• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ حرہ میں خواتین کی عصمت دری ثابت نہیں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مصعب بن عبداللہ الزبیری کی روایت

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
قال الزبير بن بكار حدثني عمي قال كان بن مطيع من رجال قريش شجاعة ونجدة وجلدا فلما انهزم أهل الحرة قتل عبد الله بن طلحة وفر عبد الله بن مطيع فنجا حتى توارى في بيت امرأة من حيث لا يشعر به أحد فلما هجم أهل الشام على المدينة في بيوتهم ونهبوهم دخل رجل من أهل الشام دار المرأة التي توارى فيها بن مطيع فرأى المرأة فاعجبته فواثبها فامتنعت منه فصرعها فاطلع بن مطيع على ذلك فدخل فخلصها منه وقتل الشامي
مصعب بن عبداللہ زبیری کہتے ہیں کہ ابن مطیع قریش کے بہادر لوگوں میں سے تھے ، جب اہل حرہ کو شکست ہوئی اور عبداللہ بن طلحہ قتل ہوئے تو ابن مطیع نے فرار ہو کراپنی جان بچائی اور ایک عورت کے گھر میں اس طرح چھپ گئے کہ کسی کو اس کی خبر تک نہ ہو ۔پھر جب اہل شام نے مدینہ پر لوگوں کے گھروں میں حملہ کیا اور انہیں لوٹا تو ایک شامی شخص اس عورت کے گھر میں داخل ہوا جس میں ابن مطیع چھپے ہوئے تھے ، جب اس شخص نے اس عورت کو دیکھا تو وہ اس کو پسندآگئی پھر یہ اس عورت پر ٹوٹ پڑا ، اس عورت نے اپنا بچاؤ کیا لیکن اس شخص نے اسے مات دے دی ، ابن مطیع نے یہ سب دیکھا تو اندر داخل ہوئے اور اس عورت کو اس شخص سے بچایا اوراس شامی شخص کوقتل کردیا [الإصابة لابن حجر: 5/ 26]۔

یہ روایت باطل ومردودہے۔
زبیربن بکار کے چچا مصعب بن عبداللہ الزبیری میں 236 فوت ہوئے اورحرہ کا واقعہ سن 63 ہجری کا ہے ۔ یعنی انہیں واقعہ حرہ کا زمانہ ملا ہی نہیں ، لہٰذا بےسند اوربے حوالہ ہونے کی وجہ سے یہ بات باطل ہے۔

اس روایت کے کذاب ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ ابن مطیع اہل شام کے سخت خلاف ہونے کے باوجود بھی خود انہوں نے اہل شام کے اس کردار سے کسی کو آگاہ نہیں کیا اور اس میں ذرہ برابر بھی سچائی ہوتی تو ابن مطیع کو یہ واقعہ آگ کی طرح پھیلا دینا چائے تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ثابت ہوا کہ یہ من گھڑت بات اور سراپا بکواس ہے۔


اس روایت میں کذابوں نے صرف عزت لوٹنے کی کوشش دکھلائی ہے لیکن آگے دیکھیں:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ام ہیثم بنت یزید (مجہولہ) کی روایت

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) نے کہا:
أخبرنا محمد بن ناصر، قال: أخبرنا المبارك بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّد بن عبد الواحد، قَالَ: أَخْبَرَنَا أبو بكر أحمد بْن إبراهيم بن شاذان، قال:أخبرنا أحمد بن محمد بن شيبة البزاز، قال: أخبرنا أحمد بن الحارث الخزاز، قال:حدثنا أبو الحسن المدائني، عن أبي عبد الرحمن القرشي، عن خالد الكندي، عن عمته أم الهيثم بنت يزيد، قالت:رأيت امرأة من قريش تطوف، فعرض لها أسود، فعانقته وقبلته، فقلت: يا أمة الله، أتفعلين هذا بهذا الأسود، قالت: هو ابني وقع علي أبوه يوم الحرة، فولدت هذا.
ام ہیثم بنت یزید سے روایت ہے کہ میں نے قریش کی ایک عورت کو طواف کرتے ہوئے دیکھا اتنے میں اس کے سامنے ایک کالا شخص آیا تو اس نے اسے گلے لگالیا اور اسے بوسہ دیا ۔ تو میں نے کہا : اللہ کی بندی ! تو اس کالے کے ساتھ ایسا کررہی ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : یہ میرا بیٹا ہے اس کے باپ نے حرہ کے دن میری عصمت دری کی تھی جس کے بعد میں نے اسے جنا۔[المنتظم لابن الجوزي: 6/ 15، الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 67]۔

