• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نیک اعمال کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ کرنے کا حکم ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نیک اعمال کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ کرنے کا حکم ؟؟؟

سوال:

ایک شخص میقات سے احرام باندھتا ہے، اور اپنے عمرے کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ کرنے کی نیت کرتا ہے، تو کیا اس کا عمرہ مقبول ہوگا؟ اور کیا اس کے اس عمل کا اجر مسلمانوں کو پہنچے گا؟


الحمد للہ:

نیک اعمال کا ثواب کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کو ہدیہ کرنے کے بارے میں اہل علم رحمہم اللہ کا اختلاف ہے، اور اس مسئلہ کے بارے میں ویب سائٹ پر پر تفصیلی گفتگو گزر چکی ہے، اور وہاں پر اس بات کو راجح قرار دیا گیا ہے کہ میت کو صرف انہیں نیک اعمال کا ثواب پہنچتا ہے جن کے بارے میں نصوص موجود ہیں، جیسے کہ صدقہ ، دعا وغیرہ؛ اسکی بنیادی وجہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ: {وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى}اور انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی اس نے خود کوشش کی۔ [النجم : 39]

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (46698) اور (103966) کا مطالعہ کریں۔

چنانچہ نیک اعمال کا ثواب تمام مسلمانوں کیلئے ہدیہ کرنا تو بالاولی منع ہوگا، بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ایصالِ ثواب کا یہ طریقہ سلف صالحین میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا، جو مکمل قرآن مجید یا کچھ حصہ پڑھ کر کہتا ہے: " یا اللہ! جو کچھ میں نے پڑھا ہے اسے میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ فرما دے، یا زمین پر موجود مشرق سے مغرب تک تمام لوگوں کو میری طرف سے یہ ہدیہ کر دے" تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ یا مستحب ہے؟ کیا ایسے شخص کو اس کے عمل سے روکنا ضروری ہے؟ اور کیا کسی مسلمان عالم نے پہلے ایسے کیا ہے؟

تو ابن تیمیہ نےجواب میں درج ذیل گفتگو فرمائی:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید پڑھنے کا ثواب ہدیہ کرنا، یا تمام اہل زمین کو ہدیہ کرنا بعض کے نزدیک ایسے ہے، جیسے نفل روزوں ، نمازوں، اور دیگر [بدنی]نفل عبادات کا ثواب ہدیہ کیا جائے، اور کچھ نے اسے صدقہ ، غلام آزاد کرنا، اور حج [یعنی: مالی عبادات]کا ثواب ہدیہ کرنے سے مشابہ قرار دیا ہے، [یعنی: اس کے بارے میں دو اقوال ہیں] ہمیں سلف صالحین، صحابہ کرام، تابعین عظام یا تبع تابعین کسی سے بھی ایسی بات نہیں ملی کہ انہوں نے ایسے کیا ہو، سب سے پہلے جس نے -ہمارے علم کے مطابق- یہ کام کیا وہ علی بن موفق ہیں جو کہ احمد الکبار کے ہم عصر، اور جنید کے مشایخ میں سے ہیں۔۔۔۔ (آگے فرماتے ہیں)لیکن ۔۔ تمام لوگوں کو نیک اعمال کا ثواب ہدیہ کرنا ! اس بارے میں کبھی نہیں سنا کہ کسی نے ایسا کیا ہو، اور نہ یہ بات میں نے سنی ہے کہ کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثواب ہدیہ کیا کرتا تھا، ماسوائے علی بن موفق وغیرہ کے، اور [یہ بات مسلم ہے کہ] صحابہ کرام، تابعین عظام، اور تبع تابعین کی اقتدا ان کی اقتدا سے بہتر ہے، چنانچہ انسان کو وہی عمل کرنا چاہیے جو شرعی طور پر صحیح ہو، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے، کیونکہ اسی کے بارے میں اللہ تعالی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، چنانچہ سنن میں یہ روایت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جمعہ کے دن اور رات میں مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔)

