• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وارثت :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وارثت :


تحریر : ڈاکٹر زیل شہزاد

وراثت میں عورت کے مقابلے میں مرد کو دُگنا حصہ ملنے کی بنیاد پر اسلام کے خلاف واویلہ مچانے والوں کو چاہیے کہ شرعی معاملات کے متعلق ذاتی علم نہ ہونے کی وجہ سے فضول گوئی کی بجائے اپنا منہ بند ہی رکھیں.

اسلام انسان کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے ، اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں ، انہی میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ اسلام نے انسان کے لئے بہترین اقتصادی نظام دیا ہے ، جو کئی امور پر مشتمل ہے جن میں تقسیم میراث کا نظام بھی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ اسلام نے بہت سارے امور کی رعایت کرتے ہوئے اس کا نظام بنایا ہے ، جس میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی میراث کا حقدار بنایا گیا ہے ۔

چونکہ اسلام پر روز اول سے ہی اس کے دشمن مختلف حربوں سے حملہ کرتے رہے ہیں ، لہذا انہوں نے اسلام کے نظام میراث کو بھی نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے و ہ اس طرح سے کہ لوگوں کو دین اسلام سے متنفر کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ اسلام نے تقسیم میراث میں عورت پر ظلم کیا ہے کیوں کہ اسے مرد کے مقابلے میں صرف نصف کا حقدار ٹہرایا ہے ۔

حالانکہ علم میراث پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ عورت کبھی مرد کے برابر اور کھبی اس سے بھی زیادہ حصہ کی حقدار ہوتی ہے، اور کچھ حالات میں تو عورت حصہ پاتی ہے مگر مرد کو کچھ بھی نہیں ملتا ہے ، جب کہ عورت صرف چار حالات میں مرد سے کم حصہ کی حقدار ہوتی ہے ، لہذا دشمنان اسلام کا ایسا پروپیگنڈہ کرنا قطعا صحیح نہ ہوگا۔

ذیل میں ان امور پر روشنی ڈال کر انہیں واضح کیا جائے گا ۔ لیکن اس سے قبل اس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ دیگر ادیان میں عورت کی میراث کے بارے میں کس قسم کی تعلیمات ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ دین اسلام کا نظام میراث سب سے اچھا نظام ہے :

اسلام سے قبل ، اور دیگر موجودہ سماجوں میں عورت کی میراث :

1۔ یہودی مذہب میں عورت کو میراث سے محروم رکھا گیا ہے:

چاہیے کہ وہ ماں ، بہن ، بیٹی یا کوئی اور ہو ۔ البتہ اگر کوئی مرد نہ ہو تو پھر اسے وراثت ملے گی ، جیسے اگر بیٹا موجود ہے تو بیٹی کو کچھ نہیں ملے گا ( سفر العدد اصحاح / 27 : 1 ـ 11 ) جب کہ بیوی کو شوہر کے ترکہ سے کسی بھی صورت میں کچھ بھی نہیں ملے گا ۔

2 ۔ رومیوں کے ہا ں عورت کی میراث :

ان کے ہا ں عورت کو مرد کے برابر حصہ ملتا تھا۔ لیکن بیو ی کو اپنے شوہر کے ترکہ سے کچھ بھی نہیں ملتا تھا تاکہ اس خاندان کا مال دوسرے خاندان میں منتقل نہ ہوجا ئے ، اسی کا لحاظ کرتے ہو ئے اگر کسی عورت نے اپنے باپ سے میرا ث پا ئی ہو اور جب وہ مرجا ئے تو اس کے ترکہ سے اس کے بیٹے اور بیٹوں کے بجائے اس کے بھائیو ں کو حصہ ملتا تھا

3۔ سامی قوموں ( قدیم مشرقی قوموں ) کے نزدیک عورت کی میراث :

اس سے مراد طورانی ، کلدانی ، سریانی ، فنیقی ، شامی ، اشوری ، یونانی قومیں ہیں جو عیسی علیہ السلام کی ولادت سے قبل مشرق میں آباد تھیں ۔ ان کے نزدیک میراث کا نظام یہ تھا کہ باپ کے بعد بڑا بیٹا باپ کی جگہ لیتا تھا ، اگر وہ موجود نہ ہوتا تو مردوں میں سب سے زیادہ ارشد مرد کو مقرر کیا جاتا ، پھر بھائیوں کی باری، ان کے بعد چاچا کی باری ہوتی تھی ۔ ان کے ہاں عورتوں اور بچوں کو کلی طور میراث سے محروم کردیا جاتا تھا ۔

4۔ قدیم مصریوں کے ہاں عورت کی میراث :

ان کےہاں میت کے تمام اقرباء کو جمع کیا جاتا تھا جن میں اس کا باپ ، ماں ، بیٹے ، بیٹیاں ، بھائی ، بہنیں ، چاچے ، ماموں ، موسیاں اوربیوی سب شامل ہوتے تھے اور ہر ایک کو برابر برابر حصہ ملتا تھا ۔ جن میں مرد ، عورت اور چھوٹے ، بڑے میں کوئی تمییز نہیں ہوتی تھی ۔

5۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے ہاں عورت کی میراث :

اس زمانہ میں ان کے نزدیک تقسیم میراث کا کوئی مستقل یا خاص نظام نہ تھا ، وہ لوگ مشرقی دیگر اقوام کے طریقے پر چلتے تھے ۔ وہ اپنی میراث کے حقدار صرف ہتھیار اٹھانے کے قابل مردوں کو سمجھتے تھے ، عورتوں اور بچوں کو اس سے کلی طور محروم رکھتے ہیں، چھوٹی بچیوں کو کبھی کبھار زندہ درگور کردیا جاتا تھا ۔ اور اگر کوئی مرد مرجاتا تو اس کے گھرکے مرداس کی بیوی کے مالک اسی طرح بن جاتے جس طرح اس کے ترکہ کے مالک بن جاتے ، اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ شادی کرلیتے اور اسے کچھ بھی مہر نہ دیتے ، یا اپنی مرضی سے اس کی شادی کسی اور کے ساتھ کردیتے ،اور مہر خود کھالیتے ، یا اگر چاہتے تو عمر بھر اسے بغیر شادی ہی رہنے پر مجبورکرتے ، اور کبھی سوتیلا بیٹا بھی اس کے ساتھ جبری شادی کرتا تھااور اس کا مالک اسی طرح بن جاتا جس طرح اپنے باپ کے ترکہ کامالک بن جاتا تھا ، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اسی کے رد کے بارے میں فرمایا :

(( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا )) (النساء/19)

ترجمہ : اے ایمان والو ! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو ، انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں ، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود بوش رکھو ، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو ، اور اللہ تعالی اس میں بہت ہی بھلائی کردے ۔

عرب کے اس جاہلی دور میں عورت کو بہت ہی کم حالات میں میراث دی جاتی تھی ، جیسا کہ قدیم مصریوں اور رومانیوں کے ہاں معروف تھا ۔ اسلام میں عورت کی میراث : اوپر غیر اسلامی ادیان اور اقوام کا عورت کے ساتھ میراث میں نا مناسب سلوک کا ملاحظہ ہوچکا ہے ،اسلام نے عورتوں کے لئے باضابطہ طور میراث میں حق رکھا ہے ، جیسے اللہ کا ارشاد ہے:

" لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيباً مَفْرُوضاً " (النساء/7)

اب کچھ مثالوں سے یہ واضح کیا جائے گا کہ کبھی عورت کو مرد کے برابر اور کبھی اس سے بھی زيادہ ترکہ مل جاتا ہے، اور کبھی عورت کو حصہ ملتا ہے جبکہ مرد کو کچھ بھی نہیں ملتا ہے ، صرف چار حالات میں عورت کو مرد سے کم حصہ ملتا ہے :

اول: وہ حالات جب عورت اور مرد برابر برابر حصہ پاتے ہیں :

مثال کے طور پر :

1۔ والدین ( ماں ، باپ ) کی میراث :

اگر کسی شخص کے وارثین میں فرع (یعنی بچے ) اور والدین ہوں تو والدین میں دونوں کو چٹھا چٹھا حصہ ملے گا، جیسے اللہ کا ارشاد ہے :

" وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ " ( النساء/11 ) .

اور اگر والدین کے ساتھ ساتھ بیٹا بھی ہو تو باقی اسے ہی ملے گا کیوں کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

"ألحقوا الفرائض بأهلها ، فما بقي فلأولى رجل ذكر " . ( بخاری و مسلم )

2۔ کلالہ کی صورت میں اخیافی (یعنی ماں کی جانب سے ) بہن بھائی:

کلالہ کا مطلب یہ ہے کہ جس کا باپ بیٹانہ ہوتو اگر کسی ایسےشخص کے وارثین میں اس کی ماں کی جانب سے دو یا اس سے زیادہ بہن بھائی ہوں تو انہیں ثلث حصہ ملے گا جس میں مرد اور عورت سب برابر شریک رہیں گے ، جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے :

" وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ " ( النساء/12)

دوم : وہ حالات جب مرد سے زيادہ حصہ عورت کو ملتا ہے :

مثال کے طور پر :

1۔ پہلی صورت :

اگر کسی شخص نے اپنے وارثین میں اپنے پیچھے بیوی ، بیٹی ، ماں اور ایک سگا بھائی چھوڑا تو کل ترکہ کوچوبیس (24) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے تین حصے بیوی کو، چار حصے ماں کو ، پانچ حصے سگے بھائی کو ، اور بیٹی کو بارہ حصے ملیں گے ۔ یہاں پر عورت (یعنی بیٹی ) کو مرد ( یعنی سگے بھائی ) سے زیادہ حصہ ملتا ہے ۔

2۔ دوسری صورت :

اگر کسی عورت نے اپنے وارثین میں شوہر ، بیٹی ، سگھی بہن چھوڑی تو اس کے ترکہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ، جن میں سے شوہر کو ایک حصہ ، بیٹی کو دو حصے اور سگھی بہن کو ایک حصہ ملے گا ۔ معلوم ہو کہ یہاں بھی عورت (یعنی بیٹی ) کو مرد ( یعنی شوہر ) سے زيادہ حصہ ملتا ہے ۔

