السلام عليكم ورحمت الله وبركاته
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تيسير مسطلح الحديث اور ديگر اصول حدیث کی کتاب مے پایا جاتا ہے کے جب موقوف صحیح ثابت ہو جائے تو ضعیف مرفوع کو تقویت پھوچاتی ہے۔
تيسير مصطلح الحديث (ص: 166)
الأصل في الموقوف عدم وجوب العمل به؛ لأنه أقوال وأفعال لصحابة، لكنها إن ثبتت فإنها تقوي بعض الأحاديث الضعيفة؛ كما مر في المرسل؛ لأن حال الصحابة كان هو العمل بالسنة ۔
تقویت کا معنی کیا ہے ؟ اگر تو معنی یہ ہے کہ جس مسئلہ پر استدلال کیا جارہا ہے ، موقوف حدیث اس استدلال کو تقویت پہنچاتی ہے تو درست ۔ اسی طرح بعض روایات بظاہر موقوف ہوتی ہیں ، لیکن ان کا حکم مرفوع والا ہوتا ہے ، ایسی صورت میں مزید تقویت مل سکتی ہے ۔
اس اصول سے کیا صحیح موقوف ہونے سے ضعیف مرفوع حسن کا درجہ پا جائےگی؟
روایت ضعیف کیوں ہوتی ہے ؟
اس سوال پر غور کرلیں ، تو پھر ضعف کیسے دور ہوسکتا ہے ؟ وہ خود بخود سمجھ آجائے گا ۔
ایک حدیث کی سند میں کمزور حافظے والا راوی ہے ، تو ہم اسے اس لیے ضعیف کہہ دیتے ہیں کہ کہ اسے یاد کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے ، لیکن اگر اس کا کوئی ساتھی بھی وہی بیان کرے دے ، تو اس کا مطلب ہے کہ اس کمزور حافظے والے نے یاد کرنے میں غلطی نہیں کی ، لہذا اس کی روایت کو ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ حسن لغیرہ ہوگئی ۔
اب آپ دیکھ لیں ، ضعیف مرفوع کے ساتھ صحیح موقوف کا کوئی جوڑ بنتا ہے ؟ اگر تو دونوں ایک ہی سند سے ہوئیں پھر تو ٹھیک ہے ، صورت حال دیکھ کر اس کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ، لیکن بعض دفعہ یہ چیز بذات خود وجہ ضعف بن جاتی ہے ، کہ ایک سند سے روایت کبھی مرفوع بیان کی جارہی ہے ، کبھی موقوف ، اس کا مطلب ہے روایت کرنے میں کہیں گڑ بڑ ہے ۔
اور اگر سندیں دونوں کی الگ الگ ہیں ، تو پھر ایک کو دوسری کی وجہ سے حسن کہنا درست نہیں ، واللہ اعلم ۔ کیونکہ اسناد میں موجود راوی کی روایت کی تحسین اسی وقت کی جاسکتی ہے ، جب دوسرا راوی بھی اسی سند کا حصہ ہو ۔ واللہ اعلم ۔ اصول حدیث کی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں جب ’ مخرج ’ متحد ہو تو اسانید ایک دوسرے کے لیے تقویت یا تضعیف کا باعث بن سکتی ہیں ، جبکہ مخرج الگ ہوجائے تو پھر نہ تقویت ہوسکتی ہے نہ تضعیف ۔ واللہ اعلم ۔