• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وادیٔ پرخار

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
باغیوں کا انجام

اسی طرح اﷲتعالیٰ نے پے درپے یہ وعید سُنائی ہے کہ وہ جھٹلانے والوں ،ظالموں اور سرکشوں اورمجرموں کو آخرت میں پکڑے گا اور دُنیا میں ایک مدّت مقرر تک ان کی رسی ڈھیلی چھوڑے گا اورانہیں مہلت دے گا ۔اگرچہ ان میں سے بعض کو اﷲتعالیٰ نے کبھی کبھی دنیا میں بھی پکڑلیا ہے۔لیکن اصل سزا کے لیے آخرت ہی پر زوردیا گیا ہے :
لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ(١٩٦)مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ(١٩٧). (آل عمران)
’’ملک کے اندر اﷲ کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دہوکہ میں نہ ڈالے ۔یہ چند روزہ زندگی کا لُطف ہے ‘پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جو بہت بُری جائے قرار ہے‘‘۔
وَلَا ﺗَﺤۡﺴَﺒَﻦَّ اﷲَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ، اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ، مُھْطِعیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُ وسِھِمْ لَا یرْتَدُّ اِلَیْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْئِدَ تُھُمْ ھَوَآء.
’’یہ ظالم لوگ جو کچھ کررہے ہیں اﷲکو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔اﷲتو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب یہ حال ہوگا کہ آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئی ہیں ۔سراُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں ،نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں‘‘۔
فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ(٤٢)يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الأجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ(٤٣)خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ (٤٤).(معارج)
’’انہیں بے ہودہ باتیں اور کھیل کرنے دو یہاں تک کہ آخر کار وہ دن آموجود ہو جس کا وعدہ ان سے کیا گیا ہے ۔وہ دن جب کہ یہ قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور اس طرح دوڑ رہے ہوں گے کہ گویا وہ کسی استھان کی طرف لپک رہے ہیں۔ان کی نظریں جُھکی ہوں گی ذِلّت چہروں پر چھارہی ہوگی ،یہی تو وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘۔
علیٰ ہذا القیاس انسانی زندگی کا ملاء اعلیٰ کی زندگی سے رشتہ قائم ہے ۔اور دُنیا کا آخرت سے ۔لہٰذا خیر وشر کا معرکہ ِحق وباطل کی آویزش اور ایمان وبغاوت کی کشمکش کا سارا مدار صرف دنیا کے اسٹیج پر نہیں ہے ،اور نہ یہ معاملہ دنیاوی زندگی کے اندر ہی انجام پذیر ہوتا ہے۔اور نہ دنیاوی زندگی ہی کے اندر اس کا فیصلہ سُنایا جاتا ہے۔دنیاوی زندگی اور اس سے وابستہ تمام راحتیں اور تکلیفیں یا لذتیں اورمحرومیاں ہی اﷲ کی میزان فیصلہ کا اصل وزن نہیں ہیں۔اس حقیقت کی رُو سے معرکۂ خیر وشر کا میدان بھی بڑا وسیع ہے ،اور عرصہ بھی بڑا وسیع ہے ۔اور کامیابی اورناکامی کے پیمانے اور اوزان کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے۔اسی بناپر مومن کے فکر ونظر کے آفاق میں غیر معمولی پھیلاؤ آجاتا ہے اور اس کی دلچسپیاں اور توجہات بھی اونچے درجے کی ہوجاتی ہیں ۔اور یہ دنیا اور اس کی رعنائیاں اور یہ زندگی اور اس کے لوازم اُس کی نگاہ میں حقیر اور بے وقعت ہوکر رہ جاتے ہیں۔اور جس قدر اُس کے فکرونظر کے زاویے بلند ہوتے جاتے ہیں اُس کے درجات میں بلندی ہوتی جاتی ہے۔ایسا وسیع ہمہ گیر ا ور پاکیزہ وبلند ترایمانی تصور پیدا کرنے کے لیے اصحاب الاخدود کا قصہ چوٹی کی مثال ہے ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مکذبین کے مختلف انجام

