• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ کربلا کے تئیں اہل سنت کے غور و فکر کے لیے چند باتیں

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
یہ تو زبردستی هوئی کہ اپنے الفاظ کسی کے منہ میں ڈالے جائیں ۔ زیادتی هوئی کہ یا تو یہ مانو یا تو وہ مانو ۔
کسی اختلاف پر علمی دلائل پیش کئیے جائیں ، جو اقوی تر هوں اور جنکی اسناد پر قائل کوایا جاسکے ۔ جذباتی باتوں سے پرہیز کیا خائے ۔ معاملہ اگر بقول آپ کے دو صحابیوں کے درمیان نہیں هے تو اس کا کیا مطلب آپ لے رہی ہیں وضاحت فرمائیں ۔
لیکن غیر جذباتی انداز میں ۔ اکسائے نہیں ۔ علمی دلائل هوں جنہیں علماء اہل سنت والجماعت تسلیم کریں جنکہ سندوں کو صحیح قرار دیا جا سکے وطبعا من کتبنا ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
معاملہ اگر بقول آپ کے دو صحابیوں کے درمیان نہیں هے تو اس کا کیا مطلب آپ لے رہی ہیں وضاحت فرمائیں ۔
محترم طارق بھائی
جب دو صحابیوں کے درمیان اختلاف ہو تو ہمیں حکم ہے کہ خاموش رہیں ۔لیکن کیا اس کا حکم ہے ایک صحابی اور ایک تابعی کے درمیان اختلاف ہو (حضر ت عبداللہ بن زبیر ،حضرت حسین کا یزید کے ساتھ اختلاف ) تو کیا پھر عا م اجازت ہے کہ صحابی کے عمل کو غلط ثابت کرنے کیلئے قلم کا سارا زور صرف کر دیا جائے، میں جذباتی نہیں حقیقی بات کر رہا ہوں ۔
ضابطہ ایک ہی ہونا چاہیے وہ یہ کہ کسی صحابی کے کسی عمل پر تحقیق کے نام پر بھی تنقید نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اہل سنت کے تحت تمام صحابہ عادل ہیں۔

اور میں کسی کے منہ میں اپنی بات ڈالنے کی کو شش نہیں کر رہا ہوں ۔ بلکہ وہ بات کر رہا ہوں جو ان کی تحریرات سے اخذ کی ہے ۔ آپ سے گذارش ہے کہ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت کا مطالعہ کریں پھر دیکھیں تحقیق کے نام پر اہل بیت کے لئے کیا الفا ظ استعال ہوئے ہیں ۔ اور محترم کفایت اللہ صاحب کی کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ سب کا(جو یزید کے حامی ہیں ) کا عقیدہ یہ بنتا ہے کہ کسی صحابی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاسکتی لیکن عبداللہ بن زبیر اور حسین کے بارے میں تحقیق کے نام پر کچھ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ انہو ں نے یزید کی مخالفت کی ہے ÷۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم ٹی ایچ کے بھائی
انتہائی معذرت کے ساتھ کہ آپ دو نوں کے درمیان کی گفتگو میں دخل اندازی کر رہا ہوں ۔

