• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح میں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت کا حکم

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته

محترم شیوخ!
میرا سوال یہ ہیکہ لڑکی والوں کے یہاں لڑکی کے نکاح پر عام طور پر جو دعوت دی جاتی ہے کیا وہ صحیح ہے؟؟؟
اسی طرح نکاح کرنے کے بعد لڑکے والوں کو جو کھانا پلانا ہوتا ہے اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟؟
ولیمہ کیا ہے؟؟؟ اور یہ کس کی طرف سے ہوتا ہے؟؟؟
کیا جو دعوت لڑکوں کی طرف سے ہوتی ہے صرف اسی پر ولیمہ کا اطلاق ہوتا ہے؟؟؟

نوٹ: ہر سوال کو الگ الگ بیان کریں تو مہربانی ہوگی اقر سمجھنے میں آسانی.
جزاکم اللہ خیر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته

محترم شیوخ!
میرا سوال یہ ہیکہ لڑکی والوں کے یہاں لڑکی کے نکاح پر عام طور پر جو دعوت دی جاتی ہے کیا وہ صحیح ہے؟؟؟
اسی طرح نکاح کرنے کے بعد لڑکے والوں کو جو کھانا پلانا ہوتا ہے اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟؟
ولیمہ کیا ہے؟؟؟ اور یہ کس کی طرف سے ہوتا ہے؟؟؟
کیا جو دعوت لڑکوں کی طرف سے ہوتی ہے صرف اسی پر ولیمہ کا اطلاق ہوتا ہے؟؟؟

نوٹ: ہر سوال کو الگ الگ بیان کریں تو مہربانی ہوگی اقر سمجھنے میں آسانی.
جزاکم اللہ خیر
و علیکم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ
پیارے بھائی :
ان سوالات کے جوابات کیلئے آپ علامہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ کا درج ذیل لنک پر دیا گیا مضمون پڑھیں
بہت مفید ہے ،ان شاء اللہ
بارات اور جہیز کا تصور
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
و علیکم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ
پیارے بھائی :
ان سوالات کے جوابات کیلئے آپ علامہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ کا درج ذیل لنک پر دیا گیا مضمون پڑھیں
بہت مفید ہے ،ان شاء اللہ
بارات اور جہیز کا تصور
محترم شیخ!
بس اس سوال کا جواب دے دیں اگر ممکن ہو تو کیونکہ یہ ضروری ہے:
میرا سوال یہ ہیکہ لڑکی والوں کے یہاں لڑکی کے نکاح پر عام طور پر جو دعوت دی جاتی ہے کیا وہ صحیح ہے؟؟؟
بقیہ میں مضمون پورا پڑھ لوں گا.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته

محترم شیوخ!
میرا سوال یہ ہیکہ لڑکی والوں کے یہاں لڑکی کے نکاح پر عام طور پر جو دعوت دی جاتی ہے کیا وہ صحیح ہے؟؟؟
اسی طرح نکاح کرنے کے بعد لڑکے والوں کو جو کھانا پلانا ہوتا ہے اسکی شرعی حیثیت کیا ہے؟؟؟
ولیمہ کیا ہے؟؟؟ اور یہ کس کی طرف سے ہوتا ہے؟؟؟
کیا جو دعوت لڑکوں کی طرف سے ہوتی ہے صرف اسی پر ولیمہ کا اطلاق ہوتا ہے؟؟؟

