• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نکاح کے مسائل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ​
والدین کے حقوق

والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے والدین کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِا ((رِضَا الرَّبِّ فِیْ رِضَا الْوَالِدَیْنِ وَ سَخَطُہٗ فِیْ سَخَطِہِمَا )) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’رب کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ کا غصہ والدین کے غصے میں ہے۔‘‘اسے طبرانی نے روایت کیا ہے
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ بَکْرَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((اَلاَ اُحَدِّثُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ؟)) قَالُوْا : بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَالَ ((اَلْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنَ )) قَالَ : وَ جَلَسَ وَ کَانَ مُتَّکِأً قَالَ ((وَ شَہَادَۃُ الزُّوْرِ اَوْ قَوْلُ الزُّوْرِ )) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ (صحیح)
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا ’’کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ!‘‘(ضرور بتائیے)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا ۔‘‘عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تکیہ لگائے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات کہنا ۔‘‘اسے ترمذی نے روایت کیا ہے
والدین کو ناراض کرنے والے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ بددعا فرمائی۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص عَنِ النَّبِیِّ ا ((رَغِمَ اَنْفٌ ثُمَّ رَغِمَ اَنْفٌ ثُمَّ رَغِمَ اَنْفٌ مَنْ اَدْرَکَ اَبَوَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ اَحَدَہُمَا اَوْ کَلَیْہِمَا فَلَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،رسوا اور ذلیل ہو،ہلاک ہو جس نے اپنے والدین میں سے دونوں کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ان کو راضی کر کے)جنت میں داخل نہ ہوا ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
والد جنت کا بہترین دروازہ ہے جو چاہے اس کی حفاظت کرے جو چاہے اسے گرا دے۔
عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِص قَالَ : اَنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّا یَقُوْلُ (( اَلْوَالِدُ اَوْسَطُ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَأَضِعْ ذٰلِکَ الْبَابَ اَوْ اِحْفَظْہُ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ’’والد جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے جو شخص چاہے اسے محفوظ رکھے جو چاہے اسے گرا دے ۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
والد کے حکم پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی محبوب بیوی کو طلاق دے دی۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کَانَتْ تَحْتِیْ اِمْرَأَۃٌ اُحِبُّہَا وَ کَانَ اَبِیْ یَکْرَہُہَا فَأَمَرَنِیْ اَبِیْ اَنْ اُطَلِّقَہَا ، فَأَبِیْتُ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ا فَقَالَ ((یَا عَبْدَ اللّٰہِ ابْنَ عُمَرَ ! طَلِّقْ اِمْرَأَتَکَ )) قَالَ : فَطَلَّقْتُہَا ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَاَحْمَدُ (حسن)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے نکاح میں ایک عورت تھی جسے میں بہت محبوب رکھتا تھا ، لیکن میرے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ )اسے ناپسند کرتے تھے چنانچہ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔میں نے طلاق دینے سے انکار کر دیا اور نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اے عبداللہ رضی اللہ عنہ !اپنی بیوی کو طلاق دے۔‘‘حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔اسے ابودائود،ترمذی ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
عَنْ جَاہِمَۃَ ص اَنَّہٗ جَائَ عَلَی النَّبِیِّ ا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! اَرَدْتُّ اَنْ اَغْزُوَ وَ قَدْ جِئْتُ اَسْتَشِیْرُکَ ۔ فَقَالَ ((ہَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ ؟)) قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ ((فَالْزَمْہَا ، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ رِجْلَیْہَا )) رَوَاہُ النِّسَائِیُّ (صحیح)
حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ !میں نے جہاد کا ارادہ کیا ہے اور آپ ﷺ سے مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کیا تیری والدہ زندہ ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ہاں!‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’پھر اس کی خدمت کر،جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔
باپ کے مقابلے میں ماں کا درجہ تین گنا زیادہ ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَص قَالَ : جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا مَنْ اَحَقُّ صَحَابَتِیْ ؟ قَالَ ((اُمُّکَ)) قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ((اُمُّکَ)) قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ((اُمُّکَ)) قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ ((اَبُوْکَ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ!میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں۔‘‘اس نے دوبارہ عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں۔‘‘ اس نے(تیسری مرتبہ)عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تیری ماں۔‘‘اس نے (چوتھی مرتبہ) پوچھا’’پھرکون؟‘‘آپﷺنے فرمایا’’تیراباپ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مَسَائِلٌ مُتَفَرَّقَۃٌ​