اصحاب الاخدود کے قصہ اور سورۂ بروج سے دعوت الیٰ اﷲکے مزاج اور ہرامکانی صورتِ حال کے بارے میں داعی کے موقف پر ایک اور پہلو سے بھی روشنی پڑتی ہے ۔دعوت الیٰ اﷲ کی تاریخ نے دنیا کے اندر دوسری گوناگوں اور بوقلموں ودعوتوں کے مختلف خاتمے دیکھے ہیں ۔
اس نے قوم نوح علیہ السلام،قوم ہود علیہ السلام،قوم شعیب علیہ السلام اور قوم لوط علیہ السلام کی ہلاکت وبربادی دیکھی ہے۔اور معدودے چند اہل ایمان کی نجات بھی دیکھی ہے۔مگر قرآن نے یہ نہیں بتایا کہ نجات پانے والوں نے بعد میں دُنیا اور دُنیاوی زندگی کے اندر کیا پارٹ ادا کیا۔ان اقوام کی تباہی کی یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ کبھی کبھی اﷲتعالیٰ مکذوبین اور ظالمین کو دُنیا کے اندر ہی عذاب کا ایک حصہ چکھا دیتا ہے۔باقی رہی کامل سزا تو وہ صرف آخرت پر اُٹھارکھی گئی ہے۔اس دعوت نے فرعون اور اس کے لشکریوں کی غرقابی کو بھی دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو بچالیا گیا۔اور پھر اُسے مُلک کے اندر اقتدارکی مسند پر بٹھایا گیا۔اور یہ وہ دور تھا جب یہ قوم اپنی پوری تاریخ میں نسبۃً صالح ترین قوم تھی ۔اگرچہ وہ کبھی بھی استقامت کاملہ کے مرتبہ تک ترقی نہ کرسکی،اور اُس نے دُنیا کے اندر دین الٰہی کو زندگی کے جامع نظام کی حیثیت سے برپا نہ کیا۔یہ نمونہ پہلے نمونوں سے مختلف ہے۔تاریخ دعوت نے اسی طرح ان مشرکین کی لاشوں کے انبار بھی دیکھے جنہوں نے ہدایت سے منہ موڑا اور محمدﷺپر ایمان لانے سے انکار کیا اور یہ بھی دیکھا کہ جب اہلِ ایمان کے دلوں پر عقیدہ کی حیرت انگیز حد تک حکمرانی قائم ہوگئی تو دنیا کے اندر نصرتِ کاملہ نے کس طرح آگے بڑھ کر ان کے قدم چومے۔اور پہلی مرتبہ تاریخ انسانی نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اﷲکا نظام انسانی زندگی کے اصل حاکم کی حیثیت سے عملاًقائم ہوا ۔یہ ایک ایسی صورت تھی کہ انسانی تاریخ نے نہ اس سے پہلے کبھی اس کا مشاہدہ کیا تھا اورنہ بعد میں ۔اورجیسا کہ ہم بتاچکے ہیں دعوتِ اسلامی کی تاریخ نے اصحاب الاخدود کانمونہ بھی دیکھا ہے۔علاوہ ازیں تاریخ نے قدیم اور جدید زمانے میں اور بھی کئی مناظر دیکھے ہیں۔جوتاریخ ایمان کے دفتر میں زیادہ نمایاں جگہ نہیں پاسکے ۔اور ابھی تک اُس کی آنکھ طرح طرح کے نمونے دیکھ رہی ہے جو انہی انجاموں میں سے کسی نہ کسی انجام سے دوچار ہوتے جارہے ہیں جو صدیوں سے تاریخ کے سینے میں محفوظ چلے آرہے ہیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اصحاب الاخدود کا جُداگانہ انجام اور اہلِ ایمان کے لیے اس واقعہ میں اصل عبرت

