• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

واقعہ کربلا کے تئیں اہل سنت کے غور و فکر کے لیے چند باتیں

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
عنقریب تخریب وفساد رونما ہوں گے لہٰذا جو شخص اس میں تفریق پیدا کرنا چاہے جبکہ امت آپس میں متحد ومتفق ہو تو اس شخص کو تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔( صحیح مسلم، حدیث نمبر 1844)
ایک مسلمان کے لیے سمع و اطاعت کرنا لازم ہے، چاہے پسندیدہ امر ہو یاناپسندیدہ امر میں ، الا یہ کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ ایسی صورت میں سمع و اطاعت نہیں ۔ ( صحیح مسلم ، حدیث نمبر1839)
جب تمام اُمت محمدیہ ﷺ امیر یزید ؒ کی بیعت کر چکی تھی تو کیا یہ تعلیمات حضرت حسین ؓ کے ذہن میں نہ تھیں ؟
محترم،
آپ سے بحث و مباحثہ کوئی مفید ثابت ہوتا نظر نہیں آتا ہے آپ سے میں نے آئمہ کے اقوال مانگے تھے کہ کسی نےکہا ہو کہ یزید کی بیعت بلاکراہ اور بے جبر ہوئی ہو مگر وہی دھاک کے تین پات آپ نے وہی لاگ الاپنے ہیں اور الاپتے رہیں گے اپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی دلیل کی تھی کہ انہوں نے بھی بیعت جبرا کی تھی اور وہ اس پر راضی نہ تھے اپ کے مطابق اگر امت متحد ہو جائے تو جو اس میں تفرقہ ڈالے اس کو تلوار سے اڑا دو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپ کی اس دلیل کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ کو جو شہید کیا گیا وہ ابن زیاد کا درست عمل تھاکیونکہ حسین رضی اللہ عنہ نے امت میں تفرقہ ڈالا اس لئے ان کا قتل جائز تھا نعوذ باللہ یہ ناصبی سوچ اہلسنت والجماعۃ کی تو نہیں ہو سکتی ہے اہلسنت و الجماعۃ میں سب ہی اس بات پر متفق ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑے ہونا حق بجانب تھا حسین رضی اللہ عنہ کو اور اس امت کے تمام اہل علم جو اس پر اتفاق کر چکے ان کو بھی یہ حدیث نہیں معلوم ہوئی نہ انہوں نے صحیح مسلم کی یہ احادیث پڑھی اور نہ صحابی رسول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ احادیث معلوم ہوئی ساری امت میں یہ روایات پڑھی تو صرف ناصبیوں نے اور ان کی ذہنیت رکھنے والوں نے جو حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو اجماع امت سے ہٹ کر غلط جانتے ہیں اور ان کی قتل کو جائز قرار دیتے ہیں نعوذ باللہ
الفت میں تیری کیاکیا ستم ڈھائے
اور رہی بات کے یزید کا فسق و فجور افسانہ ہے تو یہ افسانہ اپ کو ہی مبارک ہو میں نے صحیح بخاری اور مسلم سے روایات پیش کی ہیں اگر یہ بھی اپ کو افسانہ لگتی ہیں تو یہ اس محمود احمد عباسی والی فکر ہے اور اس کی آپ کو فکر کرنی چاہیے کیونکہ وہ محمود احمد عباسی بھی یہی کہتا تھا بخاری نے افسانے لکھے ہیں نعوذ باللہ
میں آپ کے لئے یہ آخری کمنٹس کر رہا ہوں اپ میری طرف سے آپ کے لئے السلام علیکم
اللہ سے دعا ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو غلط اور ان کا قتل جائز سمجھتے ہیں اللہ ان کو انہیں کے ساتھ اٹھائے اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے نواسے حسین رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین اور اہلسنت والجماعۃ کا ساتھ نصیب کرے اور ہر گمراہ فرقے سے اپنی حفاظت میں رکھے آمین
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
آپ سے بحث و مباحثہ کوئی مفید ثابت ہوتا نظر نہیں آتا ہے آپ سے میں نے آئمہ کے اقوال مانگے تھے کہ کسی نےکہا ہو کہ یزید کی بیعت بلاکراہ اور بے جبر ہوئی ہو مگر وہی دھاک کے تین پات آپ نے وہی لاگ الاپنے ہیں اور الاپتے رہیں گے اپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی دلیل کی تھی کہ انہوں نے بھی بیعت جبرا کی تھی اور وہ اس پر راضی نہ تھے اپ کے مطابق اگر امت متحد ہو جائے تو جو اس میں تفرقہ ڈالے اس کو تلوار سے اڑا دو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپ کی اس دلیل کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ کو جو شہید کیا گیا وہ ابن زیاد کا درست عمل تھاکیونکہ حسین رضی اللہ عنہ نے امت میں تفرقہ ڈالا اس لئے ان کا قتل جائز تھا نعوذ باللہ یہ ناصبی سوچ اہلسنت والجماعۃ کی تو نہیں ہو سکتی ہے اہلسنت و الجماعۃ میں سب ہی اس بات پر متفق ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑے ہونا حق بجانب تھا حسین رضی اللہ عنہ کو اور اس امت کے تمام اہل علم جو اس پر اتفاق کر چکے ان کو بھی یہ حدیث نہیں معلوم ہوئی نہ انہوں نے صحیح مسلم کی یہ احادیث پڑھی اور نہ صحابی رسول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ احادیث معلوم ہوئی ساری امت میں یہ روایات پڑھی تو صرف ناصبیوں نے اور ان کی ذہنیت رکھنے والوں نے جو حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو اجماع امت سے ہٹ کر غلط جانتے ہیں اور ان کی قتل کو جائز قرار دیتے ہیں نعوذ باللہ
الفت میں تیری کیاکیا ستم ڈھائے
اور رہی بات کے یزید کا فسق و فجور افسانہ ہے تو یہ افسانہ اپ کو ہی مبارک ہو میں نے صحیح بخاری اور مسلم سے روایات پیش کی ہیں اگر یہ بھی اپ کو افسانہ لگتی ہیں تو یہ اس محمود احمد عباسی والی فکر ہے اور اس کی آپ کو فکر کرنی چاہیے کیونکہ وہ محمود احمد عباسی بھی یہی کہتا تھا بخاری نے افسانے لکھے ہیں نعوذ باللہ
میں آپ کے لئے یہ آخری کمنٹس کر رہا ہوں اپ میری طرف سے آپ کے لئے السلام علیکم
اللہ سے دعا ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو غلط اور ان کا قتل جائز سمجھتے ہیں اللہ ان کو انہیں کے ساتھ اٹھائے اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے نواسے حسین رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین اور اہلسنت والجماعۃ کا ساتھ نصیب کرے اور ہر گمراہ فرقے سے اپنی حفاظت میں رکھے آمین
خروجِ حضرت حسین ؓ کے متعلق ایک موقع پر امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :-
پس یہ بات واضح ہو گئی کہ ان اصحاب ِ رسول ﷺ کی بات ہی درست تھی جنہوں نے حضرت حسین ؓ کو خروج سے منع کیا تھا کیونکہ اس خروج میں دین اور دنیا کی کوئی مصلحت وابستہ نہیں تھی۔( منہاج السنۃ، جلد نمبر 2 ، صفحہ 24)

علامہ ابن خلدون ؒ فرماتے ہیں :-
اور پھر حضرت امیر معاویہ ؓ کے اقدامِ ولایت ِ عہد کے وقت سینکڑوں صحابہ کرام ؓ کا موجود ہونا اور اس پر ان کا خاموشی اختیار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کی نیت قطعاً مشکوک نہیں ہے ورنہ یہ صحابہ کرام ؓ حق کے معاملے میں بزدلی ، چشم پوشی، اور ڈھیل دینے کے ہرگز بھی روادار نہیں ہو سکتے اور نہ حضرت امیر معاویہ ؓ ایسے تھے کہ حق کو قبول کرنے میں حبِ جاہ ان کا راستہ روک سکتی یہ سب اس بات سے بہت بلند ہیں اور ان کی عدالت ایسی کمزوریوں سے بالیقین بالاتر ہیں۔( مقدمہ ابن خلدون ؒ، بحث ولایت ِ عہد)

اب آپ ہی بتائیں کہ صحابہ کرام ؓ کی زندگی پر رسول اللہ ﷺ نے ایسی ہی سیرت و کردار کی مہر لگائی تھی ؟ (ا پنی بات دھرانے کے با وجود)اس سوال کا جواب آپ سے لازماً درکار ہے !