نوٹ: ہر سوال کو الگ الگ بیان کریں تو مہربانی ہوگی اقر سمجھنے میں آسانی.
جزاکم اللہ خیر
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے سوال کے اندر جتنی چیزوں کا ذکر کیا ہے ، ان میں سے ’ ولیمہ ‘ مسنون ہے ، یعنی کرنا چاہیے ، شریعت نے اس کی ترغیب دلائی ہے ، بلکہ بعض علماء نے اس کو واجب قرار دیا ہے ۔ کیونکہ اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو حکم دیا تھا ، ولیمہ ضرور کرو ، چاہے ایک بھیڑ ہی کیوں نہ ہو ۔
باقی تمام چیزیں ، مباحات میں سے ہیں ، ان کو کرنے کی کوئی پابندی نہیں ، اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ، یا کسی سنت کا ترک نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں ایک طالب علم کی حیثیت سے کچھ گزارش کرنا چاہوں گا؛
لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے کھانا اکثر نکاح کے بعد ہوا کرتا ہے، جس میں وہ بارات اور اپنے مہمانوں کو کھانا کھلاتے ہیں، یا کبھی کوکا کولا ، یا شربت و آئسکریم وغیرہ!
یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لڑکی والوں کے مہمان کئی روز لڑکی کے گھر والوں کے مہمان ہوا کرتے ہیں ، بعض کے ہاں یہ رسوم ہیں اور بعض کے ہاں مجبوری اور بعض کے ہاں محبت و قربت کی وجہ سے ہوا کرتا ہے!
اب آپ غور کریں کہ آپ کے گھر مہمان ہو تو اس کے لئے کھانا وغیرہ کھلانا تو مہانداری میں آتا ہے جو شریعت میں مستحب ہے! اور معقول بھی ہے کہ آپ کے کھر کوئی مہمان ہو وجہ بھی اس کی آپ کی تقریب وخوشی میں شرکت ہو، اور اسے کھانے کا بندوبست خود ہی کہیں اور کرنا ہو، یہ تو ویسے بھی کوئی معقول بات نہیں!
دوم کہ یہ لڑکی کے گھر کے مہمان خود میزبان کی حیثیت میں گھر کے امور بھی سر انجام دیتے ہیں، جو اس تقریب کے حوالہ اور گھر میں لوگوں کی تعداد کے اضافہ سے ہوتے ہیں!
اب رہی بات کہ نکاح کے روز نکاح کے بعد کی دعوت؛
بارات ہو یا لڑکی والوں کے اپنے بلائے ہوئے مہمان! اگر کوئی صاحب مال ہو اور اس کی استطاعت میں ہو کہ وہ ان مہمانوں کی خاطرداری کر سکے تو اس میں شریعی ممانیت نہیں! بلکہ ایک مستحب عمل ہے۔ لیکن لڑکے والوں کا پہلے سے یہ طے کرنا کہ آپ نے ہمارے اتنے مہمانوں کا کھانا کرنا ہے، ایسی صورت میں لڑکی والوں پر جبر ہے۔ یہ اختیار لڑکی کے گھر والوں کا ہے کہ وہ اپنی اسطتاعت کے مطابق جس قدر چاہیں مہمانوں کی دعوت کریں! اور اگر وہ اس قابل نہ ہوں تو ان پر کوئی جبر نہیں۔ یا اگر کوئی صاحب مال نہ بھی کرنا چاہے تو کوئی جبر نہیں!
اکثر یہ معاملہ بھی پیش آتا ہے کہ بعض لوگون کے ہاں بارات کافی دور سے آتی ہے، اور ایسی صورت میں بارات والوں کو کھانا تو کھانا ہے، لڑکے والے کریں یا لڑکی والے! اور اگر لڑکی والے صاحب مال ہوں اور اپنی اسطتاعت کے مطابق کھانے وغیرہ کا بندوبست کریں ، تو معقول بھی ہے اور مستحب بھی!
یہی معاملہ لڑکی والوں کے ان مہمانوں کے لئے ہے جو دور سے آتے ہیں!
یہ تو وہ صورت ہے جو دین ہمیں مہمان نوازی اور خیر خواہی سکھلاتا ہے!

لیکن ہمارے معاشرے میں لڑکی کی طرف سے کھانے وغیرہ کی دعوت کو ایسا سمجھ لیا گیا ہے کہ جیسے لڑکی والوں پر لازم ہو! اور لڑکے والے باقاعدہ لڑکی والوں سے اس دعوت کا مطالبہ کرتے ہیں! خواہ وہ گلی کے اگلے کونے پر ہی رہتے ہوں! اور حد تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسی شادی میں شریک بھی نہیں ہوتے جہاں کھانے کا اہتمام نہ ہو!
اور یہ لڑکی کی طرف سے کھانے کی دعوت کو ہمارے معاشرے نے نکاح کے لازمی جزء کی طرح قرار دے کر لڑکی والوں کے لئے مشکل بھی پیدا کردی ہے، مشکل تو میں نے بہت ہلکا لفظ استعمال کیا ہے۔

