• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کے مسائل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مَایَجُوْزُ عِنْدَ الْفَرْحِ​
خوشی کے موقع پر جائز امور

مردوںکو ایسی خوشبو لگانا جائزہے جس کی خوشبو نمایاںہو لیکن رنگ نمایاں نہ ہو جبکہ عورتوں کو ایسی خوشبو لگانی جائز ہے جس کا رنگ نمایاں ہولیکن خوشبو نمایاں نہ ہو۔
عَنْ اَبِیُ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ص طِیْبُ الرِّجَالِ مَا ظَہَرَ رِیْحُہٗ وَ خَفِیَ لَوْنُہٗ وَ طِیْبُ النِّسَآئِ مَا ظَہَرَ لَوْنُہٗ وَ خَفِیَ رِیْحُہٗ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی خوشبو نمایاں ہو لیکن رنگ نمایاں نہ ہو ،عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ نمایاں ہو لیکن خوشبو نمایاں نہ ہو ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
فتنہ کا ڈر نہ ہو تو چھوٹی بچیاں خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ ایسے اشعار پڑھ سکتی ہیں جو کفر و شرک ،فسق و فجور ،عورت کے حسن و جمال اور جنسی جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے نہ ہوں۔
عَنِ الرَّبِیْعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : جَائَ النَّبِیُّ ا یَدْخُلُ حِیْنَ بُنِیَ عَلَیَّ فَجَلَسَ عَلٰی فِرَاشِیْ کَمَجْلَسِکَ مِنِّیْ فَجَعَلَتْ جُوَیْرِیَاتٌ لَنَا یَضْرِبْنَ بِالدَّفِّ وَ یُنْدِبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِیْ یَوْمَ بَدْرٍ اِذْ قَالَتْ اِحْدَاہُنَّ وَ فِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِیْ غَدٍ فَقَالَ ((دَعِیْ ہٰذِہٖ وَ قُوْلِیْ بِالَّذِیْ کُنْتِ تَقُوْلِیْنَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ربیع بنت معوذ rکہتی ہیں جب میرا نکاح ہوا تو نبی اکرمﷺتشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جیسے تم (یعنی راوی )بیٹھے ہو اس وقت ہماری چند بچیاں دف بجا رہی تھیں اور بدر کے شہید ہونے والے بزرگوں کا (اشعار میں )ذکر کر رہی تھیں ان بچیوں میں سے ایک نے کہا ’’ہمارے درمیان ایسا نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے ‘‘آپ ﷺ نے (یہ سن کر )ارشاد فرمایا ’’یہ مصرعہ چھوڑ دو جو پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
خواتین کے لئے سونے کا زیور اور ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((اُحِلَّ الذَّہَبُ وَ الْحَرِیْرُ لِإِنَاثَاتِ اُمَّتِیْ وَ حُرِّمَ عَلٰی ذُکُوْرِہَا )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لئے جائز کیا گیا ہے جب کہ مردوں کے لئے حرام ٹھہرایا گیا ہے ۔‘‘اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
سفید بالوں میں مہندی یا وسمہ لگانا جائز ہے۔
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِنَّ اَحْسَنَ مَا غُیِّرَ بِہٖ ہٰذَا الثَّیِّبُ الْحَنَّائُ وَالْکَتَمُ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ وَابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا ’’بڑھاپے (کے سفید بالوں )کو بدلنے کے لئے مہندی اور وسمہ لگانا بہترین چیز ہے ۔‘‘اسے ابو دائود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مَایَجُوْزُ عِنْدَ الْفَرْحِ​
خوشی کے موقع پر جائز امور

مردوںکو ایسی خوشبو لگانا جائزہے جس کی خوشبو نمایاں ہو لیکن رنگ نمایاں نہ ہو جبکہ عورتوں کو ایسی خوشبو لگانی جائز ہے جس کا رنگ نمایاں ہولیکن خوشبو نمایاں نہ ہو۔
عَنْ اَبِیُ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ص طِیْبُ الرِّجَالِ مَا ظَہَرَ رِیْحُہٗ وَ خَفِیَ لَوْنُہٗ وَ طِیْبُ النِّسَآئِ مَا ظَہَرَ لَوْنُہٗ وَ خَفِیَ رِیْحُہٗ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی خوشبو نمایاں ہو لیکن رنگ نمایاں نہ ہو ،عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ نمایاں ہو لیکن خوشبو نمایاں نہ ہو ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
فتنہ کا ڈر نہ ہو تو چھوٹی بچیاں خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ ایسے اشعار پڑھ سکتی ہیں جو کفر و شرک ،فسق و فجور ،عورت کے حسن و جمال اور جنسی جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے نہ ہوں۔
عَنِ الرَّبِیْعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : جَائَ النَّبِیُّ ا یَدْخُلُ حِیْنَ بُنِیَ عَلَیَّ فَجَلَسَ عَلٰی فِرَاشِیْ کَمَجْلَسِکَ مِنِّیْ فَجَعَلَتْ جُوَیْرِیَاتٌ لَنَا یَضْرِبْنَ بِالدَّفِّ وَ یُنْدِبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِیْ یَوْمَ بَدْرٍ اِذْ قَالَتْ اِحْدَاہُنَّ وَ فِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِیْ غَدٍ فَقَالَ ((دَعِیْ ہٰذِہٖ وَ قُوْلِیْ بِالَّذِیْ کُنْتِ تَقُوْلِیْنَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں جب میرا نکاح ہوا تو نبی اکرمﷺتشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جیسے تم (یعنی راوی )بیٹھے ہو اس وقت ہماری چند بچیاں دف بجا رہی تھیں اور بدر کے شہید ہونے والے بزرگوں کا (اشعار میں )ذکر کر رہی تھیں ان بچیوں میں سے ایک نے کہا ’’ہمارے درمیان ایسا نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے ‘‘آپ ﷺ نے (یہ سن کر )ارشاد فرمایا ’’یہ مصرعہ چھوڑ دو جو پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
خواتین کے لئے سونے کا زیور اور ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((اُحِلَّ الذَّہَبُ وَ الْحَرِیْرُ لِإِنَاثَاتِ اُمَّتِیْ وَ حُرِّمَ عَلٰی ذُکُوْرِہَا )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لئے جائز کیا گیا ہے جب کہ مردوں کے لئے حرام ٹھہرایا گیا ہے ۔‘‘اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
سفید بالوں میں مہندی یا وسمہ لگانا جائز ہے۔
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِنَّ اَحْسَنَ مَا غُیِّرَ بِہٖ ہٰذَا الثَّیِّبُ الْحَنَّائُ وَالْکَتَمُ)) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ وَابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا ’’بڑھاپے (کے سفید بالوں )کو بدلنے کے لئے مہندی اور وسمہ لگانا بہترین چیز ہے ۔‘‘اسے ابو دائود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مَا لاَ یَجُوْزُ عِنْدَ الْفَرْح​