دوسرے نمونوں کا ذکر بھی بے شک ضروری ہے مگر اُس نمونے کے ذکر کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے جس کی نمائندگی اصحاب الاخدود کرتے ہیں۔یہ وہ ناگزیزنمونۂ عبرت ہے جس میں اہل ایمان کو نجات نہیں ملتی ،اور اہل کفر کی بھی دنیا میں گرفت نہیں ہوتی۔یہ اس لیے ہے کہ تاکہ اہلِ ایمان اور داعیانحق کے شعور میں یہ بات پوری طرح اُتر جائے کہ راہِ حق میں انہیں بھی ایسے ہی انجام سے دوچار کیا جاسکتا ہے ،اس بارے میں اُن کوکوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ان کا اور ان کے ایمان کا معاملہ سراسر اﷲکے سپرد ہے ۔ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اپنے فرض کو سرانجام دیں اور رخصت ہوجائیں ،ان کا فرض یہ ہے کہ وہ صرف اﷲ کو اپنے لیے پسند کرلیں ،زندگی پر عقیدہ کو ترجیح دیں اور آزمائش میں ڈالیں جائیں تو ایمان کی مددسے اس پر غلبہ پائیں ،زبان اور نیت سے بھی اﷲتعالیٰ اُن کے ساتھ اور اُن کے دشمنوں کے ساتھ جو چاہے کرے اور اپنے دین اور اپنی دعوت کے لیے جومقام چاہے منتخب کرلے۔وہ چاہے تو ان کو اُن انجاموں میں سے کسی انجام کے حوالے کرے جن سے اہلِ ایمان وعزیمت تاریخ میں دوچار ہوتے رہے ہیں ،یا اُن کے لیے کوئی ایسا انجام پسند فرمائے جسے وہ خود ہی جانتا اور دیکھتا ہے ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مومنین اللہ کے اجیر اور کارندے ہیں

اہلِ ایمان اﷲ کے اجیر اور کارندے ہیں۔وہ جو کچھ ان سے کام لینا چاہتا ہے ،جہاں اور جب چاہتا ہے ،اور جس انداز سے چاہتا ہے،ان کا کام اُسے انجام دینا اور طے شدہ معاوضہ لینا ہے۔دعوت کا کیا انجام ہوتا ہے یہ ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے اور نہ یہ اُن کے بس کی بات ہے ۔یہ مالک کی ذمہ داری ہے ،مزدور اور کارکن کو اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اہلِ ایمان اپنی مزدوری کی پہلی قسط دنیا ہی میں وصول کرلیتے ہیں۔یہ قسط ہے زندگی بھر طمانیت قلب ،احساس وشعور کی بلندی ،تصورات کا حُسن اور پاکیزگی ،سفلی ترغیبات اور گھٹیا خواہشوں سے آزادی ،خوف وقلق سے نجات دوسری قسط بھی وہ اسی محدود دنیا کے اندر ہی وصول کرلیتے ہیں۔جو انہیں ملاءاعلیٰ میں ستائش ،ذکر خیر اور تکریم کی شکل میں ملتی ہے وہ اﷲکی خوشنودی ہے ،اور اﷲ کی یہ عنایت ہے کہ اُسی نے انہیں اس مقصد کے لیے منتخب کرلیا ہے کہ دست قضامیں صورت شمشہ ہوں،اور اﷲکی قدرت وحکمت کی ڈھال بنیں تاکہ وہ دنیا کے اندر ان کے ذریعہ سے جو چاہے کرشمہ سازی کرے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
صدر اوّل کے اہلِ ایمان

قرآن کریم نے صدر اوّل میں اہل ایمان کی برگزیدہ جماعت کو ترتیب دی تھی وہ ارتقاء وکمال کے اسی درجۂ بلند کو پہنچی ہوئی تھی ۔چنانچہ انہوں نے اپنی انفرادیت کو کلیۃً فنا کردیا ،اور کارِ دعوت میں انہوں نے ’’انا‘‘کو ہمیشہ لیے فارغ خطی دے دی ،وہ صرف صاحب دعوت کے لیے مزدور اور کارکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔وہ بہرحال اور ہر بات میں اللہ کے اس انتخاب اور فیصلے پر راضی رہے ۔نبوی ترتیب ان کے دلوں اورنگاہوں کو جنت کی طرف متوجہ کررہی تھی اور انہیں تلقین کررہی تھی کہ جو پارٹ ان کے لیے پسند کیاگیا ہے وہ اسے ثابت قدمی کے ساتھ اس وقت تک اداکرتے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ اپنا وہ فیصلہ نہیں نازل فرمادیتا جو دنیا میں اسے مطلوب ہے اور آخرت کے لحاظ سے بھی اُسے محبوب ہے۔آنجناب ﷺمکہ میں حضرت عمار اور ان کی والدہ اور ان کے والد رضی اللہ عنہم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ انہیں شدید عذاب دیا جارہا ہے ،مگر آپ اس سے زیادہ کچھ نہ فرماتے :صبراً یا آلِ یاسر، موعدکم الجنة.(اے آل یاسر !صبر کرو کا دامن نہ چھوٹنے پائے ، تم سے جنت کا وعدہ ہوچکا ہے) حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکعبہ کے سائے میں چادر کی ٹیک لگائے آرام فرمارہے تھے کہ ہم نے آپ ﷺسے شکایت کی اور عرض کیا :’’آپﷺاللہ سے ہماری نصرت کیوں نہیں مانگتے،اور ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟’’آنجناب ﷺنے فرمایا:تم سے پہلی امتوں کا یہ حال تھا کہ ایک آدمی کو پکڑلیا جاتا اور اُس کے لیے زمین میں گڑھا کھود کر اس کو اس میں اُتار دیا جاتا،پھر آری لاکر اُسے سر سے نیچے تک دوٹکڑوں میں چیز ڈالا جاتا۔اُن کے جسموں پر گوشت اور ہڈیوں کے درمیان لوہے کی کنگھیاں پھیری جاتیں۔لیکن یہ سب کچھ انہیں دین سے نہ ہٹا سکتا۔اللہ کی قسم ،اللہ اس دین کو مکمل کرکے چھوڑے گا اور وہ وقت آئے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک اکیلا سفرکرے گا مگر اُسے کوئی خوف نہ ہوگا ،صر ف اللہ کاخوف ہوگا یا بکریوں پر بھیڑیے کے حملے کا ۔لیکن تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔‘‘ (بخاری)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مومن اور اللہ کی حکمت بے پایاں