امیر یزید ؒ کو مغفور و مرحوم تسلیم کر نے کےلیے آپ( البدایہ و النہایہ ، جلد 8، صفحہ نمبر 229) اور( منہاج السنۃ ، جلد نمبر 4، صفحہ نمبر 544) کی مراجعت کریں ۔ اگر آپ لیث بن سعد ؒ کے قول پر خفا ہیں تو امام ابن کثیر ؒ کا امیر یزید ؒ کو ” امیر المؤمنین “ تسلیم کرنا ( البدایہ و النہایہ ، جلد 8، صفحہ نمبر 226) میں ملاحظہ فرمائیں۔

بارہ خلفاء میں امیر یزید ؒ بھی شامل تھے ملاحظہ فرمائیں:-

منہاج السنہ، جلد نمبر 4، صفحہ 206
فتح الباری شرح صحیح البخاری ، جلد نمبر 13، صفحہ نمبر 214
شرح الفقہ الاکبر ، صفحہ نمبر 70
الصواعق المحرکہ، صفحہ نمبر 21
تاریخ الخلفاء ، صفحہ نمبر 16
سیرۃ النبی ﷺ، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 388
شرح العقیدۃ الطحاویہ ، صفحہ نمبر 489
تکملہ فتح الملہم ، جلد نمبر 3 ، صفحہ نمبر 284


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :-
سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ( صحابہ کرام ؓ) ہیں پھر وہ جو ان سے متصل ہیں( تابعینؒ) پھر وہ جو ان کے متصلاً بعد ہیں( تبع تا بعین ؒ)
علامہ زراہ بن اوفٰی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں قرن ایک سو بیس سال تک شمار ہوتا ہے پس جس قرن میں رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے اس کا آخری زمانہ یزید ؒ بن معاویہ ؓ کی وفات تک ہے ۔( طبقات ابن سعد، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 290، البدایہ والنہایہ ، جلد نمبر 8، صفحہ 229)

یہ تو رَفض زدہ عناصر ہیں جو امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین یزیدؒ بن معا ویہ ؓ کے دور کو سبائی و رافضی طبقہ کے افسانوں سے متاثر ہو کر”خیرون القرون “ سے خارج کر دیتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی دانستہ یا غیر دانستہ تکذیب کے مرتکب ہوتے ہیں۔

کہنے کو تو بہت کچھ باقی ہے لیکن اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ و السلام
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اور اب اپ سے ایک اور مطالبہ کہ امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر نے کہاں یزید کو مغفور لھم کہا ہے اور اگر کہا بھی ہے تو اس سے مراد قطعی بخشش نہیں ہے فقط پچھلے گناہوں کی معافی ہے اس حوالے سے ابن حجر اور شاہ ولی محدث دہلوی نے قطعی دلالت سے نقل کیا ہے اس لئےاس سے یزید کو واجبی جنتی قرار نہیں پاتا ہے اور ابن کثیر نے تو یزید کو مرجئی نقل کیا ہے
ویسے عشرہ مبشرہ صحابہ کرام ؓ بھی ” قطعی جنتی “ ہیں یا ان کا جنت میں داخلہ کسی چیز سے ” مشروط“ ہے ۔دوسری بات ہر وہ روایت میں جس میں امیر یزید ؒکی” فضیلت و عظمت“ بیان ہوئی ہے، اس میں آخر ” تاویل “ کرنے کی نوبت ہی کیں پیش آتی ہے ؟ اور حضرت امیر معاویہؓ اور امیر یزید ؒ کے متعلق ہر افسانہ ” عین الیقین“ ہی کیوں نظر آتا ہے ؟ذرا اس متعلق بھی ضرور سو چئے گا۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
خروجِ حضرت حسین ؓ کے متعلق ایک موقع پر امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :-
پس یہ بات واضح ہو گئی کہ ان اصحاب ِ رسول ﷺ کی بات ہی درست تھی جنہوں نے حضرت حسین ؓ کو خروج سے منع کیا تھا کیونکہ اس خروج میں دین اور دنیا کی کوئی مصلحت وابستہ نہیں تھی۔( منہاج السنۃ، جلد نمبر 2 ، صفحہ 24)
محترم،
آپ نے مجھ سے لازما جواب مانگا ہے اس لئے مجبورا پھر سے عرض کرنے حاضر ہوا ہوں
آپ نے جو امام ابن تیمیہ کی رائے پیش کی ہے وہ ایک منفرد قول ہے جو اجماع کے خلاف ہے اور اجماع کے خلاف کسی بھی اہل علم کا قول قابل قبول نہیں ہوتا ہے اس لئے امام ابن تیمیہ کی رائے اجماع کے خلاف ہے تو کیونکر قبول ہو گی
علامہ ابن خلدون ؒ فرماتے ہیں :-
اور پھر حضرت امیر معاویہ ؓ کے اقدامِ ولایت ِ عہد کے وقت سینکڑوں صحابہ کرام ؓ کا موجود ہونا اور اس پر ان کا خاموشی اختیار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کی نیت قطعاً مشکوک نہیں ہے ورنہ یہ صحابہ کرام ؓ حق کے معاملے میں بزدلی ، چشم پوشی، اور ڈھیل دینے کے ہرگز بھی روادار نہیں ہو سکتے اور نہ حضرت امیر معاویہ ؓ ایسے تھے کہ حق کو قبول کرنے میں حبِ جاہ ان کا راستہ روک سکتی یہ سب اس بات سے بہت بلند ہیں اور ان کی عدالت ایسی کمزوریوں سے بالیقین بالاتر ہیں۔( مقدمہ ابن خلدون ؒ، بحث ولایت ِ عہد)

اب آپ ہی بتائیں کہ صحابہ کرام ؓ کی زندگی پر رسول اللہ ﷺ نے ایسی ہی سیرت و کردار کی مہر لگائی تھی ؟ (ا پنی بات دھرانے کے با وجود)اس سوال کا جواب آپ سے لازماً درکار ہے !

آپ مجھے ابن خلدون کا حوالہ دے رہے ہیں جو۸۰۰ ہجری کے مورخ گزرے ہیں اور میں اپ کو خیرالقرون کی گواہی دے رہا ہوں وہ بھی ایک جید تابعی عروۃ بن الزبیر جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے آکر پوچھتے ہیں اور اگر یہ جھوٹ ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ وہی ٹوک دیتےاور اپ اس خیرالقرون جس کی آپ خود گواہی دے رہے ہیں

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :-
سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ( صحابہ کرام ؓ) ہیں پھر وہ جو ان سے متصل ہیں( تابعینؒ) پھر وہ جو ان کے متصلاً بعد ہیں( تبع تا بعین ؒ)
علامہ زراہ بن اوفٰی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں قرن ایک سو بیس سال تک شمار ہوتا ہے پس جس قرن میں رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے اس کا آخری زمانہ یزید ؒ بن معاویہ ؓ کی وفات تک ہے ۔( طبقات ابن سعد، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 290، البدایہ والنہایہ ، جلد نمبر 8، صفحہ 229)
ان کی بات کے مقابلے پر ایک ابن خلدون کا قول پیش کر رہے ہیں اور دوسری بات میں یہ یزید کے دور کی بات کر رہا ہوں اور اپ مجھے معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کی مثال دے رہے ہیں یزید کا دور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ۲۰ سال بعد کا دور ہے اور بیس سال چھوٹا عرصہ نہیں ہوتا یزید کے دور تک حسین رضی اللہ عنہ ساٹھ سال کے تھے جو کہ صغائر صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں تو کبائر صحابہ میں سے کتنے اس وقت حیات ہوں گے اور ان کی کیا عمریں ہوں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور میں اپ کو امام ذہبی کا قول نقل کر چکا کہ کبائر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی وہ شاید اپ نے نہیں پڑھا اور نہ خیرالقرون کی گواہی اپ مانتے ہیں کہ عروہ بن الزبیر نے یزید کے مظالم کے بابت کیا بیان کیا ان کی گواہی پر اپ کو یقین نہیں آرہا ہے اور ابن خلدون کا قول پیش کر رہے ہیں وہ بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کی بات کے حوالے سے جو یزید سے بیس سال پہلے کا دور تھا اس لئے خیر القرون کی گواہی معتبر رہے گی نہ کہ ۸۰۰ ہجری کے ایک عالم کی بات مانی جائے گی۔