خوشی کے موقع پرناجائز امور

بالوں میں جوڑا یا وگ لگانے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے معاملے میں عورت پر شوہر کی اطاعت جائز نہیں۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ امْرْأَةً مِنَ الْاَنْصَارِ زَوَّجَتْ اِبْنَتَہَا فَتَمَعَّطَ شَعْرُ رَأْسِہَا فَجَائَ تْ اِلَی النَّبِِیِّ ا فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہ فَقَالَتْ اِنَّ زَوْجَہَا أَمَرَنِیْ اَنْ اَصِلَ فِیْ شَعْرِہَا فَقَالَ : لاَ ، اِنَّہ قَدْ لُعِنَ الْمُؤْصِلاَتُ ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک انصاری عورت نے اپنی بیٹی کانکاح کیا اس کے سر کے بال (بیماری کی وجہ سے)گر چکے تھے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوئی اور عرض کیا ''میرے شوہر نے حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کے بالوں میں جوڑا لگائوں (سو کیا حکم ہے؟'')آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''ایسا نہ کرنا بالوں میں جوڑا لگانے والیوں پر لعنت کی گئی ہے ۔''اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
سونے یا چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ ڈالتا ہے۔
عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَنْ شَرِبَ فِیْ اِنَائٍ مِنْ ذَہَبٍ اَوْ فِضَّةٍ فَاِنَّمَا یُجَرْجِرُ فِیْ بَطْنِہ نَارًا مِنْ جَہَنَّمَ ۔ رَوَاہُ مُسْلِم
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جس نے سونے یا چاندی کے برتن میں (کھایا )پیا اس نے اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ اتاری ۔''اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
سونے کی انگوٹھی پہننے والا مرد اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ پہنتا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا رَاٰی خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ فِیْ یَدِ رَجُلٍ فَنَزَعَہ فَطَرَحَہ وَ قَالَ ((یَعْمِدُ اَحَدُکُمْ اِلٰی جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَیَجْعَلُہَا فِیْ یَدِہ )) رَوَاہُ مُسْلِم
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی اتاری اور دور پھینک دی پھر فرمایا ''تم میں سے کوئی شخص آگ کے انگارے ہاتھ میں لینا چاہتاہے اور وہ (سونے کی )انگوٹھی پہن لیتاہے ۔''اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
ٹخنوں سے نیچے تک پہنا ہوا کپڑا مرد کو جہنم میں لے جائے گا۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ ص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((مَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الِْزَارِ فِی النَّارِ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جو کپڑا ٹخنے سے نیچا ہو وہ دوزخ میں جائے گا ۔''اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
دوسروں کے مقابلے میں اپنی بڑائی اور فخر جتلانے کی سزا۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ (( بَیْنَمَا رَجُل یَتَبَخْتَرُ یَمْشِیْ فِیْ بُرْدَیْہِ قَدْ اَعْجَبَتْہُ نَفْسُہ فَخَسَفَ اللّٰہُ بِہِ الْاَرْضَ فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِیْہَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ )) رَوَاہُ مُسْلِم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ایک شخص دو چادریں پہن کر اکڑ کر چل رہا تھا اور اپنے جی میں (ان قیمتی چادروں پر )اترا رہا تھا ،اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ اب قیامت تک مسلسل زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے ۔''اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا حرام ہے
وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر 111کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
مشین کے ساتھ جسم پر بیل بوٹے بنوانے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہے۔
خوبصورتی کے لئے چہرے سے بال اکھاڑنے یا اکھڑوانے والی عورت پر اللہ کی لعنت ہے۔
خوبصورتی کے لئے دانتوں کو کشادہ کرنے یا کروانے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ص لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، مَالِیَ لاَ أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ النَّبِیُّا ؟ وَ ہُوَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ ( مَا اٰتُکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے گوندنے اور گندوانے والی عورتوں پر، چہرے سے بال اکھاڑنے والی عورتوں پر ،خوبصورتی کے لئے دانت کشادہ کرنے یا کروانے والی عورتوں پر لعنت کی ہے پھر کیا وجہ ہے جن عورتوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ان پر میں لعنت نہ کروں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت اللہ کی لعنت ہونے کی دلیل )قرآن مجید کی یہ آیت ہے ''رسول جو کچھ تمہیں دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز آ جائو ۔''(سور ہ حشر، آیت نمبر7 )اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : مہندی سے خواتین اپنے ہاتھوں پر بیل بوٹے بنا سکتی ہیں۔
قیامت کے روز سخت ترین عذاب تصویریں بنانے والوں کو ہو گا۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (بْنِ عَبَّاسٍ) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا یَقُوْلُ ((اِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللّٰہِ الْمُصَوِّرُوْنَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب تصویر بنانے والوں کو ہو گا ۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
ایساتنگ لباس جس سے جسم کے حصے نمایاں ہوتے ہوں یا ایسا باریک لباس جس سے جسم نظر آئے ،پہننے والی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((صِنْفَانِ مِنْ اَہْلِ النَّارِ لَمْ اَرَہُمَا قَوْم مِنْہُمْ سِیَاط کَأْذُنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہِمَا النَّاسَ وَ نِسَآئ کَأْسِیَات عَارِیَات مَمِیْلاَت مَائِلاَت رُؤُوْسُہُنَّ کَأَسْنُمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَ لاَ یَجِدْنَ رِیْحَہَا وَ اِنَّ رِیْحَہَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ کَذَا وَ کَذَا)) رَوَاہُ مُسْلِم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جہنمیوں کی دو قسمیں میں نے (ابھی تک )نہیں دیکھیں ان میں سے ایک وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیل کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے دوسری قسم ان عورتوں کی جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہیں،سیدھی راہ سے گمراہ ہونے والی اور دوسروں کو گمراہ کرنے والی ہیں ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ٹیڑھے ہوئے ہیں، ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو لمبے فاصلے سے آتی ہے ۔''اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا الْمُتَشِّبِہَاتِ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَآئِ وَ الْمُتَشَبِّہِیْنَ بِالنِّسَآئِ مِنَ الرِّجَالِ ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَةَ وَالتِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں میں سے مردوں کے ساتھ مشابہت کرنے والی عورتوں اور مردوں میں سے عورتوں کے ساتھ مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے ۔اسے احمد ،ابودائود، ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
شراب خریدنے ،پینے اور پلانے والے سب افراد پر لعنت کی گئی ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لُعِنَتِ الْخَمْرُ عَلٰی عَشْرَةَ اَوْجُہٍ بِعَیْنِہَا وَ عَاصِرِہَا وَ مُعْتَصِرِہَا وَبَائِعِہَا وَ مُبْتَاعِہَا وَ حَامِلہِاَ وَالْمَحْمُوْلَةِ اِلَیْہِ وَ آکِلِ ثَمَنِہَا وَ شَارِبِہَا وَ سَاقِیْہَا )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَةَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''شراب کی وجہ سے دس آدمیوں پر لعنت نازل ہوتی ہے۔1حاصل کرنے والے پر2کشید کرنے والے پر3کشید کروانے والے پر 4بیچنے والے پر5خریدنے والے پر6اٹھا کر لے جانے والے پر7جس کے لئے اٹھا کر لے جائی جائے8شراب کی قیمت کھانے والے پر9شراب پینے والے پراور0شراب پلانے والے پر۔'' اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عورتوں کو خوشبو لگا کر مردوں کے درمیان سے گزرنا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ مُوْسَی اْلاَشْعَرِیِّ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَیُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلٰی قَوْمٍ لِیَجِدُوْا مِنْ رِیْحِہَا فَہِیَ زَانِیَة )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (حسن)
حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' جو عورت عطر لگائے اور اس لئے لوگوں کے پاس سے گزرے تا کہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں وہ زانیہ ہے۔'' اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
داڑھی منڈانا منع ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَمَرَ بِاِحْفَائِ الشَّوَارِبِ وَ اِعْفَائِ اللُّحٰی۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کتروانے کا حکم دیا ہے ۔اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
چالیس یوم سے زیادہ ناخن بڑھانا منع ہے۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ص عَنِ النَّبِیِّ ا اَنَّہ وَقَّتَ لَہُمْ فِیْ کُلِّ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً تَقْلِیْمَ الْاَظَْفَارِ وَ اَخْذَ الشَّارِبِ وَ حَلْقَ الْعَانَةِ ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ناخن کاٹنے مونچھیں کتروانے اور زیرناف بال مونڈنے کے لئے چالیس دنوں کی مدت مقرر فرمائی ہے ۔اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عورتوں کا مردوں کے سامنے بے پردہ آنا منع ہے۔
وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر102کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
عورتوں کا پائوں میں گھنگھرو باندھنا منع ہے۔
عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا زَوْجِ النَّبِیِّ ا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَقُوْلُ ((لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَ ئِکَةُ بَیْتًا فِیْہِ جُلْجُل وَ لاَ جَرَس وَ لاَ تَصْحَبُ الْمَلاَ ئِکَةُ رُفْقَةَ فِیْہَا جَرَس)) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (حسن)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ'' جس گھر میں گھنگھرو اور گھنٹے ہوں اس میں (رحمت کے )فرشتے داخل نہیں ہوتے نہ ہی فرشتے ان لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں جو گھنٹے استعمال کرتے ہیں ۔''اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
کفر و شرک،فسق و فجور،عورت کے حسن و جمال اور جنسی جذبات کو بھڑکانے والے اشعار پڑھنا یا سننا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ص قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ نَسِیْرُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا بِالْعَرْجِ اِذْ عَرَضَ شَاعِر یُنْشِدُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((خُذُوا الشَّیْطَانَ اَوْ اَمْسِکُوا الشَّیْطَانَ لَأَنْ یَمْتَلِیَ جَوْفُ رَجُلٍ قَیْحًا خَیْر لَہ مِنْ اَنْ یَمْتَلِیَ شِعْرًا)) رَوَاہُ مُسْلِم
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ کے ساتھ عرج کے مقام (مدینہ منورہ سے تقریبا ایک سو کلو میڑ کے فاصلہ پر )سے گزر رہے تھے کہ ایک شاعر اشعار پڑھتے ہوئے سامنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا''پکڑو اس شیطان کو (یا فرمایا روکو اس شیطان کو )پھر فرمایا (ایسے گندے )اشعار منہ میں ڈالنے کی بجائے پیپ ڈالنا زیادہ بہتر ہے ۔''اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
مردوں اور عورتوں کو کالے رنگ کا خضاب لگانا منع ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((یَکُوْنُ قَوْم یَخْضِبُوْنَ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ بِالسَّوَادِ ، کَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ ، لاَ یَرِیْحُوْنَ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ النِّسَائِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''آخری زمانے میں کچھ لوگ کبوتر کے سینے جیسا سیاہ رنگ کا خضاب لگائیں گے ایسے لوگ جنت کی خوشبو تک نہ پا سکیں گے ۔''اسے ابودائود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
عورتوں اور مردوکی مخلوط مجالس کا اہتمام کرنا منع ہے۔
موسیقی اور گانابجانا،سننا کانوں کازناہے۔