آپ سے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ واضح کہہ دیں کہ حضرت حسین اور حضرت عبداللہ بن زبیر دونوں کا خروج شرعا جائز نہیں تھا ۔ اور وہ شریعت کی واضح خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے کہ ایک متفق خلیفہ کے خلاف کھڑے ہوئے ۔ اور ان پر وہ تمام وعیدیں لگائیں جو اس خلاف ورزی کے تحت آتی ہیں ۔
نہ آپ پورے ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے ۔ اپنے اندر اتنی جرات پیدا کرییں اوراس کا برملا اس کا اظہار کریں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جنت کے نوجوانوں کے سردار نہیں ہوسکتے ۔اور ان کی جو بھی فضلیتیں آئی ہیں ان کی کبھی حیثیت کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ انہوں نے ایک ایسے کام کا ارتکاب کیا جس کو کرنے کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی ایک پوری جماعت منع کررہی تھی۔اور صحابہ کرام کی جماعت یزید کو ان دونوں حضرات سے افضل اور خلاف کامستحق سمجھتی تھی ۔(آپ کی تحقیق کے مطابق ) اور اس میں کسی تاویل سے کام نہ لے لیں ۔ جو عقیدہ ہے وہ بیان کردیں ۔یہ بھی یاد رکھیں آپ کو یہ مقدمہ ایک آخری عدالت میں بھی لڑنا ہوگا اور یزید کی اسی طرح وکالت کرنی ہوگی۔
ویسے بھی آپ کی چھٹی حس کے مطابق واقعہ کربلا کی حیثیت ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔تو افسانوں کیلئے نہ تو دلیلیں دی جاتی ہیں نہ تحقیق کی جاتی ہے۔
میرا گمان ہے کہ آپ مولانا حبیب الرحما ن کاندھلوی مرحوم کی تحقیقتات سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔
میرے خیال اس بارے میں صرف دو ہی رائے ہونی چاہیئں ۔ حضرت حسین رضی اللہ حق پر یا یز ید حق پر
کیونکہ یہ اختلاف دوصحابیوں کے درمیان نہیں ہے۔ جہاں خاموش رہا جائے ۔ایک طرف صحابی رسول ہیں دوسری طرف غیر صحابی
محترمی و مکرمی !
میں پہلے بھی وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ ” عقیدت “ کا معاملہ ہو سکتا ہے ” عقیدہ“ کا نہیں۔میں ” عقیدت “ کو ” عقیدہ“ کی سرحد میں داخل ہونےکی اجازت نہیں دیتا ۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کتنے صحابہ کرام ؓ نے حضرت حسینؓ کے خروج میں ان کا ساتھ دیا ؟ حضرت حسین ؓ کا مؤقف کبار صحابہ کرام ؓ کے نزدیک غیر صحیح تھا۔ میں امیر یزیدؒ کا وکیل نہیں ہوں کیونکہ ” جہادِ قسطنطنیہ“ اور ” بارہ خلفاء“ والی روایات کے تناظر میں مجھے اس کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ حضرت حسین ؓ کا دفاع فقط امیر یزیدؒ پر ” فسق و فجور“ کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگانے سے ہی ممکن ہے اس لیے ایسے لوگ دن رات ایسی جدو جہد میں ”مصروف ِ عمل“ ہیں اور یہ ان کی ”مجبوری “بھی ہے ۔ صحابہ کرام ؓ کی عدالت و وثاقت اہلِ سنت کے نزدیک مسلمہ حقیقت ہے لیکن وہ بشمول حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ معصوم عن الخطاء نہیں ہیں۔
کیا امیر یزید ؒ کا ” فسق و فجور“ قرآن مجید میں کہیں لکھا ہوا ہے ؟
میں حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے متعلق حتمی فیصلہ اسی وقت دےسکتا ہوں جبکہ میں ان کی نیتوں کا حال جانتا ہوں ،وگرنہ نہیں ۔
ایک طرف نبی کریم ﷺ کے تعلیم سے مستفید ہونے والے تربیت یافتہ،صحبت یافتہ اور سیاسی بصیرت رکھنے والےصحابہ کرام ؓ کی مقدس جماعت ہے جنہوں نے امیر یزید ؒ کی بیعت بلا اکراہ و جبر کی تھی اور دوسری جانب حضرت حسین ؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ ہیں ، اس حقیقت کو بھی سامنے رکھیں۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
امیر یزید ؒ کی بیعت بلا اکراہ و جبر کی تھی
سفید جھوٹ
ابن تیمیہ نے منھاج السنہ میں یزید کو غاصب کہا ہے اور آپ اس کی بیعت کو بلاجبر فرما رہے ہیں امام ابن تیمیہ جیسے محقق کے قول پر کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
یک طرف نبی کریم ﷺ کے تعلیم سے مستفید ہونے والے تربیت یافتہ،صحبت یافتہ اور سیاسی بصیرت رکھنے والےصحابہ کرام ؓ کی مقدس جماعت ہے جنہوں نے امیر یزید ؒ کی بیعت بلا اکراہ و جبر کی تھی اور دوسری جانب حضرت حسین ؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ ہیں ، اس حقیقت کو بھی سامنے رکھیں۔
داماد رسول حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہونے کے باوجود مدینہ میں شہید کر دئیے جاتے ہیں ۔ کبا ر صحابہ کرام باغیوں کو روک نہیں پاتے ہیں ۔ اس کو آپ کیا کہیں گے ۔ آپ اس منطق کو کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں کہ کبھی کبھی حالات و اقعات ایسا رخ اختیار کر جاتے ہیں جہاں لوگ بہت کچھ چاہتے ہوئے اپنی مرضی نہیں کر پاتے ہیں ۔
پھر یزید تو کے پاس تو ایک واضح اور بڑی قوت فوج کی شکل میں موجود تھی جس کا اس نے استعمال بھی کیا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
مجھے نہ رافضی کتب کی ضرورت ہے نہ حوالوں کی یہ اپ کو ہی مبارک ہوں ان کو کسی رافضی کو دلیل کے طور پر دیجئے گا اپ کے کام آئے گا اہل سنت والجماعۃ کے نذدیک یزید کیا ہے یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں اس لئے برائے مہربانی یہ رافضی کتب بند کر کے رکھ دیں اور اہلآں جناب نے بالکل درست فرمایا حسین رضی اللہ عنہ نے جو بھانپ لیا تھا وہ درست ثابت ہوا کہ نہیں یزید نے مدینہ رسول پر حملہ کروایا یا نہیں اور اسے تین دن کے لئے مباح کردیا۔ کیا خیال ہے حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے بارے میں بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔سنت و الجماعۃ کی کتب سے صحیح سند سے دلیل پیش کریں اگر اپ کو رافضی کتب کے حوالے دینے کا شوق ہے تو پھر ان کی سب باتیں ماننی پڑیں گی کہ یزید شرابی زانی وغیرہ تھا وگرنہ بادلیل گفتگو میں ایسی بے علمی گفتگو بحث عبس ہے اس لئے دوبارہ ہمت کریں اور صحیح سند سے دلیل پیش کریں وگرنہ اقرار کریں اپ نے ایک صحابی رسول پر بہتان دھرا ہے
کیونکہ آپ اہلِ سنت کے علماء کی رائے سے متفق نہیں تھے اسی لیے میں نے آپ کی تسلی کےلیے رافضیوں کی کتب کے حوالے پیش کیے ۔ اگر آپ امام ابن تیمیہ ؒ ، امام ابن کثیر ؒ،امام ابو بکر ابن العربی ؒ اور امام غزالی ؒ وغیرہ علماء کی تحقیق سےمطمئن نہیں ہیں تو آپ رَفض نُما اہلِ سنت کے مؤقف کو سینے سے لگا لیں مجھے کوئی گلہ نہیں ہو گا ۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے امیر یزید ؒ کی تعریف و توصیف بھی کی ہے اور ان پر لگائے گئے الزامات کا رد بھی کیا ہے بلکہ غزوۂ قسطنطنیہ میں صحیح بخاری کی روایت کے مطابق امیر یزیدؒ کو مغفور و مرحوم تسلیم کیا ہے اور ان کو اما م و خلیفہ بھی مانا ہے ۔ اما م لیث بن سعدؒ کے نزدیک یزید ؒ” امیر المؤمنین“ تھے (تاریخ خلیفہ ابن خیاط، صفحہ نمبر 253 ،و اسنادہ صحیح)
امیر یزیدؒ کی وثاقت و عدالت کی سب سے بڑی دلیل ( جہادِ قسطنطنیہ کی طرح) صحابہ کرام ؓ کا امیر یزیدؒ کی بیعت پر کامل اتفاق و اجماع ہے اس لیے کہ خلافت کےلیے اہلِ علم نے جو شرائط لگائی ہیں ان میں امام کا عادل اور معتبر ہونا بھی شامل ہے ( الاحکام السلطانیہ لابی یعلیٰ الفراء ، صفحہ نمبر 22)
صحابہ کرام ؓ میں سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے امیر یزید ؒ کو نیک اور صالح ترین شخص کہا ہے ( الانساب الاشراف للبلاذری )
کیا ہمیں اس مؤقف کو اپنانے کی اجازت ہے ؟
بالکل بتانے کی ضرورت ہے میں آپ سے لکھا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں کہ جس زمانے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیرالقرون فرمائیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اب آپ کے لئے ایک روایت کہ وہ کون لوگ تھے جو یزید اور اس کے ہمنواوں کے فسق وفجور اور اس ظلم میں زبان بھی نہیں ہلا سکتے تھے
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَتَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّا نَجْلِسُ إِلَى أَئِمَّتِنَا هَؤُلَاءِ , فَيَتَكَلَّمُونَ بِالْكَلَامِ نَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّ الْحَقَّ غَيْرُهُ فَنَصْدُقُهُمْ , وَيَقْضُونَ بِالْجَوْرِ فَنُقَوِّيهِمْ وَنُحَسِّنُهُ لَهُمْ , فَكَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ: " يَا ابْنَ أَخِي كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعُدُّ هَذَا النِّفَاقَ , فَلَا أَدْرِي كَيْفَ هُوَ عِنْدَكُمْ
ترجمہ:عروہ بن الزبیر کہتے ہیں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا: اے ابا عبدالرحمن ہم جب اپنے حکمرانوں کے پاس بیٹھتے ہیں اورہم یہ جانتے ہیں کہ وہ ناحق بات کررہے ہیں اور ناانصافی کا فیصلہ کر رہے ہیں مگر ہم ان کی تائید کرتے ہیں اور اس کو سرہاتے ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو(ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا اے میرے بھائی کے بیٹے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کو نفاق کہتے تھے مگر اب میں نہیں جاتا یہ تمہارے نذدیک کیا ہے۔