یہ روایت بھی باطل ہے ام ہیثم مجولہ ہے اور خالد کندی کا بھی کوئی اتا پتا نہیں ملتا۔

اس پرخرافات روایت میں تو صرف ایک عورت کی عزت لوٹنے کی بات ہے لیکن آگے دیکھے:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مغيرة بن مقسم الضبى کی روایت


امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا :
أخبرنا أبو الحسين بن الفضل أخبرنا عبد الله بن جعفر حدثنا يعقوب بن سفيان حدثنا يوسف بن موسى حدثنا جرير عن مغيرة قال أنهب مسرف بن عقبة المدينة ثلاثة أيام فزعم المغيرة أنه افتض فيها ألف عذراء
مغيرة بن مقسم الضبى سے منقول ہے کہ مسلم بن عقبہ نے تین دن تک مدینہ میں لوٹ مار کیا اور مغيرة بن مقسم الضبى کا گمان ہے کہ اس نے مدینہ میں ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی۔[دلائل النبوة للبيهقى : 6/ 475 ومن ھذا الطریق اخرجہ ابن عساکر فی تاريخ دمشق : 58/ 108]۔

یہ روایت کئی وجوہ باطل ومردودہے۔

اولا:
مغيرة بن مقسم الضبى نے اپنا ماخذ نہیں بتایا ہے ان کی وفات 136 میں ہوئی ہے کبار تابعین سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے لہٰذا انہیں واقعہ حرہ کا دور ملا ہی نہیں۔

ثانیا:
مغيرة بن مقسم الضبى تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں دیکھئے [طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 46]۔اورانہوں نے اس روایت میں سماع کی صراحت تو دور کی بات اپنے استاذ کا نام بھی نہیں بتایا ہے۔

قارئین غور کریں کہ اس روایت میں ایک نہیں ایک ہزار لڑکیوں کی عصمت دری کا ذکر ہے۔ذراغور کریں کیا خیرالقرون کی اسلامی فوج کا یہی حال تھا ؟؟؟
اورجھوٹ اور تہمت کا سلسلہ یہیں پر بند نہیں ہوجاتا بلکہ کذابوں تہمت پرستوں نے ان ہزاروں لڑکیوں میں سے ہرلڑکی سے بچے بھی پیدا کردئے ، آگے پڑحیں اور سردھنیں:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ہشام بن حسان کی روایت

عن المدائني، عن أبي قرة، قال: قال هشام بن حسان : ولدت ألف امرأة بعد الحرة من غير زوج
ہشام بن حسان سے روایت ہے کہ حرہ کے بعد ہزاروں عورتوں نے بغیرشوہر کے بچے جنے[المنتظم لابن الجوزي: 6/ 15، الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 67]

یہ روایت بھی باطل ومردود ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والے ہشام بن حسان بصری کی وفات 148 ہجری ہے یہ صغار تابعین کے دور کے ہیں اور حرہ کا زمانہ انہوں نے نہیں پایا اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہذا یہ بے حوالہ بات مردود وباطل ہے۔
قارئین غور کرین کتنی عجیب بات ہے کہ کوئی کہتا ہے: واقعہ حرہ میں ایک ہزار لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی اور کوئی ان میں سے ہر ایک لڑکی سے بچے بھی پیدا کروا رہاہے ۔

اور اس سے بھی زیادہ گھناونی بات آگے ملاحظہ کریں:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سفید جھوٹ


عبد الملك بن حسين العصامي المكي (المتوفى1111)نے کہا:
وَكَانَ يَقُول (سعيد بن الْمسيب) كنت أسمع عِنْد مَوَاقِيت الصَّلَاة همهمة من الْحُجْرَة المطهرة وافتض فِيهَا ألف عذراء وَإِن مفتضَّها فعل ذَلِك أَمَام الْوَجْه الشريف وَالْتمس مَا يمسح بِهِ الدَّم فَلم يجد فَفتح مصحفا قَرِيبا مِنْهُ ثمَّ أَخذ من أوراقه ورقة فتمسح بهَا
سعیدبن مسیب کہتے تھے کہ میں نماز کے وقت حجرہ اقدس سے آواز سنتا تھا اور اس حجرہ میں ایک ہزار کنواری لڑکیوں کی عزت لوٹی گئی اور ایک زانی نے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے سامنے ایک عورت کی عزت لوٹی اور اس کے بعد خون پوچھنے کے لئے کچھ تلاش کیا پھر کچھ نہیں ملا تو اپنے قریب موجود قران مجید کھولا اوراس کا ایک ورق پھاڑ کر اسی سے خون صاف کیا [سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي:3/ 204 ]۔