متفرق مسائل

عمل قوم لوط کرنے یا کروانے والے دونوں کو قتل کرنے یا سنگسار کرنے کا حکم ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((مَنْ وَجَدْتُمُوْہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُوْلُ بِہٖ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کو عمل قوم لوط میں مبتلا پاؤ اسے اور عمل قوم لوط کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو ۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیاہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص عَنِ النَّبِیِّ ا فِی الَّذِیْ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ قَالَ ((ارْجُمُوا الْأَعْلٰی وَالْأَسْفَلَ ارْجُمُوْہُمَا جَمِیْعًا )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (حسن)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے عمل قوم لوط میں مبتلا شخص کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ فاعل اور مفعول دونوں کو سنگسار کر دو (یعنی )سب کو سنگسار کر دو۔اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
میاں بیوی کا باہمی تعلق (نکاح)موت سے ختم نہیں ہوتا۔
نیک مرد اور نیک عورت جنت میں بھی ایک دوسرے کے میاں بیوی ہوں گے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((اَمَا تَرْضَیْنَ اَنْ تَکُوْنِیْ زَوْجَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ؟)) قُلْتُ : بَلٰی ! قَالَ : ((فَأَنْتِ زَوْجَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ )) رَوَاہُ الْحَاکِمُ (صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے)فرمایا ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم دنیا اور آخرت (دونوں جگہ)میری بیوی رہو؟‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’کیوں نہیں!‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم دنیا اور آخرت میں میری بیوی ہو۔‘‘اسے حاکم نے روایت کیا ہے۔
زانی اور زانیہ کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد ماں باپ کے گناہ سے بری الذمہ ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا قَالَ ((لَیْسَ عَلٰی وَلَدِ الزِّنَا مِنْ وِزْرِ اَبَوَیْہِ شَیْئٌ )) رَوَاہُ الْحَاکِمُ (حسن)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد پر اپنے ماں باپ کے گناہ کا کوئی وبال نہیں ۔‘‘اسے حاکم نے روایت کیا ہے۔
بیوی کو والدین کی ملاقات یا خدمت سے روکنا منع ہے۔
عَنْ اَسْمَائَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ : قَدِمَتْ اُمِّیْ وَ ہِیَ مُشْرِکَۃٌ فِیْ عَہْدِ قُرَیْشٍ وَ مُدَّتِہِمْ اِذَا عَاہَدُوْا النَّبِیَّ ا مَعَ اَبِیْہَا فَاسْتَفْتَیْتُ النَّبِیَّ ا فَقُلْتُ : اِنَّ اُمِّیْ قَدِمَتْ وَ ہِیَ رَاغِبَۃٌ ، قَالَ ((نَعَمْ صِلِیْ اُمَّکِ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت اسمائ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میری مشرکہ ماں قریش اور نبی ﷺ کے درمیان صلح (یعنی صلح حدیبیہ)کے زمانہ میں (مدینہ)آئی اس کا باپ (یعنی میرا نانا)بھی ساتھ تھا میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ’’میری ماں آئی ہے اور اسے اسلام سے سخت نفرت ہے (اس کے ساتھ کیا سلوک کروں؟‘‘ )آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اپنی ماں سے صلہ رحمی کر ۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
جانتے بوجھتے اپنی ولدیت حقیقی باپ کی بجائے کسی دوسرے کی طرف منسوب کرنے والے پر جنت حرام ہے۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ ص قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا یَقُوْلُ ((مَنِ ادَّعٰی اِلٰی غَیْرِ اَبِیْہِ وَ ہُوَ یَعْلَمُ اَنَّہٗ غَیْرُ اَبِیْہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ )) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے’’ جس نے جانتے بوجھتے اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف کی اس پر جنت حرام ہے۔‘‘اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
حسب نسب پر فخر کرنا یا طعن کرنا دونوں منع ہیں۔
عَنْ سَلَمَانَ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ((ثَلاَ ثَۃٌ مِنَ الْجَاہِلِیَّۃِ أَلْفَخْرُ بِالْأَحْسَابِ وَ الطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ وَالنِّیَاحَۃُ )) رَوَاہُ الطَّبْرَانِیُّ (صحیح)
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’تین باتیں جاہلیت کی ہیں1حسب پر فخر کرنا2(اپنے یا کسی دوسرے کے)نسب پر طعن کرنا3(میت پر) نوحہ کرنا ۔‘‘اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
