• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ کربلا کے تئیں اہل سنت کے غور و فکر کے لیے چند باتیں

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اگر آپ کو تصویر کایہ رخ اچھا لگتا ہے تو آپ اسی کو مانتے رہیں۔
ویسے کوفیوں نے کس مقصد کے لیے حضرت حسین ؓ کو خطوط لکھے تھے ؟ جب ایسے مکار و غدار لوگ حضرت حسینؓ کو ورغلا سکتے ہیں تو بھلا قتل کا الزام حکومتِ وقت پر ڈالنا کیوں بعید از امکان ہے
محترم،
میں نے کوئی ہوائی باتیں نہیں کی ہیں کفایت اللہ سنابلی کی کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ" میں موجود ان کے مطابق صحیح سند والی روایت پیش کی ہے اہل حدیث میں سے یزید کے حامی حضرات بڑے زور وہ شور سے یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ یزید کے بارے میں کوئی بھی فسق و فجور اور اس پر جو شراب نوشی اور دیگر الزامات ہیں کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے یہ سب رافضی خرافات ہیں ان سب کا اظہار شیخ کفایت اللہ سنابلی کی کتاب میں جا بجا موجود ہے پھر جب انہی کی پیش کی ہوئی روایت میں جس کو وہ صحیح بھی مانتے ہیں جس سے حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل واضح ہے پھر اس سے صرف نظر کیوں؟ اس روایت میں نہ کوئی رافضی راوی ہے اور نہ یہ کسی رافضی کتاب سے روایت نقل کی ہے یہ تاریخ طبری کی روایت ہے تو اس کو قبول کرنے میں عار کیوں اہل حدیث کا منھج ہے کہ صحیح روایت قبول کی جاتی ہے
دوسری بات اہل کوفہ غداری کی اور مکاری کی یہ بات بھی مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے شیخ کفایت اللہ کی کتاب شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائیں کسی بھی صحیح سند سے یہ روایت نہیں ملتی کہ کوفے والے غدار اور مکار ہیں اور انہوں نے غداری کی اور اگر کہیں ہے تو آپ پیش کردیں جبکہ کفایت اللہ سنابلی صاحب کی کتاب میں ہی یہ روایت موجود ہے اور انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے جس میں ابن زیاد نے کوفہ سے لے کر کربلا تک کرفیوں نافذ کر دیا تھا جس سفاک کو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا حکم دینے میں دیر نہ لگی اس کا عام لوگوں کے قتل سے کیا چیز مانع ہو گی تو کسی صحیح سند سے یہ ثابت نہیں کہ اہل کوفہ مکار اور غدار تھے جبکہ صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ ابن زیاد اہل کوفہ پر پہرہ عائد کر دیا تھا۔
تو رہی بات یہ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تاریخ طبری میں حسین رضی اللہ عنہ کو اور ابن زبیر کو رضی اللہ عنہم کے موقف کو غلط کہا ہے تو اس حوالے سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ابن عمر رضی اللہ عنہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو امت میں انتشار ڈالنے والا مانتے تو عبدالملک بن مروان کی بیعت کرنے کے باوجود ابن زبیر کو حق پر مانا اور اس کے مقابلے پر اس کو باغی کہا۔

رَوْحُ بنُ عُبَادَةَ: حَدَّثَنَا العَوَّامُ بنُ حَوْشَبٍ، عَنْ عَيَّاشٍ العَامِرِيِّ، عَنْ سَعِيْدِ بنِ جُبَيْرٍ قَالَ: لَمَّا احتُضِرَ ابْنُ عُمَرَ قَالَ: مَا آسَى عَلَى شَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا إلَّا عَلَى ثَلاَثٍ: ظَمَأِ الهَوَاجِرِ، وَمُكَابَدَةِ اللَّيْلِ، وَأَنِّي لَمْ أُقَاتِلِ الفِئَةَ البَاغِيَةَ الَّتِي نَزَلَتْ بِنَا -يَعْنِي: الحَجَّاجَ(سیر اعلام النبلاء 4/ 319ط الحدیث)