اس میں عروۃ بن الزبیر جیسے تابعی ان لوگوں کو اپنی نسبت دے رہے ہیں تو اب آپ بتائیں یہ کون لوگ تھے جن کو عروہ بن الزبیر جیسے تابعی اپنی نسبت کر رہے ہیں۔
تو یہ خیرالقرون کے لوگ تھے نیک لوگ تھے،وگرنہ عروۃ بن الزبیر ان کو اپنی نسبت نہ کرتے۔
سوچنےکی بات ہے کہ اگر امیر یزید ؒ کا” فسق و فجور“ سب صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کے علم میں تھا اور یہ بات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی تھی تو کوئی” منظم تحریک “ کیوں نہ چلائی گئی ؟کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا عظیم ترین جہاد ہے۔ کیا صحابہ کرام ؓ کی سیرت و کردار پر ایسی ہی مہر نبیﷺ نے لگائی تھی ؟ اس میں امیر یزیدؒ کے کس” فسق و فجور“ اور اس کے ”ثبوت “ کی بات ہو رہی ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے نزدیک تو قاتلین ِ حسینؓ امیر یزید ؒ نہیں، بلکہ اہلِ کوفہ تھے ۔
لطف تو یہ ہے کہ امیر یزیدؒ کا ” فسق و فجور “ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ایک موقع پر حضرت جابر ؓ کا قول ہے :-
کلمت حسیناً فقلت لہ اتق اللہ ولا تضرب الناس بعضھم ببعض( البدایہ و النہایہ ، جلد8، صفحہ نمبر 163)
میں نے حضرت حسین ؓ سےبات کی اور ان کو کہا کہ اللہ تعالٰی سے ڈرو اور لوگوں کو آپس میں مت لڑاؤ۔
دوسرے موقع پر حضرت ابو سعید خدری ؓ کو بھی فرمانا پڑھا :-
غلبنی الحسین علی الخروج و قلت لہ اتق اللہ فی نفسک و الزم بیتک ولا تخرج علی امامک ( البدایہ و النہایہ ، جلد نمبر 8 ، صفحہ نمبر 162)
حضرت حسین ؓ نے خروج کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا کہ اپنی جان کے بارے میں اللہ تعالٰی ڈرو اور اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور اپنے امام کے خلاف خروج مت کرو۔
حضرت ابو واقد لیثی ؓ نے بھی ان کو راستہ میں فرمایا تھا:-
لا تخرج فانہ من یخرج لغیر وجہ خروج انما خرج یقتل نفسہ( البدایہ و النہایہ ، جلد نمبر 8، صفحہ نمبر 193)
خروج مت کرو کیونکہ جو شخص خروج کی وجہ نہ ہونے کے با وجود خروج کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کے لیے جنگ کرتا ہے ۔
ان روایات میں واضح طور پر صحابہ کرام ؓ نے حضرت حسین ؓ کو حکومت ِ وقت کے خلاف ”خروج “سے منع کیا ہے ۔ دوسرے معنوں میں یہ تھی امیر یزیدؒ کے افسانو ی ” فسق و فجور“ کے خلاف ” خروج “ کرنے کی حقیقت ! او ر اس متواتر ” فسق و فجور “ کے” خلاف“ یہ تھانبیﷺ کے صحبت یافتہ، ظالم جابر کےسامنے ڈٹ جانے والی اور کسی ملامت کا خوف نہ کھانے والی مقدس جماعتِ صحابہ ؓ کا طرز ِ عمل!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

