• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ کربلا کے تئیں اہل سنت کے غور و فکر کے لیے چند باتیں

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر کے تبصرے یزید کے بارے میں پڑھ کر اپ کی عادل امام والی غلط فہمی تو ہوا ہو گئی ہو گی اب ذرا ابن عباس سے منقول بلاذری کی اس روایت کی سند بھی دیکھ لیتے ہیں

اپ کی پیش کی ہوئی روایت کی سند یہ ہے


الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي:
اس روایت کی علت یہ ہے کہ عامر بن مسعود مجہول الحال ہیں چنانچہ عامر بن مسعود سے فقط دو نے روایت کی ہے (1)عبدالعزیز بن رفیع (2) نمیر بن عریب الھمدانی
چنانچہ اصول میں یہ موجود ہے کہ جس راوی کی توثیق موجود نہ ہو اور اس سے روایت کرنے والے صرف دو ہوں ایسا راوی مجہول الحال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تحریر تقریب التھذیب کے مولفین نے اس کو مجہول نقل کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں"وھو عندنا مجھول الحال ،فقد روی عنہ اثنان، وذکرہ ابن حبان فی "الثقات" ولا یعلم توثیقہ عن احد(تحریر تقریب التھذیب رقم 3109)


رہی بات لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا تو عروہ بن الزبیر جیسے تابعی جب یزید کےسامنے اس کی تعریفیں کر سکتے ہیں تو لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا کیا معنی رکھتا ہے




محترم، بات صرف اتنی ہے کہ آپ کو یزید کے اگے کچھ دیکھائی نہیں دیتا ہے وگرنہ اہل مدینہ کا یزید کی بیعت توڑنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونا ضرور نظر آتا باقی رہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جس جماعت کا اپ بار بار تذکرہ کر کے فرما رہے ہیں کہ وہ یزید کے فسق و فجور کے خلاف منظم کیونکر نہ ہوئے تو آں جناب مجھے صرف ۱۰ سے ۱۵ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام بتا دیں جو اس وقت اس عمر میں تھے کہ یزید اور اہل شام کی اتنی بڑی ظالم فوج کے خلاف منظم ہوتے جس نے تین دن مدینہ الرسول میں تباہی مچا دی اس وقت ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا تو محترم عرض یہ ہے کہ جو صغائر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے انہوں نے اپنی طرف سے اس ظلم کو روکنے کی کوشش کی تھی جن میں عبداللہ بن حنظلہ ، معقل بن سنان، ابن زبیر، حسین رضی اللہ عنھم وغیرہ ہے جنہوں نے یزید کے ظلم کے خلاف منظم ہونے کی کوشش کی مگر جو بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے جونکہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے اس لئے وہ ان کو اس سے منع کرتے رہے چنانچہ اس حوالے سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اصحابہ بدر میں سے صحابہ نےعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اپنے گھروں میں رہنا پسند کر لیا تھا
أما إن رجالا من مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ لَزِمُوا بُيُوتَهُمْ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ فَلَمْ يَخْرُجُوا إِلَّا إِلَى قُبُورِهِم
البدایہ النھایہ ط الفکر 7/253 )
تو آں جناب کو منظم تحریک والی بات بھی سمجھ آ گئی ہو گی آخر میں دو باتیں جو اپ نے کی ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو ہی قاتل سمجھتے تھے مگر اپ یہ ثابت کر دو وہ قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے والے لوگ تھے ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو قاتل سمجھتے تھے ابن زیاد اور اس کی فوج اور عمر بن سعد کیا اہل کوفہ نہیں تھے اہل کوفہ کا قتل کرنا ثابت ہے مگر وہ اہل کوفہ جو حکومت می شامل تھے جس کا ثبوت میں بقلم سنابلی صاحب کے صحیح روایت سے دے چکا ہوں
آخر میں اپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے کچھ اقوال نقل کیے تھے کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو خروج سے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے سے روکا آں جناب ذرا ان اقوال کی سند پیش کریں گے یزید کی شراب نوشی اور دیگر باتوں پر صحیح سند کا تقاضہ کیا جاتا ہے مگر حسین رضی اللہ عنہ جیسی عظیم ہستی اس کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ یزید کی پارسائی ثابت کرتی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو شریعت کے خلاف ثابت کرتی ہے کہاں گئی اہل حدیث کی وہ شان جو سند کو دین مانتی ہے
لیں اپ کے پیش کیے ہوئے اقوال کی سند دیکھ لیں

20826 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

20827 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


اس کی سند آپ کو غور سے نظر آرہی ہو گی اس میں "قالوا" کے الفاظ سے روایت شروع ہے میں نے نشاندہی کی ہے اب یہ آپ بتا دیں یہ قالوا کون نے یہ کوئی ناصبیوں کی جماعت ہوگئی جو حسین رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے اور ان کے اس اقدام کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے جبکہ آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں اہلسنت و الجماعۃ کی نظر میں حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی کیا قدر ومنزلت ہے۔

وَمِنْ قَامَ لِعَرَضِ دُنْيَا فَقَطْ، كَمَا فَعَلَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَمَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ فِي الْقِيَامِ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَكَمَا فَعَلَ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي الْقِيَامِ عَلَى يَزِيدَ بْنِ الْوَلِيدِ، وَكَمَنْ قَامَ أَيْضًا عَنْ مَرْوَانَ، فَهَؤُلَاءِ لَا يُعْذَرُونَ، لِأَنَّهُمْ لَا تَأْوِيلَ لَهُمْ أَصْلًا، وَهُوَ بَغْيٌ مُجَرَّدٌ.


