• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ حرہ نسلی عصبیت سے بگاڑ کر شیعیت کی وکالت کا حق نمک ادا

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
واقعہ حرہ اور سیدنا علی ابن حسین رضی اللہ عنہ۔
امیر یزید رحمہ اللہ کے خلیفہ بننے کے بعد مدینہ میں جب ان کی مخالفت ہوئی اور قریش نے عبداللہ بن مطیع اور انصار نے عبداللہ بن حنظلہ کو اپنا سردار منتخب کیا تو عثمان بن محمد اموی مروان بن حکم اور باقی اموی جن کی تعداد مدینہ میں ایک ہزار کے قریب تھی کچھ تو مدینہ سے نکل گئے اور باقی امیر مروان بن حکم کی حویلی میں پناہ گزین ہوگئے ان حالات میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ (زین العابدین) نے امویوں کا ساتھ دیا امیر مروان رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر اپنا تمام قیمتی سامان حفاظت کے لئے آپ کے پاس بھیجدیا آپ نے ان تمام حالات کی خبر عبدالمالک بن امیر مروان رضی اللہ عنہ کے ذریعہ امیر یزید رحمہ اللہ کو لکھ بھیجی اور امیر مروان رضی اللہ عنہ کو اپنے ہاں پناہ دی۔۔۔
مسلم بن عتبہ کو مدینہ روانہ کیا اور خصوصی طور پر نصیحت کی کہ علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے نہایت نرمی کا سلوک کرنا، وہ میرا ہمدرد اور وفادار ہے مسلم رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈالا اور تین روز تک لوگوں کو سمجھایا مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔۔۔

٢٧ ذی الحجہ ٦٢ھ واقعہ کربلا سے تقریبا تین سال بعد یہ واقعہ پیش آیا مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسلم بھی عقبہ رضی اللہ عنہ اس لشکر کے سالار اعظم تھے تمام لشکر چار دستوں پر مشتمل تھا ایک دستے کے حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ انفرازی دوسرے کے حضرت روح بن زنباح الجذامی رضی اللہ عنہ اور تیسرے کے حضرت عبداللہ بن عصام الاشعری جو روایان حدیث میں شمار ہوتے ہیں اور چوتھے دستے کے حصصین بن نمیز کمانڈر تھے (الاستیعاب الاصابہ)۔۔۔

فوج کی تعداد صرف چار ہزار تھی (کتاب التبنیعہ الاشراف مسعودی) اس لشکر کی اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر مشتمل تھی اور جو تابعی تھے وہ بھی اکثر جہادوں میں اسلام کی سربلندی کے لئے حصہ لے چکے تھے۔۔۔

حضرت امیر مسلم رضی اللہ عنہ سالار لشکر کی عمر نوے سال تھی اور تین دن تک اعلان کرتے رہے کہ شورش ختم کرو امیرالمومنین یزید رحمہ اللہ تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتے مگر شورش پسندوں نے اس کے جواب میں مخلظات کہنا شروع کردیا۔۔۔

تمام سادات بنوامیہ اپنے قریشی دوستوں کے ساتھ مدینہ کے عامل عثمان بن محمد کے ساتھ امیر مروان رضی اللہ عنہ کی حویلی میں پناہ گزین ہوگئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنے بھی سمجھایا مگر باغیوں کا سرغنہ ابن مطیع باز نہ آیا (بلاذری، الانساب والاشراف)۔۔۔

بلکہ باغیوں نے گالیوں کے ساتھ تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی مجبورا حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے جوابی حملے کا حکم دے دیا اور انصار کے مقتدر قبیلہ بنوعبداللہ الاشہل نے فوج کو شہر میں داخلے کا راستہ دے دیا۔۔۔

مشہور شیعہ مورخ امام طبری لکھتا ہے کہ ابھی لڑائی جاری تھی کہ ناف شہر سے تکبیروں کی آوازیں ہوئی۔۔۔