واقعہ کربلا ١٢٠٠ سال سے مسلمانوں میں موضوع سخن ہے-اگرچہ یہ اسلام کی تاریخ کا ایک اندوہناک سانحہ تھا- لیکن اتنا بھی نہیں کہ جتنا متاخرین نے اسے افسانہ بنا کرلوگوں کے سامنے پیش کیا- مقصد ان گروہوں کا اہل بیعت کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے سیاسی و مذہبی عقائد کو جلا بخشنا تھا- ورنہ حقیقت تو عیاں ہے کہ "محبّت حسین" کا نعرہ تو محض دھوکہ ہے-افسوس اس بات کا ہے کہ اس باطل "محبّت حسین" کے نعرہ میں آجکل رافضی نما اہل سنّت بھی بری طرح پھنس چکے ہیں-

اس واقعہ سے متعلق مختلف گروہوں میں تضاد کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ کو تاریخی اصولوں پر پرکھنے کے بجاۓ جذبات سے پرکھا گیا- اس واقعہ کا اصل مآخذ علامہ ابن جریر طبری کی تاریخ طبری ہے- جس میں اس واقعہ سے متعلق متضاد ڈیڑھ سو سے زیادہ روایات پائی جاتی ہیں- متاخرین مثلاً ابن کثیر، ابن اثیر، امام ذہبی، امام ہجر عسقلانی وغیرہ نے زیادہ تر تاریخ طبری سے ہی کربلا سے متعلق روایات کو اخذ کیا- طبری میں کربلا سے متعلق لگ بھگ تقریباً ڈیڑھ سو سے زیادہ روایات درج ہیں- ان میں قریب آدھی روایات امیر یزید بن معاویہ رحم الله کے مثبت پہلو کو آشکار کرتی ہیں اورتقریباً آدھی روایات ان کے منفی پہلو کو آشکار کرتی ہیں- خود علامہ طبری اپنی تاریخ کے مقدمے میں فرماتے ہیں کہ "ہماری طرف سے اس کتاب میں یہ بات نہیں لائی گئی ، بلکہ اس خبر کو نقل کرنے والوں میں سے بعض لوگوں سے اس کو نقل کیا گیا ہے ، ہم نے اس کو اسی طرح ادا کیا ہے جس طرح یہ بات ہم تک پہنچی ہے" -تاریخ طبری میں واقعہ کربلا سے متعلق سب سے زیادہ تعداد میں جس روای سے روایات منسوب ہیں اس راوی کا نام "ابو مخنف لوط بن یحیی ہے جو اکثر ناقدین کے مطابق ناصرف کذاب راوی کے طور مشھور تھا بلکہ وہ واقعہ کربلا کا پہلا مورخ تھا -