اب موصوف کیا فرمائیں گے یہ روایت بالکل صحیح چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اکابرین امت نے ابن زبیر اور حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر جو بھی آئے ان کو باغی قرار دیا اوپر آپ اکابرین کے اقوال پڑھ سکتے ہیں انہوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
تو موصوف کو چاہیے کہ ضد اور کٹ حجتی سے کام لینے کے بجائے تحامل سے ان دلائل پر غور کریں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترمی !
قاتلِ حسین ؓ کون تھا اس کو بعد میں دیکھیں گے۔پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ اہل ِ کوفہ نے حضرت حسینؓ کو کس ”مقصد “کے تحت خطوط لکھے اور آپؓ کیا ” چیز“ حاصل کرنے کوفہ جا رہے تھے؟ اگر آپ فقط اسی نقطے پر غور و تدبر کر لیتے تو اتنی لمبی تقریر کی نوبت نہ آتی۔
بالفرض اہلِ کوفہ حضرت حسینؓ کے مخلصین میں تھے تو حضرت حسین نے ؓ” تین شرطیں“ کیوں پیش کیں؟ اور آخر کار بیعتِ یزید ؒ تسلیم کرنے پر کیوں رضا مندی ظاہر کی؟
حیرت ہے حکومت کی ساری خامیاں اہلِ کوفہ ہی کی نظر میں تھیں لیکن جن لوگوں ( صحابہ کرامؓ) نے شب و روزرسول اللہ ﷺ کی صحبت میں گزارے انہیں ان کی ہوا تک نہ لگی اور لطف یہ کہ فقط دو حضرات ( حضرت حسینؓ اور حضرت زبیرؓ ) کے سوا پوری اُمت فسق و فجورِ یزید ؒ پر مطلع ہونے کے باوجود اسکی بیعت کر کے بیٹھ گئے اور حضرت حسین ؓ پر ان کی نظر نہ گئی!
عبید اللہ بن زیاد نے ”کرفیو“ اہلِ کوفہ کی سازشوں کی وجہ سے لگایا تھا یا حضرت حسینؓ کی حفاظت کے لیے؟ ذرا سو چیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
قاتلِ حسین ؓ کون تھا اس کو بعد میں دیکھیں گے۔پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ اہل ِ کوفہ نے حضرت حسینؓ کو کس ”مقصد “کے تحت خطوط لکھے اور آپؓ کیا ” چیز“ حاصل کرنے کوفہ جا رہے تھے؟ اگر آپ فقط اسی نقطے پر غور و تدبر کر لیتے تو اتنی لمبی تقریر کی نوبت نہ آتی۔
بالفرض اہلِ کوفہ حضرت حسینؓ کے مخلصین میں تھے تو حضرت حسین نے ؓ” تین شرطیں“ کیوں پیش کیں؟ اور آخر کار بیعتِ یزید ؒ تسلیم کرنے پر کیوں رضا مندی ظاہر کی؟
محترم،
آپ جیسا کہتے ہیں ویسے ہی کر لیتے ہیں فلحال حسین رضی اللہ عنہ کو کس نے شہید کیا اس پر بعد میں بات کرتے ہیں جہاں تک اہل کوفہ کے خطوط کا تعلق ہے تو اہل کوفہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو اس لئے خطوط لکھے تھے کہ وہ ان کے پاس آکر یزید کی بیعت نہ کرنے میں ان کا ساتھ دیں اور حسین رضی اللہ عنہ کو بیعت لینے کے لئے پریشان کیا جا رہا تھا اور ان کو اپنے قتل ہونے کا بھی خدشہ تھا چنانچہ وہ مکہ یا مدینہ کی حرمت ماپال ہونے دینا نہیں چاہتے تھے اس لئے انہوں نے کوفہ کا رخ کیا چونکہ وہاں کے گورنر نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ تھے اس لئے حسین رضی اللہ عنہ کو امید تھی کہ وہ اس بارے میں ان کو پریشان نہیں کریں گے مگر یزید نے ان کو معزول کر کے ابن زیاد کو گورنر بنا بھیجا۔
سیر اعلام النبلاء سے یہ اسکین لگا رہا ہوں جس میں واضح ہے حسین رضی اللہ عنہ کو حکومت قتل کرنا چاہتی تھی اور وہ اس وجہ سے مکہ سے کوفہ گئے کہ وہ وہاں کی حرمت پامال نہیں ہونے دینا چاہتے تھے