اپنی بیوی،بیٹی،بہن یا بہو وغیرہ کو کسی غیر محرم کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کرنا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا لَوْ وَجَدْتُ مَعَ اَہْلِیْ رَجُلاً لَمْ اَمَسَّہٗ حَتّٰی اٰتِیَ بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((نَعَمْ )) قَالَ : کَلاَّ وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ اِنْ کُنْتُ لَاُعَاجِلُہٗ بِالسَّیْفِ قَبْلَ ذٰلِکَ ۔ قَالَ : رَسُوْلُ اللّٰہِ ا (( اِسْمَعُوْا اِلٰی مَا یَقُوْلُ سَیِّدُکُمْ اِنَّہٗ لَغَیُوْرٌ وَ اَنَا اَغْیَرُ مِنْہُ وَ اللّٰہُ اَغْیَرُ مِنِّیْ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ!اگر میں اپنی بیوی کوکسی غیر مرد کے ساتھ (ناجائز حالت میں )دیکھوں تو کیا اس وقت تک اسے کچھ نہ کہوں جب تک چار گواہ نہ لاؤں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ہاں!‘‘حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’ہر گز نہیں،اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں تو گواہ لانے سے پہلے ہی اسے فوراً تلوار سے قتل کر دوں گا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’لوگو !سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے وہ (یعنی سعد رضی اللہ عنہ )واقعی غیرت مند ہے لیکن میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔(یعنی قتل کرنا جائز نہیں بلکہ اس سے مزید فتنہ فساد بڑھے گا لہٰذا قتل نہ کرو)۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
بیوی کے کردار پر بلا وجہ شک کرنا منع ہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ص اَنَّ اَعْرَابِیًّا اَتَی رَسُوْلُ اللّٰہِ ا فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ا ! اِنَّ امْرَأَتِیْ وَلَدَتْ غُلاَمًا اَسْوَدَ وَ اِنِّیْ اَنْکَرْتُہٗ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ا ((ہَلْ لَکَ مِنَ الْإِبِلِ ؟)) قَالَ : نَعَمْ ! قَالَ ((مَا لَوْنُہَا ؟)) قَالَ : حُمُرٌ، قَالَ ((فَہَلْ فِیْہَا مِنْ اَوْرَقَ ؟)) قَالَ : نَعَمْ ! قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((فَاَنّٰی ہُوَ؟)) قَالَ : لَعَلَّہٗ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ یَکُوْنُ نَزَعَہٗ عِرْقٌ لَہٗ ، قَالَ لَہُ النَّبِیُّ ا ((وَہٰذِہٖ لَعَلَّہٗ اَنْ یَکُوْنُ نَزَعَہٗ عِرْقٌ لَہٗ )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ!میری بیوی نے کالے رنگ کا بچہ جنا ہے جس سے میں نے انکار کر دیا ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے اس دیہاتی سے دریافت کیا ’’کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ دیہاتی نے عرض کیا ’’ہاں!‘‘ نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا ’’ان کا رنگ کیا ہے؟‘‘دیہاتی نے عرض کیا ’’سرخ!‘‘نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا ’’کیا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے؟‘‘ دیہاتی نے عرض کیا ’’ہاں!‘‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’وہ کہاں سے آ گیا؟‘‘ دیہاتی نے عرض کیا ’’شاید اونٹ کی اوپر والی نسل میں سے کوئی اونٹ کالے رنگ والا ہو (یعنی تمہارا انکار درست نہیں)۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا بچہ باپ کی وارثت نہیں پاتا نہ باپ بچے کی وراثت پاتا ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا((مَنْ عَاہَرَ اَمَۃً اَوْ حُرَّۃً فَوَلَدُہٗ وَلَدُ زِنًا لاَ یَرِثُ وَ لاَ یُوْرَثُ )) رَوَاہُ اَبُوْدَاؤٗدَ وَابْنُ مَاجَۃَ (حسن)
حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے لونڈی یا آزاد عورت سے زنا کیا اور اس سے بچہ پیدا ہوا تو یہ (باپ)اس بچے کا وارث نہ ہو گا نہ ہی بچہ باپ کا وارث بنے گا۔‘‘اسے ابودائود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
کنوارے زانی اور زانیہ کی سزا سو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے جب کہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا سو کوڑے اور پتھروں سے سنگسار کرنا ہے۔
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ص قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا ((خُذُوْا عَنِّیْ خُذُوْا عَنِّیْ فَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً اَلْبِکْرُ بِالْبِکْرِ جِلْدُ مِائَۃٍ وَ نَفْیُ سَنَۃٍ وَالثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جِلْدُ مِائَۃٍ وَالرَّجْمُ)) رَوَاہُ مُسْلِمٌ
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’لوگو!مجھ سے مسائل سیکھ لو،لوگو!مجھ سے مسائل سیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ نکال دی ہے کنوارا مرد کنواری عورت سے زنا کرے تو اس کے لئے سو کوڑے اور ایک سال تک جلا وطنی کی سزا ہے اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو ان کے لئے سو کوڑے اور سنگسار کرنے کی سزا ہے ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
وضاحت : 1سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے زانیہ کی سزا یہ مقرر فرمائی تھی کہ اسے موت تک گھر میں قید کر دیا جائے اور ساتھ ارشاد فرمایا تھا کہ اس حکم پر اس وقت تک عمل کرو جب تک اللہ ان کے لئے کوئی دوسری راہ نہیں نکالتا (سورہ نساء آیت نمبر15)حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کے اسی ارشاد مبارک کی طرف اشارہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بارے میں یہ راہ نکالی ہے یعنی یہ حکم نازل فرمایاہے۔
2شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا کا انحصار عدالت پر ہے وہ چاہے تو دونوں سزائیں دے سکتی ہے کوڑے بھی اور سنگسار کرنا بھی چاہے تو صرف ایک ہی سزا کو کافی سمجھے یعنی سنگسار کرنا۔واللہ اعلم بالصواب!