ہر کام اور ہر حال کی تہ میں اﷲ کی حکمت کارفرماہے ۔وہی پوری اس کائنات کی تدبیر کررہا ہے ۔اس کے آغاز وانتہا سے باخبر ہے ۔اس دنیا کے اندر جو کچھ وقوع پذیر ہورہا ہے وہی اس کی تنظیم کرتا ہے ،پردۂ غیب میں جو حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے صرف وہی اُس کو جانتا ہے۔یہ حکمت ومصلحت تاریخ کے پورے سفر میں اُس کی مشیت کے تابع چلی آرہی ہے۔بعض اوقات اﷲتعالیٰ کئی صدیوں اور نسلوں کے گزرجانے کے بعد ایک ایسے واقعہ کی حکمت سے پردہ اُٹھاتا ہے جسے عہد واقعہ کے لوگ نہ سمجھتے تھے ۔اور شاید وہ اسی ٹوہ میں رہے ہوں گے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور اپنے پروردگار سے سوال کرتے رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔یہ سوال ہی بجائے خود ایک جہالت ہے جس سے مومن بچتا رہتا ہے ۔اُسے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کے ہر فیصلے میں حکمت پنہاں ہے ۔مومن کا وسیع تصور اور زمان ومکان اور اوزان واقدار کے بارے میں اُس کیژرف نگاہی اُسے یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ یہ سوا ل سوچ بھی سکے۔چنانچہ وہ قافلۂ قضاوقدر کا پورے اطمینان اور تسلیم ورضا کے عالم میں ہمسفر رہتا ہے ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
قرآن کی اصل تربیت

قرآن ایسے قلوب پیدا کررہا تھا جو بار امانت (اشارہ ہے خلافت الٰہی کے قیام کی طرف)اٹھانے کے لیے تیار ہوجائیں اور ضروری تھا کہ یہ قلوب اتنے ٹھوس اور مضبوط اور پاکیزہ وخالص ہوں کہ اس راہ میں اپنی ہر چیز نچھاور کردیں اور ہر آزمائش کا خیر مقدم کریں اور دوسری طرف دنیا کے مال ومتاع میں سے کسی چیز پر نظر رکھنے کے بجائے صرف آخرت کو اپنا مطمح نظر بنائیں اور صرف رضائے الٰہی کے طلب گار رہیں ۔گویا ایسے بے نظیر قلوب ہوں جو سفرِ دنیا کو تادم آخریں تکلیف وتنگی ،محرومی و کم نصیبی ،عذاب وجانکاہی اور سرفروشی وایثار پیشگی کے اندر گزارنے کے لیے تیار ہوں ،اور اس دنیا کے اندر کسی عاجلانہ جزا کی اُمید نہ رکھیں خواہ یہ جزا دعوت کے فروغ ،اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کی شوکت کی شکل میں ہی کیوں نہ ظاہر ہوبلکہ ظالموں کی ہلاکت اور ان کی عبرت ناک پکڑ کی صورت ہی کیوں نہ اختیار کرے ۔جیسا کہ پچھلے مکذبین کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے کیا ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ضروری نہیں کہ اہل ایمان کو دنیاوی غلبہ حاصل ہو