beat karna.png




اور صحابہ کرام کا موقف حسین رضی اللہ عنہ کے حق میں تھے مگر انہوں نے یزید کی بیعت مجبوری میں کی تھی جو بعد میں حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت کے بعد ابن زبیر اور اہل مدینہ نے توڑ دی تھی۔

قُلْتُ: هَذَا يَدُلُّ عَلَى تَصْوِيبِ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو لِلْحُسَيْنِ فِي مَسِيْرِهِ، وَهُوَ رَأْيُ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَجَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ شَهِدُوا الحَرَّةَ.
سیر اعلام النبلاء 3/293)
اور اسی طرح ابن کثیر نے نقل کیا ہے

بَلِ النَّاسُ إِنَّمَا مَيْلُهُمْ إِلَى الْحُسَيْنِ لِأَنَّهُ السَّيِّدُ الْكَبِيرُ، وَابْنُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يساميه ولا يساويه، ولكن الدولة اليزيدية كانت كُلَّهَا تُنَاوِئُهُ.
البدایہ والنھایہ 8/151)
بلکہ لوگوں کا میلان حسین رضی اللہ عنہ کی جانب تھا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے اور اس وقت روئے زمین پر ان سے برابر کوئی نہ تھا مگر یزید کی حکومت پوری کی پوری ان کی عداوت پر اتر گئی تھی