ویسے عشرہ مبشرہ صحابہ کرام ؓ بھی ” قطعی جنتی “ ہیں یا ان کا جنت میں داخلہ کسی چیز سے ” مشروط“ ہے ۔دوسری بات ہر وہ روایت میں جس میں امیر یزید ؒکی” فضیلت و عظمت“ بیان ہوئی ہے، اس میں آخر ” تاویل “ کرنے کی نوبت ہی کیں پیش آتی ہے ؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے واجبی جنت کے قرائن موجود ہیں اسکی امثال پیش کر دیتا ہوں

اعملوا ما شئتم؛ فقد غفرت لكم(صحیح بخاری رقم 3007)
اس میں قرینہ واضح موجود ہے کہ جو چاہے کرو تم بخشش دیئے گئے ہو مگر یزید والی بشارت میں کوئی ابدی قرینہ موجود نہیں ہے جس سے یہ واضح ہو یہ ابدی بشارت ہے اور اہل بدر کے لئے ایک اور حدیث بھی موجود ہے ۔
فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا، فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ»(صحیح مسلم رقم 2495)
اہل بدر اور حدیبیہ (آگ) میں ہرگز داخل نہیں ہو گے۔
ان واضح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بشارات ابدی تھی اور ان کے ساتھ ابدی قرینہ موجود تھا جو وجوب جنت پر دلالت کرتی ہیں جبکہ یزید میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔

چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب تراجم ابواب میں اسی باب قتال فی روم کے تحت رقمطراز ہیں"لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ(تراجم ابواب باب قتال فی الروم)
اگر اس مغفورلھم کی بشارت کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو اس کی نجات کا ذریعہ بنتے۔
شاہ ولی اللہ کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ یزید کے بشارت سابقہ گناہوں کی معافی ہے نہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے

آپ نے لکھا کہ اپ کے امیر یزید کی فضیلت میں کوئی بھی حدیث پیش ہوتی ہے اس کی تاویل کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے اس کا جواب انتہائی مودبانہ طور پر عرض ہے کہ
یزید کو فضیلت دلانے کی کوشش میں تاویل کی ہے سنابلی صاحب نے ۳۰۰ صفحات پر سیاہی پھیر کر یزید کے لئے حدیث قسططنیہ میں جگہ بنانے کی کوشش کی ہے
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
تو تاویل یزید کو فضیلت دلانے کے لئے کی جاتی ہیں وگرنہ کیا بخاری میں یزید کا نام لکھا ہےکہ وہ حدیث مغفور لھم میں شامل ہے

آخر میں بارہ خلیفہ والی روایت جو جس میں اپ نے یزید کو فٹ کرنے کی کوشش کی ہے محترم اس میں جمہور نے امام مھدی کا بھی ذکر کیا ہے تو جب بارہ خلیفہ ۱۲۱ ہجری تک بنو امیہ میں ہی پورے ہوگئے تو امام مھدی ۱۳ویں خلیفہ بن کر آئیں گے خلیفہ کے حوالے سے آئمہ کے اقوال پیش ہیں
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
آپ نے مجھ سے لازما جواب مانگا ہے اس لئے مجبورا پھر سے عرض کرنے حاضر ہوا ہوں
آپ نے جو امام ابن تیمیہ کی رائے پیش کی ہے وہ ایک منفرد قول ہے جو اجماع کے خلاف ہے اور اجماع کے خلاف کسی بھی اہل علم کا قول قابل قبول نہیں ہوتا ہے اس لئے امام ابن تیمیہ کی رائے اجماع کے خلاف ہے تو کیونکر قبول ہو گی



آپ مجھے ابن خلدون کا حوالہ دے رہے ہیں جو۸۰۰ ہجری کے مورخ گزرے ہیں اور میں اپ کو خیرالقرون کی گواہی دے رہا ہوں وہ بھی ایک جید تابعی عروۃ بن الزبیر جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے آکر پوچھتے ہیں اور اگر یہ جھوٹ ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ وہی ٹوک دیتےاور اپ اس خیرالقرون جس کی آپ خود گواہی دے رہے ہیں



ان کی بات کے مقابلے پر ایک ابن خلدون کا قول پیش کر رہے ہیں اور دوسری بات میں یہ یزید کے دور کی بات کر رہا ہوں اور اپ مجھے معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کی مثال دے رہے ہیں یزید کا دور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ۲۰ سال بعد کا دور ہے اور بیس سال چھوٹا عرصہ نہیں ہوتا یزید کے دور تک حسین رضی اللہ عنہ ساٹھ سال کے تھے جو کہ صغائر صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں تو کبائر صحابہ میں سے کتنے اس وقت حیات ہوں گے اور ان کی کیا عمریں ہوں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور میں اپ کو امام ذہبی کا قول نقل کر چکا کہ کبائر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی وہ شاید اپ نے نہیں پڑھا اور نہ خیرالقرون کی گواہی اپ مانتے ہیں کہ عروہ بن الزبیر نے یزید کے مظالم کے بابت کیا بیان کیا ان کی گواہی پر اپ کو یقین نہیں آرہا ہے اور ابن خلدون کا قول پیش کر رہے ہیں وہ بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کی بات کے حوالے سے جو یزید سے بیس سال پہلے کا دور تھا اس لئے خیر القرون کی گواہی معتبر رہے گی نہ کہ ۸۰۰ ہجری کے ایک عالم کی بات مانی جائے گی۔




صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے واجبی جنت کے قرائن موجود ہیں اسکی امثال پیش کر دیتا ہوں

اعملوا ما شئتم؛ فقد غفرت لكم(صحیح بخاری رقم 3007)
اس میں قرینہ واضح موجود ہے کہ جو چاہے کرو تم بخشش دیئے گئے ہو مگر یزید والی بشارت میں کوئی ابدی قرینہ موجود نہیں ہے جس سے یہ واضح ہو یہ ابدی بشارت ہے اور اہل بدر کے لئے ایک اور حدیث بھی موجود ہے ۔
فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا، فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ»(صحیح مسلم رقم 2495)
اہل بدر اور حدیبیہ (آگ) میں ہرگز داخل نہیں ہو گے۔
ان واضح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بشارات ابدی تھی اور ان کے ساتھ ابدی قرینہ موجود تھا جو وجوب جنت پر دلالت کرتی ہیں جبکہ یزید میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔

چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب تراجم ابواب میں اسی باب قتال فی روم کے تحت رقمطراز ہیں"لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ(تراجم ابواب باب قتال فی الروم)
اگر اس مغفورلھم کی بشارت کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو اس کی نجات کا ذریعہ بنتے۔
شاہ ولی اللہ کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ یزید کے بشارت سابقہ گناہوں کی معافی ہے نہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے

آپ نے لکھا کہ اپ کے امیر یزید کی فضیلت میں کوئی بھی حدیث پیش ہوتی ہے اس کی تاویل کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے اس کا جواب انتہائی مودبانہ طور پر عرض ہے کہ
یزید کو فضیلت دلانے کی کوشش میں تاویل کی ہے سنابلی صاحب نے ۳۰۰ صفحات پر سیاہی پھیر کر یزید کے لئے حدیث قسططنیہ میں جگہ بنانے کی کوشش کی ہے
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
تو تاویل یزید کو فضیلت دلانے کے لئے کی جاتی ہیں وگرنہ کیا بخاری میں یزید کا نام لکھا ہےکہ وہ حدیث مغفور لھم میں شامل ہے