غیرمحرم مردوں ،عورتوں کا ایک دوسرے سے بات چیت کرنا،ایک دوسرے کو چھونا اور آپس میں گھلنا ملنا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَةَص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((کُتِبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہ مِنَ الزِّنَا مُدْرِک لاَ مَحَالَةَ فَالْعَیْنَانِ زِنَاہُمَا النَّظْرُ ، وَالْاُذُنَانِ زِنَاہُمَا الْاِسْتِمَاعُ ، وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلاَمُ ، وَ الْیَدُ زِنَاہَا الْبَطْشُ ، وَالرِّجْلُ زِنَاہَا الْخُطَی ، وَالْقَلْبُ یَہْوِیْ وَ یَتَمَنّٰی وَ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ الْفَرْجُ وَیُکَذِّبُہ )) رَوَاہُ مُسْلِم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (''اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے) ابن آدم کا زنا سے حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ بہر صورت کر کے رہے گا (کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم کبھی غلط نہیں ہو سکتا)آنکھوں کا زنا (غیر محرم کو دیکھنا )ہے کانوں کا زنا سننا ہے ،زبان کا زنا بات کرنا ہے ،ہاتھ کا زناپکڑنا (اور چھونا )ہے پائوں کا زنا چل کر جانا ہے ،دل کا زنا خواہش کرنا ہے ۔شرم گاہ ان باتوں کو یاتو سچ کر دکھاتی ہے یا جھوٹ ۔''اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
مو سیقی ،گانا بجانا اور ناچ رنگ کرنے والوں پر یا عذاب آئے گا یا اللہ! انہیں بندر اور سور بنا دے گا۔
عَنْ اَبِیْ مَالِکِ نِ الْاَشْعَرِیِّ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لَیَشْرَبَنَّ نَاس مِنْ اُمَّتِیْ الْخَمْرَ یُسَمُّوْنَہَا بِغَیْرِ اِسْمِہَا یُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوْسِہِمْ بِالْمُعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ یَخْسِفُ اللّٰہُ بِہِمُ الْاَرْضَ وَ یَجْعَلُ مِنْہُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیْرَ)) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَةَ (صحیح)
حضرت مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے لیکن اس کا نام کچھ اور رکھ لیں گے ان کے ہاں آلات موسیقی (طبلہ سرنگی وغیرہ )بجیں گے مغنیات گانے گائیں گی اللہ انہیں زمیں میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا۔''اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((فِیْ ہٰذِہِ الْاُمَّةِ خَسْف وَ مَسْخ وَ قَذْف )) فَقَالَ رَجُل مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! مَتٰی ذٰلِکَ ؟ قَالَ (( اِذَا ظَہَرَتِ الْقَیْنَاتِ وَالْمُعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اس امت کے لوگوں پر زمین میں دھنسانے ،شکلیں مسخ ہونے اور (آسمان سے)پتھروں کی بارش برسنے کا عذاب آئے گا۔'' مسلمانوں میں سے کسی آدمی نے عرض کیا ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کب ہوگا؟''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جب گانے بجانے والی عورتیں ظاہر ہوں گی ،آلات موسیقی عام استعمال ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔'' اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