ہوایہ کہ قبیلے بنوحارثہ نے بھی بنوعبداللہ الاشہل کی طرح باغیوں کے مقابلے میں اہل شام کا ساتھ دیا صرف پانچ چھ سرغہ قتل ہوئے آٹھویں صدی ہجری تک ک مورخین نے اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا مگر دور حاضر کے مجدد اعظم کو امیر یزید رحمہ اللہ کا فسق وفجور ڈھونڈنے کے لئے ایک ہزار عفت مآب کنواریوں کو زنا میں ملوث کرکے دکھانے کے لئے آٹھویں صدی کے مورخ ابن اثیر کی ایک بےسند روایت کے سہارے ایسے شرمناک الفاظ لکھنے سے ذرہ بھر شرم نہ آئی۔۔۔(تفصیل کے لئے حقیت خلافت وملوکیت مرتبہ محمو احمد عباسی دیکھئے)۔۔۔

مدینہ کی شورش فرد کرنے کے بعد امیر مسلم مکہ کی طرف روانہ ہوکر راستہ میں فوت ہوگئے اور امیر حصص رضی اللہ عنہ نے علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو کہا لایئے ہاتھ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرتا ہوں انہوں نے انکار کردیا پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ میرے ساتھ دمشق چلئے میں میں امر خلافت آپ کے ہاتھ پر مستحکم کرا دوں گا مگر انہوں نے دمشق جانے سے انکار کردیا۔۔۔

یہ ہے واقعہ حرہ کی اصل صورت جسے دور حاضر کے خود ساختہ مجدد اعظم نے اپنی جبلی فطرت اور نسلی عصبیت سے بگاڑ کر شیعیت کی وکالت کا حق نمک ادا کیا ہے۔۔۔

واللہ اعلم۔
 

محمدجان

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
11
اوپر دے گے حوالے غیر معتبر ہیں اور حقیقت یہ ہے کہے کربلا کے واقعے میں یزید اور اسکی فوج نے انتہائی غیر انسانی ظلم کرنے کے بعد شامیوں اور یزیدی فوج نے مدینہ پر حمل کرکے پورے مدینہ کو تین دن کے لے یزیدی فوج پر حلال کیا اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آذان نہیں ہوئی اصحاب اور انکی خواتین کی توہین کی گی یہ تمام کام یزید لعنتی کے حکم پر ہوا تفصیلات کے لے طبقات ابن سعد کا مطالعہ کریں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
محمدجان!۔۔۔
رافضیت کو اپنا اسلام ثابت کرنے کے لئے۔۔۔
صرف یہ ہی ایک واقعہ ہے۔۔۔ جس کو بنیاد بناء کر۔۔۔
آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی حامی بھرتے ہیں۔۔۔
ہعنی سنگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی فضول کوشش۔۔۔
لہذا اسی فورم پر شیخ کفایت اللہ سنابلی رحمہ اللہ۔۔۔
نے دانت کھٹے کردینے والے کئی مضامیں۔۔۔
آپ جیسے نمک خواروں کے لئے چھوڑ رکھیں۔۔۔
تھوڑی سے کوشش کیجئے سرچ کرنے پر مل جائیں گے۔۔۔
اُن کو کھلے ذہن سے پڑھیں۔۔۔
اور وینٹیلیٹر پر آخری سانسیں لیتی رافضیت۔۔۔
کی حمایت چھوڑیں اور بھلا کام کریں۔۔۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اوپر دے گے حوالے غیر معتبر ہیں اور حقیقت یہ ہے کہے کربلا کے واقعے میں یزید اور اسکی فوج نے انتہائی غیر انسانی ظلم کرنے کے بعد شامیوں اور یزیدی فوج نے مدینہ پر حمل کرکے پورے مدینہ کو تین دن کے لے یزیدی فوج پر حلال کیا اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آذان نہیں ہوئی اصحاب اور انکی خواتین کی توہین کی گی یہ تمام کام یزید لعنتی کے حکم پر ہوا تفصیلات کے لے طبقات ابن سعد کا مطالعہ کریں
یزید کے دور میں تین افسوسناک سانحے ہوئے: سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور مکہ مکرمہ پر حملہ۔ اب ہم سانحہ حرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ ہمارے ہاں اردو کتب تاریخ میں اس معاملے میں بڑا مبالغہ کیا گیا ہے کہ سرکاری فوج نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا ، ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور خواتین کی عصمت دری کی جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔

تاریخ طبری میں اس سانحے کی تقریباً تمام تفصیلات ابو مخنف ہی کی بیان کر دہ ہیں۔ ابو مخنف کی روایت کے مطابق ہوا یوں کہ یزید نے ایک اموی نوجوان عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو مدینہ منورہ کا گورنر بنا کر بھیجا۔ یہ ناتجربہ کار تھے اور حکومتی معاملات کو صحیح طرح سنبھال نہ پائے۔ اس پر اہل مدینہ کا ایک وفد یزید کے پاس روانہ ہوا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ ابو مخنف کی زبانی سنیے:

ذكر لوط بن يحيى، عن عبد الملك بن نوفل ابن مساحق، عن عبد الله بن عروة:۔۔۔ اہل مدینہ نے ایک وفد یزید کے پاس روانہ کیا۔ اس میں عبداللہ بن حنظلہ انصاری غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمرو مخزومی، منذر بن زبیر اور بہت سے لوگ اشراف مدینہ سے ان کے ساتھ تھے۔ یہ لوگ یزید کے پاس آئے تو وہ اکرام و احسان سے پیش آیا۔ سب کو انعام و اکرام دیا۔ وہاں سے سوائے منذر بن زبیر کے، یہ سب لوگ مدینہ چلے گئے جبکہ منذر بصرہ میں ابن زیاد کے پاس چلے گئے۔ انہیں بھی یزید نے ایک لاکھ درہم انعام دیا تھا۔

(جو لوگ مدینہ آئے) انہوں نے اہل مدینہ کے سامنے یزید کو سب و شتم شروع کردیا او رکہا: "ہم ایسے شخص کے پاس سے آئے ہیں، جو کوئی دین نہیں رکھتا، شراب پیتا ہے، ساز بجاتا ہے اور اس کی صحبت میں گلو کارائیں گاتی ہیں۔ کتوں سے کھیلتا ہے، لفنگوں اور لونڈیوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ آپ لوگ گواہ رہیں کہ ہم نے اسے خلافت سے معزول کیا۔ یہ سن کر کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ ۔۔

یزید کو خبر ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں تو وہ کہنے لگا: "یا اللہ! میں نے تو ان کے ساتھ احسان کیا اور ان لوگوں نے جو کچھ کیا، وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ " پھر اس نے ان لوگوں کے جھوٹ اور قطع رحمی کا ذکر کیا۔ [1]

ابو مخنف کے بیان کے مطابق اب یزید نے حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہما کو مدینہ بھیجا جنہوں نے اہل مدینہ کو سمجھایا کہ وہ بغاوت نہ کریں تاہم انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ سن 63/683 میں ایک ہزار کے قریب آدمیوں نے بغاوت کر دی اور مدینہ میں موجود بنو امیہ پر حملہ کر دیا۔ یہ اموی مروان بن حکم کے گھر میں اکٹھے ہوئے تو ان لوگوں نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ بنو امیہ نے یزید کو خط لکھ کر آگاہ کیا۔[2] اس کے بعد یزید نے مسلم بن عقبہ کی سرکردگی میں ایک فوج مدینہ کی طرف بھیجی جس نے ایک مختصر سی لڑائی کے بعد اس بغاوت پر قابو پا لیا۔

سانحہ حرہ کے موقع پر اکابر صحابہ کا کردار کیا تھا؟

اس بغاوت کے موقع پر اکابر صحابہ نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور اسے اچھی نظر سے نہ دیکھا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں نقل ہوا ہے:

نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ 'قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔' ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ [3]

حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ واقعہ حرہ کے موقع پر عبداللہ بن مطیع اور ان کے ساتھی حضرت محمد بن علی رحمہ اللہ کے پاس گئے اور ان سے کہا:

