• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح شغار کا بیان۔

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 5112
حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه الآخر ابنته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ليس بينهما صداق‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شغار“ سے منع فرمایا ہے۔ شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنی (بیٹی یا بہن) اس کو بیاہ دے اور کچھ مہر نہ ٹھہرے۔


کتاب النکاح صحیح بخاری
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آج کل اس قسم کی شادیاں ”وٹہ سٹہ“ کہلاتی ہیں۔ جس میں یہ ”شرط“ ہوتی ہے کہ تم اپنی بہن یا بیٹی میرے یا میرے بیٹے کے نکاح میں دو تو میں اپنی بہن یا بیٹی تمہارے یا تمہارے بیٹے کے نکاح میں دیتا ہوں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسی وٹہ سٹہ کی شادیوں میں طرفین کی دونوں لڑکیوں کا ”مہر“ بھی مقرر ہوتا ہے، جو عموما" ایک جیسی رقم ہوتی ہے۔ اس وٹہ سٹہ کی شادی میں اگر کسی ایک لڑکی کے ساتھ کوئی ناروا سلوک ہوتا ہے تو جوابا" دوسری لڑکی کے ساتھ بھی یہی ناروا سلوک زبردستی کیا یا کروایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایک لڑکی کو بوجہ تنازعہ طلاق ہوتی ہے تو جوابا" دوسری لڑکی کو بھی طلاق دی یا دلوائی جاتی ہے، خواہ اس دوسرے جوڑے کے درمیان کوئی تنازعہ نہ بھی ہو اور وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ بھی ہونا چاہ رہے ہوں۔

اس قسم کی ”مشروط شادیوں “ کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
آج کل اس قسم کی شادیاں ”وٹہ سٹہ“ کہلاتی ہیں۔ جس میں یہ ”شرط“ ہوتی ہے کہ تم اپنی بہن یا بیٹی میرے یا میرے بیٹے کے نکاح میں دو تو میں اپنی بہن یا بیٹی تمہارے یا تمہارے بیٹے کے نکاح میں دیتا ہوں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسی وٹہ سٹہ کی شادیوں میں طرفین کی دونوں لڑکیوں کا ”مہر“ بھی مقرر ہوتا ہے، جو عموما" ایک جیسی رقم ہوتی ہے۔ اس وٹہ سٹہ کی شادی میں اگر کسی ایک لڑکی کے ساتھ کوئی ناروا سلوک ہوتا ہے تو جوابا" دوسری لڑکی کے ساتھ بھی یہی ناروا سلوک زبردستی کیا یا کروایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایک لڑکی کو بوجہ تنازعہ طلاق ہوتی ہے تو جوابا" دوسری لڑکی کو بھی طلاق دی یا دلوائی جاتی ہے، خواہ اس دوسرے جوڑے کے درمیان کوئی تنازعہ نہ بھی ہو اور وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ بھی ہونا چاہ رہے ہوں۔

اس قسم کی ”مشروط شادیوں “ کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟
بوسف ثانی بھائی ما شا ء اللہ بہت عمدہ کمنٹس دیئے ہیں آپ نے جزاک اللہ خیرا
اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت دے.آمین
 
Top