اور آخر میں یہ بات کہ حسین رضی اللہ عنہ نے تین شرطیں پیش کی تھی اور وہ یزید کی بیعت کرنے پر راضی ہو گئے تھے یہ سب ناصبیت کے افسانے ہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ان کو اپنے قتل ہونے کا بھی خدشہ تھا
حیرت ہے، ایک طرف حکومت اتنی” سخت“ کہ بیعت نہ لینے پر قتل کے در پہ ہے اور دوسری طرف یہی جابرانہ حکومت حضرت حسین ؓ کو چار ماہ سے بھی زیادہ سوچ و بچار کا موقع و رعایت دے رہی ہے ۔ حضرت حسین ؓ کو اپنےقتل ہونے کا” اندیشہ“ ہے اور آپ کے چاہنے والے رشتہ دار اور مخلص صحابہ ؓ حکومت ِ وقت کے خلاف منظم جنگ کا اعلان کرنے کی بجائے آپؓ کو مکہ و مدینہ میں رہنے پر ہی اصرار کر رہے ہیں۔
گورنر نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ تھے اس لئے حسین رضی اللہ عنہ کو امید تھی کہ وہ اس بارے میں ان کو پریشان نہیں کریں گے مگر یزید نے ان کو معزول کر کے ابن زیاد کو گورنر بنا بھیجا۔
اسی کا تو سوال کیا تھا کہ کیوں ” معزول “ کیا ؟
اور آخر میں یہ بات کہ حسین رضی اللہ عنہ نے تین شرطیں پیش کی تھی اور وہ یزید کی بیعت کرنے پر راضی ہو گئے تھے یہ سب ناصبیت کے افسانے ہیں۔
جب یہ ” ناصبیت“ کے افسانے ہیں تو ہم ” رافضیت و سبائیت“ کے امیر یزید ؒ پر لگائے گئے ” فسق و فجور“ کے ”غیر مدلل “افسانوں پر کیونکر ” ایمان “ لے آئیں ؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
دراصل حضرت حسین ؓ کی طرف سے ” تین شرائط“ پیش کرنے کو تسلیم کر لینے سے امیر المؤمنین یزید ؒ بن معاویہ ؓ کے خلاف تمام بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی یکسر تردید ہو جاتی ہے اسی لیے کچھ لوگ سارا ” زور“ اسی حقیقتِ ثابتہ کو ” ناصبیت کا افسانہ “ ثابت کرنے پر بضد ہیں ۔ کیونکہ اس کو تسلیم کر لینے سے نہ پھر ” جبری بیعت “ کا رونا باقی رہے گا اور نہ امیر یزید ؒ کی خلافت کو ” غیر آئینی “ قرار دیا جا سکے گا ۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
حیرت ہے، ایک طرف حکومت اتنی” سخت“ کہ بیعت نہ لینے پر قتل کے در پہ ہے اور دوسری طرف یہی جابرانہ حکومت حضرت حسین ؓ کو چار ماہ سے بھی زیادہ سوچ و بچار کا موقع و رعایت دے رہی ہے ۔ حضرت حسین ؓ کو اپنےقتل ہونے کا” اندیشہ“ ہے اور آپ کے چاہنے والے رشتہ دار اور مخلص صحابہ ؓ حکومت ِ وقت کے خلاف منظم جنگ کا اعلان کرنے کی بجائے آپؓ کو مکہ و مدینہ میں رہنے پر ہی اصرار کر رہے ہیں۔
محترم،
اللہ کی توفیق سے اپ کی حیرت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں انشاء اللہ
ابن زیاد کا قتل کا حکم دینا اور عمر بن سعد کا قتل کرنا تو میں بقول شیخ سنابلی کے صحیح روایت سے ثابت کر آیا ہوں اس پر تو اپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور آپ کی تشفی ہوگئی ہو گی کے حکومت ان کے قتل کے درپے تھی اس اس حکومت نے قتل بھی کر دیا
اب اپ کی حیرت اس پر ہے کہ چار مہینہ کا وقت کیسے دیا تواس کا جواب یہ ہے وہ اج کا دور کی طرح نہیں تھا کہ موبائل فون پر روابط کر لیے جائیں خطوط کے ذریعے رابطے ہوتے تھے جن میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے اورحسین رضی اللہ عنہ خبر دینے اور پہچانےمیں بھی کئی دن لگ جاتے تھے اس وجہ سے یہ چار ماہ کا عرصہ گزرا ہے دوسری بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ منظم کیوں نہ ہوئے اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تعداد کتنی تھی ابن زیاد جیسا خبیث ان کی شان میں گستاخی کرتا اور وہ صبر کرتے تھے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ضرور منظم ہوئے کیونکہ ظلم اتنا تھا کہ امت کی زبان بند کردی گئی تھی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے ان کو ظالم کے خلاف کھڑا کر دیا اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی تحریک چلائی۔
اور یہ بات کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان کو مکہ مدینہ میں روکنے اصرار کیوں کیا اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے گمان کے مطابق وہ یہاں حملہ نہیں کرتے مگر حسین رضی اللہ عنہ ان کے ارادوں کو بھانپ گئے تھے وہ انکو یہاں بھی شہید کر دیں گے اس لئے وہ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔

اور ان روایات سے اس ظلم اور یزید کے فسق وفجور کے حوالے سے اپکی تشفی ہو جائی گی جو اپ کو رافضیت کا افسانہ لگتی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أُنَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى سُلْطَانِنَا، فَنَقُولُ لَهُمْ خِلاَفَ مَا نَتَكَلَّمُ إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمْ، قَالَ: «كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا(صحیح بخاری رقم 7178)
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا :جب ہم ان حکمرانوں کےپاس ہوتے ہیں تو ان کے خلاف نہیں بات کرتے جب تک وہاں سے نکل نہیں جاتے (ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا ہم اس کو نفاق مانتے تھے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: دَخَلَ نَفَرٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَوَقَعُوا فِي يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَتَنَاوَلُوهُ فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُكُمْ لَهُمْ عِنْدِي أَتَقُولُونَ هَذَا فِي وُجُوهِهِمْ؟ قَالُوا: لَا بَلْ نَمْدَحُهُمْ وَنُثْنِي عَلَيْهِمْ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: هَذَا النِّفَاقُ عِنْدَنَا (صفۃ النفاق وذم المنافقین للفریابی رقم 62)
اس میں واضح موجود ہے کہ لوگ یزید کے منہ پر اس کی تعریف کرتے اور اس کے پیچھے اس کو لعنت کرتے تھی یہ دونوں روایات صحیح ہیں اور اب اپ کے ذمہ ہے کہ جو بہتان اپ نے حسین رضی اللہ عنہ پر باندھا ہے کہ انہوں نے یزید کی بیعت کرنے پر رضامندی کر لی تھی اس کو صحیح سند سے ثابت کریں۔
اسی کا تو سوال کیا تھا کہ کیوں ” معزول “ کیا ؟
اس کی وجہ یہی ہے کہ نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ صحابی تھی اوروہ حسین رضی اللہ عنہ پر جبری بیعت کے لئے زور نہ دیتے اور ابن زیاد ایک خبیث انسان تھا جو قتل غارت کا ماہر تھا اور انتہائی ظالم تھا اس لئے اس کو وہاں بھیجا گیا تھا۔

جب یہ ” ناصبیت“ کے افسانے ہیں تو ہم ” رافضیت و سبائیت“ کے امیر یزید ؒ پر لگائے گئے ” فسق و فجور“ کے ”غیر مدلل “افسانوں پر کیونکر ” ایمان “ لے آئیں ؟
میں نے تو یزید کے ظلم اور اس کے فسق وفجور کا ثبوت صحیح سند سے دے دیا ہے اب آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں اور حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کا حوالہ صحیح سند سے پیش کریں شاباش ہمت کریں
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ابن زیاد کا قتل کا حکم دینا اور عمر بن سعد کا قتل کرنا تو میں بقول شیخ سنابلی کے صحیح روایت سے ثابت کر آیا ہوں اس پر تو اپ کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور آپ کی تشفی ہوگئی ہو گی کے حکومت ان کے قتل کے درپے تھی اس اس حکومت نے قتل بھی کر دیا
قاتلین ِ حسین ؓ کی شناخت کےلیے اہم حوالہ، خود رافضی منہج کے مصنف کے قلم سے ملاحظہ ہو کیونکہ اگر میں ناصبی (حقیقی اہلِ سنت و الجماعت) کا نام لوں گا تو اندیشہ ہے رافضیوں کے ماتھے پر تیوری چڑھے گی۔
بازارِ کوفہ میں زینب بنت ِ علیؓ کا مشہور خطبہ اکثر شیعہ کتب میں موجود ہے جس کا ایک اقتبا س یہ ہے :-
اے اہلِ کوفہ ! اے غداروں! اے مکاروں! ہم پر گریہ کر رہے ہو، تمہارے آنسو کبھی نہ تھمیں اور تمہاری فریاد کبھی ختم نہ ہو ۔( سیرۃ فاطمہ الزہراؓ، صفحہ نمبر 268 از آغا سلطان مرزا)
اب میں آپ سے استفسار کرتا ہوں کہ زینب بنتِ علیؓ کی یہ بد دعا بارگاہِ الہٰی میں مقبول ہوئی یا نہیں ؟
کیا اب بھی میرے لیے قاتلِ حسین ؓ کا کھوج لگانا باقی ہے ؟ کیا اب بھی مجھے ثابت کرنا پڑےگا کہ امیر یزید ؒ نہیں، بلکہ اہلِ کوفہ غدار و مکا ر تھے ؟
مجھے تعجب ہوتا ہے کہ عمر بن سعدؒ اگر اتنے شقی القلب اور ظالم تھے تو انہیں علی بن حسینؒ زین العابدین پر ترس کیونکرآ گیا ؟جب انہوں (خاکم بدہن) نے حضرت حسین ؓ کو شہید کر کے دنیا و آخرت کا خسران مول لے ہی لیا تھا تو آخرعلی بن حسینؒ زین العابدین کوزندہ چھوڑنے میں کیا عار تھی؟
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ضرور منظم ہوئے کیونکہ ظلم اتنا تھا کہ امت کی زبان بند کردی گئی تھی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے ان کو ظالم کے خلاف کھڑا کر دیا اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی تحریک چلائی۔
شہادت حسین ؓ کے بعد بھی امیر یزید ؒ تین سال تک حکمران رہے یعنی اُمت نے امیر یزید ؒ کے خلاف ایسی ” منظم تحریک “ چلائی ! تعجب ہے ۔

