• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین کا اولاد کے لئے بددعا دینا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اولاد اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے ، اس نعمت پہ اللہ تعالی کا شکر بجا لانا چاہئے ۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ والدین اولاد کے ظلم سے پریشان ہوکر انہیں بددعا دے دیتے ہیں ۔ اور کبھی کبھی والدین کی طرف سے خطا ہوتی ہے کہ بلاسبب بھی یا معمولی باتوں پہ اولاد کے لئے بددعا کرتے ہیں ۔

اسلام نے ہمیں اپنے آپ کے لئے ، اولاد کے لئے اور مال و دولت کے لئے بددعا کرنے سے منع کیا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :

لا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ ، وَلا تَدْعُوا عَلَى أَوْلادِكُمْ ، وَلا تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ ، لا تُوَافِقُوا مِنْ اللَّهِ سَاعَةً يُسْأَلُ فِيهَا عَطَاءٌ فَيَسْتَجِيبُ لَكُمْ ۔(رواه مسلم ح: 3014)

ترجمہ : ”اپنے آپ کو بد دعا نہ دو، اپنی اولاد کو بد دعا نہ دو، اور اپنے مالوں کو بد دعا نہ دو، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کی طرف سے عطا و قبولیت کی گھڑی ہو (ادھر تم کوئی بد دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اسے) تمہارے لیے قبول کر لے۔“

اس مذکوہ حدیث اور دیگر نصوص سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کی دعا بھی قبول ہوتی ہے اور ان کی بددعا بھی قبول کرلی جاتی ہے ۔ اس لئے جہاں اولاد کو ماں باپ کی بددعا سے بچنا چاہئے وہیں والدین کو بھی بددعا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔

ایک حدیث میں نبی ﷺ فرماتے ہیں :

ثَلاثُ دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ لا شَكَّ فِيهِنَّ : دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ ۔(رواه ابن ماجه ح:3862)

ترجمہ: تین لوگوں کی دعا کی قبولیت میں شک نہیں ہے ، ایک مظلوم کی دعا، دوسرے مسافر کی دعا، اور تیسرے والد کی اپنی اولاد کے لئے دعا۔

٭اس حدیث کو علامہ البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ میں حسن قرار دیا ہے ۔

٭امام احمد کے الفاظ ہیں: وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ یعنی والد کی اولاد کے لئے بددعا کرنا۔

لیکن اللہ کی رحمت دیکھیئے کہ وہ غضہ اور تنگی کی حالت میں کی گئی بددعا کو قبول نہیں کرتا۔
چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (سورہ یونس:11)
ترجمہ: اور اگر اللہ لوگوں پر جلدی سے نقصان واقع کردیا کرتا جس طرح وہ فائدہ کے لئے جلدی مچاتے ہیں تو ان کا وعدہ کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا۔ سوہم ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے ان کے حال پر چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔

اس آیت کے تحت تفسیر احسن البیان میں مذکور ہے کہ اسی طرح جب انسان غصے یا تنگی میں ہوتا ہے تو اپنے لئے اور اپنی اولاد وغیرہ کے لئے بددعائیں کرتا ہے جنہیں ہم اس لئے نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ زبان سے تو ہلاکت مانگ رہا ہے مگر اس کے دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے ۔ لیکن اگر ہم انسانوں کی بددعاؤں کے مطابق انہیں فورا ہلاکت سے دوچار کرنا شروع کردیں تو پھر جلد ہی یہ لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہوجایا کریں اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ "تم اپنے لئے ،اپنی اولاد کے لئے اور اپنے مال وکاروبار کے لئے بددعائیں مت کیا کروکہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعائیں اسی گھڑی کو پالیں جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں ، پس وہ تمہاری بددعائیں قبول فرمالے ۔(سنن ابی داؤد)
 
Top