• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وبا کے وقت آذان کی شرعی حیثیت

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
وبا میں آذان کی شرعی حیثیت


تحریر : عبدالخبیر السلفی

آذان کہنا شعائر اسلام میں سے ہے اس کی مشروعیت نماز کے اوقات کی اطلاع کے لئے ہے، شریعت اسلامیہ میں آذان کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، بدعت کے رسیا لوگوں نے اس آذان کو اپنے بعض بدعی أعمال کے لئے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، ایک تحریر محمد نعمان قادری کے حوالے سے موصول ہوئی جس میں بعض ضعیف احادیث کو پیش کرکے وبا کے وقت آذان پر استدلال کیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان روایات کے ضعف کے ساتھ ساتھ ان روایات سے مروجہ آذان پر استدلال نہیں بن پاتا ان دلائل کی تردید سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دین میں بدعت نہایت ہی برا عمل ہے اگرچہ وہ حسین شکل میں پیش کیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے طریقے سے ہٹ کر روزہ و نماز تک کی اجازت نہیں دی تو اذان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نا ہو، اس کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
بدعت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ شریعت سازی کے زمرے میں آتی ہے اسی لئے ہر سچے مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے، اب ان دلائل کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے اہل بدعت کی پہلی دلیل حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِذَا اَذَّنَ فِیْ قَرِیَةٍ اٰمَنَھَا اللہُ مِنْ عَذَابِهٖ فِیْ ذٰلِكَ الْیَوْمِ"
جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ
[المعجم الکبیر مرویات انس بن مالك، جلد 1، صفحہ257، حدیث:746، مطبوعہ المکتبة الفیصلیه بیروت]
[فتاوی رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور]
جواب : اولا یہ روایت ضعیف ہے اور ضعیف روایت سے کسی شرعی مسئلہ پر استدلال درست نہیں ہے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد إمام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ " یعنی اس روایت کو صفوان بن سلیم سے روایت کرنے والا صرف عبد الرحمن بن سعد ہے اور بکر بن محمد نے بھی عبد الرحمن سے تنہا روایت نقل کی ہے،
عبد الرحمن بن سعد ضعیف راوی ہے جیسا کہ ائمہ حدیث نے اس کی صراحت کر رکھی ہے
( حوالہ : التاريخ الکبیر للبخاري :5/287، الجرح والتعديل لابی حاطم :5/238، دیوان الضعفاء للذهبى :2447، تقریب التہذیب لإبن حجر : 3873، مجمع الزوائد للہیثمی : 1/328)
اس روایت کا دوسرا راوی بکر بن محمد القرشی مجہول ہے علامہ ہیثمی فرماتے ہیں لم اعرفہ (مجمع الزوائد 3/242)یعنی مجھے نہیں پتہ یہ کون ہے؟
علامہ البانی اس روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں " ولم أجد من ترجمه، وشيخه عبد الرحمن بن سعد ضعيف، كما في " التقريب " (سلسلہ احادیث ضعیفہ : 2207) یعنی اس کا ( بکر بن محمد) حال مجھے نہیں ملا اور اس کا شیخ عبد الرحمن بن سعد ضعیف ہے جیسا کہ التقريب میں ہے، اس سے ثابت ہوا کہ یہ روایت اس لائق نہیں کہ اس سے استدلال کیا جا سکے،
ثانیا: اس روایت میں کوئی بھی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے وبا کے موقع پر آذان کا استدلال کیا جا سکے بظاہر اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اوقات نماز کے لئے دی جانے والی آذان کی فضیلت بیان کی گئی ہے حالانکہ روایت کے ضعیف ہونے اور واقعات کے بر خلاف ہونے کی وجہ سے یہ استدلال بھی درست نہیں ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں اہل بدعت کے اذان کہنے کے باوجود وبا پھیلتی جا رہی ہے اور یہ لوگ اپنی اس بدعت سے جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں، اللہ عقل سلیم عطا فرمائے آمین
اہل بدعت کی دوسری دلیل ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
نَزَلَ آدَمُ بِالْھِندِ فَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلُ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام فَنَادیٰ بِالْاَذَاَنِ
یعنی: جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔
[حلیة الاولیاء مرویات عمرو بن قیس الملائی ، جلد 2، صفحہ 107، رقم:299 ، مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت]
جواب : اولا - یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے امام ابو نعیم الاصبہانی فرماتے ہیں " غریب من حديث عمرو عن عطاء،لم نکتبہ إلا من هذا الوجه " ( حلیہ الاولیاء : 5/123) یعنی یہ روایت عمرو عن عطاء کی سند سے غریب ہے، ہم نے اس کو اسی ایک سند سے لکھا ہے،
1- اس کی سند میں ایک راوی علی بن یزید بن بہرام مجہول راوی ہے علامہ ہیثمی اس کے بارے میں فرماتے ہیں " لم أجد من ترجمہ" (مجمع الزوائد : 3/282) یعنی مجھے اس کے حالات ہی نہیں ملے، یہ روایت بھی اس قابل نہیں کہ اس سے استدلال کیا جا سکے،
ثانیاً: اگر پوری روایت پر غور کیا جائے تو اس روایت کی بنیاد پر اہل بدعت کی اس بدعی اذان کے ساتھ ساتھ ان کے کئی باطل عقیدے بھی زد میں آتے ہیں، آئیے پہلے پوری روایت دیکھتے ہیں " عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ سَلَّمَ: " نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَنَادَى بِالْأَذَانِ: اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ لَهُ: وَمَنْ مُحَمَّدٌ هَذَا؟ فَقَالَ: هَذَا آخِرُ وَلَدِكَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ " غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، لَمْ نَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ" (حلية الأولياء : 5/107) یعنی: جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی، اللَّهُ أكبرُ، ألله أكبر، أشهدُ أن لا إله إلا الله، أشهدُ أن محمداً رسول الله، یہ کلمات سن کر آدم علیہ السلام نے ان سے پوچھا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ یہ آپ کی اولاد میں آخری نبی ہیں.
1-اس روایت کی رو سے آذان کے کلمات وہ نہیں جو آج کل اہل بدعت کہہ رہے ہیں،
2- حضرت آدم علیہ السلام کا جبرئیل علیہ السلام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھنا اہل بدعت کے اس بیان کے خلاف ہے جو وہ انگوٹھے چومنے کی دلیل میں پیش کرتے ہیں جس کے مطابق آدم علیہ السلام نے نام نامی صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر لکھا دیکھا تھا
3- اسی طرح یہ روایت اہل بدعت کی مستدل اس منگھرٹ روایت کے بھی خلاف ہے جس کے مطابق آدم علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی " لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي" اس روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتے تھے جب آذان والی روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام نام نامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انجان تھے حتی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا تو ان کو معلوم ہوا، بہر حال ان تمام وجوہ سے یہ روایت استدلال کے قابل نہیں.
اہل بدعت کی تیسری دلیل ابونعیم و ابن عساکر حضرت مسند الفردوس میں حضرت جناب امیرُ المومنین مولٰی المسلمین سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے:
قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ
یعنی: مولا علی کہتے ہیں مجھے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔
[مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 149، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان]
جواب :اولا : یہ روایت بھی ناقابل قبول ہے اس کی سند بھی سخت ضعیف ہے اس میں ایک راوی ابو عبد الرحمن السلمي الصوفي سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع روایات بیان کرنے والا ہے ( حوالہ : میزان الاعتدال للذہبی : 3/523، لسان المیزان لابن حجر : 7/92 ، النکت الاثریہ لابن ناصر الدین الدمشقی : 88)
اس کی سند میں دوسرا راوی عبد اللہ بن موسی السلامی بھی ضعیف ہے اس کی روایات کے متعلق خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " في رواياته غرائب و مناكير و عجائب" ( تاريخ بغداد :11/383) یعنی اس کی روایات غرائب و مناکیر اور عجائب کا پلندہ ہیں، ایسے جھوٹے راوی اہل بدعت کے محبوب نظر ہوں تو ہوں لیکن شریعت کے ثبوت کے لئے ایسے راویوں کی روایات ناقابل قبول ہیں
ثانیا: اس روایت میں بھی مروجہ آذان کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس میں زیادہ سے زیادہ کان میں آذان کا ثبوت ہے وہ بھی روایت کے ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے.
جو دلائل اس پوسٹ میں ذکر کئے گئے ان کا حال آپ نے دیکھ لیا ایک بھی روایت اس قابل نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے ایسے میں بقول محمد نعمان قادری فقیہِ اجَلّ ، محققِ بےبدل ، صاحب العلم وبالفضل ، احمد رضا خان فاضلِ بریلوی کا یہ کہنا ”وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے“
[فتاویٰ رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاجور، بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ سوم، صفحہ 466، مطبوعہ مکتبة المدینہ کراچی] محض شریعت سازی ہے دین محمدی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، یاد رکھیں استحباب بھی شرعی حکم ہے اس کے ثبوت کے لئے بھی ادلہ شریعہ میں سے کسی دلیل کا ہونا ضروری ہے جبکہ یہاں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، خوف ہراس کی آڑ میں شریعت سازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، نبی کریم صلی اللہ کی رہنمائی ہمارے لئے کافی ہے چنانچہ ایسی مشکل گھڑی میں مسلمانوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ادعیہ و اذکار مسنونہ و مشروع عبادت و تلاوتِ کلام پاک کے ذریعے سے اللہ کو راضی کرنا چاہیے ناکہ بدعات و خرافات کو رواج دیکر اس کی ناراضگی کا سبب بننا چاہئے، اللہ تمام مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
(کِبار فقہاءِ احناف اور اذان)