"ہمارے ساتھ نکلیے کہ ہم یزید سے جنگ کریں۔‘‘ محمد بن علی نے ان سے کہا: ’’کس بات پر میں اس سے جنگ کروں اور اسے منصب خلافت سے ہٹاؤں؟‘‘ وہ بولے: ’’وہ کفر اور فسق و فجور میں مبتلا ہے، شراب پیتا ہے اور دین کے معاملے میں سرکشی کرتا ہے۔"

اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: "کیا آپ لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے۔ کیا آپ میں سے کسی نے اسے ایسا کرتے دیکھا ہے جو آپ ذکر کر رہے ہیں۔ میں اس کے پاس رہا ہوں اور میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔" وہ کہنے لگے: ’’اس نے آپ کو اپنے اعمال کی خبر نہ ہونے دی ہو گی۔‘‘ محمد بن علی نے فرمایا: ’’تو کیا اس نے آپ لوگوں کو خبر کر کے یہ برائیاں کی ہیں؟ اس صورت میں تو آپ بھی اس کے ساتھی رہے ہوں گے۔ اگر اس نے آپ کو نہیں بتایا تو پھر تو آپ لوگ بغیر علم کے گواہی دینے چل پڑے ہیں۔‘‘

ان لوگوں کو یہ خوف ہوا کہ محمد بن علی کے بیٹھ رہنے سے لوگ (بغاوت کے لیے اٹھنے پر) آمادہ نہ ہوں گے۔ انہوں نے ان کو پیشکش کی کہ اگر آپ ابن زبیر کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تو ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں۔ ‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’میں نہ تو لیڈر بن کر جنگ کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی پیروکار بن کر۔‘‘ وہ بولے: ’’آپ نے اپنے والد (علی) کے ساتھ مل کر بھی تو جنگ کی تھی؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’آج کل کون میرے والد جیسا ہے؟‘‘

ان لوگوں نے جبر کر کے محمد بن علی کو نکالا اور ان کے مسلح بیٹے ان کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے گلابی رنگ کی جوتی پہن رکھ تھی اور کہہ رہے تھے: ’’اے قوم! اللہ سے ڈرو اور خون مت بہاؤ۔ ‘‘ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ آپ کسی لیڈری پر تیار نہیں ہیں تو انہیں چھوڑ دیا۔ [4]

حضرت زین العابدین بن حسین رضی اللہ عنہما نے نہ صرف بغاوت سے علیحدگی اختیار کی بلکہ بنو امیہ کی مدد بھی کی۔ طبری کی روایت یہ ہے:

قال عبد الملك بن نوفل: حدثني حبيب: بنو امیہ جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو مروان بن حکم کی اہلیہ عائشہ بنت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما نے مروان کے تمام ساز و سامان کے ساتھ علی بن حسین رضی اللہ عنہما کے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔

وقد حدثت عن محمد بن سعد، عن محمد بن عمر، قال: بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تو مروان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: "میرے اہل و عیال کو آپ اپنے پاس چھپا لیجیے۔" انہوں نے (کسی وجہ سے) منع کر دیا۔ علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے مروان نے کہا: "میں آپ کا رشتے دار ہوں۔ میرے اہل بیت کو اپنے اہل بیت کے ساتھ رکھ لیجیے۔" تو انہوں نے اسے منظور کر لیا۔ مروان نے اپنے اہل و عیال کو علی بن حسین کے گھر بھیج دیا۔ یہ ان لوگوں کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ لے کر ینبوع چلے آئے اور وہیں سب کو رکھا۔ مروان ان کا شکر گزار تھا اور ان دونوں میں بہت پرانی محبت تھی۔

علی بن حسین کی کچھ زمین مدینہ کے قریب تھی اور (بغاوت کے وقت) وہ شہر سے نکل کر یہیں گوشہ نشین ہو گئے تھے تاکہ وہاں کے کسی معاملے میں شریک نہ ہوں۔ عائشہ (مروان کی اہلیہ جو ان کے گھر پناہ گزین تھیں) جب طائف جانے لگیں تو آپ نے کہا: "میرے بیٹے عبداللہ کو اپنے ساتھ طائف لیتی جائیے۔ " عائشہ اپنے ساتھ عبداللہ کو طائف لے آئیں اور اپنے ہی پاس اس وقت تک رکھا جب تک کہ اہل مدینہ کا معاملہ ٹھنڈا نہ پڑ گیا۔ [5]

