• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نہانے کے پانی پر معوذتین پڑھنا

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
کیا اگر کسی کو شخص کو شک ہو کہ کوئی جادوگر،حاسد یا شریر انسان مجھے نظر مارتا رہتا ہے،یا میرے خلاف سازشیں (جادو ٹونے) وغیرہ کرتا رہتا ہے تو وہ اپنے اوپر معوذات پڑھنے کے ساتھ ساتھ معوذات کو نہانے والے پانی پر پھونک کر اس سے نہا بھی سکتا ہے؟یا یہ قرآن مجید کی بے حرمتی ہو گی؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شیخ بن باز، شیخ صالح العثیمین، شیخ صالح الفوزان اور دیگر کبار سعودی علماء کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ احادیث میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے مسح، نفث اور نفخ کی اجازت دی گئی ہے اور نفث وہ ہے کہ جس میں تھوک بھی شامل ہوتی ہے اور پانی کو مثل تھوک کے شمار کرتے ہوئے اس کی اجازت دی گئی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

السؤال: لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم هو أو أحد من أصحابه أن رقى في ماء أو زيت أو عسل فهل لديكم شيء بالخصوص؟
الفتوى: الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فإن الرقية مشروعة في أصلها بأمر النبي صلى الله عليه وسلم وفعله، ففي صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم: "كان إذا مرض أحد من أهل بيته، نفث عليه بالمعوذات".
قال ابن الأثير: النفث: نفخ يسير مع ريق يسير، وهو أقل من التفل، وقيل إنه بلا ريق. ا.هـ.
وفي صحيح مسلم عن عوف بن مالك الأشجعي قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله، كيف ترى في ذلك؟ فقال: "اعرضوا عليّ رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك".
وعن أبي سعيد أن جبريل أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد اشتكيت؟ فقال: "نعم" قال: بسم الله أرقيك، من كل شيء يؤذيك من شر كل نفس أو عين حاسدٍ الله يشفيك، بسم الله أرقيك.
وهذا يدل بمجموعة على جواز الرقية بنفث أو نفخ أو مسح، فعلم أن المقصود هو إيصال أثر الرقية إلى المريض، والأفضل أن يتم ذلك عبر واحد من الوسائل الثلاث: النفث، أو النفخ، أو المسح.
إلا أننا وجدنا أن كثيراً من السلف -رحمهم الله- توسعوا في الرقية، بناء على أن المراد هو إيصال أثرها إلى المرقي بأي وجه، ثم ذلك ما دامت الرقية في أصلها مشروعة، ولم تصحب وسيلة الاتصال بما هو شرك أو مؤد إلى الشرك ولو باحتمال بعيد، فكانوا يقرؤون الرقية على الماء ونحوه، ليصل نفعها إلى المريض.
قال ابن مفلح: وقال صالح بن الإمام أحمد: ربما اعتللت فيأخذ أبي قدحاً فيه ماء، فيقرأ عليه، ويقول لي: اشرب منه، واغسل وجهك ويديك.
ونقل عبد الله أنه رأى أباه (يعني أحمد بن حنبل) يعوذ في الماء، ويقرأ عليه ويشربه، ويصب على نفسه منه. انظر الأدب الشرعية /2/144.
وقال ابن مفلح أيضاً: وقال يوسف بن موسى: أن أبا عبد الله كان يؤتى بالكوز ونحن بالمسجد، فيقرأ عليه ويعوذ. ا.هـ.
وقد أفتى بجواز ذلك من المعاصرين الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ، والشيخ عبد العزيز بن باز، والشيخ محمد بن صالح العثيمين، والشيخ صالح الفوزان، والشيخ عبد العزيز آل الشيخ، وقد قال الشيخ ابن جبرين: وثبت عن السلف القراءة في ماء ونحوه، ثم شربه أو الاغتسال به، مما يخفف الألم أو يزيله، لأن كلام الله تعالى شفاء، كما في قوله تعالى: (قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمىً أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ) [فصلت:44].
وهكذا القراءة في زيت أو دهن أو طعام ثم شربه، أو الأدهان به أو الاغتسال به، فإن ذلك كله استعمال لهذه القراءة المباحة التي هي كلام الله وكلام رسوله. الفتاوى الذهبية /40.
والله أعلم
المفتي: مركز الفتوى
www.islamweb.net
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
نہانے کے بعد وہی پانی نجس والی جگہوں یعنی گٹر وغیرہ میں جاتا ہے۔کیا اس طرح قرآن کی توہین نہیں ہو گی؟
یہ واضح رہے کہ پانی پر قرآن کریم پڑھ کر پھونک مارنے سے اس کا حکم قرآن کا نہیں ہو جاتا۔ وہ پانی ہی رہے گا۔ لیکن دم شدہ پانی ہے۔ قرآن پڑھ کر پھونک مارنے سے مقصود اس پانی میں کلام الہی میں موجود شفا کی تاثیر کو زبان کی پھونک یا تھوک کے میڈیم سے پانی میں داخل کرنا ہے نہ کہ اس پانی کو کلام الہی کے درجہ میں لے جانا۔
آیات پڑھ کر پانی پر پھونک مارنا تو بعد کی بات ہے، پہلے یہ آیات ہمارے زبان سے نکلتی ہیں اور اس زبان سے ہم پانی بھی پیتے ہیں جو بالاخر نجاست کی صورت میں ہمارے جسم سے نکل جاتا ہے۔ لہذا قرآن کی تلاوت سے زبان کو وہ درجہ حاصل نہیں ہو جاتا جو کلام الہی کو حاصل ہے۔ پس تلاوت آیات کے بعد بھی پانی، پانی ہی رہتا ہے البتہ اس میں قرآن مجید کی تاثیر شفا زبان کے ذریعے داخل کرنے کی ایک سعی کی جاتی ہے۔ پانی میں اللہ کا کلام منتقل نہیں ہوا بلکہ اس کلام کی تاثیر منتقل ہوئی ہے۔
جزاکم اللہ خیرا
 
Top