• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین خاموش معلم اور بچہ خاموش شاگرد

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
السلام علیکم ورحمہِ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

بچہ ہر وہ عادت اپنائے گا جو والدین میں موجود ہوگی، یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے۔

عزیز دوستو!۔۔ آج نسل نو کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جس میں ٹیکنالوجی پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے اور مزید ترقی کررہی ہے اگر غور کریں تو آج کے نوجوانوں کے سامنے بے شمار راستے ہیں جن کو وہ بطور کیرئیر اپنا سکتے ہیں بے شمار تعلیمی ادارے ہیں جو گھر بیٹھے پڑھنے پڑھانے کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔۔۔

لیکن کیا وہ ہے کے آج کا بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود دین سے اتنا بےبہرہ ہے جتنا وہ جدید اشیاء سے مانوس ہے۔۔۔ کمپیوٹر نے الیکڑانک میڈیا نے اسے جدیدیت سے تو روشناس کرایا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کے نشے کی حد تک عادی بنادیا ہے جس وجہ سے روحانیت تڑپ رہی ہے اور اس روحانی تسکین کا خانہ بالکل خالی ہے۔۔۔

یہاں پر یہ جاننا بےحد ضروری ہے۔۔۔ کے کیا اس مسئلے میں نوجوانوں نے اپنا کردار ادا کیا۔۔۔ کیا کبھی اس طرف توجہ کی کے آج ہم روح کے مقابلے میں جسمانی ضرورت کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟؟؟۔۔۔

میں سمجھتا ہوں کے اس تمام اُمور میں اہم اور بین کردار والدین کا ہے۔۔۔ بچے کی تربیت کا اہم دور اسکی زندگی کے ابتدائی تین سال ہیں جن میں اس بچے کی پچھتر فیصد تربیت ہوجاتی ہے اور ظاہر ہے وہ ماں کی گود میں ہوتی ہے باقی پچیس فیصد تربیت اسکولوں، کالجوں میں جاکر مکمل ہوتی ہے۔۔۔ لہذا ابتدائی تربیت بچے کی شخصیت کا اہم جزہے اس موقع پر والدین کی ذمہ داری دوچند ہوجاتی ہے جب بچہ ان سے ہر چیز خاموشی سے سیکھتا چلا جاتا ہے اگر والدین زبان سے نہ بھی کہیں پھر وہ خاموش معلم ہیں اور بچہ خاموش شاگرد وہ ہر وہ عادت اپنائے گا جو والدین کے اندر موجود ہوگی اسلئے یہ کہنا بیجانہ ہوگا کے بچے کی تربیت سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے۔۔۔

ماں کی گود میں بچے کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے باپ اسکی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ اسکے لئے رزق حلال کمانے کا بھی ذمہ دار ہے والدین کی تربیت وتزکیہ، قربانی عائلی زندگی کی اولین ترجیح ہے گھر کا ماحول، محبت واخوت، تعلیم وتربیت دینی مزاج، خاندان کا باہم مربوط ہونا سب بچے کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں مگر افسوس آج والدین نے اپنی ذمہ داریاں صرف اتنی ہی سمجھ لی ہے کے اولاد کو اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلا دی جائے اچھا لباس، کمپیوٹر، گاڑی دیدی جائے تربیت کا فرض نہ والدین نے ادا کیا نہ معلمین نے۔۔۔

بھاری فیس کے عوض اسکولوں نے بچوں کو اپنی میراث سمجھ کر جیسے چاہا ویسی شکل میں ڈھال دیا نتیجہ یہ ہوا کے بچہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق، دین سے بیزار اور مغربیت کا دلدادہ بن گیا۔۔۔