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مروان کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی روایات بھی جعلی ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مروان تو حضرت علی کو معاذ اللہ گالیاں دیتے ہوں اور ان کے پوتے حضرت زین العابدین رحمہ اللہ، کی مروان سے پرانی محبت چلی آ رہی ہو اور وہ بنو امیہ کی اس درجے میں مدد کریں؟

کیا مدینہ منورہ کو تین دن کے لیے مباح کیا گیا؟

طبری میں واقعہ حرہ کی تمام تر روایات ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایت کردہ ہیں جن کا بنو امیہ سے بغض اور تعصب مشہور ہے۔ اس وجہ سے ان کی بیان کردہ ان تفصیلات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جن میں انہوں نے ظلم کو بنو امیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ بغاوت پر قابو پا لینے کے بعد مدینہ منورہ کو تین دن تک کے لیے مباح کر دیا گیا، شہریوں کا مال لوٹا گیا اور لوگوں کو بے جا قتل کیا گیا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ پھر اس کا بیان کرنے والا اکیلا ابو مخنف نہ ہوتا بلکہ اور بھی بہت سے لوگ اسے بیان کر رہے ہوتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفصیلات بھی بنو امیہ کے خلاف اس پراپیگنڈے کا حصہ تھیں جو ان کی حکومت کو گرانے کے لیے کیا گیا۔ ممکن ہے کہ سرکاری فوجوں نے کچھ زیادتیاں کی ہوں لیکن اس بارے میں یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جا سکتی ہے کیونکہ ان روایات کا راوی صرف ایک ہی شخص ہے اور وہ ناقابل اعتماد ہے۔

رہی یہ بات کہ تین دن کے لیے مدینہ شہر میں فوجیوں نے ہزاروں خواتین کو ریپ کیا اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار خواتین حاملہ ہوئیں، ایسی بے بنیاد بات ہے کہ ابو مخنف کو بھی اس کا خیال نہیں آیا۔ اگر اس میں کچھ بھی حقیقت ہوتی، تو جہاں ابو مخنف نے ڈھیروں دوسری روایتیں وضع کی ہیں، وہاں اس کو وہ کیسے چھوڑ دیتا؟ پھر اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو ہر ہر شہر میں یزید کے خلاف بغاوت اٹھتی جاتی۔ عربوں کے بارے میں تو دور جاہلیت میں بھی یہ گمان مشکل ہے کہ ان کی خواتین پر کوئی ہاتھ ڈالے تو وہ خاموشی سے دیکھتے رہیں کجا یہ کہ دور اسلام میں ایسا ہو او رسب لوگ تماشا دیکھتے رہیں۔ کیا ان سب نے چوڑیاں پہن رکھی تھیں یا ان کی غیرت گھاس چرنے چلی گئی تھی؟

ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ابو مخنف نے بھی انہیں بیان نہیں کیا ہے۔ یہ روایت ابن کثیر (701-774/1301-1372)نے مدائنی (135-225/752-840)کے حوالے سے البدایہ و النہایہ میں درج کی ہے اور ساتھ واللہ اعلم لکھ کر اس واقعے سے متعلق شک کا اظہار کیا ہے۔ مدائنی نے بھی اس کی سند یہ بیان کی ہے: قال المدائني عن أبي قرة قال۔ اب معلوم نہیں کہ یہ ابو قرۃ کون صاحب ہیں اور کس درجے میں قابل اعتماد ہیں۔ اور وہ خود واقعہ حرہ کے ساٹھ سال بعد پیدا ہوئے۔ وہ واقعے کے عینی شاہد نہیں تھے۔ اگر یہ خواتین اس طرح ریپ ہوئی ہوتیں اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار ولد الحرام پیدا ہوئے ہوتے تو انساب کی کتابوں میں تو اس کا ذکر ملتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے باپ کا نام معلوم نہیں ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو محض نقل کیا ہے اور اس پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
قال عبد الملك بن نوفل: حدثني حبيب: بنو امیہ جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو مروان بن حکم کی اہلیہ عائشہ بنت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما نے مروان کے تمام ساز و سامان کے ساتھ علی بن حسین رضی اللہ عنہما کے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔
عبدالملک بن نوفل سے پہلے کونسا راوی ہے یہ بتانا پسند کریں گے .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
وقد حدثت عن محمد بن سعد، عن محمد بن عمر، قال: بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تو مروان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: "میرے اہل و عیال کو آپ اپنے پاس چھپا لیجیے۔" انہوں نے (کسی وجہ سے) منع کر دیا۔ علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے مروان نے کہا: "میں آپ کا رشتے دار ہوں۔ میرے اہل بیت کو اپنے اہل بیت کے ساتھ رکھ لیجیے۔" تو انہوں نے اسے منظور کر لیا۔ مروان نے اپنے اہل و عیال کو علی بن حسین کے گھر بھیج دیا۔ یہ ان لوگوں کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ لے کر ینبوع چلے آئے اور وہیں سب کو رکھا۔ مروان ان کا شکر گزار تھا اور ان دونوں میں بہت پرانی محبت تھی۔