جب اس پائے کے قلوب وجود میں آگئے جو اس یقین سے سرشار تھے کہ دنیا کے سفر میں کسی اجر ومعاوضہ کے بغیر انہیں ہر خدمت اور ہر قربانی انجام دینی ہے ،اور جو سمجھتے تھے کہ صرف آخرت ہی حق وباطل کے درمیان اصل فیصلہ ہوگا۔جب ایسے کھرے قلوب مہیا ہوگئے ،اور اﷲتعالیٰ نے دیکھ لیا کہ انہوں نے جو سودا کیا ہے اس میں وہ سچے اور مخلص ہیں تب اﷲ تعالیٰ نے زمین میں اُن پر نصرت نازل فرمائی اور زمین کی امانت انہیں سونپ دی۔مگر یہ امانت اس لیے انہیں نہیں دی کہ وہ اسے ذاتی تصرف میں لائیں بلکہ اس لیے دی کہ وہ نظام حق برپاکریں ۔اس گراں بار امانت کو اُٹھانے کی اہلیت واستحقاق انہیں اُسی روز حاصل ہوگیا تھا جب کہ اُن سے دنیا کے اندر کسی کامیابی اور فائدہ کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا جس کا وہ تقاضاکرتے،اورنہ خود ان کی نگاہیںدنیاوی غنائم پر لگی ہوئی تھیں۔وہ صحیح معنوں میں اُسی روز سے اﷲتعالیٰ کے لیے خالص ہوچکے تھے جس روز سے اُن کی نگاہوں کو رضائے الٰہی کے سوا کسی اجر ومزد کی تلاش نہ رہی۔
قرآ ن کی جن آیات میں نصر ت کا وعدہ کیا گیا ہے ،یا مغانم کا ذکر ہوا ہے یا یہ اطلاع دی گئی ہے کہ مشرکین کو دنیا کے اندر ہی اہل ایمان کے ذریعہ کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے گا۔ایسی تمام آیات مدنی دور میں نازل ہوئی ہیں۔یہ تب نازل ہوئی ہیں جب یہ تمام چیزیں اہلِ ایمان کے پروگرام سے خارج ہوچکی تھیں،اور انہیں ان میں سے کسی چیز کا انتظار رہا تھا اور نہ طلب۔نُصرتِ الٰہی خود بخودنازل ہوئی اور اس لیے نازل ہوئی کہ مشیتِ الٰہی کا یہ تقاضا تھا کہ نظامِ حق انسانی زندگی کے اندر عملی پیکر بن کر نمودار ہوکر ایسی جیتی جاگتی تصویر بن جائے جسے انسان بچشم خود دیکھ لیں۔یہ نصرت اہلِ ایمان کی محنت و مشقت اور ان کی سرفروشیوں اور قربانیوں کاانعام نہیں تھا۔بلکہ یہ اﷲکا ایک فیصلہ تھاجس کے بطن میں اﷲکی وہ حکمتیں اور مصلحتیں چھپی ہوئی تھیں جنہیں ہم آج دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
دنیاوی غلبہ مشیتِ الٰہی کے تحت ہوگانہ کہ صِلہ کے طور پر