دور حاضر کے مورخ محمود احمد عباسی اپنی کتاب "خلافت و معاویہ و یزید رضی الله عنہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"ابو مخنف متوفی 157 ہِجری یا 170 ہِجری کا زمانہ بارہ سو برس کا اس قدر قدیم زمانہ ہے کہ اس کی کسی تصنیف کا کوئی قلمی نسخہ نہیں پایا جاتا البتہ کوئی ڈیڑھ سو برس بعد اس کی وفات کے- ابِن جریر طِبری متوفی 310 ہِجری نے اس کے تاریخی کتابچوں کی روایتوں اور مقتل ابیِ مخنف کا کل مواد "قآلِ ابو مخنف کی تکرار" سے اپنی تاریخ میں درج کر دیا ہے۔ اب یہ نقل شدہ مواد ہی گویا قدیم ترین نسخہ مقتل ابو مخنف کا سمجھا جا سکتا ہے جو حادثۂِ کربلا کے تقریباً سو برس بعد محض سماعی روایتوں سے مرتب ہوا۔ زمانہ حال کے شِیعہ مصنف "مجاہدِ اعظم "نے داستانِ کربلاء کی وضعی روایتوں کے ذکر میں مقتل ابو مخنف کے نسخوں کا مختلف البیان ہونے کا بھی اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: صد ہا باتیں طبع زاد و تراشی گئیں۔ واقعات کی تدوین عرصہ دراز کے ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ سچ کو جھوٹ سے، جھوٹ سے سچ کو علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا۔ ابو مخنف لوط بِن یحیی ازدمی کربلاء میں خود موجود نہ تھا اس لئے یہ سب واقعات اس نے بھی سمعی لکھے ہیں لہذا مقتل ابو مخنف پر بھی پورا وثوق نہیں پھر لطف یہ کہ مقتل ابو مخنف کہ چار نسخے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف البیان ہیں اور ان سے صاف پایا جاتا ہے کہ خود ابو مخنف واقعات کا جامع نہیں بلکہ کسی اور شخص نے ان کے بیان کردہ سماعی واقعات کو قلمبند کر دیا ہے۔ مختصر یہ کہ شہادتِ اِمام حسین ؓسے متعلق تمام واقعات ابتدا سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے پر ہیں کہ اگر ان کو فرداً فرداً بیان کیا جائے تو کئی ضخیم دفتر فراہم ہو جائیں"-

مزید لطف کی بات یہ ہے کہ خود حسین رضی الله عنہ کے پوتے "زید بن علی بن حسین" کی مسند میں بھی اس واقعہ کا کوئی تفصیلی ذکر موجود نہیں - یعنی گھر والوں کو بھی نہیں پتا کہ اصل واقعہ کیا تھا اور کس طرح وقوع پذیر ہو١- خود ابو مخنف کے بارے میں بھی یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے کربلا سے متعلق واقیعات کو کہاں سے اخذ کیا کیوں کہ وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھا- بلکہ اس کی سوانح زندگی یہی بتاتی ہے کہ وہ اس واقعہ کے تقریباً ٢٠-٢٥ سال بعد پیدا ہوا- ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا دادا سلیم بن مخنف، علی رضی الله عنہ کے اصحاب میں شامل تھے اور ان کے ساتھ صفین و جمل میں حصّہ لیا - ابو مخنف اہل بیعت کی طرف میلان رکھتا تھا اور بنو امیہ کے سخت مخالفین میں سے تھا- اور اس بنا پر اس تعصب کی جھلک اس سے مروی اکثر روایات میں واضح طور پر موجود نظر آتی ہے-

بہر حال دیگر واقیعات اور تاریخی حقائق یہی بتاتے ہیں حسین رضی الله بھی اسی طرح اہل کوفہ کے دھوکے کا شکار ہوے جس طرح ٢٠-٢٢ سال قبل ان کے والد علی رضی الله عنہ کے اپنے اصحاب جو زیادہ تر کوفی تھے ان کے دھوکے کا شکار ہوئے اور شہید کردیے گۓ - حسین رضی الله نے اپنے خروج میں جلد بازی کی اور تحقیق کے بغیر کے کوفیوں کے بلانے پر چل پڑے- بیشتر اصحاب کرام رضوان الله اجمعین جیسے ابن عمر رضی الله عنہ اور ابن عباس رضی الله عنہ حسین رضی الله عنہ کے اس جلد بازی کے اقدام اور اس کے نتائج کو بھانپ گئے- انھیں اندیشہ تھا کہ ان کے ساتھ بھی کوفہ کے لوگ اپنی بد خصلت کے تحت ان کے ساتھ ویسا ہی دھوکہ کریں گے جیسے علی رضی الله عنہ کے ساتھ کیا- لیکن تقدیر کو شاید یہی منظور تھا -یہ ایک امر تھا جو بہر حال ہو کررہا اور لوگوں نے نتائج دیکھ لئے- الله رب العزت شہیدان کربلا کی خطاؤں سے درگزر فرماے اور ان کو جنّت الفردوس میں جگہ عطا کرے اور ان کے حقیقی قاتلوں سے قیامت کے دن محاسبہ کرے- (آمین)
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اگر آپ امام ابن تیمیہ ؒ ، امام ابن کثیر ؒ،امام ابو بکر ابن العربی ؒ اور امام غزالی ؒ وغیرہ علماء کی تحقیق سےمطمئن نہیں ہیں تو آپ رَفض نُما اہلِ سنت کے مؤقف کو سینے سے لگا لیں مجھے کوئی گلہ نہیں ہو گا ۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے امیر یزید ؒ کی تعریف و توصیف بھی کی ہے اور ان پر لگائے گئے الزامات کا رد بھی کیا ہے بلکہ غزوۂ قسطنطنیہ میں صحیح بخاری کی روایت کے مطابق امیر یزیدؒ کو مغفور و مرحوم تسلیم کیا ہے اور ان کو اما م و خلیفہ بھی مانا ہے ۔
محترم،
بڑی خوشی ہوئی یہ جان کر کہ اپ امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر رحمہا اللہ پر اس حوالے سے اعتماد کرتےہیں امام ابن تیمیہ نے یزید کو خلیفہ اور امام مانا ہے آپ کی یہ بات سن کر بڑی حیرت ہوئی ذرا اس کا حوالہ بھی پیش کریں گے کیونکہ میں آپ کو چند حوالے امام ابن تیمیہ کی کتب سے دے رہا ہوں جس میں انہوں نے یزید کو غاصب اور فاسق کہا ہے اسکین پیش ہیں۔
ghasib.png


