عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,400
- ری ایکشن اسکور
- 9,990
- پوائنٹ
- 667
اسلام نے ولی سربراہ خاندان کویہ حق عطا کیا ہے کہ اگر سربراہِ خاندان اپنے علم ،تجربہ اور خیر خواہی کے تحت یہ محسوس کرتا ہے کہ فلاں فرد کےفلاں کام سے خاندانی وقار مجروح ہوگا ۔یااس فرد کودینی ودنیوی نقصان پہنچے گا تو وہ اسے اس کام سے بالجبر بھی باز رکھ سکتاہے۔ البتہ جوحقوق اسلام نے فرد کوذاتی حیثیت سے عطا کیے ہیں سربراہ کاجان بوجھ کر انہیں پورا نہ کرنا یا افراد پر ان کے حصول کے حوالے سےپابندی عائد کرنا درست نہیں اور اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ولایت ِنکاح کا مسئلہ یعنی جوان لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت او ررضامندی ضروری ہے قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ کسی نوجوان لڑکی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر گھر سے راہ ِفرار اختیار کرکے کسی عدالت میں یا کسی اور جگہ جاکر از خود کسی سے نکاح رچالے ۔ایسا نکاح باطل ہوگا نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ،رضامندی اور موجودگی ضروری ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں کے اسلام سے عملی انحراف نے جہاں شریعت کے بہت سے مسائل کوغیر اہم بنادیا ہے ،اس مسئلے سے بھی اغماض واعراض اختیار کیا جاتاہے -علاوہ ازیں ایک فقہی مکتب فکر کے غیر واضح موقف کو بھی اپنی بے راہ روی کے جواز کےلیے بنیاد بنایا جاتاہے ۔زیر نظر کتابچہ ’’نکاح میں ولی کی حیثیت‘‘محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی کاوش ہے جس میں انہو ں نے ولی کے معنی ومفہوم کو بیان کرنے کےبعد نکاح میں ولی کی اہمیت وضرورت اور بغیر ولی کے نکاح کرنے کا نقصان اور اس نکاح کی شرعی حیثیت کو قرآن وحدیث اور فقہاء ومحدثین عظام کی آراء اور اقوال کی روشنی میں آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)