ختم شد​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جزاک الله خیرا

ارسلان بھائی اللہ تعالیٰ آپ کو دینا اور آخرت میں اس کا بہترین بدل دیں - اور ھم سب کا خاتمہ ایمان پر کریں - آمین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قارئین کرام ! گزشتہ صفحات میں ہم مغربی طرز معاشرت او راسلامی طرز معاشرت کا مفصل جائزہ لے چکے ہیں۔ ایک طائرانہ نظر میں دونوں تہذیبوں کا تقابل درج ذیل جدول میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
نمبر شمار
طرز معاشرت
مغرب
اسلام
1
نکاح
مردوں کی غلامی
سنت رسول (ﷺ)/خاندانی نظام کی بنیاد
2
شوہر کی اطاعت
آزادی نسواں میں رکاوٹ
واجب ہے
3
خاندان میں مرد کی حیثیت
عورت کے برابر
سربراہ خاندان
4
گھر داری
آیاؤں کے ذمہ
عورت کے ذمہ
5
معاشی ذمہ داری
مرد کی طرح عورت بھی ذمہ دار ہے
صرف مرد ذمہ دار ہے
6
عورت کا دائرہ کار
مرد کے دوش بدوش
صرف گھر کے اندر
7
تعداد ازواج
مضحکہ خیر تصور
چار تک اجازت ہے
8
گرل فرینڈ / بوائے فرینڈ
جزو زندگی
قطعی حرام
9
گھر کے اندر ستر
تصور ہی بارگراں ہے
سر سے پاؤں تک سوائے ہاتھ اور چہرہ کے
10
گھر سے باہر حجاب
تاریک خیالی
عصمت و عفت کی علامت
11
عریانی
روشن خیالی
جہالت کی رسم
12
اختلاط مرد و زن
جزو معاشرت
قطعی حرام
13
زنا
تفریح طبع اور دل لگی کا مشغلہ
قطعی حرام
14
شراب
جزو حیات
قطعی حرام
15
بن بیاہی اولاد
قانونی اولاد کے مقابلے میں قابل ترجیح
زندگی بھر کے لیے باعث ندامت و ملامت
16
اولاد کی پرورش
لذات حیات میں سب سے بڑی رکاوٹ
والدین کے ذمہ ہے
17
والدین کی خدمت
بارگراں
عین عبادت و سعادت ہے
18
طلاق
مرد کی طرح عورت بھی دے سکتی ہے
صرف مرد دے سکتا ہے
جدول کو دیکھ کر یہ اندزہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ دونوں میں بُعد المشرقین ہے جو بات ایک تہذیب میں اچھی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے وہی بات دوسری تہذیب میں بُری نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ جو چیز ایک تہذیب میں روشن خیال تصور کی جاتی ہے ، دوسری تہذیب میں وہ سراسر جہالت ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس صفحہ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اور بعض صفحات پر عربی ٹیگ بھی لگادیں۔جزاک اللہ خیرا۔
جزاک اللہ خیرا
انکل! پہلے "عربی" ٹیگ کی طرح ایک اور ٹیگ "قرآن" بھی ہوتا تھا، بعد میں وہ ٹیگ ختم کر دیا گیا، جس کی وجہ سے عبارتوں پر عربی قرآن ٹیگ ختم ہو گیا، اس وجہ سے یہ عبارتیں بغیر ٹیگ کے نظر آ رہی ہیں۔

میں درست کروں گا۔ ان شاءاللہ
 
Top