وَأَمَّا مَنْ دَعَا إلَى أَمْرٍ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٍ عَنْ مُنْكَرٍ، وَإِظْهَارِ الْقُرْآنِ، وَالسُّنَنِ، وَالْحُكْمِ بِالْعَدْلِ: فَلَيْسَ بَاغِيًا، بَلْ الْبَاغِي مَنْ خَالَفَه

(المحلی بالاثار باب قتل اھل البغی 11/335)
ابن حجر فرماتے ہیں

قِسْمٌ خَرَجُوا غَضَبًا لِلدِّينِ مِنْ أَجْلِ جَوْرِ الْوُلَاةِ وَتَرْكِ عَمَلِهِمْ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ فَهَؤُلَاءِ أَهْلُ حَقٍّ وَمِنْهُمُ الْحَسیَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ فِي الْحَرَّةِ وَالْقُرَّاءُ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى الْحَجَّاجِ(ُفتح الباری تحت رقم 6929)
اور شذرات الذھب میں اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ خروج حق بجانب تھا۔

والعلماء مجمعون على تصويب قتال عليّ لمخالفيه لأنه الإمام الحق،
ونقل الاتفاق أيضا على تحسين خروج الحسين على يزيد، وخروج ابن الزّبير، وأهل الحرمين على بني أمية، وخروج ابن الأشعث [1] ومن معه من كبار التابعين وخيار المسلمين على الحجّاج.
ثم [إن] الجمهور رأوا جواز الخروج على من كان مثل يزيد، والحجّاج، ومنهم من جوّز الخروج على كل ظالم
شذرات الذھب جلد 1 275

اہلسنت والجماعۃ نے حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو حق لکھا ہے اور اس پر اجماع نقل کیا ہے
آخر میں امام ابن کثیر کا قول نقل کررہا ہوں جنہوں نے یہی لکھا کہ سب دل سے حسین رضی اللہ عنہ کو پسند فرماتے تھے مگر پوری یزیدی حکومت ان کی دشمنی پر تلی ہوئی تھی اب ابن کثیر رحمہ اللہ کو رافضی نما اہلسنت مت کہنا شروع کر دیجیئے گا


بَلِ النَّاسُ إِنَّمَا مَيْلُهُمْ إِلَى الْحُسَيْنِ لِأَنَّهُ السَّيِّدُ الْكَبِيرُ، وَابْنُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يساميه ولا يساويه، ولكن الدولة اليزيدية كانت كُلَّهَا تُنَاوِئُهُ.
البدایہ والنھایہ 8/151)



اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور اصل اہلسنت میں شامل فرمائے آمین
جس شخص کی بیعت و خلافت پر صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام ؒ کا اجماع و اتفاق ہو چکا ہو اس شخص کے ” عادل “ اور ” معتبر “ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔
اور جن اہلِ مدینہ کی فسقِ بیعت کا آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ وہی فتنہ پرداز ٹولہ تھا جو حادثہ ٔ کربلاء کا باعث بنا اور اسی فتنہ کی سرکوبی کے لیے ان سے جنگ کی گئی اور امیر یزیدؒ کے فرضی فسق و فجور و مظالم کے افسانے بنانے والے بھی یہی اہلِ مدینہ کے کچھ عناصر تھے۔
سوچنے کی بات ہے اگر عبیداللہ بن زیاد اور عمر بن سعد وغیرہ ہی قاتلِ حسین ؓ تھے تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور خود حضرت حسین ؓ کی شہادت کے عینی گواہوں نے ان کا نام کیوں نہ لیا ؟ کیا انہیں خبر نہ تھی کہ اہلِ کوفہ میں یہ حضرات بھی شامل ہیں بلکہ اصل مجرم ہی یہی ہیں ؟ بات دراصل وہی ہے کہ جب ان فتنہ پردازوں کو معلوم ہوا کہ حضرت حسین ؓ ان کی غداری و مکاری سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں اور امیر یزیدؒ سے مصالحت کےلیے تیار ہیں تو جس طرح ان کے آباؤ اجداد نے جنگِ جمل و صفین میں فتنہ کی آگ بھڑکائی تھی بالکل اسی نہج پر وہی چال یہاں بھی چلی اور اُمت میں انتشارپھیلانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور آخر میں سارا الزام یزید ی لشکر پر ڈال کر ،محبتِ حسین ؓ کی چادر اوڑھ کر صفِ ماتم بچھا کر بیٹھ گئے۔

وقد کان فی ذالک العصر کثیر من الصحابہ بالحجاز والشام والبصرہ والکوفہ و مصر وکلھم لم یخرج علی یزید لا وحدۃ لا مع الحسین ( اتمام الو فاء فی سیرۃ الخلفاء )
اس دور میں صحابہ کرام ؓ کی بہت بڑی تعداد حجاز ، شام ، بصرہ، کوفہ اور مصر میں موجود تھی ان میں سے کوئی بھی یزید ؒ کے خلاف کھڑا نہ ہوا ، نہ از خود اور نہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ سفرِ کوفہ میں کوئی صحابیِ رسولﷺ موجود نہیں تھا ۔ اس لیے جن صحابہ کرام ؓ کے اقوال میں نے ذکر کیے ہیں ان کی تائید کےلیے یہی دلیل کا فی ہے یعنی ان کے نزدیک حضرت حسین ؓ کا خروج” غیر صحیح“ تھا ۔
باقی کیا امیر یزید ؒ نے تین دن کےلیے مدینہ حلال کیا ، لوٹ مار کی اور قاتل و غارت کا بازار گرم کیا ؟اس کے لیے آپ محترم کفایت اللہ صاحب کی کتاب ” یزیدؒ بن معاویہؓ پر لگائے گئے الزامات کا تحقیقی جائزہ“ صفحہ نمبر 483-416 ملاحظہ فرمائیں ۔

محترمی و مکرمی !میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جن علماء نے ایسے ” اجماع “ کا دعویٰ کیا ہے ان کی نظر میں وہی افسانوی روایات مدِ نظر تھیں جن میں امیر یزید ؒ کے فرضی فسق و فجور اور مظالم کی داستانیں لکھی ہوئی ہیں لہٰذاایسے اجماع کو بار بار نقل کرنا فعلِ عبث ہے۔