دعوت کا یہ وہ پہلو ہے جس پر ہر ملک اور ہر قوم اور نسل کے داعیانِ حق کو پورا غور وتدبر کرنا چاہئے ۔صرف یہی ایک پہلو انہیں راہِ حق کے تمام نشانات اور خطوط کو صاف صاف کسی ابہام وغموض کے بغیر دکھا سکتا ہے ۔اور اُن بندگان صدق وصفا کو ثابت قدمی بخش سکتا ہے جو یہ ارادہ کرچکے ہیں کہ وہ راہِ حق کو اس کی انتہاء تک طے کریں گے خواہ یہ انتہاکیسی کچھ ہو۔اور اﷲ نے اپنی دعوت کے لیے اور ان کے لیے جو کچھ بھی مقدر فرما رکھا ہے وہ درست ہے ۔اس پر آشوب اور خون آشام راستے کو جو کاسۂ ہائے سر سے پٹا ہوا ہے طے کرتے وقت وہ کبھی نصرت وغلبہ کے لیے چشم براہ نہیں رہیں گے یا اِسی دنیا کے اندر حق وباطل کے درمیان فیصلہ کے لیے بے تاب نہ ہوں گے ۔البتہ اگر خود ذات الٰہی اپنی دعوت اور اپنے دین کی مصلحت کی خاطر ان سے ایسا کوئی کام لینا چاہے گی تو اسے پورا کرکے رہے گی۔مگر یہ ان کی قربانیوں اور جانفشانیوں اور آلام ومصائب کا صلہ ہرگز نہ ہوگا۔یہ دنیا دارالجزا نہیں ہے۔بلکہ یہ اﷲکی مشیت اور فیصلے کی تنفیذ ہوگی جوو ہ اپنی دعوت اور اپنے نظام کے بارے میں طے فرمائے گا۔اور جس کے لئے اپنے کچھ بندوں کو منتخب فرمائے گا تاکہ ان کے ذریعے وہ اپنی مشیت کو پورا کرے۔ان کے لیے یہی شرف کافی ہے کہ قرعہ فال ان کے نام نکل آیا۔اس شرف کے آگے دنیا کی زندگی اور اس میں پیش آنے والی آسائشیں اور تکلیفیں ہیچ اور حقیر ہیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اہل ایمان کی جنگ سیاسی نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی جنگ ہے

یہاں ایک اور حقیقت قابل غور ہے جس کی طرف قرآن نے اصحاب الاخدود کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ذیل کی آیت میں اشارہ کیا ہے:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّا اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاﷲِ العَزِیْزِ الْحَمِیدِ ۔
’’اور وہ اہل ایمان سے صرف اس وجہ سے چڑے کہ وہ اﷲعزیز وحمید پر ایمان لاچکے تھے‘‘۔
اس حقیقتِ قرآن پر بھی داعیانِ حق کو ہر دور اور ہر ملک کے داعیانِ حق کو گہری نگاہ سے غور وتأمل کرنا چاہیے۔اہلِ ایمان اور ان کے حریفوں کے درمیان جو جنگ برپاہے یہ درحقیقت عقیدہ وفکر کی جنگ ہے ،اس کے سوا اس جنگ کی اور کوئی حیثیت قطعاً نہیں ہے ۔ان مخالفین کو مومنین کے صرف ایمان سے عداوت ہے اور ان کی تمام برافروختگی اور غیض وغضب کا سبب وہ عقیدہ ہے جسے مومنین نے حرز جاں بنارکھا ہے ۔یہ کوئی سیاسی جنگ ہرگز نہیں ہے ۔نہ یہ اقتصادی یا نسلی معرکہ آرائی ہے ۔اگر اس نوعیت کا کوئی جھگڑا ہوتا تو اسے باآسانی چکایا جاسکتا تھا۔اور اس کی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا تھا لیکن یہ تو اپنے جو ہر وروح کے لحاظ سے خالصۃً ایک فکری جنگ ہے ۔یہاں امر متنازع فیہ یہ ہے کہ کفر رہے گا یا ایمان جاہلیت کا چلن ہوگا یا اسلام کی حکومت!
مشرکین کے سرداروں نے رسول اﷲﷺکو مال ودولت ،حکومت اور دوسرے ہر طرح کے دنیوی مفادات پیش کیے اور ان کے مقابلے میں صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا اور وہ یہ کہ آپ عقیدہ کی جنگ ترک کردیں ،اور اس معاملے میں اُن سے کوئی سودے بازی کرلیں۔اور اگر اﷲ نخواستہ آپ اُن کی یہ خواہش پُوری کردیتے تو آپ کے ان کے درمیان کوئی جھگڑا باقی نہ رہتا۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایمان وکفر کامسئلہ ہے اور اس کشمکش کی تمام تربنیاد عقیدہ پر ہے۔مومنین کو جہاں کہیں اعداء سے سامنا ہو یہ بنیادی حقیقت ان کے دل ودماغ پر منقش رہنی چاہیے۔اس لیے کہ اعداء کی تمام تر عداوت وخفگی کا سبب صرف یہ عقیدہ ہے کہ ’’وہ اس اﷲپر ایمان رکھتے ہیں جو غالب اور حمید ہے ‘‘اور صرف اسی کی اطاعت کرتے ہیں اور اُسی کے آگے سرافگندہ ہیں۔
 
Top