اس میں اپ واضح پڑھ سکتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ یزید کو منتخب خلیفہ نہیں بلکہ غاصب قرار دے رہے ہیں جس نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔


yazeed fasiq.png


اس میں واضح طور پر یزید کو فاسق فرما رہے ہیں اب اپ نے کونسے خیالی امام ابن تیمیہ کو پڑھا ہے جو یزید کو امام اور خلیفہ مان رہے ہیں۔



اب ذرا امام ابن کثیر کے حوالے سے بھی بات کرلیتے ہیں وہ یزید کو ظالم مانتے تھے اور اس کی موت پر کیا تبصرہ کیا ہے پڑھ لیں۔

yazeed ki moot.png



یہ البدایہ النھایہ کی عبارت ہے اس میں امام ابن کثیر نے واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک ظالم تھا جس پر اللہ نے گرفت کی ہے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
امیر یزیدؒ کی وثاقت و عدالت کی سب سے بڑی دلیل ( جہادِ قسطنطنیہ کی طرح) صحابہ کرام ؓ کا امیر یزیدؒ کی بیعت پر کامل اتفاق و اجماع ہے اس لیے کہ خلافت کےلیے اہلِ علم نے جو شرائط لگائی ہیں ان میں امام کا عادل اور معتبر ہونا بھی شامل ہے ( الاحکام السلطانیہ لابی یعلیٰ الفراء ، صفحہ نمبر 22)
صحابہ کرام ؓ میں سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے امیر یزید ؒ کو نیک اور صالح ترین شخص کہا ہے ( الانساب الاشراف للبلاذری )
کیا ہمیں اس مؤقف کو اپنانے کی اجازت ہے ؟
امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر کے تبصرے یزید کے بارے میں پڑھ کر اپ کی عادل امام والی غلط فہمی تو ہوا ہو گئی ہو گی اب ذرا ابن عباس سے منقول بلاذری کی اس روایت کی سند بھی دیکھ لیتے ہیں

اپ کی پیش کی ہوئی روایت کی سند یہ ہے


الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي:
اس روایت کی علت یہ ہے کہ عامر بن مسعود مجہول الحال ہیں چنانچہ عامر بن مسعود سے فقط دو نے روایت کی ہے (1)عبدالعزیز بن رفیع (2) نمیر بن عریب الھمدانی
چنانچہ اصول میں یہ موجود ہے کہ جس راوی کی توثیق موجود نہ ہو اور اس سے روایت کرنے والے صرف دو ہوں ایسا راوی مجہول الحال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تحریر تقریب التھذیب کے مولفین نے اس کو مجہول نقل کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں"وھو عندنا مجھول الحال ،فقد روی عنہ اثنان، وذکرہ ابن حبان فی "الثقات" ولا یعلم توثیقہ عن احد(تحریر تقریب التھذیب رقم 3109)


رہی بات لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا تو عروہ بن الزبیر جیسے تابعی جب یزید کےسامنے اس کی تعریفیں کر سکتے ہیں تو لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا کیا معنی رکھتا ہے

