• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نومولود کے کان میں اذان واقامت کا مسئلہ۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کیا نومولودکے کان میں اذان واقامت کہنا درست ہے؟
یہ سوال ہرجگہ باربار اٹھتاہے اہل علم سے گذارش ہے کہ اپنی معلومات سے آگاہ فرمادیں۔
جزاکم اللہ خیرا ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
کیا نومولودکے کان میں اذان واقامت کہنا درست ہے؟
یہ سوال ہرجگہ باربار اٹھتاہے اہل علم سے گذارش ہے کہ اپنی معلومات سے آگاہ فرمادیں۔
جزاکم اللہ خیرا ۔
شيخ محمد صالح المنجد﷾ کے نزدیک اس بارے میں موجود احادیث صحیح نہیں، وہ فرماتے ہیں:
الأحاديث الواردة بشأن الأذان والإقامة في أذن الوليد لا تخلو أسانيدها من ضعف ، وخاصة ما ورد منها بشأن الإقامة في الأذن اليسري ، فإنها في غاية الضعف
علامہ البانی﷫ پہلے مولود کے کان میں آذان دینے کو مشروع کہا کرتے تھے اور اس کے متعلق احادیث کو حسن لغیرہ کہتے تھے، لیکن بعد میں انہوں نے اس رجوع کر لیا تھا، وہ فرماتے ہیں:
هذا بيان للناس ، كنا نقول من قبل بشرعية الأذان في أذن المولود ، مع العلم بأن الحديث الذي ينص على سنية الأذان في أذن المولود ، مروي في سنن الترمذي بإسناد ضعيف ، لكننا نحن على طريقة تقوية الأحاديث الضعيفة بالشواهد ، كنا وجدنا لهذا الحديث شاهداً في كتاب ابن القيم الجوزية المعروف بــ (تحفة الودود في أحكام المولود) ، كان يومئذ عزاه لكتاب (شعب الإيمان) للبيهقي ، ومع أنه صرح بأن إسناده ضعيف ، فقد اعتبرت تصريحه هذا بأن السند ليس شديد الضعف ، وبناء على ذلك اعتبرته شاهداً لحديث الترمذي ، وهو من رواية أبي رافع ، ولم يكن يومئذ كتاب (شعب الإيمان) بين أيدينا ، لا مخطوطاً ، ولا مطبوعاً .
واليوم فقد تيسر طبع هذا الكتاب (شعب الإيمان) ، وإذا بهذا الحديث رواه الإمام البيهقي في كتابه الشعب بسند فيه راويان متهمان بالكذب ، وحينئذ تبين لي أن ابن القيم رحمه الله كان متساهلاً في تعبيره عن إسناد الحديث بأنه ضعيف فقط ، وكان الصواب أن يقول : بأنه ضعيف جداً ، لأنه في هذه الحالة لا يجوز لمن يشتغل بعلم الحديث ، أن يعتبر الشديد الضعف شاهداً لما كان ليس شديد الضعف . وحينئذ لم يسعني ، إلا التراجع عن تقوية حديث أبي رافع في سنن الترمذي ، بحديث شعب الإيمان لشدة ضعفه . فبقي حديث أبي رافع على ضعفه ، ونحن على ما هدانا الله عز وجل إليه من عدم جواز العمل بالحديث الضعيف ، رجعنا إلى القول ما دام أن حديث أبي رافع أصله ضعيف السند ، والشاهد له أشد ضعفاً منه. إذاً بقي الضعف على ضعفه ، رجعنا عن القول السابق بسنية ، أو شرعية الأذان في أذن المولود ... انتهى باختصار
واللہ اعلم
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
1۔امام ترمذی نے اس روایت کو 'حسن صحیح' کہا ہے اور مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے'تحفة الأحوذی' میں اسے ایک 'شاہد'یعنی ایک دوسری روایت کی وجہ سے ' قابل احتجاج'قرار دیاہے ۔
2۔شیخ بن باز، شیخ صالح العثیمین رحمہما اللہ اور ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے بھی اس روایت کو سنداً ضعیف ماننے کے باوجود اس کے' شاہد' کی وجہ سے بچے کے دائیں کان میں اذان کے عمل کو جائز قرار دیا ہے۔البتہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو'ضعیف جدا' قرار دیتے ہوئے اذان کے عمل کو غیر مشروع قرار دیا ہے۔ متقدمین میں امام مالک رحمہ اللہ بچے کے کان میں اذان دینے کو شرعاً جائز نہیں سمجھتے ہیں۔واللہ اعلم بالصواب
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ علوی حفظہ اللہ۔
برائے کرم درج ذیل پہلووں پراپنی تحقیق سے نوازدیں ، شکر گذارہوں گا۔

1: بعض کہتے ہیں گرچہ اس مسئلہ کی روایت ضعیف ہے ، لیکن اسے تلقی بالقبول حاصل ہے لہذا اس پر عمل کرسکتے ہیں، یہ حضرات اپنی تائید میں تدریب الراوی سے یہ عبارت پیش کرتے ہیں؛
قَالَ بَعْضُهُمْ: يُحْكَمُ لِلْحَدِيثِ بِالصِّحَّةِ إِذَا تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ.
[تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/ 66]

2: اس پر بالتواتر عمل ہوتا چلا آرہا ہے لہٰذا یہ عمل جائز ہے۔

3: اس کے جواز پر خیرالقرون کا اجماع ہے۔

4: امام مالک نے اس سے اختلاف کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دورمیں بھی اس پرعمل ہورہا تھا، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سلسلے کی روایت کی کوئی نہ کوئی اصل ضرورہے۔

مذکورہ باتیں مختلف اہل علم سے فون پر گفتگوکرنے کے بعد سامنے آئی ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
السلام علیکم
حافظ زبیر علی زئی کے نزدیک بھی کان میں اذان دینے کی احادیث ضعیف ہے۔
دیکھے فتوی علمیہ جلد 1 صفحہ 244 اور 245
اللہ حافظ
جزاکم اللہ خیرا ۔
لیکن حافظ موصوف کا یہ فتوی بھی پیش نظررہے:

سوال: نومولودبچے کے کان میں اذان دینا صحیح صریح احادیث سے ثابت ہے؟

جواب: نومولودکے کان میں اذان دینے والی حدیث ضعیف ہے لیکن امام ترمذی کے قول ’’والعمل علیہ‘‘(سنن ترمذی:1514ونسخہ مخطوطہ ص108) سے معلوم ہوتاہے کہ اس مسئلہ پرتمام مسلمانوں کا عمل یعنی اجماع ہے۔
[ماہنامہ الحدیث: 10/ 22]۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
ہمارے استاذ محترم مولانا حافظ عبد المنان نورپوری صاحب حفظہ اللہ جامع ترمذی کی اس حدیث کو حسن لذاتہ مانتے ہیں ۔
اور عاصم بن عبید اللہ کے بارہ میں امام ترمذی کی رائے کو امام بخاری کی رائے کی نسبت زیادہ مضبوط گردانتے ہیں ۔
 
Top