آج ہم اگر اپنے معاشرے پر سرسری نگاہ دوڑائیں اور حقائق جاننے کی کوشش کریں تو یہ اس تلخ حقیقت جان کا بڑا افسوس ہوگا کے غیرمسلم ثقافت کے بارے میں بچوں کی معلومات بےحد زیادہ ہیں اور مسلم ثقافت، تاریخ کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں یہی وجہ ہے کے آج کے مسلمان انتشار، بے سکونی، کا شکار ہیں کے انکی زندگی میں اسلام کا دخل صرف نام کی حد تک رہ گیا ہے آج ضرورت ایسے والدین کی ہے جو اپنی نسلوں کی تربیت اسلامی خطوط پر کرسکیں اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب والدین تعلیم یافتہ ہوں۔۔۔ اب بھی وقت ہے ہم اپنی اس کمزوری کو دور کریں والدین اپنی ذمہ داریوں کی محسوس کریں جو اللہ رب العزت نے اُن کے سپرد کیں ہیں۔۔۔ کسی مؤرخ نے کہا تھا کے تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دونگا۔۔۔

آج اُمت مسلمہ کو بھی اچھی ماؤں کی ضرورت ہے۔۔۔ جن کی گود میں اُمت کا مستقبل پرورش پائے انہیں خود بہت اعلٰی اسلامی اخلاق سے مزین ہونا چاہئے اسی لئے اسلام نے عورت پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں لگائی اسکی کل وقتی ذمہ داری گھر اور بچے ہیں اسکا کام نسلوں کی تربیت ہے اس لئے ضروری ہے کے گھروں کے اندر آداب زندگی سکھانے کی نشت ہو الیکڑانک میڈیا کو کنٹرول کیا جائے اصلاحی اور ادبی لٹریچر گھر میں رکھا جائے بچوں کو وقت دیا جائے انکی بات سنی جائے تنبیہ، سزا اور حوصلہ افزائی موقع کی مناسبت یہ سب کل وقتی کام ہیں ساتھ ساتھ مائیں اپنی تربیت کے ذرائع استعمال کریں بچوں کے اسکول جانے کے بعد سونے کی بجائے قرآن پڑھیں احادیث مبارکہ کا مطالعہ کریں یعنی مطالعے کو اپنی عادت بنائیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، صحابیات کا مطالعہ کریں اور وقتا فوقتنا اپنے بچوں جن کو ان کی سیرت پڑھائیں۔۔۔ تاکہ سچ مچ اُمت مسلمہ کو محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، اور عمر بن عبدالعزیز جیسے افراد میسر آسکیں۔۔۔

بچوں کی تربیت میں جہاں والدین کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے وہیں استاتذہ کی ذمہ داری بھی انتہائی اہم ہے اساتذہ صرف بچوں کی تعلیمی اُمور میں انکی رہنمائی نہیں کرتے بلکہ انکی اخلاقی، روحانی، اور دینی تربیت کے بھی ذمہ دار ہیں بسا اوقات اساتذہ کی صحیح سمت میں رہنمائی سے بچوں کی زندگی بدل جاتی ہے نیز اس ضمن میں علماء ومشائخ کی بھی ذمہ داری ہے کے افراد کی صحیح سمت میں فکری واخلاقی تربیت کی جائے۔۔۔ آئندہ نسلوں کی صحیح رہنمائی وتربیت موجودہ حالات کے مطابق ان کی ذہنی الجھنوں کو سلجھانا اور ان کو دینی تعلیمات کی طرف مختلف جدید طریقوں کے ذریعے اور ان کی ذہنی استعداد اور شوق کے مطابق متوجہ کرنا مسلم معاشرے کے ہر فرد کی اہم ترجیح ہونی چاہئے تب کہیں جاکر ہم اُس منہج کو پاسکیں گے جس کے ہم وارث ہیں۔۔۔

وقت کی ضرورت ہے کے والدین اور اساتذہ خصوصی طور پر اور باقی افراد عمومی طور پر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں تاکہ ہماری نئی نسل اپنی منزل کا صحیح ادراک کرسکے اور اُمت مسلمہ کا مستقبل روشن ہوسکے۔۔۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
 
Top