علی بن حسین کی کچھ زمین مدینہ کے قریب تھی اور (بغاوت کے وقت) وہ شہر سے نکل کر یہیں گوشہ نشین ہو گئے تھے تاکہ وہاں کے کسی معاملے میں شریک نہ ہوں۔ عائشہ (مروان کی اہلیہ جو ان کے گھر پناہ گزین تھیں) جب طائف جانے لگیں تو آپ نے کہا: "میرے بیٹے عبداللہ کو اپنے ساتھ طائف لیتی جائیے۔ " عائشہ اپنے ساتھ عبداللہ کو طائف لے آئیں اور اپنے ہی پاس اس وقت تک رکھا جب تک کہ اہل مدینہ کا معاملہ ٹھنڈا نہ پڑ گیا۔ [5]

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مروان کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی روایات بھی جعلی ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مروان تو حضرت علی کو معاذ اللہ گالیاں دیتے ہوں اور ان کے پوتے حضرت زین العابدین رحمہ اللہ، کی مروان سے پرانی محبت چلی آ رہی ہو اور وہ بنو امیہ کی اس درجے میں مدد کریں؟


ابو مخنف کو تو کذاب فرما رہے ہیں مگر اپ خود محمد بن عمر الواقدی کی روایت نقل فرما رہے ہیں اور اس پر یہ عمارت بھی کھڑی کر دی کہ علی رضی الله عنہ پر مروان کا سب شتم بھی ثابت نہیں اور وہ تمام روایات جعلی ماشاء الله کیا کہنے علی رضی الله عنہ پر سب شتم بخاری کی حدیث کی شرح فیض الباری (انور کاشمیری دیوبندی ) نے نقل کیا ہے کہ عید کا خطبہ نماز سے پہلے مروان لعین دیتا تھا اس لئے کے لوگ بعد میں یہ خبیث کام سنتے نہیں تھے ابن حزم نے بھی اس کو المحلی میں نقل کیا ہے یہ کتب احادیث سے روایات تاریخ کی رطب و یابس نہیں ہیں جن سے اتنی آسانی سے پلو جھٹک رہے ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس طرح کے ملتے جلتے موضوعات پر فورم پر دونوں طرف سے اتنا لکھا جا چکا ہے ، اور اس تکرار کے ساتھ لکھا جا چکا ہے کہ شاید کچھ نئی بات سامنے نہ آئے ، لہذا کم از کم اس فورم کی حد تک اس موضوع پر بات بالکل نہ کریں ، اور جتنے بھی احباب اس قسم کی بحثوں میں شریک رہے ، میری ان سے گزارش ہے کہ دیگر اہم اور مفید موضوعات میں بھی اپنا حصہ ڈالیں ، لوگوں اور بھی بہت سارے مسائل کی حاجت ہے ، چاروں طرف اسلامی تاریخ کے متنازعہ مسائل کو بکھیرنے کی بجائے ، عوام کو پیش آمدہ مسائل کے حل کی طرف توجہ کریں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top