سوم : وہ حالات جب عورت کو حصہ ملتا ہے اور مرد کو کچھ نہیں ملتا :

مثال کے طور پر :

1۔ پہلی صورت :

اگر کسی مرد نے اپنے وارثین میں ماں ، دو بیٹیاں ، علاتی (یعنی باب کی جانب سے ) دو بہنیں ، اور ایک اخیافی بھائی چھوڑےتو اس کا ترکہ بارہ حصوں میں تقسیم ہوگا جن میں ماں کو دو حصے اور بیٹیوں کو آٹھ حصے ( یعنی ہر ایک کو چار چار حصے ) ، اور دو علاتی بہنوں کو ایک ایک حصہ ملے گا ، جبکہ اخیافی بھائی کو علاتی بہنوں کی موجودگی کی وجہ سے کچھ نہیں ملے گا۔

2۔ دوسری صورت :

اگر کسی عورت نے اپنے وارثین میں شوہر ، بیٹی ، بیٹے کا بیٹا ، اور ماں باپ چھوڑے تو اس کا ترکہ تیرہ حصوں میں تقسیم ہوگا ، جن میں سے ماں کو دو حصے ، باپ کو دوحصے ، شوہر کو تین حصے ، بیٹی کو چھ حصے ، جبکہ بیٹے کے بیٹے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں بچتا ہے۔

چہارم : وہ حالات جن میں عورت کو مرد سے کم حصہ ملتا ہے :

مثال کے طورپر :

1۔ پہلی صورت :

اگر کسی کے ورثاء بیٹا اور بیٹی ہو ، تو مرد کو عورت کے دو گنا حصہ ملتا ہے ، جیسے اللہ کا ارشاد ہے :

" يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْن…" ( النساء/11)

یا ورثاء میں اولاد نہ ہو بلکہ بہن اور بھائی ہو ں، تو مرد کو عورت کے دوگنا حصہ ملے گا ، جیسے اللہ کا ارشاد ہے :

"… وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ " ( النساء/176)

2۔ دوسری صورت: زوجین کی میراث :

شوہر کو بیوی سے دو گنا حصہ ملتا ہے ، جیسےاگر کوئی عورت مرجائے اور اسے کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر کو اس کے ترکہ سے نصف ملے گااور اولاد ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ ملے گا جبکہ اگر مرد مرجائے اور اسے کوئی اولاد نہ ہو تو بیوی کو اس کے ترکہ سے چوتھا حصہ ملے گا اور اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ملے گا جیسے اللہ کا ارشاد ہے :

" وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ" ( النساء:12 )

3۔ تیسری صورت :

اگر کوئی مرد اپنے پیچھےماں ، باپ اور ایک بیٹی چھوڑے تو اس کے ترکہ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ، جن میں سے اس کی بیٹی کو نصف ( یعنی تین حصے ) اور اس کی ماں کوچٹھا ( یعنی ایک حصہ) اور اس کے باپ کو چٹھا ( یعنی ایک حصہ) فرضا اور باقی ( یعنی ایک حصہ) تعصیبا ملے گا ۔ اس طرح سے یہاں مرد (یعنی باپ ) کو عورت ( یعنی ماں ) سے دو گنا حصہ ملتا ہے

اب مسئلہ یہ ہے کہ کبھی مرد کو عورت سے دوگنا حصہ کیوں دیا جاتا ہے ؟

اس کے کئی اسباب ہیں جیسے :

مرد پر کچھ مالی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جبکہ عورت دینے کے بجائے لیتی ہے جیسے : نکاح کے وقت مہر ہے جو کہ مرد دیتا ہے جبکہ عورت لیتی ہے ، اسی طرح نکاح کے بعد نان ونفقہ ہوتا ہے جو کہ مرد پر لازم ہے جبکہ عورت وہاں بھی دینے کے بجائے لیتی ہے ۔اسی طرح بچوں کے اخراجات عورت کے بجائے مرد لازمی ہوتے ہیں ۔ خلاصہ کلام: معلوم ہوا کہ یہ کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا کہ دین اسلام نے عورت پرتقسیم میراث میں اس طرح ظلم کیا ہے کہ مرد کو عورت سے دو گنا حصہ ملتا ہے ۔دین اسلام نے ہمیشہ مرد کو عورت سے دو گنا حصہ نہیں دیا بلکہ :

1۔ صرف چار حالات میں مرد کو عورت سے دو گنا حصہ ملتا ہے ۔

2۔ اور ان چار حالات سے زیادہ حالات میں عورت کو مرد کے برابر حصہ ملتا ہے ۔

3۔ دس سے زیادہ حالات میں عورت کو مرد سے بھی زیادہ حصہ ملتا ہے ۔

4۔ کئی حالات میں عورت کو حصہ ملتا ہے جبکہ اس کے برعکس مرد کو کچھ نہیں ملتا ہے ۔


لنک
 
Top