نکاح کے متعلق وہ اُمور جو سنت سے ثابت نہیں

1. نکاح سے قبل منگنی کی رسم اداکرنا۔
2. لڑکے والوںکا لڑکی والوں کے لئے''بد''لے کرجانا۔
3. منگنی کے وقت لڑکے کو سونے کی انگوٹھی پہنانا ۔
4. مہندی اور ہلدی کی رسم اداکرنا۔
وضاحت : دولہن کو مہندی لگاناجائز ہے لیکن اس کے لئے اجتماع کرنا اور گانے بجانے کا اجتماع کرنا جائزنہیں۔
5. لڑکے اور لڑکی کو سلامیاں دینا۔
6. نکاح سے قبل منگیتر کو محرم سمجھنا۔
7. 32 روپے حق مہر مقرر کرنانیزمردکی حیثیت سے بڑھ کر حق مہر مقرر کرنا۔
8. بیٹی کو گھر بنانے کے لئے (جہیز) سامان مہیا کرنا۔
9. جہیز کا مطالبہ کرنا۔
10. دولہا کو سہراباندھنا۔
11. بارات میں کثیر تعداد لے جانا۔
12. بارات کے ساتھ بینڈ باجے لے جانا۔
13. خطبہ نکاح سے قبل لڑکے اور لڑکی کو کلمہ شہادت پڑھوانا۔
14. نکاح کے بعد حاضرین مجلس میں چھوہارے لٹانا۔
15. دولہا کے جوتے چرانااور پیسے لے کر واپس آنا۔
16. لڑکی کو قرآن کے سائے میںگھرسے رخصت کرنا۔
17. منہ دکھائی اور گود بھرائی کی رسم اداکرنا۔
18. مائیاں پڑنے کی رسم اداکرنا۔
19. محرم اور عید کے مہینوںمیںشادی نہ کرنا۔
20. اپنی حیثیت سے بڑھ کر ولیمہ کی دعوت کرنا۔
21. یونین کونسل میں رجسٹریشن کے بغیر نکاح(یاطلاق)کو غیر موثر سمجھنا۔
22. ناچ گانے کا اہتمام کرنا۔
23. مردوں،عورتوںکی الگ الگ یا مخلوط محفلوںکی تصاویربنانااور ویڈیوفلمیں تیارکرنا۔
24. قرآن مجید سے نکاح کرنا۔(1)
25. نکاح کے وقت مسجد کے لئے کچھ روپے وصول کرنا۔
26. لڑکے والوں سے پیسے لے کر ملازموںکو''لاگ''دینا۔
27. طلاق کی نیت سے نکاح کرنا۔
28. دوران حمل نکاح کرنا۔
29. نکاح ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یادرہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک صوبے،سندھ میںجاگیرداراور وڈیرے آج بھی وہی سوچ رکھتے ہیںجوچودہ سو سال پہلے زمانہ جاہلیت میں عربوں میں پائی جاتی تھی جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں ذکر کیاہے''وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٍ¡یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَا بُشِّرَ بِہ اَیُمْسِکُہ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہ فِیْ التُّرَابِ'' ''جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتاہے لوگوں سے چھپتا پھرتاہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے سوچتاہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لئے رہے یا مٹی میں دبادے؟(سورہ نحل،آیت نمبر59-58)
چنانچہ وڈیرے اور جاگیرداراپنی جاگیروں کو تحفظ دینے کے لئے اور کسی کو اپنا داماد بنانے کی ''ذلت''سے بچنے کے لئے اپنی بیٹیوں کا نکاح قرآن سے کردیتے ہیں جس کے لئے لڑکی کو باقاعدہ ہار سنگھار کرکے سرخ عروسی جوڑا پہنایا جاتاہے،مہندی لگائی جاتی ہے،گیت گائے جاتے ہیں لڑکی کا گھونگھٹ نکال کر سہیلیوں کے جھرمٹ میں بٹھایا جاتا ہے اور اس کے برابر ریشمی جزداں میں سجاہوا قرآن رحل پر رکھا جاتاہے''مولوی صاحب''کچھ الفاظ پڑھتے ہیں تب بڑی بوڑھیاں قرآن اٹھا کر دلہن کی گود میں رکھ دیتی ہیں دلہن قرآن کو بوسہ دیتی ہے اور اقرار کرتی ہے کہ اس نے اپنا حق (نکاح) قرآن کو بخش دیا۔اس پر حاضرین مجلس ظالم باپ اور مظلوم بیٹی کو مبارکباد دیتے ہیں،اپنا حق نکاح قرآن کو بخشنے کے بعد اس لڑکی کا نکاح کسی مرد سے حرام پاتاہے دلہن لڑکی سے''بی بی''بن کر روحانیت کے درجہ پر فائز ہوجاتی ہے یوں جاگیر داراپنی جاگیریں اور ''عزت''تو بچالیتاہے لیکن بیٹی کے ارمانوں کو ہمیشہ کے لئے درگور کردیتاہے ظلم کی ریت وہی ہے صرف طریق واردات بدلاہے۔ عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہفت روزہ تکبیر29جون،1995ء قرآن سے شادی کی ایک ظالمانہ رسم)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اَلْاَدْعِیَۃُ فِی الزِّوَاجِ​
نکاح سے متعلق دعائیں

نکاح کے بعد زوجین کو یہ دعا دینی چاہئے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص اَنَّ النَّبِیَّ ا کَانَ اِذَا رَفَّأَ الْإِنْسَانُ اِذَا تَزَوَّجَ قَالَ ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ وَ بَارِکْ عَلَیْکُمَا وَ جَمَعَ بَیْنَکُمَا فِیْ خَیْرٍ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنکاح کرنے والے آدمی کو ان الفاظ سے دعا دیتے’’اللہ تجھے اور تم دونوں کو برکت عطا فرمائے اور تمہارے درمیان بھلائی پر اتفاق پیدا فرمائے۔‘‘اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
پہلی ملاقات پر شوہر کو بیوی کے لئے درج ذیل دعا مانگنی چاہئے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ ((اِذَا تَزَوَّجَ اَحَدُکُمْ اِمْرَأَۃً اَوْ اِشْتَرٰی خَادِمًا فَلْیَقُلْ ] أَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَہَا وَ خَیْرَ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ [ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (حسن)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا’’جب تم میں سے کوئی آدمی عورت سے نکاح کرے یا غلام خریدے تو یوں دعا کرے ’’اے اللہ!میں تجھ سے اس(عورت)کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اورجس طبیعت پر اس(عورت)کو پیدا کیا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتاہوں اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس(عورت)کے شر سے اور جس طبیعت پراس کو پیدا کیا گیا ہے اس کے شر سے۔‘‘ اسے ابودائود نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
صِفَاتُ الزَّوْجِ الْاَمْثِلَ​
مثالی شوہر کی خوبیاں