سوچنےکی بات ہے کہ اگر امیر یزید ؒ کا” فسق و فجور“ سب صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کے علم میں تھا اور یہ بات تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی تھی تو کوئی” منظم تحریک “ کیوں نہ چلائی گئی ؟کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا عظیم ترین جہاد ہے۔ کیا صحابہ کرام ؓ کی سیرت و کردار پر ایسی ہی مہر نبیﷺ نے لگائی تھی ؟ اس میں امیر یزیدؒ کے کس” فسق و فجور“ اور اس کے ”ثبوت “ کی بات ہو رہی ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے نزدیک تو قاتلین ِ حسینؓ امیر یزید ؒ نہیں، بلکہ اہلِ کوفہ تھے ۔
لطف تو یہ ہے کہ امیر یزیدؒ کا ” فسق و فجور “ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ایک موقع پر حضرت جابر ؓ کا قول ہے :-
کلمت حسیناً فقلت لہ اتق اللہ ولا تضرب الناس بعضھم ببعض( البدایہ و النہایہ ، جلد8، صفحہ نمبر 163)
میں نے حضرت حسین ؓ سےبات کی اور ان کو کہا کہ اللہ تعالٰی سے ڈرو اور لوگوں کو آپس میں مت لڑاؤ۔
دوسرے موقع پر حضرت ابو سعید خدری ؓ کو بھی فرمانا پڑھا :-
غلبنی الحسین علی الخروج و قلت لہ اتق اللہ فی نفسک و الزم بیتک ولا تخرج علی امامک ( البدایہ و النہایہ ، جلد نمبر 8 ، صفحہ نمبر 162)
حضرت حسین ؓ نے خروج کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا کہ اپنی جان کے بارے میں اللہ تعالٰی ڈرو اور اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور اپنے امام کے خلاف خروج مت کرو۔
حضرت ابو واقد لیثی ؓ نے بھی ان کو راستہ میں فرمایا تھا:-
لا تخرج فانہ من یخرج لغیر وجہ خروج انما خرج یقتل نفسہ( البدایہ و النہایہ ، جلد نمبر 8، صفحہ نمبر 193)
خروج مت کرو کیونکہ جو شخص خروج کی وجہ نہ ہونے کے با وجود خروج کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کے لیے جنگ کرتا ہے ۔
ان روایات میں واضح طور پر صحابہ کرام ؓ نے حضرت حسین ؓ کو حکومت ِ وقت کے خلاف ”خروج “سے منع کیا ہے ۔ دوسرے معنوں میں یہ تھی امیر یزیدؒ کے افسانو ی ” فسق و فجور“ کے خلاف ” خروج “ کرنے کی حقیقت ! او ر اس متواتر ” فسق و فجور “ کے” خلاف“ یہ تھانبیﷺ کے صحبت یافتہ، ظالم جابر کےسامنے ڈٹ جانے والی اور کسی ملامت کا خوف نہ کھانے والی مقدس جماعتِ صحابہ ؓ کا طرز ِ عمل!

محترم، بات صرف اتنی ہے کہ آپ کو یزید کے اگے کچھ دیکھائی نہیں دیتا ہے وگرنہ اہل مدینہ کا یزید کی بیعت توڑنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونا ضرور نظر آتا باقی رہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جس جماعت کا اپ بار بار تذکرہ کر کے فرما رہے ہیں کہ وہ یزید کے فسق و فجور کے خلاف منظم کیونکر نہ ہوئے تو آں جناب مجھے صرف ۱۰ سے ۱۵ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام بتا دیں جو اس وقت اس عمر میں تھے کہ یزید اور اہل شام کی اتنی بڑی ظالم فوج کے خلاف منظم ہوتے جس نے تین دن مدینہ الرسول میں تباہی مچا دی اس وقت ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا تو محترم عرض یہ ہے کہ جو صغائر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے انہوں نے اپنی طرف سے اس ظلم کو روکنے کی کوشش کی تھی جن میں عبداللہ بن حنظلہ ، معقل بن سنان، ابن زبیر، حسین رضی اللہ عنھم وغیرہ ہے جنہوں نے یزید کے ظلم کے خلاف منظم ہونے کی کوشش کی مگر جو بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے جونکہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے اس لئے وہ ان کو اس سے منع کرتے رہے چنانچہ اس حوالے سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اصحابہ بدر میں سے صحابہ نےعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اپنے گھروں میں رہنا پسند کر لیا تھا
أما إن رجالا من مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ لَزِمُوا بُيُوتَهُمْ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ فَلَمْ يَخْرُجُوا إِلَّا إِلَى قُبُورِهِم
البدایہ النھایہ ط الفکر 7/253 )
تو آں جناب کو منظم تحریک والی بات بھی سمجھ آ گئی ہو گی آخر میں دو باتیں جو اپ نے کی ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو ہی قاتل سمجھتے تھے مگر اپ یہ ثابت کر دو وہ قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے والے لوگ تھے ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو قاتل سمجھتے تھے ابن زیاد اور اس کی فوج اور عمر بن سعد کیا اہل کوفہ نہیں تھے اہل کوفہ کا قتل کرنا ثابت ہے مگر وہ اہل کوفہ جو حکومت می شامل تھے جس کا ثبوت میں بقلم سنابلی صاحب کے صحیح روایت سے دے چکا ہوں
آخر میں اپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے کچھ اقوال نقل کیے تھے کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو خروج سے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے سے روکا آں جناب ذرا ان اقوال کی سند پیش کریں گے یزید کی شراب نوشی اور دیگر باتوں پر صحیح سند کا تقاضہ کیا جاتا ہے مگر حسین رضی اللہ عنہ جیسی عظیم ہستی اس کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ یزید کی پارسائی ثابت کرتی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو شریعت کے خلاف ثابت کرتی ہے کہاں گئی اہل حدیث کی وہ شان جو سند کو دین مانتی ہے
لیں اپ کے پیش کیے ہوئے اقوال کی سند دیکھ لیں

khuroj ke khilaf.png


khuroj ke khilaf1.png



اس کی سند آپ کو غور سے نظر آرہی ہو گی اس میں "قالوا" کے الفاظ سے روایت شروع ہے میں نے نشاندہی کی ہے اب یہ آپ بتا دیں یہ قالوا کون نے یہ کوئی ناصبیوں کی جماعت ہوگئی جو حسین رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے اور ان کے اس اقدام کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے جبکہ آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں اہلسنت و الجماعۃ کی نظر میں حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی کیا قدر ومنزلت ہے۔

وَمِنْ قَامَ لِعَرَضِ دُنْيَا فَقَطْ، كَمَا فَعَلَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَمَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ فِي الْقِيَامِ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَكَمَا فَعَلَ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي الْقِيَامِ عَلَى يَزِيدَ بْنِ الْوَلِيدِ، وَكَمَنْ قَامَ أَيْضًا عَنْ مَرْوَانَ، فَهَؤُلَاءِ لَا يُعْذَرُونَ، لِأَنَّهُمْ لَا تَأْوِيلَ لَهُمْ أَصْلًا، وَهُوَ بَغْيٌ مُجَرَّدٌ.


