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھی جائے تو بچہ ام الصبیان (آسیبی کی قسم کی ایک بیماری ) کی بیماری سےمحفوظ رہے گا۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی، بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔ جامع ترمزی حدیث نمبر (1514) یہ حدیث ضعیف ہیں (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہیں ) اور اس معنی کی ابن عباس کی حدیث میں ایک کذاب راوی ہے_ دیکھیے الضعیفتہ رقم ٣٢١ و ٦١٢١. .
 
Top