میرا اپنا یہ مؤقف ہے کہ اگر حکومت وقت واقعتاً اس طرح کے معاملہ میں قانون سازی کرتی ہے، لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کی دعوت پر پابندی وغیرہ تو میں اس پابندی کو موجودہ صورت حال میں بہتر سمجھتا ہوں، کہ لڑکی کے گھر میں جو مہمان ہو انہیں تو کھان وگیرہ کھلایا جا سکتا ہو، مگر شادی حال وغیرہ میں نہیں!

کہ لوگوں نے ایسے امر میں جس کی اجازت شریعت میں ہے، لیکن اس اجازت کا غلط استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں لوگوں کے لئے مشکل پیدا کردی ہے، اس اجازت کو وقتی طور پر تعزیراً روکا جا سکتا ہے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک وقت مین تین طلاق کے معاملہ میں رجوع سے روکنا اس کی مثال ہے!
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
آپ یقین مانیئے اس برصغیر میں کون سے اتنے دیندار ہیں جو مستحبات اور مباحات کا اتنا دیہان رکھتے ہیں ۔
بلکہ حقیقت میں وہ یہ رسم کے طور پر ہی کرتے ہیں ۔
اگر ۱۰ آدمی تمام شرائط کو ملحوظ بھی رکھیں تو تقویت تو پھر اس مسئلے کو ملے گی کہ یہ دعوت کی اصل ضرور ہے ۔۔کبھی کوئی چھوڑ دے ۔۔نہیں ۔
اسے مطلق مستحب دعوت کے تحت نہیں لایا جاسکتا ۔ اور جہاں پہ اتنا بڑا منکر ہو کہ لڑکی والوں پہ ایک ایکسٹرا بھوج لاد دیا جائے۔اور ہمارے ارد گرد لوگ قرضے لے لے کر یہ کام کرتے ہوں ۔ اس میں اور ولیمہ میں سو فیصد برابری سمجھی جائے۔
اور ۹۰ فیصد لوگوں کو یہ’’کرنی پڑتی‘‘ ہو۔ ایسے حالات میں تو مستحب قابل ترک ہو جاتا ہے ۔ چہ جائیکہ مباح ۔
اور پھر نکاح ایک عبادت ہے اس میں ایک دعوت مقرر ہے ۔ پھر دوسری دعوت اشتباہ کا باعث ہے ۔ اور غالباََ عرب وغیرہ میں ابھی بھی اس کا کسی کو نہیں پتا ۔۔۔یہ اس برصغیر کی ہی پیداوار ہے ۔ مثال کے طور پہ ہندو رائٹرز کی ایک کتاب ہے ۔

Human Rights Among Indian Populations:
Knowledge, Awareness and Practice
By shilpy gupta,
A.K. Kapoor
اس میں انہوں نے ہندووں کی رسومات وغیرہ کو بھی بتایا ہے ۔
Page 168
Rites de passage:
يعنی کِسی شخص کی زندگی کا کوئی اہم واقعہ یا رسم یا موڑ
پھر اس کے تحت عنوان ہے ۔
(A) Marriage Rituals: شادی کی رسومات
پھر اس میں ہندووں میں موجود شادی کی رسومات کو نمبروائز بیان کیا ہے ۔ ترجمہ کا خلاصہ یہ ہے ۔
۱۔ لگان۔ جس میں پنڈت کے زائچے سے تاریخ تہ ہوتی ہے ۔ جس میں دن وغیرہ کی پابندی ہوتی ہے۔
۲۔ بان۔ سرسوں کا تیل پیروں میں ، گھٹنوں میں وغیرہ۔۔۔۔
۳۔ روٹی۔لڑکے والے کھانا دیتے ہیں ۔عجیب بات ہے وہ شادی سے ایک دن پہلے دیتے ہیں ۔۔۔مجھے یاد پڑتا ہے کہیں پڑھا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں ولیمہ اسی طرح ہوتا تھا۔یعنی پہلے۔
۴۔سہرا بندی۔۔۔اس رسم کو باقاعدہ نمبر دیا گیا ہے ۔۔اس سے ہمارے مسلمانوں کے شادی کارڈ ذہن میں لائیں جس میں سہرا بندی کا ٹائم لکھا ہوتا ہے ۔افسوس
۵۔ سواگت ملائی۔ دلہن کی بڑی بہن پوجا کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔
۶۔ ورمالا اور پھیرے۔۔۔ہار پہنانا اور پھیرے۔۔۔
۷۔ بھوج۔ پھیروں کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے کھانا۔
۸۔ ودائی۔ رخصتی۔
۹۔کنگنا کھیلنا۔ دودھ کے بڑے برتن میں انگوٹھی ڈال کے دونوں کا اسے ڈھونڈنا۔۔۔۔
یہ میں نے مختصر ترجمہ کیا اصل اس لنک پر دیکھیں۔