اور یہ بات کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان کو مکہ مدینہ میں روکنے اصرار کیوں کیا اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے گمان کے مطابق وہ یہاں حملہ نہیں کرتے مگر حسین رضی اللہ عنہ ان کے ارادوں کو بھانپ گئے تھے وہ انکو یہاں بھی شہید کر دیں گے اس لئے وہ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔
جو حکمران بقول رافضی و سبائی مکہ و مدینہ کے تقدس سے خالی ہو تو اس کے لیے حضرت حسین ؓ کو حرمین میں قتل کرنا کوئی تعجب انگیز بات نہیں تھی !
میں نے تو یزید کے ظلم اور اس کے فسق وفجور کا ثبوت صحیح سند سے دے دیا ہے
کون سا ” ثبوت “ فراہم کیا ہے ؟
اور ان روایات سے اس ظلم اور یزید کے فسق وفجور کے حوالے سے اپکی تشفی ہو جائی گی جو اپ کو رافضیت کا افسانہ لگتی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أُنَاسٌ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى سُلْطَانِنَا، فَنَقُولُ لَهُمْ خِلاَفَ مَا نَتَكَلَّمُ إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمْ، قَالَ: «كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا(صحیح بخاری رقم 7178)
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا :جب ہم ان حکمرانوں کےپاس ہوتے ہیں تو ان کے خلاف نہیں بات کرتے جب تک وہاں سے نکل نہیں جاتے (ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا ہم اس کو نفاق مانتے تھے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ: دَخَلَ نَفَرٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَوَقَعُوا فِي يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَتَنَاوَلُوهُ فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُكُمْ لَهُمْ عِنْدِي أَتَقُولُونَ هَذَا فِي وُجُوهِهِمْ؟ قَالُوا: لَا بَلْ نَمْدَحُهُمْ وَنُثْنِي عَلَيْهِمْ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: هَذَا النِّفَاقُ عِنْدَنَا (صفۃ النفاق وذم المنافقین للفریابی رقم 62)
اس میں واضح موجود ہے کہ لوگ یزید کے منہ پر اس کی تعریف کرتے اور اس کے پیچھے اس کو لعنت کرتے تھی یہ دونوں روایات صحیح ہیں اور اب اپ کے ذمہ ہے کہ جو بہتان اپ نے حسین رضی اللہ عنہ پر باندھا ہے کہ انہوں نے یزید کی بیعت کرنے پر رضامندی کر لی تھی اس کو صحیح سند سے ثابت کریں۔
یہ کون لوگ تھے؟ کیا مجھے بتانے کی ضرورت ہے ؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اب آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں اور حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کا حوالہ صحیح سند سے پیش کریں شاباش ہمت کریں
کتاب الارشاد، صفحہ نمبر201
مقاتل الطالبین ، صفحہ نمبر 75
تلخیص شافی، صفحہ نمبر 471
ناسخ التواریخ ، جلد نمبر 6، صفحہ نمبر 237
بحار الانوار، جلد نمبر 10، صفحہ نمبر 446