صاحبِ ھدایہ سے کون واقف نہیں؟ علامہ مرغینانی ہیں، اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الأذان سنة للصلوات الخمس والجمعة، دون ما سواها للنقل المتواتر

پانچ نمازوں اور جمعہ کے لیے اذان دینا سنت ہے جمعہ و پنجگانہ نماز کے علاوہ نہیں ہے اور یہی متواتر عمل ہے

یعنی اذان کو صرف نمازوں اور جمعہ کے لیے خاص کیا اور ان دو کے علاوہ کی نفی اور اسی پر تواتر بھی ہے

علامہ عینی حنفی اسکی شرح میں لکھتے ہیں:

ولم يؤذن عليه الصلاة والسلام - ولا أحد من الأئمة بغير الصلوات الخمس والجمعة.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آئمہ دین (صحابہ تابعین اور فقہاء و محدثین) نے پانچ نمازوں اور جمعہ کے علاوہ اذان نہیں دی
(البنایة شرح الهداية ٧٨/٢ )

احناف سے ان دو فقہاء کی جلالت ڈھکی چھپی نہیں

علامہ کاسانی حنفی بھی اسی پر زور دیتے ہیں کہ:

وليس في هذه الصلاة أذان ولا إقامة؛ لأنهما من خواص المكتوبات

نمازِ کسوف میں کوئی اذان و اقامت نہیں کیونکہ اذان کہنا صرف پانچ نمازوں سے خاص ہے (انکے علاوہ نہیں ہے)
(بدائع الصنائع ٢٨٢/١)
 
Top