آخر میں بارہ خلیفہ والی روایت جو جس میں اپ نے یزید کو فٹ کرنے کی کوشش کی ہے محترم اس میں جمہور نے امام مھدی کا بھی ذکر کیا ہے تو جب بارہ خلیفہ ۱۲۱ ہجری تک بنو امیہ میں ہی پورے ہوگئے تو امام مھدی ۱۳ویں خلیفہ بن کر آئیں گے خلیفہ کے حوالے سے آئمہ کے اقوال پیش ہیں
میرے محترم !
امیر یزید ؒ کو میں نے نہیں بلکہ” صحابہ کرام ؓ “نے چنا تھا ۔ باقی امیر یزید ؒ کی فضیلت کے متعلق تاویلات کی وجہ وہی ”افسانوی فسق و فجور“ والی روایات ہیں ۔ علامہ ابن خلدون ؒ نے جو تبصرہ کیا ہے وہ امیر یزید ؒ کے دور اور صحابہ کرام ؓ کی ” رضا مندانہ بیعت“ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھا ہے جس کا انکار ممکن نہیں ۔ کسی بھی محقق کی بات کو محض اس لیے رد کر دینا کہ وہ متقدمین میں سے نہیں بلکہ متاخرین میں سے ہے بذات خود ایک غیر علمی رویہ ہے ۔ امیر یزیدؒ کو ” بارہ خلفاء “ کی فہرست میں( جو ایک اور نا قابلِ انکار حقیقت ہے) ،میں نے نہیں بلکہ شارحین حدیث نے شامل کیا ہے اس لیے مجھ پر خفا ہونا فعلِ عبث ہے۔ میری نظر میں شاہ صاحبؒ کی بات ” جذباتی تکلف“ کے سوا کچھ نہیں ہے ورنہ رو ایت اتنی واضح ہے کہ کوئی عام شخص بھی اس کا مفہوم بغیر کسی غور وفکر کے سمجھ سکتا ہے ۔ اگر آپ اس روایت کو نہیں مانناچاہتے تو نہ مانیں لیکن اس روایت کی ” انکارانہ تاویل “ مت کیجیے۔
مزید بر آں،آپ ،شاہ ولی اللہ ؒ کے اتنے ہی طرفدار ہیں تو خلافتِ علی ؓ کے متعلق جو انہوں نے کہا ہے اس کو بھی من و عن تسلیم کریں ۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
میرے محترم !
امیر یزید ؒ کو میں نے نہیں بلکہ” صحابہ کرام ؓ “نے چنا تھا ۔ باقی امیر یزید ؒ کی فضیلت کے متعلق تاویلات کی وجہ وہی ”افسانوی فسق و فجور“ والی روایات ہیں ۔ علامہ ابن خلدون ؒ نے جو تبصرہ کیا ہے وہ امیر یزید ؒ کے دور اور صحابہ کرام ؓ کی ” رضا مندانہ بیعت“ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھا ہے جس کا انکار ممکن نہیں ۔ کسی بھی محقق کی بات کو محض اس لیے رد کر دینا کہ وہ متقدمین میں سے نہیں بلکہ متاخرین میں سے ہے بذات خود ایک غیر علمی رویہ ہے ۔ امیر یزیدؒ کو ” بارہ خلفاء “ کی فہرست میں( جو ایک اور نا قابلِ انکار حقیقت ہے) ،میں نے نہیں بلکہ شارحین حدیث نے شامل کیا ہے اس لیے مجھ پر خفا ہونا فعلِ عبث ہے۔
محترم،
وہ کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے،
صرف ایک ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں جن کا راگ پوری ناصبیت کے سحر زدہ آلاپتے رہتے ہیں انہوں نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک تو کی نہیں تھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے معاویہ رضی اللہ عنہ تو اس کے والد تھے اس کے علاوہ کوئی اور ہو تو بتا دیں اور خیر القرون کے تابعی عروہ بن الزبیر کی گواہی بھی اپ کو افسانہ لگتی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے اور رہی بات ابن خلدون کی تو انہوں نے یزید کے دور کی تو اس پورے حوالے میں بات ہی نہیں کی ہے اور میں نے تابعی کے مقابلے اور خیرالقرون کی گواہی کے مقابلے پر ان خلدون کے قول کو رد کیا ہے جیسے اپ کو شاہ ولی اللہ جیسی شخصیت کی بات جذباتی لگ رہی ہے اور یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ شارحین نے یزید کو بارہ خلفاء میں شامل کیا ہے اپ کے دئیے ہوئے شارحین کے ہی قول نقل کر رہا ہوں اس میں انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی رسول ہیں ان کو بارہ خلفاء میں شامل نہیں کیا تو یزید کی کیا حیثیت ہے غور سے پڑھ لیں


اپ نے درج ذیل حوالے دئیے ہیں

منہاج السنہ، جلد نمبر 4، صفحہ 206
فتح الباری شرح صحیح البخاری ، جلد نمبر 13، صفحہ نمبر 214
شرح الفقہ الاکبر ، صفحہ نمبر 70
الصواعق المحرکہ، صفحہ نمبر 21
تاریخ الخلفاء ، صفحہ نمبر 16
سیرۃ النبی ﷺ، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 388
شرح العقیدۃ الطحاویہ ، صفحہ نمبر 489
تکملہ فتح الملہم ، جلد نمبر 3 ، صفحہ نمبر 284

سب سے پہلے منھاج السنہ
عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ (4) ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
وَإِنْ أَرَادَ بِاعْتِقَادِهِمْ إِمَامَةَ يَزِيدَ، أَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ كَانَ مَلِكَ جُمْهُورِ الْمُسْلِمِينَ وَخَلِيفَتَهُمْ فِي زَمَانِهِ صَاحِبَ السَّيْفِ، كَمَا كَانَ أَمْثَالُهُ مِنْ خُلَفَاءِ بَنِي أُمَيَّةَ وَبَنِي الْعَبَّاسِ، فَهَذَا أَمْرٌ مَعْلُومٌ لِكُلِّ أَحَدٍ، وَمَنْ نَازَعَ فِي هَذَا كَانَ مُكَابِرًا ; فَإِنَّ يَزِيدَ بُويِعَ بَعْدَ مَوْتِ أَبِيهِ مُعَاوِيَةَ، وَصَارَ مُتَوَلِّيًا عَلَى أَهْلِ الشَّامِ وَمِصْرَ وَالْعِرَاقِ وَخُرَاسَانَ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ بِلَادِ الْمُسْلِمِينَ. 4/522
اس میں امام ابن تیمیہ نے واضح لکھا ہے کہ یزید اور اس جیسے بنو امیہ اور بنو عباس کے خلیفہ سب کے سب صاحب سیف یعنی تلوار کے زور پر اقتدار میں آئے تھے
وَإِنْ أَرَادَ بِاعْتِقَادِهِمْ إِمَامَةَ يَزِيدَ، أَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ كَانَ مَلِكَ جُمْهُورِ الْمُسْلِمِينَ وَخَلِيفَتَهُمْ فِي زَمَانِهِ صَاحِبَ السَّيْفِ، كَمَا كَانَ أَمْثَالُهُ مِنْ خُلَفَاءِ بَنِي أُمَيَّةَ وَبَنِي الْعَبَّاسِ

اور مجموع فتاوی میں لکھتے ہیں
وَوَفَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ إحْدَى عَشْرَةَ مِنْ هِجْرَتِهِ وَإِلَى عَامِ ثَلَاثِينَ سَنَةَ كَانَ إصْلَاحُ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السَّيِّدِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ بِنُزُولِهِ عَنْ الْأَمْرِ عَامَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ فِي شَهْرِ جُمَادَى الْأُولَى وَسُمِّيَ " عَامَ الْجَمَاعَةِ " لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى " مُعَاوِيَةَ " وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ. جلد ۱۸ ص ۳۵
اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ قرار دیا ہے تو یزید کو خلیفہ کیسے کہیں گے۔
اپ کا دوسرا حوالہ شرح عقیدہ الطحاویہ

كَانَتْ خِلَافَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ سَنَتَيْنِ وَثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، وَخِلَافَةُ عُمَرَ عَشْرَ سِنِينَ وَنِصْفًا، وَخِلَافَةُ عُثْمَانَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، وَخِلَافَةُ عَلِيٍّ أَرْبَعَ سِنِينَ وَتِسْعَةَ أَشْهُرٍ، [وَخِلَافَةُ الْحَسَنِ سِتَّةَ أَشْهُرٍ] .
وَأَوَّلُ مُلُوكِ الْمُسْلِمِينَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، [وَهُوَ خَيْرُ مُلُوكِ الْمُسْلِمِينَ] ،
اس میں بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملوک بادشاہ قرار دیا ہے تو یزید کو خلیفہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔
فتح الباری سے اپ نے ابن حجر رحمہ کا قول نقل کیا ہے پڑھ لیں ابن حجر کیا فرماتے ہیں

الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم "تحت رقم ۷۰۰۵"
اس میں حافظ ابن حجر نے واضح کر دیا ہے ان کو خلیفہ کہہ دیا جاتا ہے مگر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لے کر جتنے گزرے ہیں ان میں سے اکثر بادشاہ ہیں تو اگر کسی نے ان کو خلیفہ کہا بھی ہے تو وہ اسی ضمن میں کہا ہے جیسا ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ ان کو صرف کہنے کی حد تک خلیفہ مانا جاتا تھا مگر اصل میں یہ ملوک تھے

یہ اپ کے چند حوالے ہیں اگر موصوف کو اور شوق جاگا کہ یزید کو خلیفہ بنائیں تو اور شارحین کے اقوال پیش خدمت کر دوں گا انشاء اللہ
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
وہ کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے،
صرف ایک ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں جن کا راگ پوری ناصبیت کے سحر زدہ آلاپتے رہتے ہیں انہوں نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک تو کی نہیں تھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے معاویہ رضی اللہ عنہ تو اس کے والد تھے اس کے علاوہ کوئی اور ہو تو بتا دیں اور خیر القرون کے تابعی عروہ بن الزبیر کی گواہی بھی اپ کو افسانہ لگتی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے اور رہی بات ابن خلدون کی تو انہوں نے یزید کے دور کی تو اس پورے حوالے میں بات ہی نہیں کی ہے اور میں نے تابعی کے مقابلے اور خیرالقرون کی گواہی کے مقابلے پر ان خلدون کے قول کو رد کیا ہے جیسے اپ کو شاہ ولی اللہ جیسی شخصیت کی بات جذباتی لگ رہی ہے اور یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ شارحین نے یزید کو بارہ خلفاء میں شامل کیا ہے اپ کے دئیے ہوئے شارحین کے ہی قول نقل کر رہا ہوں اس میں انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی رسول ہیں ان کو بارہ خلفاء میں شامل نہیں کیا تو یزید کی کیا حیثیت ہے غور سے پڑھ لیں


اپ نے درج ذیل حوالے دئیے ہیں




سب سے پہلے منھاج السنہ
عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ (4) ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
وَإِنْ أَرَادَ بِاعْتِقَادِهِمْ إِمَامَةَ يَزِيدَ، أَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ كَانَ مَلِكَ جُمْهُورِ الْمُسْلِمِينَ وَخَلِيفَتَهُمْ فِي زَمَانِهِ صَاحِبَ السَّيْفِ، كَمَا كَانَ أَمْثَالُهُ مِنْ خُلَفَاءِ بَنِي أُمَيَّةَ وَبَنِي الْعَبَّاسِ، فَهَذَا أَمْرٌ مَعْلُومٌ لِكُلِّ أَحَدٍ، وَمَنْ نَازَعَ فِي هَذَا كَانَ مُكَابِرًا ; فَإِنَّ يَزِيدَ بُويِعَ بَعْدَ مَوْتِ أَبِيهِ مُعَاوِيَةَ، وَصَارَ مُتَوَلِّيًا عَلَى أَهْلِ الشَّامِ وَمِصْرَ وَالْعِرَاقِ وَخُرَاسَانَ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ بِلَادِ الْمُسْلِمِينَ. 4/522
اس میں امام ابن تیمیہ نے واضح لکھا ہے کہ یزید اور اس جیسے بنو امیہ اور بنو عباس کے خلیفہ سب کے سب صاحب سیف یعنی تلوار کے زور پر اقتدار میں آئے تھے
وَإِنْ أَرَادَ بِاعْتِقَادِهِمْ إِمَامَةَ يَزِيدَ، أَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ كَانَ مَلِكَ جُمْهُورِ الْمُسْلِمِينَ وَخَلِيفَتَهُمْ فِي زَمَانِهِ صَاحِبَ السَّيْفِ، كَمَا كَانَ أَمْثَالُهُ مِنْ خُلَفَاءِ بَنِي أُمَيَّةَ وَبَنِي الْعَبَّاسِ

اور مجموع فتاوی میں لکھتے ہیں
وَوَفَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ إحْدَى عَشْرَةَ مِنْ هِجْرَتِهِ وَإِلَى عَامِ ثَلَاثِينَ سَنَةَ كَانَ إصْلَاحُ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السَّيِّدِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ بِنُزُولِهِ عَنْ الْأَمْرِ عَامَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ فِي شَهْرِ جُمَادَى الْأُولَى وَسُمِّيَ " عَامَ الْجَمَاعَةِ " لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى " مُعَاوِيَةَ " وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ. جلد ۱۸ ص ۳۵
اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ قرار دیا ہے تو یزید کو خلیفہ کیسے کہیں گے۔
اپ کا دوسرا حوالہ شرح عقیدہ الطحاویہ

كَانَتْ خِلَافَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ سَنَتَيْنِ وَثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، وَخِلَافَةُ عُمَرَ عَشْرَ سِنِينَ وَنِصْفًا، وَخِلَافَةُ عُثْمَانَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، وَخِلَافَةُ عَلِيٍّ أَرْبَعَ سِنِينَ وَتِسْعَةَ أَشْهُرٍ، [وَخِلَافَةُ الْحَسَنِ سِتَّةَ أَشْهُرٍ] .
وَأَوَّلُ مُلُوكِ الْمُسْلِمِينَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، [وَهُوَ خَيْرُ مُلُوكِ الْمُسْلِمِينَ] ،
اس میں بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملوک بادشاہ قرار دیا ہے تو یزید کو خلیفہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔
فتح الباری سے اپ نے ابن حجر رحمہ کا قول نقل کیا ہے پڑھ لیں ابن حجر کیا فرماتے ہیں

الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم "تحت رقم ۷۰۰۵"
اس میں حافظ ابن حجر نے واضح کر دیا ہے ان کو خلیفہ کہہ دیا جاتا ہے مگر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لے کر جتنے گزرے ہیں ان میں سے اکثر بادشاہ ہیں تو اگر کسی نے ان کو خلیفہ کہا بھی ہے تو وہ اسی ضمن میں کہا ہے جیسا ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ ان کو صرف کہنے کی حد تک خلیفہ مانا جاتا تھا مگر اصل میں یہ ملوک تھے

یہ اپ کے چند حوالے ہیں اگر موصوف کو اور شوق جاگا کہ یزید کو خلیفہ بنائیں تو اور شارحین کے اقوال پیش خدمت کر دوں گا انشاء اللہ
اگر یہ تیس سالہ والی روایت صحیح تھی تو صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کی اتنی بڑی تعداد بیعت ِ خلافتِ علی ؓ پر متفق کیوں نہ ہوئی ؟ جبکہ امیر یزید ؒ کے معاملے میں یہ بات قطعاً نہیں ہے ان کی بیعت سوائے حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے پوری اُمت بلا جبرو اکراہ کر چکی تھی ۔ لطف تو یہ ہے کہ خود حضرت سفینہؓ بھی علیحدہ رہنے والے لوگوں میں شامل تھے ۔ بس یہ ہے کہانی ”ملوکیت “ کی !

ملوکیت کی ابتداء اگر حضرت امیر معاویہ ؓ کی ذات سے ہوتی ہے تو حضرت حسن ؓ جیسی زیرک اور سیاسی بصیرت رکھنے والی شخصیت بھی زیر ِ بحث آئے گی جنہوں نے ” خلافتِ نبوت “ کو ” ملوکیت“ میں تبدیل کر دیا ۔

میرے محترم !