اللہ تعالٰی ہم سب کوحقیقی ا ہل ِسنت و الجماعت میں شامل فرمائے آمین، یا رب العالمین !
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
جس شخص کی بیعت و خلافت پر صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام ؒ کا اجماع و اتفاق ہو چکا ہو اس شخص کے ” عادل “ اور ” معتبر “ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔
اور جن اہلِ مدینہ کی فسقِ بیعت کا آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ وہی فتنہ پرداز ٹولہ تھا جو حادثہ ٔ کربلاء کا باعث بنا اور اسی فتنہ کی سرکوبی کے لیے ان سے جنگ کی گئی اور امیر یزیدؒ کے فرضی فسق و فجور و مظالم کے افسانے بنانے والے بھی یہی اہلِ مدینہ کے کچھ عناصر تھے۔
محترم،
بلادلیل اور اقوال سلف کے بغیر خیالی باتیں کرنا دراصل یہ فعل عبث ہے یزید کی محبت نے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ خیرالقرون میں سے ان لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ان کا ساتھ دیا ان کے بارے میں اپ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ نعوذباللہ سازشی ٹولہ ہیں بہت ہی افسوس ہوا مدینہ میں کس نے بیعت توڑی صغائر صحابہ میں سے معقل بن سنان رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن حنظہ رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بہن و بہنوئی، ابن زبیر، حسین رضی اللہ عنھم تھے جنہوں نے بیعت توڑی تھی اور حرۃ کے ایام میں بہت سے اشراف شہید کر دیئے گئے تھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ بلا دلیل کسی ایک بھی آئمہ سلف و صالحین کا قول نقل کیے بغیر اپ نے اہل مدینہ کو سازشی ٹولہ قرار دے دیا اور ان میں صحابہ کرام بھی شامل ہیں جبکہ میں نے ابن حزم ، ابن کثیر ، ابن حجر، امام ابن تیمیہ، امام ذہبی جیسے جلیل القدر آئمہ کے اقوال نقل کیے ہیں جو یزید کو فاسق و فاجر مانتے ہیں اور حسین رضی اللہ عنہ کو حق پر مانتے تھے اور یزید کے فسق و فجور کے لئے کسی کسی تاریخ کی کتاب سے نہیں اصح بعد کتاب اللہ سے دلیل پیش کی تھی کہ کیسے حکمرانوں کے سامنے زبانیں بند ہو گئی تھی اور اپ یزید کی بیعت پر اجماع فرما رہے ہیں کسی ایک آئمہ کا قول نقل کر دیں جنہوں نے یہ کہا ہو کہ یزید پر تمام مسمانوں نے بلاجبر راضی خوشی اتفاق سے بیعت کی تھی ایک بھی قول نہیں ملے گا جبکہ اس کو غاصب و ظالم کہنے والے وہ آئمہ ہیں جن کو آپ نے اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا تھا امام ابن تیمیہ اور امام ابن کثیر اور آں جناب مجھے(
اتمام الو فاء فی سیرۃ الخلفا) کا حوالہ دے رہیں ہیں
یہ سلف میں سے کس کی کتاب ہے یہ عصر حاضر کی کتاب ہے تو کیا اس میں اس بات کو نقل کرنے میں کوئی حوالہ دیا گیا ہے نہیں پھر موصوف
ابن حزم ، ابن کثیر ، ابن حجر، امام ابن تیمیہ، امام ذہبی کے اقوال پر اس کو ترجیح دینے کی وجہ بتا سکتے ہیں ؟ اس کی وجہ میں ہی بتا دیتا ہوں اگر یہ یزید کو امیر المومنین خلیفہ برحق عادل امام کہیں گے تو یہ سچے آئمہ دین ہیں وگرنہ یہ نیم رافضی اور قصے کہانیوں پر یقین کرنے والے ہیں جو یزید کے خلاف گھڑی گئی تھی ایسا ہی ہے نا؟
یہ آپ لوگوں کی کم علمی ہے یا کوئی غلط فہمی ہے کہ اپ یہ سوچتے ہیں کہ اتنے بڑے آئمہ جب کسی کے کردار کا فیصلہ کریں گے اور وہ بھی ان میں سے جو خیر القروں کے دور میں پائے جانے والے لوگ تھے ان کو تاریخ کے رطب و یابس سے پرکھیں گے یہ دین کا اتنا بڑا معاملہ تھا امام ابن کثیر نے جب یزید کو شھوات کا متوال کہا اور خواہشات کی پیروی کرنے والا کہا تو ان کے شام نظر کوئی تاریخی روایت نہیں تھی بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ ۶۰ سال بعد شہوات کی پیروی ہو گی اور نمازیں ضائع ہو گی پڑھ لیں

