• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

هل صحيح موقوف يقوّى ضعيف مرفوع؟

شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
السلام عليكم ورحمت الله وبركاته

تيسير مسطلح الحديث اور ديگر اصول حدیث کی کتاب مے پایا جاتا ہے کے جب موقوف صحیح ثابت ہو جائے تو ضعیف مرفوع کو تقویت پھوچاتی ہے۔
اس اصول سے کیا صحیح موقوف ہونے سے ضعیف مرفوع حسن کا درجہ پا جائےگی؟

علماء کرام سے گزارش ہے براہے مہربانی وضاحت کرے۔
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
بہت اچھا سوال ہے. ان شاء اللہ ہمارا بھی فائدہ ہوگا.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام عليكم ورحمت الله وبركاته
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تيسير مسطلح الحديث اور ديگر اصول حدیث کی کتاب مے پایا جاتا ہے کے جب موقوف صحیح ثابت ہو جائے تو ضعیف مرفوع کو تقویت پھوچاتی ہے۔
تيسير مصطلح الحديث (ص: 166)
الأصل في الموقوف عدم وجوب العمل به؛ لأنه أقوال وأفعال لصحابة، لكنها إن ثبتت فإنها تقوي بعض الأحاديث الضعيفة؛ كما مر في المرسل؛ لأن حال الصحابة كان هو العمل بالسنة ۔
تقویت کا معنی کیا ہے ؟ اگر تو معنی یہ ہے کہ جس مسئلہ پر استدلال کیا جارہا ہے ، موقوف حدیث اس استدلال کو تقویت پہنچاتی ہے تو درست ۔ اسی طرح بعض روایات بظاہر موقوف ہوتی ہیں ، لیکن ان کا حکم مرفوع والا ہوتا ہے ، ایسی صورت میں مزید تقویت مل سکتی ہے ۔
اس اصول سے کیا صحیح موقوف ہونے سے ضعیف مرفوع حسن کا درجہ پا جائےگی؟
روایت ضعیف کیوں ہوتی ہے ؟
اس سوال پر غور کرلیں ، تو پھر ضعف کیسے دور ہوسکتا ہے ؟ وہ خود بخود سمجھ آجائے گا ۔
ایک حدیث کی سند میں کمزور حافظے والا راوی ہے ، تو ہم اسے اس لیے ضعیف کہہ دیتے ہیں کہ کہ اسے یاد کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے ، لیکن اگر اس کا کوئی ساتھی بھی وہی بیان کرے دے ، تو اس کا مطلب ہے کہ اس کمزور حافظے والے نے یاد کرنے میں غلطی نہیں کی ، لہذا اس کی روایت کو ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ حسن لغیرہ ہوگئی ۔
اب آپ دیکھ لیں ، ضعیف مرفوع کے ساتھ صحیح موقوف کا کوئی جوڑ بنتا ہے ؟ اگر تو دونوں ایک ہی سند سے ہوئیں پھر تو ٹھیک ہے ، صورت حال دیکھ کر اس کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ، لیکن بعض دفعہ یہ چیز بذات خود وجہ ضعف بن جاتی ہے ، کہ ایک سند سے روایت کبھی مرفوع بیان کی جارہی ہے ، کبھی موقوف ، اس کا مطلب ہے روایت کرنے میں کہیں گڑ بڑ ہے ۔
اور اگر سندیں دونوں کی الگ الگ ہیں ، تو پھر ایک کو دوسری کی وجہ سے حسن کہنا درست نہیں ، واللہ اعلم ۔ کیونکہ اسناد میں موجود راوی کی روایت کی تحسین اسی وقت کی جاسکتی ہے ، جب دوسرا راوی بھی اسی سند کا حصہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔ اصول حدیث کی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں جب ’ مخرج ’ متحد ہو تو اسانید ایک دوسرے کے لیے تقویت یا تضعیف کا باعث بن سکتی ہیں ، جبکہ مخرج الگ ہوجائے تو پھر نہ تقویت ہوسکتی ہے نہ تضعیف ۔ واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
یعنی جب سند الگ ہو اور حکما مرفوع بھی نہ ہو تو سورت ایسے ہی ہے جیسے کسی اہل علم کا کسی مسالہ پر عمل کرنا اس مسالہ مے وارد ضعیف حدیث کو حسن یا صحیح نہی کرتی؟

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ایک حدیث کی سند میں کمزور حافظے والا راوی ہے ، تو ہم اسے اس لیے ضعیف کہہ دیتے ہیں کہ کہ اسے یاد کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے ، لیکن اگر اس کا کوئی ساتھی بھی وہی بیان کرے دے ، تو اس کا مطلب ہے کہ اس کمزور حافظے والے نے یاد کرنے میں غلطی نہیں کی ، لہذا اس کی روایت کو ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ حسن لغیرہ ہوگئی ۔
اس مذکورہ پیراگراف سے جو میں سمجھا ہوں (اگر غلطی ہو تو تصحیح فرما دیجئے گا) کہ کمزور حافظے والے کا ہم عصر بھی وہی بیان کرے اگر چہ اس روایت میں اس ہم عصر کے علاوہ کوئی اور ضعیف راوی موجود ہو تو وہ روایت قابلِ استدلال ہوگی۔ جب کہ آپ کے درج پیراگراف سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ دونوں کی سند ایک ہی ہو سوائے اس کے کہ اس کمزور حافظے والے کی جگہ ثقہ راوی آئے۔

اب آپ دیکھ لیں ، ضعیف مرفوع کے ساتھ صحیح موقوف کا کوئی جوڑ بنتا ہے ؟ اگر تو دونوں ایک ہی سند سے ہوئیں پھر تو ٹھیک ہے ، صورت حال دیکھ کر اس کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ، لیکن بعض دفعہ یہ چیز بذات خود وجہ ضعف بن جاتی ہے ، کہ ایک سند سے روایت کبھی مرفوع بیان کی جارہی ہے ، کبھی موقوف ، اس کا مطلب ہے روایت کرنے میں کہیں گڑ بڑ ہے ۔
اگر سندیں دونوں کی الگ الگ ہیں ، تو پھر ایک کو دوسری کی وجہ سے حسن کہنا درست نہیں ، واللہ اعلم ۔
اصل میں آپ کے اس مذکورہ فقرہ نے پہلے مذکور دو پیراگراف میں تشکیک پیدا کردی ہے۔
 

Abu Awwab

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 23، 2016
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.

ماشاءاللہ بہت اچھی بحث چل رہی ہیں. اگر متقدمین علماء کرام کے ھوالے سے ضعیف حدیث پر بات ھوتو کافی مفید ثابت ہوگا. اور حمے راجع قول تک پہونچنے میں کافی آسانی ہوگی.

جزاکم لله خير!!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یعنی جب سند الگ ہو اور حکما مرفوع بھی نہ ہو تو سورت ایسے ہی ہے جیسے کسی اہل علم کا کسی مسالہ پر عمل کرنا اس مسالہ مے وارد ضعیف حدیث کو حسن یا صحیح نہی کرتی؟
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جی بالکل ایسے ہی ہے ۔ اس وجہ سے کوئی روایت حسن یا صحیح نہیں ہوسکتی ۔
 
Top