حضرت معاویہ ؓ اور امیر یزید ؒ مسلمانوں کے متفق ” خلفاء و امیر “ ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ۔

شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ” ازالۃ الخفاء“ میں لکھتے ہیں کہ خلافت کی دو قسمیں ہیں،خلافتِ نبوت اور خلافت راشدہ،وہ فرماتے ہیں کہ خلافتِ نبوت حضرت عثمانؓ پر ختم ھو گئی تھی، اور حضرت امیر معاویہؓ سے جس خلافت کی ابتدا ہوئی وہ خلافتِ راشدہ تھی، جب کہ حضرت علی ؓکا دور فتنہ و فساد کا دور تھا،(جس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ اس فتنے میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ھو گا اور لیٹا ھوا ،بیٹھے شخص سے بہتر ھو گا،جس میں صحابہ کرامؓ کو نصیحت کی گئ تھی کہ وہ اپنی تلواریں ایک دوسرے کی گردنوں پر مارنے کی بجائے درخت کے تنے پر مار کر توڑ دیں، کسی تلوار کے جواب میں اپنی تلوار نہ چلائیں بلکہ شہادت کو چن لیں،فرمایا اگر دوسرے کی تلوار کی چمک تمہیں خوفزدہ کر کے مجبور کرے کہ تو اپنے دفاع میں تلوار چلا،تو اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لینا مگر جواباً تلوار نہ اٹھانا، نبوت کے اس حکم پر فیصد طاق نعل بالنعل عمل خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ نے کیا اور قرآن کی تلاوت کرتے ہوئی اپنی نظریں قرآن سے ہٹاکر اپنی گردن پر پڑنے والی تلوار کی طرف بھی نہیں دیکھا )شاہ صاحب لکھتے ہیں، رہ گیا دور حضرت علیؓ کا تو وہ فتنے اور فساد کا دور تھا، نہ تو حضرت علی ؓکو بلادِ اسلامیہ پر تمکن یا قبضہ حاصل ھوا اور نہ وہ انتظامِ مملکت سنبھال سکے،، اور آخر میں تو ان کی حکومت صرف کوفہ تک محدود رہ گئی تھی۔

ٹھیک یہی بات امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی فرمائی ہے ۔

اہلِ سنت میں سے قاضی عیاض اس بارہ خلفاء والی حدیث کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ بارہ وہ خلفاء جن کے دور میں اسلام کی خوب خدمت خوب ہوئی اور وہ متقی ہوں،( یعنی اسلام علاقائی طور پر بھی پھیلا اور علمی طور پر بھی راسخ ہوا،،یہ دور اموی دور ھے جب اسلام یورپ کی سرحد میں اور افریقہ کے بطن تک جا پہنچا۔

لیکن پھر بھی ہمیں ناصبیت کا طعنہ دیا جاتا ہے ، کیوں ؟ اب آپ ہی بتائیں کیا ایسا نہیں ہوا ؟

اب اگر کوئی حضرت امیر معاویہ ؓ و یزیدؒ کے دورِ حکومت کو ”ملوکیت “ سے تعبیر کرتا ہے تو حضرت علی ؓ و حسن ؓکا دور بھی یقیناً ” ملوکیت“ میں شامل ہے ۔تو گویا صحیح و اصلی ترتیب یہ ہے کہ خلافت کا خاتمہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت پرختم ہوا پھر حضرت علی ؓ سے ” ملوکیت“ کی ابتداء ہوئی ۔

میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ ”جہادِ قسطنطنیہ“ اور ” بارہ خلفاء“ والی روایات کی موجودگی میں حضرت امیر معاویہ ؓ و یزیدؒ کے دور کو ” بارہ خلفاء “ کی فہرست سے خارج کرنا غیر ممکن ہے الا یہ کہ کوئی ” انکارانہ تاویل “ کا کمزور سہارا لے لے۔

میں ”متواترات “کے ضمن میں ” احاد“ کا سہارا لیتا ہوں جبکہ آپ ” متواترات “ کے خلاف ” احاد“ کا سہارا لیتے ہیں ۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
گر یہ تیس سالہ والی روایت صحیح تھی تو صحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کی اتنی بڑی تعداد بیعت ِ خلافتِ علی ؓ پر متفق کیوں نہ ہوئی ؟ جبکہ امیر یزید ؒ کے معاملے میں یہ بات قطعاً نہیں ہے ان کی بیعت سوائے حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے پوری اُمت بلا جبرو اکراہ کر چکی تھی ۔ لطف تو یہ ہے کہ خود حضرت سفینہؓ بھی علیحدہ رہنے والے لوگوں میں شامل تھے ۔ بس یہ ہے کہانی ”ملوکیت “ کی !
محترم،
کون سی بڑی تعداد تھی جو متفق نہ ہوئی طلحہ و الزبیر رضی اللہ عھما دونوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا اور عین جنگ سے لڑے بغیر واپس ہو گئے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ بھی اپنے فیصلے پر نادم رہی معاویہ رضی اللہ عنہ بھی علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قائل تھے صرف قصاص عثمان لینا چاہتے تھے تو بچا کون؟
اور رہی بات یزید کی تو ان کی بیعت نہ کرنے والے اور اس سے اختلاف کرنے والے بڑے بڑے صحابی رسول تھے چند نام پیش ہیں
ابن الزبیر
حسین بن علی
ابن عباس
عمرو بن حزم
اسیر
جابر بن عبداللہ
عمرو بن العاص
سعد بن ابی وقاص
رضی اللہ عنھم
ان میں یزید کی بیعت سے اختلاف رکھنے والے بھی ہیں اور کچھ سے بیعت کرنا بھی ثابت نہیں ہے
باقی رہ گئے تابعین اور عام لوگ تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ خاموش تھے مگر دل سے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اس بیعت کے خلاف تھے جس کا حوالہ میں ابن کثیر کے حوالے سے دے چکا ہوں کہ جب عروۃ بن الزبیر جیسے تابعی خاموش تھے تو باقی لوگ کیا کہنے کی ہمت رکھتے، یہ ہے بیعت یزید کی حقیقت

دوسری بات اپ نے شاہ ولی اللہ اور امام ابن تیمیہ کے حوالے سے لکھی ہے تو آں جناب بھول گئے امام ابن تیمیہ نے ہی یزید کی حکومت کو ملوکیت کہا ہے اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر حدیث سے نص صریح پیش کی ہے دوبارہ پڑھ لیں

عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
وَإِنْ أَرَادَ بِاعْتِقَادِهِمْ إِمَامَةَ يَزِيدَ، أَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ كَانَ مَلِكَ جُمْهُورِ الْمُسْلِمِينَ وَخَلِيفَتَهُمْ فِي زَمَانِهِ صَاحِبَ السَّيْفِ، كَمَا كَانَ أَمْثَالُهُ مِنْ خُلَفَاءِ بَنِي أُمَيَّةَ وَبَنِي الْعَبَّاسِ، فَهَذَا أَمْرٌ مَعْلُومٌ لِكُلِّ أَحَدٍ، وَمَنْ نَازَعَ فِي هَذَا كَانَ مُكَابِرًا

اس میں امام ابن تیمیہ نے یزید کو صاحب سیف تلوار کے زور پر آنے والا کہا ہے اور علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء راشدین میں نقل کیا ہے" عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ"
اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ بات کوئی اختلاف والی نہیں ہے یہ علماء اہلسنت کے یہاں معروف بات ہے اور اس میں اختلاف ڈالنے حق سے انحراف کرنے والا ہے۔
آں جناب فرما رہے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی ملوکیت تھی ماشاء اللہ دیکھیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کیا فرما رہے ہیں

وَوَفَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ إحْدَى عَشْرَةَ مِنْ هِجْرَتِهِ وَإِلَى عَامِ ثَلَاثِينَ سَنَةَ كَانَ إصْلَاحُ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السَّيِّدِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ بِنُزُولِهِ عَنْ الْأَمْرِ عَامَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ فِي شَهْرِ جُمَادَى الْأُولَى وَسُمِّيَ " عَامَ الْجَمَاعَةِ " لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى " مُعَاوِيَةَ " وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ.

پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا ہو گا کہ اپ کے اور ہمارے شیخ الاسلام علی رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ کو تیس سال خلافت والی روایت میں شامل کر رہے ہیں اور حساب لگا کر بتا رہے ہیں کہ جب حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی صلح ہوئی اس کے بعد ملوکیت شروع ہو گئی

اب ذرا امام ذہبی کا قول بھی پڑھ لیں
أَنَا أَوَّلُ المُلُوْكِ.
قُلْتُ: نَعَمْ.
فَقَدْ رَوَى سَفِيْنَةُ: عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: (الخِلاَفَةُ بَعْدِي ثَلاَثُوْنَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكاً (5)) .
فَانْقَضَتْ خِلاَفَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاَثِيْنَ عَاما"سیر اعلام النبلاءجلد ۳ ص ۱۵۷

امام ذہبی معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول"أَنَا أَوَّلُ المُلُوْكِ." اگرچہ ضعیف ہے" فرما رہے ہیں میں "الذہبی کہتا ہوں" یہ بات صحیح ہے کیونکہ حدیث ہے کہ تیس سال خلافت ہوگی پھر بادشاہت ہے۔

کچھ روشنی ہوئی
تو جن آئمہ کےحوالے آپ دے رہے ہیں وہ تو علی رضی اللہ عنہ کےبعد اکثرکو ملوک مانتے ہیں اس لئے میں نے پہلے بھی نقل کیا تھا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو جو تاویل کی ہے وہ صواب ہے کہ ان کو صرف خلیفہ کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ اقتدار میں تھے مگر اصل میں ملوک ہیں اورکسی نے بھی ان کو خلیفہ راشد نہیں کہا ہے
اور اپ کی آخری دو باتیں کہ جب ناصبیوں جیسے افکار رکھیں گے تو ان کے سحر زدہ ہی کہا جائے گا جبکہ اہلسنت کے اکابرین تو کچھ اورہی فرما رہے ہیں اور اپ نے غلط کہا احاد کا سہارا اپ لیتے ہیں کیونکہ اوپر اکابرین کے اقوال موجود ہے جو یزید کو خلیفہ نہیں ملوک مانتے ہیں اور اپ واحد ہے جو اکابرین کے خلاف جا کر اس کو خلیفہ راشد فرمارہے ہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم،
کون سی بڑی تعداد تھی جو متفق نہ ہوئی طلحہ و الزبیر رضی اللہ عھما دونوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا اور عین جنگ سے لڑے بغیر واپس ہو گئے اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ بھی اپنے فیصلے پر نادم رہی معاویہ رضی اللہ عنہ بھی علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قائل تھے صرف قصاص عثمان لینا چاہتے تھے تو بچا کون؟
اور رہی بات یزید کی تو ان کی بیعت نہ کرنے والے اور اس سے اختلاف کرنے والے بڑے بڑے صحابی رسول تھے چند نام پیش ہیں
ابن الزبیر
حسین بن علی
ابن عباس
عمرو بن حزم
اسیر
جابر بن عبداللہ
عمرو بن العاص
سعد بن ابی وقاص
رضی اللہ عنھم
ان میں یزید کی بیعت سے اختلاف رکھنے والے بھی ہیں اور کچھ سے بیعت کرنا بھی ثابت نہیں ہے
باقی رہ گئے تابعین اور عام لوگ تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ خاموش تھے مگر دل سے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اس بیعت کے خلاف تھے جس کا حوالہ میں ابن کثیر کے حوالے سے دے چکا ہوں کہ جب عروۃ بن الزبیر جیسے تابعی خاموش تھے تو باقی لوگ کیا کہنے کی ہمت رکھتے، یہ ہے بیعت یزید کی حقیقت

دوسری بات اپ نے شاہ ولی اللہ اور امام ابن تیمیہ کے حوالے سے لکھی ہے تو آں جناب بھول گئے امام ابن تیمیہ نے ہی یزید کی حکومت کو ملوکیت کہا ہے اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر حدیث سے نص صریح پیش کی ہے دوبارہ پڑھ لیں

عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
وَإِنْ أَرَادَ بِاعْتِقَادِهِمْ إِمَامَةَ يَزِيدَ، أَنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ كَانَ مَلِكَ جُمْهُورِ الْمُسْلِمِينَ وَخَلِيفَتَهُمْ فِي زَمَانِهِ صَاحِبَ السَّيْفِ، كَمَا كَانَ أَمْثَالُهُ مِنْ خُلَفَاءِ بَنِي أُمَيَّةَ وَبَنِي الْعَبَّاسِ، فَهَذَا أَمْرٌ مَعْلُومٌ لِكُلِّ أَحَدٍ، وَمَنْ نَازَعَ فِي هَذَا كَانَ مُكَابِرًا

اس میں امام ابن تیمیہ نے یزید کو صاحب سیف تلوار کے زور پر آنے والا کہا ہے اور علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء راشدین میں نقل کیا ہے" عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ"
اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ بات کوئی اختلاف والی نہیں ہے یہ علماء اہلسنت کے یہاں معروف بات ہے اور اس میں اختلاف ڈالنے حق سے انحراف کرنے والا ہے۔
آں جناب فرما رہے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی ملوکیت تھی ماشاء اللہ دیکھیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کیا فرما رہے ہیں

وَوَفَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ إحْدَى عَشْرَةَ مِنْ هِجْرَتِهِ وَإِلَى عَامِ ثَلَاثِينَ سَنَةَ كَانَ إصْلَاحُ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السَّيِّدِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ بِنُزُولِهِ عَنْ الْأَمْرِ عَامَ إحْدَى وَأَرْبَعِينَ فِي شَهْرِ جُمَادَى الْأُولَى وَسُمِّيَ " عَامَ الْجَمَاعَةِ " لِاجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى " مُعَاوِيَةَ " وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ.

پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا ہو گا کہ اپ کے اور ہمارے شیخ الاسلام علی رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ کو تیس سال خلافت والی روایت میں شامل کر رہے ہیں اور حساب لگا کر بتا رہے ہیں کہ جب حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی صلح ہوئی اس کے بعد ملوکیت شروع ہو گئی

اب ذرا امام ذہبی کا قول بھی پڑھ لیں
أَنَا أَوَّلُ المُلُوْكِ.
قُلْتُ: نَعَمْ.
فَقَدْ رَوَى سَفِيْنَةُ: عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: (الخِلاَفَةُ بَعْدِي ثَلاَثُوْنَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكاً (5)) .
فَانْقَضَتْ خِلاَفَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاَثِيْنَ عَاما"سیر اعلام النبلاءجلد ۳ ص ۱۵۷

امام ذہبی معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول"أَنَا أَوَّلُ المُلُوْكِ." اگرچہ ضعیف ہے" فرما رہے ہیں میں "الذہبی کہتا ہوں" یہ بات صحیح ہے کیونکہ حدیث ہے کہ تیس سال خلافت ہوگی پھر بادشاہت ہے۔

کچھ روشنی ہوئی
تو جن آئمہ کےحوالے آپ دے رہے ہیں وہ تو علی رضی اللہ عنہ کےبعد اکثرکو ملوک مانتے ہیں اس لئے میں نے پہلے بھی نقل کیا تھا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو جو تاویل کی ہے وہ صواب ہے کہ ان کو صرف خلیفہ کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ اقتدار میں تھے مگر اصل میں ملوک ہیں اورکسی نے بھی ان کو خلیفہ راشد نہیں کہا ہے
اور اپ کی آخری دو باتیں کہ جب ناصبیوں جیسے افکار رکھیں گے تو ان کے سحر زدہ ہی کہا جائے گا جبکہ اہلسنت کے اکابرین تو کچھ اورہی فرما رہے ہیں اور اپ نے غلط کہا احاد کا سہارا اپ لیتے ہیں کیونکہ اوپر اکابرین کے اقوال موجود ہے جو یزید کو خلیفہ نہیں ملوک مانتے ہیں اور اپ واحد ہے جو اکابرین کے خلاف جا کر اس کو خلیفہ راشد فرمارہے ہیں۔
محترمی !
صحابہ کرام ؓ کی اکثریت نے، جو مدینہ میں موجود تھی حضرت علی ؓ کی بیعت کرنے سے گریز کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:
عبداللہ بن عمرؓ،سعد بن ابی وقاصؓ،اسامہ بن زیدؓ،حسان بن ثابتؓ،کعب بن مالکؓ،ابو سعید خدری ؓ،محمد بن مسلمہؓ،نعمان بن بشیرؓ،زید بن ثابتؓ،رافع بن خدیجؓ،کعب بن عجرہؓ،عبداللہ بن سلامؓ،قدامہ بن مظعونؓ ، مغیرہ بن شعبہؓ وغیرہم شامل ہیں۔(طبری و محاضرات الحضری)
اسامہ بن زید ؓ نے بیعت نہ کرنے کا برملا اظہار بھی کیا تھا جس پر مالک اشتر حملہ آور ہو گیا لیکن سعد بن ابی وقاصؓ نے بچالیا۔
یہی بات امام ابن تیمیہ ؒ بھی فرماتے ہیں:-
پس مسلمانوں کی اکثریت یا اس سے کچھ کم یا زیادہ نے حضرت علی ؓ بیعت نہیں کی، نہ سعد بن ابی وقاصؓ نے ، نہ عبداللہ بن عمرؓ نے اور نہ دوسرے صحابہ کرام ؓ نے۔( منہاج السنۃ النبویہ، جلد 2 ، صفحہ 230)
مزید فرماتے ہیں:-
تینوںخلفاء ( حضرات ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) نے پوری اُمت کو اپنی خلافت پر جمع کر لیا تھا انہوں نے کفار سے جہاد کیا اور شہروں کو اپنے اقتدار کے تحت لائے لیکن حضرت علی ؓ کی خلافت میں نہ کفار سے جہاد ہوا اور نہ شہر فتح ہوئے اس دور میں تلواریں فقط اہلِ قبلہ پر ہی چلتی رہیں۔(منہاج السنۃ النبویہ، جلد 1، صفحہ 145)