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم -آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں-پر درود پڑھنے کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس کیلئے یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح مؤمن مرد وخواتین کیلئے دعا کرنا، ان کیلئے اللہ سے بخشش طلب کرنا بھی ایسا عمل ہے جس کے بارے میں کتاب و سنت میں ترغیب دلائی گئی ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:


{ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}

ترجمہ: اور اپنے گناہوں کی،اور مؤمن مرد و خواتین کیلئے بخشش طلب کریں۔ [محمد : 19]۔۔۔۔

چنانچہ ایک مؤمن کو شریعت میں ثابت شدہ افعال ہی تلاش کرنے چاہییں۔ واللہ اعلم" انتہی

" جامع المسائل لابن تيمية " (4/209- 213)

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد :

عمرے کا ثواب تمام مسلمانوں کو ہدیہ نہیں کرنا چاہیے، تاہم اس شخص نے جو عمل کر لیا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اسکی اچھی نیت پر ثواب سے نوازے، لیکن اسے چاہیے کہ دوبارہ ایسا مت کرے، اور انہیں باتوں پر اکتفا کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے شرعی قرار دی ہیں، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" چنانچہ ایک مؤمن کو شریعت میں ثابت شدہ افعال ہی تلاش کرنے چاہییں "

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/226347
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا مسلمان ہے کہ اسکے پاس اتنی نیکی ہوگئی کہ اب اسے مزید نیکی کی ضرورت نہیں اور وہ اپنے نیک اعمال کو دوسروں کےلیے وقف کرتا ہے ۔دراصل مسلمانوں کو بتایا ہی نہیں گیا کہ نیکی کا کیا فائدہ اور برائی کا کیا نقصان ہے اس لیے جب وہ حرم جیسے مقدس مقام پہ آتا ہے تو بجاے اس کے کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے اللہ سے خوب روے گڑگڑاے ۔اس وقت اسے سارے مرے ہوے مسلمان یا اپنے قریب و دور کے رشتے نظر آتے ہیں بس انکے نام سے عمرہ کرنا ،حج کرنا اور طواف کرنا ۔اور اپنے آپ کو بھول ھی جاتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنا نیک عمل کرکے امت کو نہیں بخشا یا کسی صحابی نے کوئی نیک عمل کرکے سارے مسلمانوں کو بخشا ہو ۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ بیماری موجودہ مسلمانوں میں کہاں سے آئی ۔یہ ساری بیماری حدیث سے دوری کا نتیجہ اور تقلید کا شاخسانہ ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا مسلمان ہے کہ اسکے پاس اتنی نیکی ہوگئی کہ اب اسے مزید نیکی کی ضرورت نہیں اور وہ اپنے نیک اعمال کو دوسروں کےلیے وقف کرتا ہے ۔دراصل مسلمانوں کو بتایا ہی نہیں گیا کہ نیکی کا کیا فائدہ اور برائی کا کیا نقصان ہے اس لیے جب وہ حرم جیسے مقدس مقام پہ آتا ہے تو بجاے اس کے کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے اللہ سے خوب روے گڑگڑاے ۔اس وقت اسے سارے مرے ہوے مسلمان یا اپنے قریب و دور کے رشتے نظر آتے ہیں بس انکے نام سے عمرہ کرنا ،حج کرنا اور طواف کرنا ۔اور اپنے آپ کو بھول ھی جاتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنا نیک عمل کرکے امت کو نہیں بخشا یا کسی صحابی نے کوئی نیک عمل کرکے سارے مسلمانوں کو بخشا ہو ۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ بیماری موجودہ مسلمانوں میں کہاں سے آئی ۔یہ ساری بیماری حدیث سے دوری کا نتیجہ اور تقلید کا شاخسانہ ہے ۔
متفق -

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ سوره البقرہ ١٤١
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا -
 
Top