بیوی سے حسن سلوک کرنے والا مرد بہترین شوہر ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَہْلِیْ وَاِذَا مَاتَ صَاحِبُکُمْ فَدَعَوْہُ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’ ’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے اچھا ہو اور مَیں تم سب میں سے اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہوں ۔جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو اس کی بری باتیں کرنا چھوڑ دو۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِلنِّسَائِ)) رَوَاہُ الْحَاکِمُ (صحیح)
حضرت ابن عباس w کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لئے اچھا ہے۔‘‘اسے حاکم نے روایت کیا ہے۔
بیوی کو نہ مارنے والا شخص بہترین شوہر ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا خَادِمًا وَ لاَ اِمْرَأَۃً قَطُّ ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ (صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں’’ رسول اللہﷺنے کسی خادم یا عورت کو کبھی نہیں مارا۔‘‘اسے ابوداؤد نے روایت کیاہے۔
آزمائش اور مصیبت میں صبر کرنے والا شخص بہترین شوہر ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((مَنِ ابْتُلِیَ بِشَیْئٍ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَیْہِنَّ کُنَّ لَہٗ حِجَابًا مِنَ النَّارِ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص بیٹیوں کی وجہ سے آزمایا گیا اور اس نے ان پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں اس(باپ)کے لئے آگ سے رکاوٹ ہوں گی۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
بیٹیوں کو دینی تعلیم دلوانے اور اچھی تربیت کرنے والا شخص بہترین شوہر ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((مَنِ ابْتُلِیَ مِنَ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ فَاَحْسَنَ اِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہٗ سِتْرًا مِنَ النَّارِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’جو شخص بیٹیوں کے ساتھ آزمایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ نیکی کی (یعنی اچھی تعلیم و تربیت کی )وہ اس شخص کے لئے آگ سے رکاوٹ ہوں گی۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیاہے
بیوی کے معاملے میں در گزر کرنے والا، نرمی سے کام لینے والا، نیز بیوی کے حق میں خیر اور بھلائی کی بات قبول کرنے والا شخص اچھا شوہر ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَإِذَا شَہِدَ أَمْرًا فَلْیَتَکَلَّمْ بِخَیْرٍ اَوْ لِیَسْکُتْ وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ خَیْرًا فَاِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضَلَعٍ وَ اِنَّ اَعْوَجَ شَیْئٍ فِی الضَّلَعِ اَعْلاَ ہُ اِنْ ذَہَبْتَ تُقِیْمُہٗ کَسَرْتَہٗ وَ اِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ اَعْوَجَ اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ خَیْرًا)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے جب کوئی معاملہ درپیش ہو تو بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے ۔لوگو! عورتوں کے حق میں خیر اور بھلائی کی بات قبول کرو (یاد رکھو !)عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں سے سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر کی پسلی ہے۔(یعنی جتنے اونچے خاندان کی عورت ہو گی اتنی زیادہ ٹیڑھی ہو گی )اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ ڈالو گے اور اگر ویسے ہی چھوڑ دیا تو ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رہے گی لہٰذا ان کے حق میں خیر اور بھلائی کی بات قبول کرو۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
اہل و عیال پر خوشدلی سے خرچ کرنا اچھے شوہر کی صفت ہے۔
عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِ الْاَنْصَارِیِّ ص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((نَفْقَۃُ الرَّجُلِ عَلٰی اَہْلِہٖ صَدَقَۃٌ)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا’’آدمی کا اپنے اہل پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیاہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((دِیْنَارٌ اَنْفَقْتَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ دِیْنَارٌ اَنْفَقْتَہٗ فِیْ رَقَبَۃٍ وَ دِیْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِہٖ عَلٰی مِسْکِیْنٍ وَ دِیْنَارٌ اَنْفَقْتَہٗ عَلٰی اَہْلِکَ اَعْظَمُہَا اَجْرًا اَلَّذِیْ اَنْفَقْتَہٗ عَلٰی اَہْلِکَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ (اگر )ایک دینار تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا،ایک غلام کو آزاد کرانے میں خرچ کیا،ایک مسکین پر صدقہ کیا اور ایک اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا ، تو اجر کے لحاظ سے وہ دینار سب سے افضل ہے جو تم نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانے والا شوہر بہترین شوہر ہے۔
عَنِ الْاَسْوَدٍ ص قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا مَا کَانَ النَّبِیُّ ا یَصْنَعُ فِیْ اَہْلِہٖ قَالَتْ کَانَ فِیْ مِہْنَۃِ اَہْلِہٖ فَاِذَا حَضَرِتِ الصَّلاَۃُ قَامَ اِلَی الصَّلاَۃِ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا’ ’رسول اکرم ﷺ! گھر میں کیا کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’آپ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے ہیں اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیاہے۔
وضاحت : دوسری روایت میں ہے کہ آپ بازار سے سودہ سلف خرید لایا کرتے اور اپنا جوتا وغیرہ خود مرمت فرما لیا کرتے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
أَہَمِیَّۃُ الزَّوْجَۃِ الصَّالِحَۃِ​
نیک بیوی کی اہمیت

رفیقہ حیات کے انتخاب کے لئے زبردست احتیاط کی ضرورت ہے۔
عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ النَّبِیَّ ا قَالَ (( مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَلدُّنْیَا حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ وَ اِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِیْہَا فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَاتَّقُوا النِّسَائَ فَاِنَّ اَوَّلَ فِتْنَۃِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کَانَتْ فِی النِّسَائِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’دنیا بڑی میٹھی اور سر سبز (یعنی پُر کشش )ہے بے شک اللہ تعالیٰ نے تم کو (زمین میں )خلیفہ بنایا ہے تا کہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو پس (اس میٹھی اور پر کشش )دنیا سے بچ کر رہو اور عورتوں سے بھی محتاط رہو کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورت کی وجہ سے پیدا ہوا۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
نیک ،پرہیزگار اور وفادار بیوی دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ (( اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا أَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ دنیا فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
نیک بیوی خوش بختی کی علامت ہے اور بری بیوی بدبختی کی علامت ہے۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَرْبَعٌ مِنَ السَّعَادَۃِ أَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ وَالْجَارُ الصَّالِحُ وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیْئُ وَاَرْبَعٌ مِنَ الشِّقَائِ أَلْمَرْأَۃُ السُّوْئُ وَالْجَارُ السُّوْئُ اَلْمَرْکَبُ السُّوْئُ وَالْمَسْکَنُ الضَّیِّقُ )) رَوَاہُ اَحْمَدُ وَابْنُ حَبَّانَ (حسن)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا ’’چار چیزیں خوش بختی کی علامت ہیں نیک بیوی کھلا گھر نیک ہمسایہ اچھی سواری اور چار چیزیں بدبختی کی علامت ہیں بری بیوی برا ہمسایہ بری سواری تنگ گھر۔‘‘اسے احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
ناقص العقل ہونے کے باوجود عورتیں اچھے بھلے مردوں کی مت مار دیتی ہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا اَنَّہٗ قَالَ (( یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ ! تَصَدَّقْنَ وَ اَکْثِرْنَ مِنَ الْاِسْتَغْفَارِ فَاِنِّیْ رَأَیْتُکُنَّ اَکْثَرَ أَہْلِ النَّارِ)) فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ ، جَزْلَۃٌ وَ مَا لَنَا ، یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! اَکْثَرُ اَہْلِ النَّارِ ؟ قَالَ (( تُکْثِرْنَ اللَّعَنَ وَ تَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ ، مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَ دِیْنٍ اَغْلَبَ لِذِیْ لُبٍّ مِنْکُنَّ )) قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! مَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَ الدِّیْنِ؟ قَالَ (( اَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ فَشَہَادَۃُ امْرَأَتَیْنِ تَعْدِلُ شَہَادَۃَ رَجُلٍ ، فَہٰذَا مِنْ نُقْصَانِ الْعَقْلِ وَ تَمْکُثُ اللَّیَالِیَ مَا تُصَلِّیْ وَ تُفْطِرُ فِیْ رَمَضَانَ فَہٰذَا مِنْ نُقْصَانِ الدِّیْنُ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’عورتو!صدقہ کیا کرو اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو میں نے جہنم میں عورتوں کو زیادہ دیکھا ہے۔‘‘عورتوں میں سے ایک سمجھ دار عورت نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ!اس کی کیا وجہ ہے کہ جہنم میں عورتیں زیادہ ہیں؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم لعنت زیادہ بھیجتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو ۔ناقص العقل اور ناقص الدین ہونے کے باوجود میں نے تم سے زیادہ مردوں کی عقل کھونے والا کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘اس عورت نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ!عورت میں عقل اور دین کی کمی کونسی ہے ؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عقل کی کمی (کا ثبوت )تو یہ ہے کہ (اللہ تعالیٰ نے )دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر رکھی ہے اور دین میں کمی(کا ثبوت )یہ ہے کہ تم (ہر ماہ )چند دن نماز نہیں پڑھ سکتیں اور رمضان کے مہینے میں کچھ روزے بھی نہیں رکھ سکتیں۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((اِنَّ اَقَلَّ سَکَنِی الْجَنَّۃِ النِّسَائُ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جنتیوں میں عورتوں کی تعداد بہت کم ہے۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
بیوی انسان کے لئے سخت آزمائش ہے۔
عَنْ حُذَیْفَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِنَّ فِیْ مَالِ الرَّجُلِ فِتْنَۃً وَ فِیْ زَوْجَتِہٖ فِتْنَۃً وَ وَلَدِہٖ )) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (صحیح)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’آدمی کے لئے اس کے مال و اولاد اور اس کی بیوی میں فتنہ ہے۔‘‘اسے طبرانی نے روایت کیا ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
صِفَاتُ الزَّوْجَۃِ الْاَمْثِلَۃِ​
مثالی بیوی کی خوبیاں