وَأَمَّا مَنْ دَعَا إلَى أَمْرٍ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٍ عَنْ مُنْكَرٍ، وَإِظْهَارِ الْقُرْآنِ، وَالسُّنَنِ، وَالْحُكْمِ بِالْعَدْلِ: فَلَيْسَ بَاغِيًا، بَلْ الْبَاغِي مَنْ خَالَفَه

(المحلی بالاثار باب قتل اھل البغی 11/335)
ابن حجر فرماتے ہیں

قِسْمٌ خَرَجُوا غَضَبًا لِلدِّينِ مِنْ أَجْلِ جَوْرِ الْوُلَاةِ وَتَرْكِ عَمَلِهِمْ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ فَهَؤُلَاءِ أَهْلُ حَقٍّ وَمِنْهُمُ الْحَسیَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ فِي الْحَرَّةِ وَالْقُرَّاءُ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى الْحَجَّاجِ(ُفتح الباری تحت رقم 6929)
اور شذرات الذھب میں اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ خروج حق بجانب تھا۔

والعلماء مجمعون على تصويب قتال عليّ لمخالفيه لأنه الإمام الحق،
ونقل الاتفاق أيضا على تحسين خروج الحسين على يزيد، وخروج ابن الزّبير، وأهل الحرمين على بني أمية، وخروج ابن الأشعث [1] ومن معه من كبار التابعين وخيار المسلمين على الحجّاج.
ثم [إن] الجمهور رأوا جواز الخروج على من كان مثل يزيد، والحجّاج، ومنهم من جوّز الخروج على كل ظالم
شذرات الذھب جلد 1 275

اہلسنت والجماعۃ نے حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو حق لکھا ہے اور اس پر اجماع نقل کیا ہے
آخر میں امام ابن کثیر کا قول نقل کررہا ہوں جنہوں نے یہی لکھا کہ سب دل سے حسین رضی اللہ عنہ کو پسند فرماتے تھے مگر پوری یزیدی حکومت ان کی دشمنی پر تلی ہوئی تھی اب ابن کثیر رحمہ اللہ کو رافضی نما اہلسنت مت کہنا شروع کر دیجیئے گا


بَلِ النَّاسُ إِنَّمَا مَيْلُهُمْ إِلَى الْحُسَيْنِ لِأَنَّهُ السَّيِّدُ الْكَبِيرُ، وَابْنُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يساميه ولا يساويه، ولكن الدولة اليزيدية كانت كُلَّهَا تُنَاوِئُهُ.
البدایہ والنھایہ 8/151)


اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور اصل اہلسنت میں شامل فرمائے آمین
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
بڑی خوشی ہوئی یہ جان کر کہ اپ امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر رحمہا اللہ پر اس حوالے سے اعتماد کرتےہیں امام ابن تیمیہ نے یزید کو خلیفہ اور امام مانا ہے آپ کی یہ بات سن کر بڑی حیرت ہوئی ذرا اس کا حوالہ بھی پیش کریں گے کیونکہ میں آپ کو چند حوالے امام ابن تیمیہ کی کتب سے دے رہا ہوں جس میں انہوں نے یزید کو غاصب اور فاسق کہا ہے اسکین پیش ہیں۔
20823 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

اس میں اپ واضح پڑھ سکتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ یزید کو منتخب خلیفہ نہیں بلکہ غاصب قرار دے رہے ہیں جس نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔


20824 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

اس میں واضح طور پر یزید کو فاسق فرما رہے ہیں اب اپ نے کونسے خیالی امام ابن تیمیہ کو پڑھا ہے جو یزید کو امام اور خلیفہ مان رہے ہیں۔



اب ذرا امام ابن کثیر کے حوالے سے بھی بات کرلیتے ہیں وہ یزید کو ظالم مانتے تھے اور اس کی موت پر کیا تبصرہ کیا ہے پڑھ لیں۔

20825 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


یہ البدایہ النھایہ کی عبارت ہے اس میں امام ابن کثیر نے واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک ظالم تھا جس پر اللہ نے گرفت کی ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ابن کثیرؒ نے جہادِ قسطنطنیہ اور بارہ خلفاء والی روایات کے تناظر میں امیر یزیدؒ کو مغفور و محروم تسلیم کیا ہے اور اس کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے اقوال اس ضمن میں قابل ِ قبول ہیں مگر فسق و فجور اور امیر یزید ؒ کے فاسق و غاصب ہونے پر محض تبصرہ کیا ہے لیکن کوئی ثبوت اور دلیل پیش نہیں فرمائی ۔ اس لیے ان بلا دلیل تبصروں کو رد کرنے کے لیے عقل کی تھوڑی مقدار بھی کافی ہے ۔
 
Top