قارئین غورکریں عصامی نے کیسا گپ تحریر کیا ؟
کیا یہ کردار اس دور کی اسلامی فوج کا ہوسکتا ہے جس دور کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر القرون کہاہے؟؟
اور کیا کوئی مسلمان اس طرح کی گھٹیا باتوں پر یقین کرسکتاہے؟؟؟
عبدالملک عصامی نے معلوم نہیں یہ جھوٹ کہاں سے نقل کیا یا کیا پتا اس نے خود یہ جھوٹ گھڑا ہو۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ کلام


واقعہ میں میں کسی ایک خاتون کی بھی عصمت دری نہیں کی گئی اس تعلق سے صرف اور صرف چار روایات ملتی ہیں اور یہ چاروں کی چاروں مکذوب اور باطل ہیں ان کا بطلان اس قدر واضح ہے کہ ذوق سلیم کا مالک شخص صرف متن پرنظر ڈالتے ہی اس کے جھوٹے ہونے پر یقین کرلیتا ہے لیکن پھربھی تسلی کے لئے علمی طور پر ان روایات کا باطل ہونا ثابت کردیا گیا ہے۔
 

حامد ثناٰء

مبتدی
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
9
خلاصہ کلام
واقعہ میں میں کسی ایک خاتون کی بھی عصمت دری نہیں کی گئی اس تعلق سے صرف اور صرف چار روایات ملتی ہیں اور یہ چاروں کی چاروں مکذوب اور باطل ہیں ان کا بطلان اس قدر واضح ہے کہ ذوق سلیم کا مالک شخص صرف متن پرنظر ڈالتے ہی اس کے جھوٹے ہونے پر یقین کرلیتا ہے لیکن پھربھی تسلی کے لئے علمی طور پر ان روایات کا باطل ہونا ثابت کردیا گیا ہے۔
جزاک اللہ خیرا-شیخ 'الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي' کیا اس کتاب میں بھی موضوع روایات سے استدلال کیا گیا ہے؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جزاک اللہ خیرا-شیخ 'الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي' کیا اس کتاب میں بھی موضوع روایات سے استدلال کیا گیا ہے؟
جی بھائی بے شک اس کتاب میں بھی موضوع روایات سے استدلال کیا گیا ہے مثلا:

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وذكر محمد بن سعد في الطبقات أن معاوية قال للحسين ولعبد الله بن عمر وعبد الرحمن بن أبي بكر وعبد الله بن الزبير: إني أتكلم بكلام فلا تردوا عليَّ شيئاً فأقتلكم، فخطبَ الناس وأظهر أنهم بايعوا ليزيد، فسكتَ القوم، ولم يقرّوا، ولم ينكروا خوفاً منه
یعنی محمدبن سعد نے طبقات میں ذکرکیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسین ، عبداللہ بن عمر، عبدالرحمن بن ابی بکر اورعبداللہ بن زبیر سے کہا: میں ایک بات کہنے جارہاہوں تم لوگ میری کچھ بھی تردید نہ کرنا ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا۔ پھرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور کہا کہ ان سب لوگوں نے یزید کی بیعت کرلی ہے ۔ یہ سن کر یہ لوگ خاموش رہے ان لوگوں نے نہ تو اقرار کیا اور نہ ہی خوف کی وجہ سے انکار کیا [الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 45]۔

اب ذرا بتلائے کہ اس روایت کے من گھڑت ہونے میں کسی شخص کو کوئی شک ہوسکتاہے کیا معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی سے اس بات کا امکان ہے کہ وہ ان بزرگ شخصیات کو قتل کی دھمکی دیں اور جھوٹ بولیں ؟ نیز یہ حضرات بھی کیا اتنے بزدل تھے (نعوذ باللہ ) کہ قتل کی دھمکی سے ڈر جاتے ؟؟
صاف بات ہے کہ یہ روایت کسی کی بنائی ہوئی اور ابن سعد میں یہ روایت واقدی کے طریق سے مروی ہے اور واقدی کذاب ہے دیکھئے : محمدبن عمر الواقدی۔
یعنی سند کے لحاظ سے بھی یہ روایت موضوع ہے۔