کنواری ،شریں گفتار ،خوش مزاج ،قناعت پسند ،شوہر کا دل لبھانے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت بہترین رفیقہ حیات ہے۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَالِمِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ عَدِیْمِ بْنِ سَاعَدَۃِ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ ث قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((عَلَیْکُمْ بِالْأَبْکَارِ فَاِنَّہُمْ اَعْذَبُ اَفْوَاہًا وَاَنْتَقُ اَرْحَامًا اَرْضٰی بِالْیَسِیْرِ)) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عبدالرحمٰن بن سالم بن عتبہ بن عدیم بن ساعدہ انصاری اپنے باپ سے اور اس نے اپنے دادا سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’کنواری عورتوں سے نکاح کرو کہ وہ شیریں گفتار ہوتی ہیں زیادہ بچے جنتی ہیں اور تھوڑی چیز پر جلد خوش ہو جاتی ہیں۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
عَنْ جَابِرٍص قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ا فِیْ غَزْوَۃٍ فَلَمَّا قَفَلْنَا کُنَّا قَرِیْبًا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ، قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! اِنِّیْ حَدِیْثُ عَہْدٍ بِعُرْسٍ ، قَالَ ((تَزَوَّجْتَ )) قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ ((أَ بِکْرًا اَمْ ثَیِّبًا؟)) قُلْتُ : بَلْ ثَیِّبًا ، قَالَ ((فَہَلاًّ بِکْرًا تُلاَعِبُہَا وَ تُلاَعِبُکَ )) مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم ایک غزوہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے جب ہم واپس ہوئے تو مدینہ کے قریب میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ!میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔‘‘آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ’’کیا تو نے شادی کی ہے؟‘‘میں نے عرض کیا ’’ہاں!‘‘آپ ﷺ نے فرمایا ’’کنواری سے یا بیوہ سے ؟‘‘میں نے عرض کیا ’’بیوہ سے۔‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کنواری سے شادی کیوں نہیں کی وہ تیرے ساتھ کھیلتی اور تو اس کے ساتھ کھیلتا ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال اور اس کی عزت کی محافظ نیز اپنے شوہر کی اطاعت گزار اور وفادار خاتون بہترین بیوی ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلاَمٍ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((خَیْرُ النِّسَائِ مَنْ تَسُرُّکَ اِذَا بَصَرْتَ وَ تُطِیْعُکَ اِذَا اَمَرْتَ وَ تَحْفَظُ غَیْبَتَکَ فِیْ نَفْسِہَا وَ مَالَکَ )) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بہترین بیوی وہ ہے جس کی طرف تو دیکھے تو تجھے خوش کر دے اور جب تو کسی بات کاحکم دے تو بجا لائے اور تیری عدم موجودگی میں تیرے مال اور اپنی ذات کی حفاظت کرے۔‘‘اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
اولاد سے محبت کرنے والی اور اپنے شوہر کے تمام معاملات کی امین خاتون بہترین بیوی ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا نِسَائُ قُرَیْشٍ خَیْرُ نِسَائٍ رَکِبْنَ الْاِبِلَ أَحْنَاہُ عَلٰی طِفْلٍ وَ اَرْعَاہُ عَلٰی زَوْجٍ فِیْ ذَاتِ یَدِہٖ ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سے بہترین عورتیں قریش کی ہیں بچوں پر نہایت شفقت اور مہربانی کرنے والیاں ہیں اور اپنے شوہروں کے مال و دولت کی محافظ اور امین ہوتی ہیں۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
شوہر کے جنسی جذبات کا احترام کرنے والی خاتون پر اللہ تعالیٰ راضی رہتا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا مِنْ رَجُلٍ یَدْعُوْا اِمْرَأَتَہٗ اِلٰی فِرَاشِہَا فَتَابٰی عَلَیْہِ اِلاَّ کَانَ الَّذِیْ فِی السَّمَائِ سَاخِطًا عَلَیْہَا حَتّٰی یَرْضَی عَنْہَا )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی انکار کر دے تو وہ ذات جو آسمانوں میں ہے ناراض رہتی ہے حتیٰ کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو جائے۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت زیادہ بچے جننے والی عورت بہترین رفیقہ حیات ہے۔
وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر 21 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
پانچ نمازوں کی پابندی کرنے والی ،رمضان کے روزے رکھنے والی ، پاکدامن اور شوہر کی اطاعت گزار خاتون بہترین رفیقہ حیات ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَہَا وَ صَامَتْ شَہْرَہَا وَ حَصَّنَتْ فَرْجَہَا وَ اَطَاعَتْ زَوْجَہَا قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الْجَنَّۃَ مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شِئْتِ )) رَوَاہُ ابْنُ حَبَّانَ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو عورت پانچ نمازیں ادا کرے ،رمضان کے روزے رکھے ،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے اسے (قیامت کے روز )کہا جائے گا جنت کے (آٹھوں )دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے۔‘‘اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
شوہر کو خوش رکھنے ،شوہر کی اطاعت کرنے اور اپنی جان و مال شوہر کے حوالے کرنے والی خاتون بہترین رفیقہ حیات ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِا ! اَیُّ النِّسَآئِ خَیْرٌ ؟ قَالَ ((اَلَّتِیْ تَسُرُّہٗ اِذَا نَظَرَ وَ تُطِیْعُہٗ اِذَا اَمَرَ وَ لاَ تُخَالِفُہٗ فِیْ نَفْسِہَا وَ مَالِہَا بِمَا یَکْرَہُ )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (حسن)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عرض کیا گیا ’’یا رسول اللہﷺ!بہترین عورت کون سی ہے؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’وہ عورت کہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تواسے خوش کر دے جب کسی بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرے نیز عورت کی جان اور مال کے معاملے میں شوہر جس چیز کو ناپسند کرتا ہو اس میں اس کی مخالفت نہ کرے۔‘‘اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
ہر معاملے میں شوہر کی آخرت کا خیال رکھنے والی ،ایمان والی ہونا مثالی بیوی کی صفت ہے۔
عَنْ ثَوْبَانَ ص قَالَ : لَمَّا نَزَلَ فِی الْفِضَّۃِ وَالذَّہَبِ مَا نَزَلَ ، قَالُوْا : فَأَیُّ الْمَالِ نَتَّخِذُ ؟ قَالَ عُمَرَ : فَأَنَا اَعْلَمُ لَکُمْ ذٰلِکَ ، فَأَوْضَعَ عَلٰی بَعِیْرِہٖ فَأَدْرَکَ النَّبِیَّ ا وَ اَنَا فِیْ اَثَرِہٖ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا اَیُّ الْمَالِ نَتَّخِذُ ؟ فَقَالَ ((لِیَتَّخِذْ اَحَدُکُمْ قَلْبًا شَاکِرًا ، وَ لِسَانًا ذَاکِرًا ، وَ زَوْجَۃً مُؤْمِنَۃً ، تُعِیْنُ اَحَدَکُمْ عَلٰی اَمْرِ الْآخِرَۃِ ۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب سونے چاندی کے بارے میں آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپس میں کہا ’’پھر ہم کون سا مال جمع کریں؟‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’میں تمہارے لئے ابھی اس سوال کا جواب دریافت کرتا ہوں۔‘‘چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میں (یعنی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ )حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پیچھے تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ!ہم کون سا مال جمع کریں؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے ہر ایک کوشکر گزار دل ،ذکر کرنے والی زبان ،مومنہ بیوی ،جو آخرت کے بارے میں تمہاری مددگار ثابت ہو ، حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
مثالی بیوی بننے کے لئے چار قابل تقلید مثالیں۔
عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((خَیْرُ نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ اَرْبَعٌ مَرْیَمُ بِنْتِ عِمْرَانَ وَ خَدِیْجَۃُ بِنْتِ خَوَیْلَدٍ وَ فَاطِمَۃُ بِنْتِ مُحَمَّدٍ وَ آسِیَۃُ اِمْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ )) رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالطِّبْرَانِیُّ (صحیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کائنات کی بہترین خواتین چار ہیں حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمدﷺ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا ۔‘‘ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اَہَمِیَّۃُ حُقُوْقِ الزَّوْجِ​
شوہر کے حقوق کی اہمیت

