• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
والدین کے ساتھ حسن سلوک - اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہما قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ: (( أَلصَّلَاۃُ عَلیٰ وَقْتِھَا۔)) قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: (( أَلْجِھَادُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ )) قَالَ: حَدَّثَنِیْ بِھِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَوِاسْتَزَدْتُہٗ لَزَادَنِیْ۔
أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: البر والصلۃ، رقم: ۵۹۷۰۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
’’کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نماز وقت پر ادا کرنا۔ پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ ‘‘
شریعت اسلامیہ میں نماز کو بڑا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کا درجہ رکھا گیا ہے کیونکہ دونوں اعمال کے درمیان لفظ (ثم) آیا ہے جو ترتیب اور وقفہ پر دلالت کرتا ہے۔
اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں:
{وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْٓا إِلَّآ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًاط إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا o} [الاسرا:۲۳۔ ۲۴]
’’ اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا پہلو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا ’’اے میرے رب! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میری بچپن میں پرورش کی ہے۔ ‘‘
قَضٰی بمعنی حکم دیا، لازم قرار دیا اور واجب کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے ساتھ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کو ملایا ہے جس سے اس کا مقام اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے ہی اپنے شکر کے ساتھ والدین کا شکر بھی متصل بیان کیا۔
{أَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَطإِلَیَّ الْمَصِیْرُ o} [لقمان:۱۴]
’’کہ میرا بھی اور اپنے والدین کا بھی شکریہ ادا کرو، میری طرف ہی لوٹنا ہے۔ ‘‘
اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی وجہ سے اس کا شکریہ ادا کرنا اور والدین کا تربیت کی وجہ سے شکریہ ادا کرنا۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جس نے پانچوں نمازیں ادا کیں اس نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور جس نے نمازوں کے بعد اپنے والدین کے لیے دعا کی اس نے والدین کا شکریہ ادا کیا۔
علماء فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم پکڑا جائے اور اس کے بعد اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ حقدار والدین ہیں۔
ان کے ساتھ نیکی اور احسان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان انہیں ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے کیونکہ یہ بالاتفاق کبیرہ گناہ ہے
، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَّلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ۔ )) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَکَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ: (( یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہَ، وَیَسُبُّ أُمَّہٗ فَیَسُبُّ أُمَّہٗ۔ ))
خرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: لا یسب الرجل والدیہ، رقم: ۵۹۷۳۔

’’کہ کبیرہ گناہ میں سے بڑا گناہ اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ سوال ہوا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آدمی کیسے اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ جواب ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ (بدلہ) میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو (بدلہ) میں وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ ‘‘
ان کے احسان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب جہاد فرض عین نہ ہو تو وہ ان کی اجازت کے بغیر جہاد نہ کرے کیونکہ ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم : أُجَاھِدُ؟ قَالَ: (( لَکَ أَبَوَانِ؟ )) قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: (( فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: لا یجاھد إلا بإذن الأبوین، رقم: ۵۹۷۲۔

’’ کیا میں جہاد کے لیے نکلوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے جواب دیا: ہاں جی! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں جہاد کر۔ (یعنی ان کی خدمت کر) ‘‘
جب دونوں محتاج ہوں تو ان پر خرچ کرنا یہ بھی ان کے ساتھ نیکی ہے۔
ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا والد چاہتا ہے کہ میرا مال ختم کردے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ:
(( أَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیْکَ۔ ))
صحیح سنن ابن ماجہ، رقم: ۱۸۵۵۔

’’ تو اور تیرا مال، تیرے والد کا ہی ہے۔ ‘‘
والدین کی موت کے بعد ان کے ساتھ اس طرح نیکی ہوسکتی ہے کہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے، ان کے لیے مغفرت مانگی جائے، ان کے وعدوں کو پورا کیا جائے، ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کی جائے، نیز اس رشتہ داری کو بھی جوڑا جائے جس کا تعلق ان کی وجہ سے ہے۔
ان کی نیکی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ نرم اور احترام والی اور ہر عیب سے صاف اور پاک بات کرے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ۔ )) قِیْلَ: مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ: ((مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: رغم من ادرک ابویہ او احدھما عند الکبر، فلم یدخل الجنۃ، رقم: ۶۵۱۱۔