شاہ ولی اللہ ؒ مزید فرماتے ہیں:-
قصاص لینا حق تھا اور حضرت علی ؓ اس پر قادر تھے مگر انہوں نے قصاص نہ لیا بلکہ اس کے مانع ہوئے ،حضرت علی ؓ نے بھی خطائے اجتہادی سے کام لیا۔( ازالۃ الخفاء)
شاہ ولی اللہ ؒ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے :-
حضرت علیؓ کی لڑائیاں تو خلافت کے حصول کے لیے تھیں نہ باغراضِ اسلام۔( ازالۃ الخفاء)

دوسرا یہ کہ حضرت عقیلؓ( حضرت علیؓ کے بڑے بھائی) سمجھ چکے تھے کہ ان کے بھائی کو سبائی گروہ نے گھیر لیا ہے اور وہ اُمت کا بیڑہ غرق کیے بغیر نہیں بیٹھے گا اسی وجہ سے وہ حضرت علیؓ کو چھوڑ کر حضرت معاویہ ؓ کے پاس چلے گئے تھے جو حضرت عثمان ؓ کے طالب ِ قصاص تھے۔(ملاحظہ ہو عمدۃ الطالب، صفحہ 15)

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تیس سالہ والی روایت اور ان پر شارحین کےتبصروں میں کتنا وزن ہے۔
امیر یزید ؒ کی بیعت کرنے والوں کی فہرست طلب کرنا سوائے وقت کے ضیاع اور ضد کے کچھ نہیں ۔ مزیدیہ کہ جب آپ امیر یزید ؒ کی بیعت کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو آپ کو بایعین کی فہرست دینے میں بھی یقیناً کوئی فائدہ نہیں۔
بارہ خلفاء والی روایت کے تناظر میں بھی اس سارے منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
تینوںخلفاء ( حضرات ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ) نے پوری اُمت کو اپنی خلافت پر جمع کر لیا تھا انہوں نے کفار سے جہاد کیا اور شہروں کو اپنے اقتدار کے تحت لائے لیکن حضرت علی ؓ کی خلافت میں نہ کفار سے جہاد ہوا اور نہ شہر فتح ہوئے اس دور میں تلواریں فقط اہلِ قبلہ پر ہی چلتی رہیں۔(منہاج السنۃ النبویہ، جلد 1، صفحہ 145)
محترم،
اس کے بعد والی عبارت آپ نے نقل نہیں کی ہے یہ لکھنے کے باوجود امام ابن تیمیہ نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد ہی کہا ہے اور یزید کو ملوک شاید اپ یہ نہ مانیں اور اہل قبلہ سے علی رضی اللہ عنہ کی جتنی جنگیں ہوئی ان میں اہل علم کا متفقہ فیصلہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر سب سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اس لئے اپ کے یہ قیاسات نہ علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء راشدین کی فہرست سے الگ کر سکتے ہیں اور نہ یزید کو خلیفہ راشد کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں اہل سنت اس پر متفق ہیں اور اسی کے قائل ہے کہ یزید کوئی خلیفہ راشد نہیں تھا اور جو اس کو خلیفہ سمجھتا ہے اس کے بارے میں آپ کے اور ہمارے شیخ الاسلام کیا فرماتے ہیں

yazeed ko khalifa kehna.png


جامع المسائل امام ابن تیمیہ جلد 5 ص147

امام ابن تیمیہ نے واضح لکھا ہے کہ یزید کو خلیفہ سمجھنے والا گمراہ ہے تو کیا خیال ہے

دوسرا یہ کہ حضرت عقیلؓ( حضرت علیؓ کے بڑے بھائی) سمجھ چکے تھے کہ ان کے بھائی کو سبائی گروہ نے گھیر لیا ہے اور وہ اُمت کا بیڑہ غرق کیے بغیر نہیں بیٹھے گا اسی وجہ سے وہ حضرت علیؓ کو چھوڑ کر حضرت معاویہ ؓ کے پاس چلے گئے تھے جو حضرت عثمان ؓ کے طالب ِ قصاص تھے۔(ملاحظہ ہو عمدۃ الطالب، صفحہ 15)

اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ ناصبی محمود علی عباسی کی کتب چھوڑ کر اہل سنت والجماعۃ کا موقف جاننے کی کوشش کریں اہل علم نے اس بارے میں اختلاف نقل کیا ہے کہ عقیل رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے دوسری بات کہ وہ راضیوں کی وجہ سے ان سے ملے یہ بھی غلط ہےانہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی جانب ہونا اپنے دین کے لئے فائدہ مند قرار دیا تھا چنانچہ ابن عبدالبر نے الاستیعا ب میں نقل کیا ہے
اختلفوا عَلَيْهِ أحاديث مزورة، وَكَانَ مما أعانهم على ذَلِكَ مغاضبته لأخيه علي، وخروجه إِلَى مُعَاوِيَة، وإقامته معه. ويزعمون أن مُعَاوِيَة قَالَ يوما بحضرته: هَذَا لولا علمه بأني خير لَهُ من أخيه لما أقام عندنا وتركه. فقال عُقَيْل: أخي خير لي فِي ديني، وأنت خير لي فِي دنياي، وقد آثرت دنياي، وأسأل الله تعالى خاتمة الخير.(الاستعاب معرفۃ الاصحاب جلد 3 ص 1073 ترجمہ عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)
اس سے واضح ہےکہ اہل سنت اس بات پر متفق نہیں ہے کہ عقیل رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ صفین میں رافضیوں کی وجہ سے شامل ہوئے تھے
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تیس سالہ والی روایت اور ان پر شارحین کےتبصروں میں کتنا وزن ہے۔

امیر یزید ؒ کی بیعت کرنے والوں کی فہرست طلب کرنا سوائے وقت کے ضیاع اور ضد کے کچھ نہیں ۔ مزیدیہ کہ جب آپ امیر یزید ؒ کی بیعت کو ہی تسلیم نہیں کرتے تو آپ کو بایعین کی فہرست دینے میں بھی یقیناً کوئی فائدہ نہیں۔
بارہ خلفاء والی روایت کے تناظر میں بھی اس سارے منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔
یعنی آں جناب کا مقصود یہ ہے کہ اہل سنت کے اکابرین "امام ابن تیمیہ،ابن حجر، امام ابن کثیر، امام ذہبی وغیرہ کی بات میں اس حوالے سے وزن نہیں ہے اور اپ کی بات میں اتنا وزن ہےکہ میں ان کی بات رد کرکے آپ کی بات مان لوں ان تمام آئمہ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم"تیس سال خلافت" والی حدیث کے نص صریح سے پیش کیا ہے کہ یزید ملوک ہے اور میں ان کی اس صریح دلیل کو چھوڑ کر موصوف کی بے پر کی مان لو ماشاء اللہ
قربان جائیے اس ادا کے
اور میں نے اپ سے کوئی فہرست طلب نہیں کی ہے بلکہ میں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نام بتائے ہیں جو یزید کی بیعت کے خلاف تھے اور ان میں اکثر سے یزید بیعت کرنا ثابت ہی نہیں ہے
ان تمام کا خاصہ یہ ہے کہ یزید خلیفہ نہیں ملوک ہے یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جمیع اہل سنت کے اقوال سے ثابت ہے اس کا انکار فقط گمراہی ہے جیسا امام ابن تیمیہ نے بھی نقل کیا ہے اور ناصبیت ہےاس لئے اپ خود فیصلہ کر لیں اپ اہل سنت میں شمار ہونا چاہتے ہیں یا؟؟؟؟
اہل سنت میں شمار ہونے کے لئے یزید کو ملوک صاحب سیف یعنی غاصب ماننا پڑے گا جو اپ کے لئے ناممکنات میں سے ہے۔
 
Top