جو عورت اپنے شوہر کا حق ادا نہیں کر سکتی وہ اللہ کا حق بھی ادا نہیں کر سکتی۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ اَوْفٰی ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لاَ تُؤَدِّی الْمَرْأَۃُ حَقَّ رَبِّہَا حَتّٰی تُؤَدِّیَ حَقَّ زَوْجِہَا وَ لاَ سَأَلَہَا نَفْسَہَا وَ ہِیَ عَلٰی قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْہُ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے عورت اس وقت تک اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے عورت اگر پالان (گھوڑے یا اونٹ پر بیٹھنے کے لئے استعمال کی جانے والی گدی )پر سوار ہو اور مرد اسے بلائے تو عورت کو انکار نہیں کرنا چاہئے۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
کسی عورت کے لئے اپنے شوہر کے حقوق کما حقہ ادا کرنا ممکن نہیں۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ ص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ (( حَقُّ الزَّوْجِ عَلٰی زَوْجَتِہٖ اَنْ لَوْ کَانَتْ بِہٖ قَرْحَۃٌ فَلَحَسَتْہَا مَا اَدَّتْ حَقَّہٗ )) رَوَاہُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حَبَّانَ وَابْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ وَالدَّارُ قُطْنِیُّ وَ الْبَیْہَقِیُّ (صحیح)
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’شوہر کا بیوی پر حق اس قدر ہے کہ اگر شوہر کو زخم آ جائے اور بیوی اس کو چاٹ لے تب بھی شوہر کا حق ادا نہیں کر سکتی۔‘‘اسے حاکم ،ابن حبان ،ابن ابی شیبہ ،دار قطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
شوہر کے حقوق ادا نہ کرنے والی بیوی کے لئے جنت کی حوریں بددعا کرتی ہیں۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((لاَ تُوْذِیْ امْرَأَۃٌ زَوْجَہَا اِلاَّ قَالَتْ زَوْجَتُہٗ مِنَ الْحُوْرِ الْعَیْنِ لاَ تُؤْذِیْہِ قَاتَلَکِ اللّٰہُ فَاِنَّمَا ہُوَ عِنْدَکِ دَخِیْلٌ اَوْشَکَ اَنْ یُفَارِقَکِ اِلَیْنَا)) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے تو موٹی آنکھوں والی حوروں میں سے اس (نیک شوہر )کی بیوی کہتی ہے اللہ تجھے ہلاک کرے اسے تکلیف نہ دے یہ چند روز کے لئے تمہارے پاس ہے عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آنے والا ہے۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حُقُوْقُ الزَّوْجِ​
شوہر کے حقوق

خاندانی نظم کے اعتبار سے (ایمان اور تقوی کے اعتبار سے نہیں )شوہر کی برتر حیثیت (قوامیت )کو تسلیم کرنا بیوی پر واجب ہے۔
وضاحت : مسئلہ نمبر 34 ملاحظہ فرمائیں۔
اپنی ہمت اور بساط کے مطابق شوہر کی اطاعت اور خدمت کرنا بیوی پر واجب ہے۔
شوہر ،بیوی کی جنت یا جہنم ہے۔

عَنْ حُصَیْنِ بْنِ مِحْصَنٍ قَالَ : حَدَّثَنِیْ عَمَّتِیْ قَالَ : أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ فِیْ بَعْضِ الْحَاجَۃِ ، فَقَالَ ((اَیُّ ہٰذِہٖ أَذَاتُ بَعْلٍ ؟)) قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ ((کَیْفَ أَنْتِ لَہٗ ؟)) قُلْتُ : مَا آلُوْہُ اِلاَّ مَا عَجِزْتُ عَنْہُ ، قَالَ ((فَانْظُرِیْ ، أَیْنَ أَنْتِ مِنْہُ ؟ فَاِنَّمَا ہُوَ جَنَّتُکِ وَ نَارُکِ )) رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالطِّبْرَانِیُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَیْہَقِیُّ (صحیح)
حضرت حصین بن محصن سے روایت ہے کہ مجھے میری پھوپھی نے بتایا کہ میں کسی کام سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے پوچھا ’’یہ کون عورت (آئی )ہے؟کیا شوہر والی ہے؟‘‘میں نے عرض کیا ’’ہاں!‘‘پھر آپ ﷺ نے دریافت کیا ’’تیرا اپنے شوہر کے ساتھ کیسا رویہ ہے؟‘‘میں نے عرض کیا ’’میں نے کبھی اس کی اطاعت اور خدمت کرنے میں کسر نہیں چھوڑی سوائے اس چیز کے جو میرے بس میں نہ ہو۔‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا یہ بتائو اس کی نظر میں تم کیسی ہو؟ یاد رکھو! وہ تمہاری جنت اور جہنم ہے۔‘‘اسے احمد ،طبرانی حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((لَوْ کُنْتُ آمِرًا اَنْ یَسْجُدَ لِاَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ اَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’اگر میں (اللہ کے علاوہ )کسی دوسرے کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : جس معاملے میں شوہر اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کا حکم دے اس معاملے میں شوہر کی اطاعت واجب نہیں ۔ رسول اکرمﷺکا ارشاد مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے معاملہ میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘ (مسند احمد)
شوہر کی ہر جائز خواہش کا احترام کرنا بیوی پر واجب ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ (( لاَ یَحِلُّ لِلْمَرْأَۃِ اَنْ تَصُوْمَ زَوْجُہَا شَاہِدٌ ، وَ لاَ تَأْذَنُ فِیْ بَیْتِہٖ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ وَ مَا اَنْفَقَتْ مِنْ نَفَقَۃٍ عَنْ غَیْرِ اَمْرِہٖ فَاِنَّہٗ یُؤَدَّیْ اِلَیْہِ شَطْرُہٗ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ’’عورت کے لئے اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر(نفلی )روزہ رکھنا جائز نہیں نہ ہی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی (مرد یا عورت )کو گھر میں آنے کی اجازت دینا جائز ہے ۔جو عورت شوہر کی اجازت کے بغیر (گھر کے ماہانہ )خرچ سے اللہ کی راہ میں دے گی اس سے شوہر کو بھی آدھا ثواب ملے گا۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِیٍّ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَہٗ لِحَاجَتِہٖ فَلْیَأْتِہٖ ، وَ اِنْ کَانَتْ عَلَی التَّنُّوْرِ)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب مرد بیوی کواپنی ضرورت کے لئے بلائے تو اسے چاہئے کہ فوراً حاضر ہو جائے خواہ تنور پر (روٹی ہی پکا رہی )ہو۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
شوہر کی غیر حاضری میں اس کے مال ومتاع کی حفاظت کرنا بیوی پر واجب ہے۔
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ ص قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا یَقُوْلُ ((فِیْ خُطْبَۃِ عَامِ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ لاَ تُنْفِقْ اِمْرَأَۃٌ شَیْئًا مِنْ بَیْتِ زَوْجِہَا اِلاَّ بِاِذْنِ زَوْجِہَا )) قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! وَلاَ الطَّعَامَ ؟ قَالَ (( ذٰلِکَ اَفْضَلُ اَمْوَالِنَا )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (حسن)
حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺکو حجتہ الوداع کے سال خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ ﷺ نے فرمایا ’’عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے۔‘‘عرض کیا گیا ’’یا رسول اللہ ﷺ!کیا کھانا بھی نہ کھلائے ؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کھانا تو ہمارے مالوں میں سے بہترین مال ہے (یعنی شوہر کی اجازت کے بغیر کھانا بھی نہ کھلائے )۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
بیوی اپنے شوہر کی اطاعت نہ کرے تو پہلے مرحلے میں اسے سمجھانے، دوسرے مرحلے میں اپنی خوابگاہ میں بستر الگ کرنے اور تیسرے مرحلے میں ہلکی مار مارنے کی اجازت ہے۔
وضاحت : حدیث مسئلہ نمبر 24 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
شوہر کی غیر حاضری میں اس کی عزت کی حفاظت کرنا بیوی پر واجب ہے۔
عَنْ جَابِرٍ ص فِیْ خُطْبَۃِ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا قَالَ ((فَاتَّقُوا اللّٰہَ فِی النِّسَائِ فَاِنَّکُمْ اَخَذْتُمُوْہُنَّ بِاَمَانِ اللّٰہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ عَلَیْہِنَّ اَنْ لاَ یُؤْطِئْنَ فُرَشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَہُوْنَہٗ فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ خطبہ حجتہ الوداع بیان کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’لوگو!عورتوں پر زیادتی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی ضمانت پر حاصل کیا ہے اور ان کا ستر تمہارے لئے اللہ کے حکم پر جائز ہوا ،تمہارا عورتوں پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر (یعنی گھر میں )کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرو ،اگر وہ ایسا کریں تو انہیں ایسی مار مارنے کی اجازت ہے جس سے انہیں سخت چوٹ نہ لگے۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
اچھے برے ،تمام حالات میں اپنے شوہر کا احسان مند اور شکر گزار رہنا بیوی پر واجب ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ ((رَأَیْتُ النَّارَ فَلَمْ اَرَ کَالْیَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ وَ رَأَیْتُ اَکْثَرَ اَہْلِہَا النِّسَائَ )) قَالُوْا : لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ؟ قَالَ ((بِکُفْرِہِنَّ )) قِیْلَ : یَکْفُرْنَ بِاللّٰہِ ؟ قَالَ ((یَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ وَ یَکْفُرْنَ لِإِحْسَانٍ لَوْ اَحْسَنْتَ اِلٰی اِحْدَاہُنَّ الدَّہْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْکَ شَیْئًا )) قَالَتْ : مَا رَأَیْتُ مِنْکَ خَیْرًا قَطُّ۔ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’میں نے آگ دیکھی اور آج جیسا ہولناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا ،جہنم میں میں نے عورتوں کی اکثریت دیکھی۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا ’’کیوں یارسول اللہ ﷺ؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ان کی ناشکری کی وجہ سے۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا ’’کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟‘‘آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’(نہیں بلکہ )وہ اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں ،عورتوں کا حال یہ ہے کہ اگر عمر بھر تم ان کے ساتھ احسان کرتے رہو پھر تمہاری طرف سے کوئی معمولی سی تکلیف بھی انہیں آ جائے تو کہیں گی میں نے تو تجھ سے کبھی سکون پایا ہی نہیں ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اَہَمِیَّۃُ حُقُوْقِ الزَّوْجَۃِ​
بیوی کے حقوق کی اہمیت

