• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وتر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ کی پسند… وتر یعنی طاق
(( إِنَّہُ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب الذکر، باب: أسماء اللّٰہ تعالیٰ وفضل من أحصاھا، رقم: ۶۸۱۰۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کے حق میں وتر کا مطلب یہ ہے کہ وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک اور مثیل نہیں۔ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اکیلا ہے، اس کے اجزاء نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وہ انقسام کو قبول کرتا ہے، نیز اپنی صفات میں بھی یکتا ہے۔ اس کے مشابہہ اور مثل بھی کوئی نہیں، وہ اپنے افعال میں بھی اکیلا ہے اس کا کوئی شریک اور مددگار نہیں۔
وتر کو پسند کرنے کا معنی یہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اکثر اعمال میں طاق کو پسند فرمایا اور اسی کو فضیلت دی ہے۔ مثلاً نمازیں پانچ، وضو کے اعضاء کو تین تین مرتبہ دھونا، بیت اللہ کے سات چکر، صفا و مروہ میں سات چکر، جمرات کو سات سات کنکریاں مارنا ہیں۔ ایام تشریقا بھی طاق یعنی تین، استنجاء بھی تین مرتبہ، کفن بھی طاق یعنی تین کپڑوں میں، اسی طرح زکاۃ بھی پانچ وسق میں فرض ہوتی ہے اور چاندی پر زکاۃ بھی پانچ اوقیہ میں فرض ہوتی ہے اور اس کے علاوہ اونٹوں کا نصاب بھی طاق ہے وغیرہ وغیرہ۔
اللہ اکبر! بڑی بڑی مخلوقات کی گنتی بھی طاق ہے مثلاً سات آسمان، سات زمینیں، سات سمندر، ہفتہ کے سات دن وغیرہ۔ مذکورہ حدیث کا مندرجہ ذیل معنی بھی کیا گیا ہے:
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کی صفت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اللہ کو ایک جانتے ہوئے خالص اسی کی عبادت کرے۔یہ معنی بھی مراد لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انسان کا یہ عمل قبول کرے گا اور اسے ثواب عطا کرے گا۔
قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کسی چیز کی کسی کے ساتھ تھوڑی سے بھی مناسبت ہوجائے تو وہ چیز اسے بہت پسند ہوتی ہے بخلاف اس کے جس کی ذرا بھی مناسبت نہیں۔
بعض علماء نے مذکورہ بالا حدیث کو نماز وتر پر محمول کیا ہے ان کی دلیل حسب ذیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
(( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ وِتْرٌ یُّحِبُّ الْوِتْرَ، فَأَوْتِرُوْا یَا أَھْلَ الْقُرْآنِ۔ ))
صحیح الجامع، رقم: ۱۸۲۷۔​
’’ اللہ تعالیٰ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے (لہٰذا) اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو۔ ‘‘
اس دلیل سے لازم نہیں آتا کہ پچھلی حدیث کا بھی یہی مفہوم ہو بلکہ یہ روایت خاص ہے اور پہلی روایت میں عموم واضح ہے۔
شرح مسلم للنووی ص ۶، ۱۷۔ فتح الباری ص ۲۲۷، ۱۱۔ تحفۃ الاحوذی، ص: ۲۴۱، ۲۔​
 
Top