وَقَدْ كَانَ يَزِيدُ فِيهِ خِصَالٌ مَحْمُودَةٌ مِنَ الْكَرَمِ وَالْحِلْمِ وَالْفَصَاحَةِ وَالشِّعْرِ وَالشَّجَاعَةِ وَحُسْنِ الرَّأْيِ فِي الْمُلْكِ. وَكَانَ ذَا جَمَالٍ حَسَنَ الْمُعَاشَرَةِ، وَكَانَ فِيهِ أَيْضًا إِقْبَالٌ عَلَى الشَّهَوَاتِ وَتَرْكُ بَعْضِ الصَّلَوَاتِ في بعض الأوقات، وإماتتها في غالب الْأَوْقَاتِ. وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثَنَا حَيْوَةُ حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ أَبِي عَمْرٍو الْخَوْلَانِيُّ أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ قَيْسٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم يَقُولُ: «يَكُونُ خَلْفٌ مِنْ بَعْدِ سِتِّينَ سَنَةً أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا، ثُمَّ يَكُونُ خَلْفٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثَلَاثَةٌ مُؤْمِنٌ وَمُنَافِقٌ وَفَاجِرٌ» . فَقُلْتُ لِلْوَلِيدِ: مَا هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةُ؟ قَالَ: الْمُنَافِقُ كَافِرٌ بِهِ، وَالْفَاجِرُ يَتَأَكَّلُ بِهِ، وَالْمُؤْمِنُ يُؤْمِنُ بِهِ. تَفَرَّدَ بِهِ أَحْمَدُ.
(البدایہ والنھایہ8/230)
اسی طرح امام ابن تیمیہ نے بھی جب یزید کو غاصب کہا ہے تو تیس سال خلافت والی روایت کے تحت نقل کیا ہے
تو یہ اپ کی غلط فہمی ہے کہ آئمہ نے صرف تاریخ پر اعتبار کیا ہے تاریخ روایات انہوں نے تائید کے لئے ضرور پیش کی ہے وگرنہ اصل مدار ان کا احادیث نبوی ہی ہے جیسا میں نے بخاری سے یزید کے فسق و فجور کی دلیل پیش کی تھی
سوچنے کی بات ہے اگر عبیداللہ بن زیاد اور عمر بن سعد وغیرہ ہی قاتلِ حسین ؓ تھے تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور خود حضرت حسین ؓ کی شہادت کے عینی گواہوں نے ان کا نام کیوں نہ لیا ؟ کیا انہیں خبر نہ تھی کہ اہلِ کوفہ میں یہ حضرات بھی شامل ہیں بلکہ اصل مجرم ہی یہی ہیں ؟ بات دراصل وہی ہے کہ جب ان فتنہ پردازوں کو معلوم ہوا کہ حضرت حسین ؓ ان کی غداری و مکاری سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں اور امیر یزیدؒ سے مصالحت کےلیے تیار ہیں تو جس طرح ان کے آباؤ اجداد نے جنگِ جمل و صفین میں فتنہ کی آگ بھڑکائی تھی بالکل اسی نہج پر وہی چال یہاں بھی چلی اور اُمت میں انتشارپھیلانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور آخر میں سارا الزام یزید ی لشکر پر ڈال کر ،محبتِ حسین ؓ کی چادر اوڑھ کر صفِ ماتم بچھا کر بیٹھ گئے۔
میں نے اپ کو روایت سند کے ساتھ پیش کی تھی جس میں واضح موجود ہے کہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا تھا او ر یہ روایت اپ کی پسندیدہ تحقیقی کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ سے نقل کی ہے اور اپ مجھے یہ افسانے سنا رہے ہیں کوئی دلیل ہے اس پر کسی آئمہ کا قول ہے کہ اہل مدینہ سازشی گروہ کا نقل کیا آئمہ نے اہل مدینہ کا خروج برحق قرار دیا ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کو بھی حق پر قرر دیا ہےاور اس پر اقوال پیش کر چکا اپ کے قصے کہانیوں کوئی دلیل ہے کسی آئمہ کا کوئی قول ہے
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ سفرِ کوفہ میں کوئی صحابیِ رسولﷺ موجود نہیں تھا ۔ اس لیے جن صحابہ کرام ؓ کے اقوال میں نے ذکر کیے ہیں ان کی تائید کےلیے یہی دلیل کا فی ہے یعنی ان کے نزدیک حضرت حسین ؓ کا خروج” غیر صحیح“ تھا ۔
باقی کیا امیر یزید ؒ نے تین دن کےلیے مدینہ حلال کیا ، لوٹ مار کی اور قاتل و غارت کا بازار گرم کیا ؟اس کے لیے آپ محترم کفایت اللہ صاحب کی کتاب ” یزیدؒ بن معاویہؓ پر لگائے گئے الزامات کا تحقیقی جائزہ“ صفحہ نمبر 483-416 ملاحظہ فرمائیں ۔

محترمی و مکرمی !میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جن علماء نے ایسے ” اجماع “ کا دعویٰ کیا ہے ان کی نظر میں وہی افسانوی روایات مدِ نظر تھیں جن میں امیر یزید ؒ کے فرضی فسق و فجور اور مظالم کی داستانیں لکھی ہوئی ہیں لہٰذاایسے اجماع کو بار بار نقل کرنا فعلِ عبث ہے۔


اللہ تعالٰی ہم سب کوحقیقی ا ہل ِسنت و الجماعت میں شامل فرمائے آمین، یا رب العالمین !

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نہ جانااس کی دلیل میں آپ کو پہلے دے چکا تھا یہاں ایک بارپھر امام ذہبی کے حوالے سے نقل کر دیتا ہوں