عورت کے حقوق کی قانونی حیثیت وہی ہے جو مرد کے حقوق کی ہے۔
عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرٍو بْنِ الْاَحْوَصِ ص قَالَ : حَدَّثَنِیْ اَبِیْ اَنَّہٗ شَہِدَ حَجَّۃَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا فَحَمِدَ اللّٰہَ وَاثْنٰی عَلَیْہِ وَ ذَکَرَ وَ وَعَظَ وَ ذَکَرَ فِی الْحَدِیْثِ قِصَّۃً فَقَالَ ((أَلاَ وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا فَاِنَّمَا ہُنَّ عَوَانٌ عِنْدَکُمْ … أَلاَ اِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِ کُمْ حَقًّا وَ لِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا…)) اَلْحَدِیْثُ ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (حسن)
حضرت سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں جو کہ حجتہ الوداع میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے (ایک خطبہ میں )اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء فرمائی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اس حدیث میں یہ بات بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’لوگو!سنو ،عورتوں کے حق میں خیراوربھلائی کی بات قبول کرو وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں،خبردار رہو! مردوں کے عورتوں پر حقوق (ویسے ہی )ہیں (جیسے )عورتوں کے مردوں پر حقوق ہیں۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عورت کے حقوق ادا کرنا واجب ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! اَلَمْ اُخْبِرْ اَنَّکَ تَصُوْمُ النَّہَارَ وَ تَقُوْمُ اللَّیْلَ ؟)) قُلْتُ : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا! قَالَ ((فَلاَ تَفْعَلْ وَ اَفْطِرْ وَ نَمْ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ اِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اے عبداللہ رضی اللہ عنہ !مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کو مسلسل روزے رکھتے ہو؟ اور رات کو مسلسل قیام کرتے ہو؟‘‘میں نے عرض کیا ’’ہاں ،یا رسول اللہﷺ !ایسا ہی کرتا ہوں۔‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ایسا نہ کر ،روزہ بھی رکھ اور ترک بھی کر رات کو قیام بھی کر اور آرام بھی کر،تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
عورت کے حقوق ادا نہ کرناباعث ہلاکت ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((کَفٰی اِثْمًا اَنْ یَحْبِسَ عَمَّنْ مَنْ یَمْلِکُ قُوْتَہٗ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیںرسول اللہﷺنے فرمایا’’آدمی کو (ہلاک کرنے کے لئے) اتناگناہ ہی کافی ہے کہ جس کا خرچ اس کے ذمہ ہے اسے خرچ نہ دے۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیاہے۔
عورت کے حقوق ادانہ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اُحَرِّجُ حَقَّ الضَّعِیْفَیْنِ ، اَلْیَتِیْمِ وَالْمَرْأَۃِ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (حسن)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اے اللہ!میں دو ضعیفوں کا حق (مارنا )حرام کرتا ہوں یتیم کا اور عورت کا۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
بیوی کے غصب شدہ حقوق کی ادائیگی قیامت کے روز شوہر کوکرنی پڑے گی۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((لَتَؤُدَّنَّ الْحُقُوْقَ اِلٰی اَہْلِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَادَ لِلشَّاۃِ الْجَلْحَائِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَائِ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے روز تمہیں ایک دوسرے کے حقوق ضرور ادا کرنے پڑیں گے یہاں تک کہ (اگر سینگ والی بکری نے بے سینگ بکری کو مارا ہوگا تو )سینگ والی بکری سے بے سینگ والی بکری کا بدلہ بھی لیاجائے گا۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیاہے۔
وضاحت : جانوروں کے لئے اگرچہ عذاب اور ثواب نہیں لیکن قیامت کے روز ایک دوسرے کے حقوق دلوانے کے لئے ایک بار جانوروں کو زندہ کیا جائے گا،اس سے حقوق العباد کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
بیوی پر ظلم کرنے سے بچنا چاہئے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اِتَّقُوْا دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہَا تَصْعَدُ اِلَی السَّمَآئِ کَاَنَّہَا شَرَارَۃٌ )) رَوَاہُ الْحَاکِمُ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مظلوم کی دعا سے بچو مظلوم کی دعا (اس تیزی سے )آسمانوں پر پہنچتی ہے جس تیزی سے آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے۔‘‘اسے حاکم نے روایت کیا ہے۔
 
Top