فی الحال اتنا ہی کافی و شافی رہے گا ، ان شاء اللہ تعالٰی !
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
کتاب الارشاد، صفحہ نمبر201
مقاتل الطالبین ، صفحہ نمبر 75
تلخیص شافی، صفحہ نمبر 471
ناسخ التواریخ ، جلد نمبر 6، صفحہ نمبر 237
بحار الانوار، جلد نمبر 10، صفحہ نمبر 446

فی الحال اتنا ہی کافی و شافی رہے گا ، ان شاء اللہ تعالٰی !
کتاب الارشاد، صفحہ نمبر201
مقاتل الطالبین ، صفحہ نمبر 75
تلخیص شافی، صفحہ نمبر 471
ناسخ التواریخ ، جلد نمبر 6، صفحہ نمبر 237

بحار الانوار، جلد نمبر گا ، ان شاء اللہ تعالٰی !
محترم ٹی ایچ کے بھائی
انتہائی معذرت کے ساتھ کہ آپ دو نوں کے درمیان کی گفتگو میں دخل اندازی کر رہا ہوں ۔

آپ سے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ واضح کہہ دیں کہ حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر دونوں کا خروج شرعا جائز نہیں تھا ۔ اور وہ شریعت کی واضح خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے کہ ایک متفق خلیفہ کے خلاف کھڑے ہوئے ۔ اور ان پر وہ تمام وعیدیں لگائیں جو اس خلاف ورزی کے تحت آتی ہیں ۔
نہ آپ پورے ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے ۔ اپنے اندر اتنی جرات پیدا کرییں اوراس کا برملا اس کا اظہار کریں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جنت کے نوجوانوں کے سردار نہیں ہوسکتے ۔اور ان کی جو بھی فضلیتیں آئی ہیں ان کی کبھی حیثیت کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ انہوں نے ایک ایسے کام کا ارتکاب کیا جس کو کرنے کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی ایک پوری جماعت منع کررہی تھی۔اور صحابہ کرام کی جماعت یزید کو ان دونوں حضرات سے افضل اور خلاف کامستحق سمجھتی تھی ۔(آپ کی تحقیق کے مطابق ) اور اس میں کسی تاویل سے کام نہ لے لیں ۔ جو عقیدہ ہے وہ بیان کردیں ۔یہ بھی یاد رکھیں آپ کو یہ مقدمہ ایک آخری عدالت میں بھی لڑنا ہوگا اور یزید کی اسی طرح وکالت کرنی ہوگی۔
ویسے بھی آپ کی چھٹی حس کے مطابق واقعہ کربلا کی حیثیت ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔تو افسانوں کیلئے نہ تو دلیلیں دی جاتی ہیں نہ تحقیق کی جاتی ہے۔
میرا گمان ہے کہ آپ مولانا حبیب الرحما ن کاندھلوی مرحوم کی تحقیقتات سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔
میرے خیال اس بارے میں صرف دو ہی رائے ہونی چاہیئں ۔ حضرت حسین رضی اللہ حق پر یا یز ید حق پر
کیونکہ یہ اختلاف دوصحابیوں کے درمیان نہیں ہے۔ جہاں خاموش رہا جائے ۔ایک طرف صحابی رسول ہیں دوسری طرف غیر صحابی
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
قاتلین ِ حسین ؓ کی شناخت کےلیے اہم حوالہ، خود رافضی منہج کے مصنف کے قلم سے ملاحظہ ہو کیونکہ اگر میں ناصبی (حقیقی اہلِ سنت و الجماعت) کا نام لوں گا تو اندیشہ ہے رافضیوں کے ماتھے پر تیوری چڑھے گی۔
بازارِ کوفہ میں زینب بنت ِ علیؓ کا مشہور خطبہ اکثر شیعہ کتب میں موجود ہے جس کا ایک اقتبا س یہ ہے
محترم،
مجھے نہ رافضی کتب کی ضرورت ہے نہ حوالوں کی یہ اپ کو ہی مبارک ہوں ان کو کسی رافضی کو دلیل کے طور پر دیجئے گا اپ کے کام آئے گا اہل سنت والجماعۃ کے نذدیک یزید کیا ہے یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں اس لئے برائے مہربانی یہ رافضی کتب بند کر کے رکھ دیں اور اہلآں جناب نے بالکل درست فرمایا حسین رضی اللہ عنہ نے جو بھانپ لیا تھا وہ درست ثابت ہوا کہ نہیں یزید نے مدینہ رسول پر حملہ کروایا یا نہیں اور اسے تین دن کے لئے مباح کردیا۔ کیا خیال ہے حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے بارے میں بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔سنت و الجماعۃ کی کتب سے صحیح سند سے دلیل پیش کریں اگر اپ کو رافضی کتب کے حوالے دینے کا شوق ہے تو پھر ان کی سب باتیں ماننی پڑیں گی کہ یزید شرابی زانی وغیرہ تھا وگرنہ بادلیل گفتگو میں ایسی بے علمی گفتگو بحث عبس ہے اس لئے دوبارہ ہمت کریں اور صحیح سند سے دلیل پیش کریں وگرنہ اقرار کریں اپ نے ایک صحابی رسول پر بہتان دھرا ہے