قُلْتُ: هَذَا يَدُلُّ عَلَى تَصْوِيبِ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو لِلْحُسَيْنِ فِي مَسِيْرِهِ، وَهُوَ رَأْيُ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَجَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ شَهِدُوا الحَرَّةَ.
سیر اعلام النبلاء 3/293)
امام ذہبی کے اس قول سے واضح ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کے خلاف نہیں تھے مگر ایک تو وہ عمر کے اس حصہ میں تھے جہاں جنگی اقدام نہیں کر سکتے تھے اور دوسرے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی
اس لئے اپ کا اس روایت کو تائید میں پیش کرنا بیکار ہے اس سے اپ کے افسانوی موقف کی کوئی تائید نہیں ہوتی ہے
اور رہی بات یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ کے مطالعہ کا تو جھوٹ کے پلندے کو پڑھ کر اس پر اندھا دھند یقین کرنے کا شوق آپ کو ہوگا مجھے نہیں ہے اس کتاب میں اگر اتنا ہی سچ ہوتا تو ابن زیاد کے قتل کی روایت جو میں نے نقل کی ہے اس کا صرف وہ حصہ نہ نقل کرتے جس میں صرف ابن زیاد کا اہل بیت کی خواتین کے لئے مکان کا انتظام اور وہ حصہ جس میں ابن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا اس کو حذف کر دیا ہے تو یہ آپ کو ہی مبارک ہو
اخر میں یہ بات کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے مصالحت کی ہے یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی تھی تو کیا کوئی سوچ سکتا ہے اس وقت روئے زمین پر سب سے افضل انسان اپنی جان بچانے کی خاطر میدان سے واپس پلٹ جائے گا ںعوذ باللہ ایسی روایات حسین رضی اللہ عنہ کے عظیم کردار کے خلاف ہے۔ اللہ ہمیں اصل اہل سنت والجماعۃ میں شامل کرے آمین
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
بلادلیل اور اقوال سلف کے بغیر خیالی باتیں کرنا دراصل یہ فعل عبث ہے یزید کی محبت نے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ خیرالقرون میں سے ان لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ان کا ساتھ دیا ان کے بارے میں اپ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ نعوذباللہ سازشی ٹولہ ہیں بہت ہی افسوس ہوا مدینہ میں کس نے بیعت توڑی صغائر صحابہ میں سے معقل بن سنان رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن حنظہ رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بہن و بہنوئی، ابن زبیر، حسین رضی اللہ عنھم تھے جنہوں نے بیعت توڑی تھی اور حرۃ کے ایام میں بہت سے اشراف شہید کر دیئے گئے تھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ بلا دلیل کسی ایک بھی آئمہ سلف و صالحین کا قول نقل کیے بغیر اپ نے اہل مدینہ کو سازشی ٹولہ قرار دے دیا اور ان میں صحابہ کرام بھی شامل ہیں جبکہ میں نے ابن حزم ، ابن کثیر ، ابن حجر، امام ابن تیمیہ، امام ذہبی جیسے جلیل القدر آئمہ کے اقوال نقل کیے ہیں جو یزید کو فاسق و فاجر مانتے ہیں اور حسین رضی اللہ عنہ کو حق پر مانتے تھے اور یزید کے فسق و فجور کے لئے کسی کسی تاریخ کی کتاب سے نہیں اصح بعد کتاب اللہ سے دلیل پیش کی تھی کہ کیسے حکمرانوں کے سامنے زبانیں بند ہو گئی تھی اور اپ یزید کی بیعت پر اجماع فرما رہے ہیں کسی ایک آئمہ کا قول نقل کر دیں جنہوں نے یہ کہا ہو کہ یزید پر تمام مسمانوں نے بلاجبر راضی خوشی اتفاق سے بیعت کی تھی ایک بھی قول نہیں ملے گا جبکہ اس کو غاصب و ظالم کہنے والے وہ آئمہ ہیں جن کو آپ نے اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا تھا امام ابن تیمیہ اور امام ابن کثیر اور آں جناب مجھے(
اتمام الو فاء فی سیرۃ الخلفا) کا حوالہ دے رہیں ہیں
یہ سلف میں سے کس کی کتاب ہے یہ عصر حاضر کی کتاب ہے تو کیا اس میں اس بات کو نقل کرنے میں کوئی حوالہ دیا گیا ہے نہیں پھر موصوف
ابن حزم ، ابن کثیر ، ابن حجر، امام ابن تیمیہ، امام ذہبی کے اقوال پر اس کو ترجیح دینے کی وجہ بتا سکتے ہیں ؟ اس کی وجہ میں ہی بتا دیتا ہوں اگر یہ یزید کو امیر المومنین خلیفہ برحق عادل امام کہیں گے تو یہ سچے آئمہ دین ہیں وگرنہ یہ نیم رافضی اور قصے کہانیوں پر یقین کرنے والے ہیں جو یزید کے خلاف گھڑی گئی تھی ایسا ہی ہے نا؟
یہ آپ لوگوں کی کم علمی ہے یا کوئی غلط فہمی ہے کہ اپ یہ سوچتے ہیں کہ اتنے بڑے آئمہ جب کسی کے کردار کا فیصلہ کریں گے اور وہ بھی ان میں سے جو خیر القروں کے دور میں پائے جانے والے لوگ تھے ان کو تاریخ کے رطب و یابس سے پرکھیں گے یہ دین کا اتنا بڑا معاملہ تھا امام ابن کثیر نے جب یزید کو شھوات کا متوال کہا اور خواہشات کی پیروی کرنے والا کہا تو ان کے شام نظر کوئی تاریخی روایت نہیں تھی بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ ۶۰ سال بعد شہوات کی پیروی ہو گی اور نمازیں ضائع ہو گی پڑھ لیں

وَقَدْ كَانَ يَزِيدُ فِيهِ خِصَالٌ مَحْمُودَةٌ مِنَ الْكَرَمِ وَالْحِلْمِ وَالْفَصَاحَةِ وَالشِّعْرِ وَالشَّجَاعَةِ وَحُسْنِ الرَّأْيِ فِي الْمُلْكِ. وَكَانَ ذَا جَمَالٍ حَسَنَ الْمُعَاشَرَةِ، وَكَانَ فِيهِ أَيْضًا إِقْبَالٌ عَلَى الشَّهَوَاتِ وَتَرْكُ بَعْضِ الصَّلَوَاتِ في بعض الأوقات، وإماتتها في غالب الْأَوْقَاتِ. وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثَنَا حَيْوَةُ حَدَّثَنِي بَشِيرُ بْنُ أَبِي عَمْرٍو الْخَوْلَانِيُّ أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ قَيْسٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم يَقُولُ: «يَكُونُ خَلْفٌ مِنْ بَعْدِ سِتِّينَ سَنَةً أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا، ثُمَّ يَكُونُ خَلْفٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثَلَاثَةٌ مُؤْمِنٌ وَمُنَافِقٌ وَفَاجِرٌ» . فَقُلْتُ لِلْوَلِيدِ: مَا هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةُ؟ قَالَ: الْمُنَافِقُ كَافِرٌ بِهِ، وَالْفَاجِرُ يَتَأَكَّلُ بِهِ، وَالْمُؤْمِنُ يُؤْمِنُ بِهِ. تَفَرَّدَ بِهِ أَحْمَدُ.
(البدایہ والنھایہ8/230)
اسی طرح امام ابن تیمیہ نے بھی جب یزید کو غاصب کہا ہے تو تیس سال خلافت والی روایت کے تحت نقل کیا ہے
تو یہ اپ کی غلط فہمی ہے کہ آئمہ نے صرف تاریخ پر اعتبار کیا ہے تاریخ روایات انہوں نے تائید کے لئے ضرور پیش کی ہے وگرنہ اصل مدار ان کا احادیث نبوی ہی ہے جیسا میں نے بخاری سے یزید کے فسق و فجور کی دلیل پیش کی تھی