’’ اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو۔ سوال ہوا؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوسکا۔ ‘‘
چنانچہ نیک بخت وہ انسان ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو موقعہ غنیمت سمجھتا ہے کہ کہیں ان کی وفات کی وجہ سے اس نیکی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے اور شرمندگی اٹھاتا رہے۔ ان کے ساتھ برائی کرنے والا بدبخت انسان ہے بالخصوص وہ کہ جسے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم پہنچ چکا ہے۔
والدین سے نرمی کے ساتھ بات کرنا اور درشتی کا مظاہرہ نہ کرنا یہ بھی ان کے ساتھ حسن سلوک میں شامل ہے۔ مثلاً ان کو پکارتے وقت نام اور کنیت کا استعمال نہ کرے بلکہ ابو جی! امی جان! کہہ کر پکارے۔
ان کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کرے اور ان کے سامنے ایسا بن جائے جیسا غلام آقاؤں کے سامنے ہوتا ہے کیونکہ جب یہ انسان بچہ، جاہل اور محتاج تھا تو یہ دونوں اپنے آپ پر اس کو ترجیح دیتے رہے۔ جب یہ تکلیف محسوس کرتا تو رات آنکھوں میں گزار دیتے، جب بھوک محسوس ہوتی تو اسے کھانا کھلاتے مگر خود بھوکے رہتے اور اسے کپڑے بھی اچھے اچھے لے کر دیتے رہے۔ چنانچہ اس کی طرف سے والدین کے لیے یہی جزا ہونی چاہیے کہ جب بڑھاپے کی اس حد کو پہنچ جائیں کہ جس میں انسان بچپن کی حالت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرے جیسے وہ کرتے رہے اور انہیں دوسروں پر مقدم رکھے۔
انسان کو والدین کی شفقت یاد رکھنی چاہیے، تربیت میں ان کی تھکاوٹ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اچھا برتاؤ اور سلوک کرسکے۔
ان باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ اگر والدین شرک اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو انہیں بھی ماننا اور عمل کرنا ضروری ہے بلکہ اس طرح کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا ہے:
{وَإِنْ جَاھَدٰکَ عَلیٰٓ أَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَـلَا تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o} [لقمان:۱۵]
’’ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے، جس کا تجھے علم نہ ہو تو پھر ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسر کرنا اور اس شخص کی راہ چلنا جو میری ہی طرف جھکا ہوا ہو، پھر تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے میں تمہیں خبردار کردوں گا۔ ‘‘
نتیجہ یہ نکلا کہ اگر والدین کبیرہ گناہ کرنے کا حکم دیں یا کسی فرض عین سے رکنے کو کہیں تو ان کی اطاعت و فرمانبرداری نہیں کی جائے گی لیکن مباحات میں ان کی اطاعت لازم اور ضروری ہے۔
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کسی کے والدین کافر اور مشرک ہیں تو پھر بھی وہ ان کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرے گا، انہیں اسلام کی دعوت دے گا اور اگر محتاج ہوں تو ان پر مال بھی خرچ کرے گا یعنی جہاں تک ممکن ہوسکے ان سے اچھا سلوک کرنے کی کوشش کرے۔


http://www.kitabosunnat.com/forum/تزکیہ-نفس-194/اللہ-تعالی-کی-پسند-اور-ناپسند-12447/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
٭٭٭٭٭ ماں کے قدموں میں جمے رہو ٭٭٭٭٭
ۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂۂ
ۂۂۂۂ

حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ کے ساتھ جہاد میں جانے کا ارادہ کیا ہے اور میں اس جہاد میں رضاء خداوندی اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس تیری والدہ زندہ ہیں۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا واپس جا کر انکی خدمت کرو۔

میں دوسری طرف (سائیڈ) سے پھر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ کے ساتھ جہاد میں رضا خداوندی اور دار آخرت کا طالب ہوں۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تیری والدہ زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انکے پاس واپس جا کر انکی خدمت کرو

میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کا ارادہ کیا ہے اور اس سے میں رضا خداوندی کا اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تیری والدہ زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ فرمایا تجھ پر افسوس ہے والدہ کے قدموں میں جمے رہو وہیں جنت ہے


صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 2259
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محمد عامر یونس صاحب ۔۔جزاک اللہ احسن الجزاء
آپ نے بہت اہم اور نہایت ہی پیاری حدیث ہم سب کے مطالعہ کیلئے پیش فرمائی ،
البتہ حدیث نمبر لکھنے میں کچھ فرق لگ گیا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن امام ابن ماجہ > جہا د کے فضائل و احکام
باب : الرجل يغزو وله أبوان
ماں باپ کی زندگی میں جہاد کرنے کا حکم
حدیث نمبر: 2781​
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السُّلَمِيِّ ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الْجِهَادَ مَعَكَ أَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏"وَيْحَكَ، أَحَيَّةٌ أُمُّكَ؟"قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، قَالَ:‏‏‏‏"ارْجِعْ، فَبَرَّهَا"، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنَ الْجَانِبِ الْآخَرِ، فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الْجِهَادَ مَعَكَ أَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏"وَيْحَكَ، أَحَيَّةٌ أُمُّكَ"، قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏"فَارْجِعْ إِلَيْهَا فَبَرَّهَا"، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ أَمَامِهِ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الْجِهَادَ مَعَكَ أَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏"وَيْحَكَ، أَحَيَّةٌ أُمُّكَ"، قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏"وَيْحَكَ الْزَمْ رِجْلَهَا فَثَمَّ الْجَنَّةُ"،
جناب معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا: میں اللہ کی رضا اور دار آخرت کی بھلائی کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس، کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟“ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ، اور اپنی ماں کی خدمت کرو“ پھر میں دوسری جانب سے آیا، اور میں نے عرض کیا: میں اللہ کی رضا جوئی اور دار آخرت کی خاطر آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیری ماں زندہ ہے“؟ میں نے پھر کہا: ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس واپس چلے جاؤ اور اس کی خدمت کرو“، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے آیا اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اللہ کی رضا اور دار آخرت کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس، کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ میں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افسوس! اس کے پیر کے پاس رہو، وہیں جنت ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/الجہاد ۶ (۳۱۰۶)، (تحفة الأشراف : ۱۱۳۷۵)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۳/۴۲۹) (حسن صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ماں کے قدموں میں جنت.jpg
 
Last edited:
Top