• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ حواب کے متعلق احادیث کی تحقیق درکار ہے؟

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
مجھے واقعہ حواب کے متعلق ان حدیثوں کی تحقیق درکار ہے، جسمیں رسول اکرم ﷺ نے سیدہ عائشہ رض کو جمل میں نکلنے پر تنبیہ فرمائی تھی

1) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔


مسند امام احمد بن حنبل میں یہ حدیث دو طریقوں سے نقل ہوئی ہے:
۔2)
حدثنا يحيى، عن إسماعيل، حدثنا قيس، قال لما أقبلت عائشة بلغت مياه بني عامر ليلا نبحت الكلاب قالت أي ماء هذا قالوا ماء الحوأب قالت ما أظنني إلا أني راجعة فقال بعض من كان معها بل تقدمين فيراك المسلمون فيصلح الله عز وجل ذات بينهم قالت إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا ذات يوم كيف بإحداكن تنبح عليها كلاب الحوأب

یحییٰ نے اسمعیل سے، انہوں نے قیس سے روایت کیا ہے کہ جب (حضرت)عائشہ بنی عامر کے پانی پر پہنچیں تو انہوں نے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنی۔ (حضرت) عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے اور انہیں بتایا گیا کہ یہ حواب کا مقام ہے۔ اس پر حضرت عائشہ نے کہا : “میں واپس جا رہی ہوں”۔ کچھ لوگوں نے اُن سے کہا کہ نہیں آپ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ اور پھر مسلمان دیکھیں گے کہ آپ اور اللہ کس طرح ان میں صلح کرا دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے: “تو تم (ازواج) کیا کرو گی جب تم حواب کے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنو گی؟
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، المجلد السادس


3) حدثنا محمد بن جعفر، قال حدثنا شعبة، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم، أن عائشة، قالت لما أتت على الحوأب سمعت نباح الكلاب فقالت ما أظنني إلا راجعة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا أيتكن تنبح عليها كلاب الحوأب فقال لها الزبير ترجعين عسى الله عز وجل أن يصلح بك بين الناس‏
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، المجلد السادس


www.ansar.org شیعہ حضرات کی رد میں بنائے جانی والی سب سے مقبول ویب سائٹ ہے۔ آئیے اسی ویب سائٹ کے عالم کی گواہی دیکھتے ہیں کہ حواب کے کتوں والی یہ حدیث “صحیح” ہے۔سوال و جواب کے سیکشن میں اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ عالم لکھتا ہے:

امام احمد بن حنبل نے اس واقعہ کو دو طرح نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ صحیح ابن حبان، مستدرکِ حاکم اور دیگر تاریخی کتب میں بھی موجود ہے۔
یہ حدیث صحیح اور سچی ہے۔

[FONT=Times New Roman, serif]اب میرے اس زمن میں یہ سوالات ہیں

1) کیا ان حدیثوں میں واقعی سیدہ عائشہ رض کی توہین والی کوئی بات ہے؟
2) کیا ان حدیثوں کے ذریعے یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ سیدہ عائشہ رض جمل کی جنگ میں غلطی پر تھیں؟
3) روافض ان حدیثوں کے ذریعے سیدہ عائشہ رض کو بہت مطعون کرتے ہیں، اس سلسلے میں انکو کیا جواب دینا چاہئے؟
4) ان احادیث کی اسنادی کیفیت کیا ہے؟ اور کن کن علمائے سلف نے اس صحیح قرار دیا ہے؟ جسکے نتیجے میں روافض کو یہ باتیں کہنے کی جرات ہوتی ہے؟
5) اوپر حدیث نمبر 1 میں ایک لائن لکھی ہوئی ہے "
[/FONT]
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔"
اسکا مفہوم کیا ہے؟

6) ان تمام روایتوں کی بنیاد پر تاریخ طبری میں جو روایت موجود ہے، اسی حواب والے معاملے میں، کیا وہ بھی صحیح بیان کیا جاتا ہے اور نہین تو پھر اسمیں کیا سقم ہے؟
7) ویسے تو شیعہ علماء کی کہی ہوئی بات ہم پر حجت نہین ہے لیکن ایک شیعہ عالم نے جو یہ بات کہی ہے اسمیں کیا حقیقت ہے "

امام احمد بن حنبل نے اس واقعہ کو دو طرح نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ صحیح ابن حبان، مستدرکِ حاکم اور دیگر تاریخی کتب میں بھی موجود ہے۔
یہ حدیث صحیح اور سچی ہے۔"



(نوٹ: واضح رہے کہ مذکورہ بالا یہ احادیث میں نے ایک شیعہ ویب سائٹ سے کاپی کی ہیں، اس لئے اگر اسمیں کسی کو کوئی تہین صحابی رض کا معاملہ ملے تو اسمیں میری کوئی غلطی نہ مانا جائے، میں تو ان احادیث کے متعلق سولات کرنے کے لئے انکو اسی طرح کاپی پیسٹ کیا ہے جسطوح وہ موجود تھیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
1) یہ حدیث ام سلمہ رض سے یوں روایت کی گئی ہے :
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے بعض امہات مؤمنین(اپنی بیویوں) کے باہر نکلنے کے بارے میں یاددہانی کی ، عائشہ نے اس پر مذاق اڑایا، حضرت نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا : اے حمیرا ! :خبر دار، کہیں ان میں سے تم ہی نہ ہو، اے حمیرا : گویا میںدیکھ رہاہوںکہ حواٴب کے کتے تم پر بھونک رہے ہیں ، اس وقت تم علی بن ابیطالب سے جنگ کروگی جبکہ تم ظالم ہوگی
سیوطی نے خصائص، ج ۲/ ۱۳۷ ، ابن عبد البر نے عائشہ کی تشریح میں استیعاب میں یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔ اس کے بعد کہا گیا ہے : یہ روایت نبوت کی نشانیوں میں سے ہے ۔
جس روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا نام لے کر تنبیہ ہے ، وہ بالکل بے اصل ہے ۔ اگر اس کی سند مل جائے تو اس کو مزید دیکھا جاسکتا ہے ۔
حاشیہ مختصر التحفة الاثني عشرية (1/ 276)
قال ابن القيم (رحمه الله): «وكل حديث فيه يا حميراء أو ذكر الحميراء فهو كذب مختلق». المنار المنيف: ص 60.
قال الذهبي: كل حديث فيه يا حميراء لا يصح، سير أعلام النبلاء (2/ 167، 168)
یعنی ہر وہ روایت جس میں ’ یا حمیراء ‘ ہے وہ جھوٹی ہے ۔
البتہ دو روایات علماء نے ایسی ذکر کی ہیں ، جن میں یہ لقب ہے ، اور وہ سندا صحیح ہیں دیکھیے آداب الزفاف للالبانی 272 ۔ 273 البتہ یہ روایت ان دو میں سے نہیں ہے ۔
اور جو روایات صحیح ہیں ، ان میں ایک اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو منع کرنے کا ذکر نہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ ہونے کی خبر دی تھی ، اور یہ حضور کی نبوت کی نشانی ہے کہ آپ نے جن باتوں کے متعلق خبر دی ہے ، وہ ویسے ہی ہوئی اور ہوں گے ، جیسے آپ نے کہا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراض اس وقت ہوتا اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور کے منع کرنے کے باوجود وہاں جاتیں ۔
صحیح حدیث کے معنی کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے :
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 854)
موسوعۃ عائشۃ أم المؤمنین (اعداد : الدرر السنیۃ ) ص نمبر 565
 
Top