میں نے اپ کو روایت سند کے ساتھ پیش کی تھی جس میں واضح موجود ہے کہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا تھا او ر یہ روایت اپ کی پسندیدہ تحقیقی کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ سے نقل کی ہے اور اپ مجھے یہ افسانے سنا رہے ہیں کوئی دلیل ہے اس پر کسی آئمہ کا قول ہے کہ اہل مدینہ سازشی گروہ کا نقل کیا آئمہ نے اہل مدینہ کا خروج برحق قرار دیا ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کو بھی حق پر قرر دیا ہےاور اس پر اقوال پیش کر چکا اپ کے قصے کہانیوں کوئی دلیل ہے کسی آئمہ کا کوئی قول ہے
حیرت ہے آپ نے امام لیث بن سعدؒ کا امیر یزید ؒ کو ” امیر المؤمنین “ کہنے کا کو ئی معقول جواب نہیں دیا ۔ بار بار ایک بات دُھرانا میرا شیوہ نہیں لیکن پھر بھی دل پر پتھر رکھ کر آپ سے امیر یزیدؒ کے ” فسق و فجور“ کے ثبوت کا مطالبہ کرتا ہوں۔ لطف تو یہ ہے کہ اگر یہی امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ابن کثیر ؒ وغیرہ ،امیر یزید ؒ کو جہادِ قسطنطنیہ اور بارہ خلفاء والی روایات کے تناظر میں مغفور و محروم تسلیم کریں تو ان کی یہ بات نہ آپ کو قبول ہے اور نہ ہی رَفض نُما اہلِ سنت کو۔ بزبانِ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ،حضرت حسین ؓ کے قاتل اہلِ کوفہ ہی ہیں جو” اصح بعد کتاب اللہ“ ہی سے ثابت ہے وہ بھی آپ کو تسلیم نہیں ۔ کسی صحابی ِ رسول ﷺ نے خروج میں حضرت حسین ؓ کا ساتھ نہیں دیا، یہ حقیقت بھی آپ نظر انداز کر جاتے ہیں لیکن مفسدین کا امیر یزیدؒ کے متعلق ” فسق وفجور“ کے افسانے آپ کو سند نظر آ رہے ہیں ۔ شیعہ کتب کے حوالے بھی آپ کے لیے بیکار ثابت ہوئے جس میں واضح طور پر اہلِ کوفہ کو قاتلِ حسین ؓ کہا گیا ہے اور اس کے ثبوت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہی لوگ محرم الحرام میں صفِ ماتم بچھاتے ہیں ۔
امیر یزید ؒ کی بیعت سب صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام ؒ نے بلا جبر و اکراہ کی تھی اس کے ثبوت کے لیے یہی کافی نہیں کہ امیر یزید ؒ کے خلاف خروج میں کسی صحابی ِ رسول ﷺ نے حضرت حسین ؓ کا ساتھ نہیں دیا اور شہادتِ حسین ؓ کے بعد بھی معاملات ِ حکومت بدستور چلتے رہے ۔
حضرت عثمان ذوالنورین ؓکی شہادت کے بعد صحابہ کرام ؓ قصاص کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ انہوں نے ان کی بیعت کی تھی مگر صد حیرت کہ قصاصِ حسین ؓ کے لیے ایسا کوئی معاملہ نہ ہوا کیونکہ صحابہ کرام ؓ نے امیر یزید ؒ کی بیعت بلا جبر اکراہ ہی کی تھی اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ امیر یزید ؒ کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں، ورنہ صحابہ کرام ؓ اس ” ظلم“ پر امیر یزید ؒ کے خلاف خاموش رہتے، ایسا غیر ممکن ہے ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
وہ نعوذباللہ سازشی ٹولہ ہیں بہت ہی افسوس ہوا مدینہ میں کس نے بیعت توڑی صغائر صحابہ میں سے معقل بن سنان رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن حنظہ رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بہن و بہنوئی، ابن زبیر، حسین رضی اللہ عنھم تھے جنہوں نے بیعت توڑی تھی اور حرۃ کے ایام میں بہت سے اشراف شہید کر دیئے گئے تھے بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ بلا دلیل کسی ایک بھی آئمہ سلف و صالحین کا قول نقل کیے بغیر اپ نے اہل مدینہ کو سازشی ٹولہ قرار دے دیا اور ان میں صحابہ کرام بھی شامل ہیں
اس کا مطلب ہے آپ نے ” میری پسندیدہ تحقیقی کتاب “ کا مطالعہ نہیں کیا !
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304

اخر میں یہ بات کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے مصالحت کی ہے یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی تھی تو کیا کوئی سوچ سکتا ہے اس وقت روئے زمین پر سب سے افضل انسان اپنی جان بچانے کی خاطر میدان سے واپس پلٹ جائے گا ںعوذ باللہ ایسی روایات حسین رضی اللہ عنہ کے عظیم کردار کے خلاف ہے۔ اللہ ہمیں اصل اہل سنت والجماعۃ میں شامل کرے آمین
حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ
ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "
جو شخص میری طرف وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی، وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔"


حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق جتنی روایات نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم سے منسوب ہیں- سب کے سب جھوٹ کا پلندہ ہیں-

