• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیت کے احکام قسط4

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
[مسئلہ نمبر :١٦][/H1]نیت اور حج:
شیخ عمرو بن عبدالمنعم حفظہ اللہ لکھتے ہیںکہ:''بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج اور عمرہ کی لبیک کہنا ہی زبانی نیت کا جواز ہے،حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔نیت تو صرف ارادے کو کہتے ہیں ۔جیسا کہ گزر چکا ہے،بلند آواز سے جو لبیک کہی جاتی ہے وہ نماز تکبیر تحریمہ کے قائم مقام ہے اور کوئی عقل مند آدمی تکبیر کو نماز کی نیت نہیں کہتا اور وضو پر بسم اللہ کو وضو کی نیت نہیں سمجھتاہے۔
ابن رجب نے کہا ہے کہ:''ان مسائل میں ہمیں نہ سلف صالحین سے کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ کسی امام سے۔''
پھر مزید کہا ہے کہ:''اور ابن عمر سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو احرام باندھتے وقت یہ کہتے سنا کہ اے اللہ !میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتاہوں تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تو لوگوں کو بتا رہا ہے ؟کیا تیرے دل میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالی باخبر نہیں ؟۔''(جامع العلوم والحکم:ص٤٠)
یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ حج اور عمرہ میں لفظی نیت جائز نہیں ہے ،جو اسے ضروری سمجھتے ہیں اور خواہ مخواہ اس پر زور دیتے ہیںتو انہوں میں ایسی بدعت ایجاد کی ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے اور نہ اس کے رسول ؐ نے۔''ّ(عبادات میں بدعات:ص٢١٤)
نیت اور روزہ:
[مسئلہ نمبر:١٧]
(١)فرضی روزہ کی نیت رات کو فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے ۔
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :''لا صیام لمن لم یجمع قبل الفجر''جو شخص فجر سے پہلے نیت نہ کرے اس کا روز ہ نہیں ۔(سنن النسائی:٢٣٣٨،وسندہ صحیح)
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ '' اس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے فرضی روزے مراد لیے ہیں نفلی نہیں۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح١٩٣٥)
[مسئلہ نمبر:١٨]
(٢)فرضی روزہ کی روزانہ رات کو نیت کرنی چاہیے ۔
اوپر والی حدیث اس پر صادق آتی ہے ۔امام ابن خزیمہ نے (انما الاعمال بالنیات) پر باب باندھا ہے کہ:''روزہ کی اس دن فجر طلوع ہونے سے پہلے روزانہ نیت کرنا واجب ہے ،برخلاف اس آدمی کے جس نے کہا ہے کہ ایک دفعہ کی نیت تمام مہینے کے لیے کافی ہے۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح١٩٣٤)اور امام ابن المنذر النیشابوری فرماتے ہیں :''اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم١٢٣)
[مسئلہ نمبر:١٩]روزہ کی نیت کے مروجہ الفاظ کی حقیقت:
روزہ کی نیت کے مشھور مروجہ الفاظ :''وبصوم غدنویت من شھر رمضان''کسی نے خود گھڑے ہیں جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیںلہذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔شیخ منیر احمد قمر حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ:''یہ الفاظ نبی اکرم ؐ نے نہ خود کہے اور نہ تعلیم فرمائے ۔یہ نہ خلفاء وصحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہیںاور نہ ہی تابعین و آئمہ رحمھم اللہ میں سے کسی سے ثابت ہیں ۔کتب حدیث وفقہ کا سارا ذخیرہ چھان ماریں یہ الفاظ کہیں نہیں ملیں گے اور جن بعض عام سی کتابوں میں ملیں گے۔ان میں بھی قطعا بے سند مذکور ہوں گے ۔معلوم نہیں کہ یہ الفاظ کس نے جوڑ دئیے ہیں۔ویسے اگر تھوڑے سے غورو فکر سے کام لیا جائے تو خود ان الفاظ میں ہی ان کے جعلی و من گھڑت ہونے کی دلیل موجود ہے۔مثلا طلوع ِ صبح صادق کے وقت آذان فجر سے تھوڑا پہلے سحری کھانے سے قبل یہ کہتا ہے ہے :''میں نے کل کے روزے کی نیت کی ۔''تو اس کا یہ قول واقع اور حقیقت کے خلاف ہے ،کیونکہ فجر تو ہو چکی اور یہ روزہ جس کی وہ سحری کھانے لگا ہے کل کا نہیں بلکہ آج کا ہے ۔یہاں:''وبصوم الیوم''کے جیسے الفاظ ہونے چاہییں تھے کہ میں نے آج کے روزے کی نیت کی۔کیونکہ کتبِ لغت میں غَدِِ کا معنی لکھا ہے :آئندہ کل یا وہ دن جس کا انتظار ہے ، یعنی قیامت کا دن ۔''(نماز وروزہ کی نیت:ص٣٧۔٣٨)معلوم ہوا کہ یہ الفاظ شرعا ولغۃ دونوں اعتبار سے ثابت نہیں ہیں ۔جب نیت کا تعلق ہی دل سے ہے تو پھر ان موضوع (من گھڑت)الفاظ سے نیت کرنا چہ معنی دارد؟۔
 
Top