جو حکمران بقول رافضی و سبائی مکہ و مدینہ کے تقدس سے خالی ہو تو اس کے لیے حضرت حسین ؓ کو حرمین میں قتل کرنا کوئی تعجب انگیز بات نہیں تھی !
آں جناب نے بالکل درست فرمایا حسین رضی اللہ عنہ نے جو بھانپ لیا تھا وہ درست ثابت ہوا کہ نہیں یزید نے مدینہ رسول پر حملہ کروایا یا نہیں اور اسے تین دن کے لئے مباح کردیا۔ کیا خیال ہے حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے بارے میں بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔

یہ کون لوگ تھے؟ کیا مجھے بتانے کی ضرورت ہے ؟
بالکل بتانے کی ضرورت ہے میں آپ سے لکھا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں کہ جس زمانے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیرالقرون فرمائیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اب آپ کے لئے ایک روایت کہ وہ کون لوگ تھے جو یزید اور اس کے ہمنواوں کے فسق وفجور اور اس ظلم میں زبان بھی نہیں ہلا سکتے تھے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَتَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّا نَجْلِسُ إِلَى أَئِمَّتِنَا هَؤُلَاءِ , فَيَتَكَلَّمُونَ بِالْكَلَامِ نَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ الْحَقَّ غَيْرُهُ فَنَصْدُقُهُمْ , وَيَقْضُونَ بِالْجَوْرِ فَنُقَوِّيهِمْ وَنُحَسِّنُهُ لَهُمْ , فَكَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ: " يَا ابْنَ أَخِي كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعُدُّ هَذَا النِّفَاقَ , فَلَا أَدْرِي كَيْفَ هُوَ عِنْدَكُمْ
ترجمہ:عروہ بن الزبیر کہتے ہیں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا: اے ابا عبدالرحمن ہم جب اپنے حکمرانوں کے پاس بیٹھتے ہیں اورہم یہ جانتے ہیں کہ وہ ناحق بات کررہے ہیں اور ناانصافی کا فیصلہ کر رہے ہیں مگر ہم ان کی تائید کرتے ہیں اور اس کو سرہاتے ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو(ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا اے میرے بھائی کے بیٹے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کو نفاق کہتے تھے مگر اب میں نہیں جاتا یہ تمہارے نذدیک کیا ہے۔

اس میں عروۃ بن الزبیر جیسے تابعی ان لوگوں کو اپنی نسبت دے رہے ہیں تو اب آپ بتائیں یہ کون لوگ تھے جن کو عروہ بن الزبیر جیسے تابعی اپنی نسبت کر رہے ہیں۔
تو یہ خیرالقرون کے لوگ تھے نیک لوگ تھے،وگرنہ عروۃ بن الزبیر ان کو اپنی نسبت نہ کرتے۔



آخر میں ایک گزارش اپ کے جو ذمہ ہے اس کو پورا کریں صحیح سند سے حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت ثابت کریں
 
Top