واقعہ کربلا نبی کریم کی وفات کے تقریباً ٥٠ سال بعد پیش آیا - لیکن حیرت ہے کہ کہیں ٦٠ سال بعد فسق و فجور کی حاکمیت کا ذکر ہے تو کہیں کربلا اور اس زمین کی مٹی کا ذکر ہے - تو کہیں حسین کے خون سے بھری بوتل کا ذکر ہے وغیرہ - لیکن ان جھوٹی منسوب روایات میں سے کسی میں امیر یزید بن معاویہ یا اہل شام کا ذکر یا نام نہیں ہے کہ یہی حسین رضی الله عنہ کو شہید کریں گے- حتیٰ کہ حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ جو آپ کے ساتھ مرد و خواتین اس سانحہ میں شہید ہوے ان کا بھی کسی روایت میں ذکر نہیں - نبی ﷺ کو خواب میں یا وحی کے ذریے کم سے کم اس بات کی تو خبر دے دی جاتی کہ اصلی قاتل کون ہیں ؟؟ تا کہ حق و باطل واضح ہو جاتا -

صاف ظاہر ہے کہ یہ روایات بنو عباس کے دور میں مختلف سبائی ذہنیت کے حامل گروہوں کی طرف سے ان کے باطل سیاسی و مذہبی نظریات کو دوام بخشنے کے لئے گھڑی گئیں- ظاہر ہے کہ یزید بن معاویہ رحم الله کا اگر ان روایات میں نام لیا جاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا- اس لئے نام کو مخفی رکھ کر یہ روایات گھڑی گئیں تاکہ ان پر سچ کا گمان ہونے لگے -

الله ہم سب کو سبائی ذہنیت سے محفوظ رکھے (آمین)
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
حیرت ہے آپ نے امام لیث بن سعدؒ کا امیر یزید ؒ کو ” امیر المؤمنین “ کہنے کا کو ئی معقول جواب نہیں دیا ۔ بار بار ایک بات دُھرانا میرا شیوہ نہیں لیکن پھر بھی دل پر پتھر رکھ کر آپ سے امیر یزیدؒ کے ” فسق و فجور“ کے ثبوت کا مطالبہ کرتا ہوں۔ لطف تو یہ ہے کہ اگر یہی امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ابن کثیر ؒ وغیرہ ،امیر یزید ؒ کو جہادِ قسطنطنیہ اور بارہ خلفاء والی روایات کے تناظر میں مغفور و محروم تسلیم کریں تو ان کی یہ بات نہ آپ کو قبول ہے اور نہ ہی رَفض نُما اہلِ سنت کو۔ بزبانِ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ،حضرت حسین ؓ کے قاتل اہلِ کوفہ ہی ہیں جو” اصح بعد کتاب اللہ“ ہی سے ثابت ہے وہ بھی آپ کو تسلیم نہیں
محترم،

واقعی اپ فعل عبث کے انتہائی ماہر معلوم ہوتے ہیں میں نے اپ سے چند گزارشات کی تھی آپ نے ان کا جواب دینے کے بجائے مجھ سے ہی مطالبات کر دیئے۔
"۱" اہل مدینہ میں جو بغاوت ہوئی وہ سازشی ٹولہ تھا اس کا ثبوت آئمہ سلف سے پیش کرنے تھا۔
"۲" کسی ایک آئمہ کا قول کے یزید کی بیعت راضی خوشی بلا جبر سے ہوئی تھی۔
"۳" حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کی بیعت کرنا صحیح سند سے ثابت کریں۔
ان کے جوابات دینے کے بجائے اپ نے مجھ سے مطالبات کر دیئے بہرحال یہ جواب اپ پر باقی ہیں میں دوبارہ اپ کے مطالبات نئے دلائل سے پیش کرتا ہوں

لیث بن سعد رحمہ کے امیر المومنین کہنے کا جواب تو معقول ہی ہے مگر اگر اپ اپنے انکھوں سے پٹی اتار کا پڑھیں تو۔
کہ جس دور میں عروہ بن الزبیر جیسے تابعی حکمرانوں کے غلط کو غلط نہ کہہ پائیں اس دور میں انہوں نے امیر المومنین کہہ دیا تو کیا بات ہے اور اگر کسی صحابی نےکوئی نصیحت کرنےکی کوشش بھی کی تو ان کی شان میں کیا گستاخی ہوتی تھی صحابی رسول کی عزت تو ہر مسلمان کو پیاری ہے یہ پڑھیں کس طرح صحابہ کرام کی تذلیل کی جاتی تھی یہ صحیح مسلم سے پڑھ لیں