اور حقیت ہے کہ اس کتاب میں یزید کو مجرم ثابت کرنے کے لئے جو روایت بھی درج کی گئی ہے وہ سب کی سب موضوع و من گھڑت ہے ۔
اور جو صحیح روایت ہے اس کا یزید سے کوئی تعلق نہیں مثلا بعض وہ روایات جن میں بعض اشخاص پر لعنت کی بات ہے اس طرح کی روایت پیش کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بعض اشخاص پر لعنت کرنا جائز ہے۔
لیکن یہ جواز ثابت ہونے سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ یزید پر بھی لعنت کرنا جائز ہے کیونکہ یزیدپرلعنت کرنے کے لئے کم از کم از اس کا ایک جرم تو ثابت کیا جائے لیکن افسوس کی یزید کو مجرم ثابت کرنے لے ابن الجوزی رحمہ اللہ ایک بھی صحیح روایت اس کتاب میں پیش نہیں کرسکے۔

اور نہ ہی یزید کے علاوہ کسی اور شخص نے اب تک یزید کو مجرم ثابت کرنے والی کوئی روایت پیش کی ہے اگرکسی کی نظر میں اس طرح کی کوئی صحیح روایت ہو تو درج ذیل تھریڈ میں پیش کرے :
.​
 

حامد ثناٰء

مبتدی
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
9
جی بھائی بے شک اس کتاب میں بھی موضوع روایات سے استدلال کیا گیا ہے مثلا:

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وذكر محمد بن سعد في الطبقات أن معاوية قال للحسين ولعبد الله بن عمر وعبد الرحمن بن أبي بكر وعبد الله بن الزبير: إني أتكلم بكلام فلا تردوا عليَّ شيئاً فأقتلكم، فخطبَ الناس وأظهر أنهم بايعوا ليزيد، فسكتَ القوم، ولم يقرّوا، ولم ينكروا خوفاً منه
یعنی محمدبن سعد نے طبقات میں ذکرکیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسین ، عبداللہ بن عمر، عبدالرحمن بن ابی بکر اورعبداللہ بن زبیر سے کہا: میں ایک بات کہنے جارہاہوں تم لوگ میری کچھ بھی تردید نہ کرنا ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا۔ پھرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور کہا کہ ان سب لوگوں نے یزید کی بیعت کرلی ہے ۔ یہ سن کر یہ لوگ خاموش رہے ان لوگوں نے نہ تو اقرار کیا اور نہ ہی خوف کی وجہ سے انکار کیا [الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 45]۔

اب ذرا بتلائے کہ اس روایت کے من گھڑت ہونے میں کسی شخص کو کوئی شک ہوسکتاہے کیا معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی سے اس بات کا امکان ہے کہ وہ ان بزرگ شخصیات کو قتل کی دھمکی دیں اور جھوٹ بولیں ؟ نیز یہ حضرات بھی کیا اتنے بزدل تھے (نعوذ باللہ ) کہ قتل کی دھمکی سے ڈر جاتے ؟؟
صاف بات ہے کہ یہ روایت کسی کی بنائی ہوئی اور ابن سعد میں یہ روایت واقدی کے طریق سے مروی ہے اور واقدی کذاب ہے دیکھئے : محمدبن عمر الواقدی۔
یعنی سند کے لحاظ سے بھی یہ روایت موضوع ہے۔


اور حقیت ہے کہ اس کتاب میں یزید کو مجرم ثابت کرنے کے لئے جو روایت بھی درج کی گئی ہے وہ سب کی سب موضوع و من گھڑت ہے ۔
اور جو صحیح روایت ہے اس کا یزید سے کوئی تعلق نہیں مثلا بعض وہ روایات جن میں بعض اشخاص پر لعنت کی بات ہے اس طرح کی روایت پیش کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بعض اشخاص پر لعنت کرنا جائز ہے۔
لیکن یہ جواز ثابت ہونے سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ یزید پر بھی لعنت کرنا جائز ہے کیونکہ یزیدپرلعنت کرنے کے لئے کم از کم از اس کا ایک جرم تو ثابت کیا جائے لیکن افسوس کی یزید کو مجرم ثابت کرنے لے ابن الجوزی رحمہ اللہ ایک بھی صحیح روایت اس کتاب میں پیش نہیں کرسکے۔

اور نہ ہی یزید کے علاوہ کسی اور شخص نے اب تک یزید کو مجرم ثابت کرنے والی کوئی روایت پیش کی ہے اگرکسی کی نظر میں اس طرح کی کوئی صحیح روایت ہو تو درج ذیل تھریڈ میں پیش کرے :
.​
جزاک اللہ خیرا-شیخ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمایئے' آپ کے علم نافعہ میں مزید اضافہ فرمایئے اور آپ کو ہمیشہ حق پر قایئم رکھے-
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top