https://books.google.com.pk/books?id=vsBTFEC_mdkC&pg=PA168&lpg=PA168&dq=food+from+bride's+side&source=bl&ots=RE-ISJuV7Z&sig=wNUpW7f5Wxqzgc5q0Rm2G28CEaA&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwj-gfL1ypXOAhWJuhQKHfz7CCUQ6AEIOTAF#v=onepage&q=food from bride's side&f=false
ابھی مجھے لگ رہا ہے کچھ انہوں نے بھی کم بیان کی ہیں ۔ شاید بہت اہم والی بیان کی ہیں۔
اس میں ۷ نمبر پر بھوج کی رسم ہے ۔یعنی لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھلانا۔
یہ ہے اس رسم کا ماخذ۔
اور کیسی عجیب بات ہے ۔۔بھوج۔۔ شاید ہندی ، سنسکرت وغیرہ کا لفظ ہوگا ۔۔۔لیکن
یہاں۔۔ بوجھ ۔۔سے ملتا جلتا ہے ۔ ۔اور یہ رسم لڑکی والوں پر ایکسٹرا بوجھ مسلط کیا جاتا ہے ۔
بعض علما کا اس کو مباح قرار دینا ،یا ان بعض صورتوں کا ذکر جس کو برادرم ابن داود نے بیان کیا ہے ۔ تو اس کا یہاں ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ اس کو بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ وہ ایک گھریلو ذاتی معاملہ ہے اگر خاص گھر کے لوگ دور سے آئے تو گھر میں کھانا ہو جائے ۔ اس کو اس باب میں بیان ہی نہ کریں ۔ تاکہ کوئی اس کے پیچھے چھپ کر ایک رسم کے لئے دلیل نہ لے ۔
جیسے ہمارے بعض علما بیٹی کو اپنی خوشی سے کوئی چیز دینا بھی مستحب کہتے ہیں ۔۔۔لیکن دوسری طرف جہیز کو لعنت بھی کہتے ہیں۔
اور یہ بھی کونسا ضرور ی ہے کہ لڑکی کو لایا جائے ۔ کئی دیندار علما سنے وہ خود اپنی بیٹی کو چھوڑ آتے ہیں۔
اور ہمارے دور میں تو ولیمہ جیسی سنت کے بارے میں بحث ہوتی ہے کہ آج کل اس میں اتنے مفاسد ۔۔ڈال دئے گئے ہیں کہ اس میں جانا چاہیے کہ نہیں ۔۔۔چہ جائیکہ لڑکی والوں کی دعوت۔
اس لئے میرے ناقص خیال میں اس مباح کا ترک لازمی ہے ۔تاکہ ہندووں سے مشابہت بھی نہ ہو۔ اور لڑکی والوں پر بوجھ بھی نہ پڑے ۔ واللہ اعلم۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
اور کیسی عجیب بات ہے ۔۔بھوج۔۔ شاید ہندی ، سنسکرت وغیرہ کا لفظ ہوگا ۔۔۔لیکن
یہاں۔۔ بوجھ ۔۔سے ملتا جلتا ہے ۔ ۔
لیکن بھوج اور بوجھ کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
ارے نہیں میں معنی نہیں ملا رہا ۔ یہ بالکل مختلف ہی ہیں ۔۔۔
یہ تو ویسے ہی لطیف بات کی ہے ۔
 
Top