abn ziad.png



اب بخاری کی اس روایت پر دوبارہ غور کریں جس میں عروۃ بن الزبیر جیسے تابعی حق بات نہ کر پاتے تھے اور صحابہ میں سے جو بات کرتے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا تھا اب آپ سے ایک سوال یزید اتنا ہی نیک تھا تو صحابی رسول نے ابن زیاد کے اس فعل کی شکایت یزید سے کیوں نہ کی کیونکہ ساری حکومت میں یہی حال تھا مروان نے بھی اسی طرح ایک صحابی رسول کو ٹھگنا کہا تھا نعوذ باللہ
اور اب اپ سے ایک اور مطالبہ کہ امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر نے کہاں یزید کو مغفور لھم کہا ہے اور اگر کہا بھی ہے تو اس سے مراد قطعی بخشش نہیں ہے فقط پچھلے گناہوں کی معافی ہے اس حوالے سے ابن حجر اور شاہ ولی محدث دہلوی نے قطعی دلالت سے نقل کیا ہے اس لئےاس سے یزید کو واجبی جنتی قرار نہیں پاتا ہے اور ابن کثیر نے تو یزید کو مرجئی نقل کیا ہے
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل کہا کیا یہ بھی کہا تھا کہ جنہوں نے بلایا انہوں نے ہی قتل کیا بخاری میں کہیں بھی یہ الفاظ نہیں ہے جب اہل کوفہ کا قتل کرنا ثابت ہے اور بقول سنابلی صاحب کی کتاب کے ابن زیاد کا قتل کروانا ثابت ہے تو پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بات کا یہی مقصد ہے کہ اہل کوفہ میں جو حکومت میں تھے انہوں نے قتل کیا ہے
اور رہی بات بارہ خلیفہ والی تو اس حدیث کے تحت جمہور نے صرف پانچ افراد کو خلیفہ راشد مانا ہے ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، علی اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم جمہور اسی کے قائل ہیں
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
امیر یزید ؒ کی بیعت سب صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام ؒ نے بلا جبر و اکراہ کی تھی اس کے ثبوت کے لیے یہی کافی نہیں کہ امیر یزید ؒ کے خلاف خروج میں کسی صحابی ِ رسول ﷺ نے حضرت حسین ؓ کا ساتھ نہیں دیا اور شہادتِ حسین ؓ کے بعد بھی معاملات ِ حکومت بدستور چلتے رہے ۔
محترم،
آپ کو شدید غلط فہمی ہے کہ حکومت کے امور بدستور چلتے رہے مدینہ میں حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بیعت توڑ دی ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے علم جہاد بلند کر دیا تھا اور یزید کی موت کے بعد ان پر امت جمع بھی ہو گئی تھی
میں نے اپ سے اپ کے قیاس نہیں مانگے تھے میں نے آئمہ کے اقوال مانگے تھے کہ یزید کی بیعت بلاجبر ہوئی تھی اپ کی پسندیدہ کتاب "یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ" میں بھی فقط اسی قسم کے قیاسات ہیں آئمہ سے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے اپ بھی اسی طریقہ پر رواں دواں ہیں تو قیاس چھوڑیں آئمہ کے اقوال پیش کریں اور میرے سوالات کے جوابات دینا مت بھولیے گا
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق جتنی روایات نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم سے منسوب ہیں- سب کے سب جھوٹ کا پلندہ ہیں-
محترم،
آپ کے اس حدیث کے مطابق تو شیخ البانی اور دیگر جنہوں نے اس ان احادیث کو صحیح کہا ہے سب جہنم میں ٹھکانہ بنا چکے ہوں گے العیاذ باللہ
جو کسی ایک بھی صحیح حدیث کا انکار کرے گا وہ گمراہی کے گڑھے میں جا گرا"امام مالک" آں جناب سے اس حوالے سے کافی بات ہو چکی ہے اس لئے بات کرنا فضول ہے کیوںکہ آپ وہاں سے بھی چلے گئے تھے میں یہاں فقط اتنا ضرور کہوں گا وہ تمام روایات جن میں حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی گئی تھی سب صحیح ہیں اور قابل حجت ہیں اس لئے جو فرمان رسول کو غلط کہتا ہے وہ بھی اپنی آخرت کی فکر کرے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نہ جانااس کی دلیل میں آپ کو پہلے دے چکا تھا یہاں ایک بارپھر امام ذہبی کے حوالے سے نقل کر دیتا ہوں


قُلْتُ: هَذَا يَدُلُّ عَلَى تَصْوِيبِ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو لِلْحُسَيْنِ فِي مَسِيْرِهِ، وَهُوَ رَأْيُ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَجَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ شَهِدُوا الحَرَّةَ.
سیر اعلام النبلاء 3/293)
امام ذہبی کے اس قول سے واضح ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کے خلاف نہیں تھے مگر ایک تو وہ عمر کے اس حصہ میں تھے جہاں جنگی اقدام نہیں کر سکتے تھے اور دوسرے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی
اس لئے اپ کا اس روایت کو تائید میں پیش کرنا بیکار ہے اس سے اپ کے افسانوی موقف کی کوئی تائید نہیں ہوتی ہے
اور رہی بات یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ کے مطالعہ کا تو جھوٹ کے پلندے کو پڑھ کر اس پر اندھا دھند یقین کرنے کا شوق آپ کو ہوگا مجھے نہیں ہے اس کتاب میں اگر اتنا ہی سچ ہوتا تو ابن زیاد کے قتل کی روایت جو میں نے نقل کی ہے اس کا صرف وہ حصہ نہ نقل کرتے جس میں صرف ابن زیاد کا اہل بیت کی خواتین کے لئے مکان کا انتظام اور وہ حصہ جس میں ابن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا اس کو حذف کر دیا ہے تو یہ آپ کو ہی مبارک ہو
اخر میں یہ بات کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے مصالحت کی ہے یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر دی تھی تو کیا کوئی سوچ سکتا ہے اس وقت روئے زمین پر سب سے افضل انسان اپنی جان بچانے کی خاطر میدان سے واپس پلٹ جائے گا ںعوذ باللہ ایسی روایات حسین رضی اللہ عنہ کے عظیم کردار کے خلاف ہے۔ اللہ ہمیں اصل اہل سنت والجماعۃ میں شامل کرے آمین[/QUOTE
جس نے اپنا ہاتھ، حلقۂ اطاعت سے ہٹا لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس عالم میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی، اور جوشخص اس عالم میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔( صحیح مسلم ، حدیث نمبر 1851)
عنقریب تخریب وفساد رونما ہوں گے لہٰذا جو شخص اس میں تفریق پیدا کرنا چاہے جبکہ امت آپس میں متحد ومتفق ہو تو اس شخص کو تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔( صحیح مسلم، حدیث نمبر 1844)
ایک مسلمان کے لیے سمع و اطاعت کرنا لازم ہے، چاہے پسندیدہ امر ہو یاناپسندیدہ امر میں ، الا یہ کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ ایسی صورت میں سمع و اطاعت نہیں ۔ ( صحیح مسلم ، حدیث نمبر1839)
جب تمام اُمت محمدیہ ﷺ امیر یزید ؒ کی بیعت کر چکی تھی تو کیا یہ تعلیمات حضرت حسین ؓ کے ذہن میں نہ تھیں ؟
باقی اگر آپ فسق و فجور ِ امیر یزید ؒ کے افسانوں پر ایمانِ کامل رکھتے ہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں ہدایت عطاء فرمائے !
 
Top