T.K.H
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 05، 2013
- پیغامات
- 1,121
- ری ایکشن اسکور
- 330
- پوائنٹ
- 156
وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴿٩٠﴾ أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ﴿٩١﴾ أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا ﴿٩٢﴾ أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا ﴿٩٣﴾
اور انہوں نے کہا "ہم تیر ی بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے یا تو آسمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئےیا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں" اے محمدؐ، اِن سے کہو "پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟"
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔
اصل حقیقت یہی ہے کہ نبیﷺ کی حیثیت مختارِ کل کی نہیں بلکہ ” بَشَرًا رَّسُولًا“ کی تھی۔
اس میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب مشرکین نے نبیﷺ کو آسمانوں پر چڑھنے کا کہا تو اللہ تعالٰی نے نبیﷺ کو انکی زبانِ نبوت سے کہلوادیا کہ میری اپنی حیثیت تو” بَشَرًا رَّسُولًا“ کی ہے لیکن جب اللہ تعالٰی نے چاہا تو نبیﷺ کو سات آسمانوں کی سیر کروا آیا اور اپنی صفتِ ” سُبْحَانَ“ کو واضح کر دیا۔
تو معلوم ہوا کہ صفتِ ” سبحان “اللہ تعالٰی کے لیے جبکہ صفتِ ” بشر“ رسول کےلیے ہے۔ سبحان اللہ و اللہ اکبر کبیراً ۔
اور انہوں نے کہا "ہم تیر ی بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے یا تو آسمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو رُو در رُو ہمارے سامنے لے آئےیا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں" اے محمدؐ، اِن سے کہو "پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں؟"
قرآن ،سورت الاسراء، آیت نمبر 93-90
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١﴾ پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔
قرآن ،سورت الاسراء، آیت نمبر 01
اگر نبیﷺعطائی عقیدہ کے تحت مختار ِکل ہیں تو مشرکینِ مکہ کے یہ مطالبات پورے کرنے میں نبیﷺکو کیا چیز مانع تھی ؟اصل حقیقت یہی ہے کہ نبیﷺ کی حیثیت مختارِ کل کی نہیں بلکہ ” بَشَرًا رَّسُولًا“ کی تھی۔
اس میں ایک اور اہم حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب مشرکین نے نبیﷺ کو آسمانوں پر چڑھنے کا کہا تو اللہ تعالٰی نے نبیﷺ کو انکی زبانِ نبوت سے کہلوادیا کہ میری اپنی حیثیت تو” بَشَرًا رَّسُولًا“ کی ہے لیکن جب اللہ تعالٰی نے چاہا تو نبیﷺ کو سات آسمانوں کی سیر کروا آیا اور اپنی صفتِ ” سُبْحَانَ“ کو واضح کر دیا۔
تو معلوم ہوا کہ صفتِ ” سبحان “اللہ تعالٰی کے لیے جبکہ صفتِ ” بشر“ رسول کےلیے ہے۔ سبحان اللہ و اللہ اکبر کبیراً ۔