• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحدت رویت اور اختلاف مطالع

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
مجھے خوشی ہے کہ آپ کے عمل کی بنیاد بھی اللہ کی کتاب اور نبی علیہ السلام کی حدیث ہے۔۔۔
اس حدیث سے دوسرا جو مقصد نکل رہا ہے وہ وہی ہے جو آپ کا موقف ہے سلطنت عثمانیہ میں بھی یہ ہی رواج تھا جہاں تک اُن کی سلطنت پھیلی ہوئی تھی وہاں ایک ہی چاند تھا ۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے والوں سے سوال ہے کہ اگر عالمی سطح پر ان کے موقف کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو رویت کا اختلاف کہاں کہاں معتبر ہوگا:
۱۔ ہر شہر والے اپنے ہی شہر کی رویت کا اعتبار کریں گےاور کسی دوسرے شہر کی رویت کا اعتبار نہیں کریں گے خواہ وہ ایک ہی ملک میں ہوں؟ یعنی اہل لاہور کی رویت اپنی اور اہل مریدکے کی رویت اپنی، اگر لاہورمیں رویت ثابت ہوجائے تو مریدکے میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے اور اسی طرح بالعکس۔
۲۔ ہر ملک والے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار کریں گے پس اس ملک کے جس کسی شہر میں رویت ثابت ہوجائے تو پورے ملک میں اس کا اعتبار کیا جائے گا لیکن ایک ملک کی رویت دوسرے کسی ملک کیلئے معتبر نہیں ہوگی خواہ وہ ایک دوسرے کے قریب ہوں یا دور۔ لحاظہ اگربھارت کے شہر امرتسر میں رویت ثابت ہوتی ہے تو پاکستان کے کسی شہر میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اگرچہ امرتسرکا لاہور سے فاصلہ صرف ۵۳ کیلو میٹر ہے مگر چونکہ ملک علیحدہ ہے لحاظہ رویت اپنی اپنی۔
۳۔ ایک شہر اپنے قریب والے دوسرے شہر کی رویت قبول کرے گا لیکن دور والے شہر کی نہیں کرے گا (کیا اس صورت میں ایک ملک کی شرط لگائی جائے گی یا نہیں؟ قرب کی مسافت کیا ہوگی؟)۔
۴۔ جن شہروں کا مطلع آپس میں متفق ہے وہ ایک دوسرے کی رویت قبول کرسکتے ہیں لیکن جن کا مطلع مختلف ہے وہ ایک دوسرے کی رویت قبول نہیں کرسکتے۔

اگر قائلینِ اعتبارِ اختلافِ مطالع ان میں سے کسی ایک صورت پر متفق ہوجائیں تو اس مسئلے پر مزید کلام کیا جا سکتا ہے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عبدالرحمٰن لاہوری صآحب اختلاف کیوں کریں گے؟؟؟۔۔۔
اوپر ابن حبان سے ایک روایت کو یہاں پیش کرنے کی دو ہی وجوہات تھیں۔۔۔
ایک تو یہ کہ رمضان کے چاند کے لئے ایک ہی گواہی کافی ہے۔۔۔
دوسری بات یہ اعرابی جب مدینہ میں داخل ہوا تو اس نے چاند کی خبر دی۔۔۔
تو اختلاف میرے نزدیک وحدت کو نقصان پہنچائے گا۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
ایک تو یہ کہ رمضان کے چاند کے لئے ایک ہی گواہی کافی ہے۔۔۔
اس بات سے میں نے تو کوئی اختلاف نہیں کیا۔۔۔
دوسری بات یہ اعرابی جب مدینہ میں داخل ہوا تو اس نے چاند کی خبر دی۔۔۔
گویا اعرابی کسی اور شہر سے مدینہ آیا تھا تو کیا آپ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے کسی دوسرے شہر کی رویت کو معتبر جان کر اہل مدینہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا؟۔۔۔
تو اختلاف میرے نزدیک وحدت کو نقصان پہنچائے گا۔۔۔
معذرت چاہتا ہوں میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں، کیا آپ وحدت ہلال کی بات کر رہےہیں؟ آپ تو اعتبار اختلاف مطالع کے قائل نہیں؟۔۔۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
شیخ البانی رحمہ اللہ کا فیصلہ تو بالکل واضح ہے لیکن اگر پھر بھی کسی بھائی کو اشکال ہو یا کوئی سوال ہو تو ضرورلکھے ہم بإذن اللہ تعالی کوشیش کریں گے کہ اس کو رفع کریں۔

السلام علیکم

آپ نے جو فتوی کوٹ کیا ھے اس پر آپ نے اپنی کوئی رائے پیش نہیں کی، آپ کس بات کے قائل ہیں رمضان کا چاند اگر سعودی عرب میں نظر آتا ھے تو پوری دنیا میں ہی روزہ رکھا جائے گا یا ہر ملک والے چاند دیکھ کر اپنے ملک کے مطابق روزہ رکھیں گے۔

جو گفتگو آپ شداد بھائی سے کر رہے ہیں اسے بھی ان کے ساتھ جاری رکھیں تاکہ مزید نالج حاصل ہو سکے۔

والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اگر دوران رمضان ايسے ملك کا سفر كرے جس كا مطلع مختلف ہو تو وہ روزے كس طرح ركھے ؟

الحمد للہ:
اگر مسلمان شخص رمضان المبارك كے دوران كسى ايسے ملك كا سفر كرے جو اس كے ملك سے رمضان شروع ہونے ميں آگے يا پيچھے ہو اور وہ اس ملك ميں عيد تك رہے تو وہ كس ملك كے ساتھ عيد منائے گا ؟

الحمد للہ:
" جب آدمى كسى ايك ملك سے دوسرے ملك کا سفر كرے اور ان كا مطلع مختلف ہو تو اصول اور قاعدہ يہ ہے كہ وہ روزہ ركھنے اور عيد منانے ميں اس ملك كے مطابق عمل كرے گا جہاں وہ رمضان المبارك شروع ہونے كے وقت تھا، ليكن اگر انتيس سے كم ايام ہوتے ہوں تو اس كے ليے انتيس دن پورے كرنا ضرورى ہيں، كيونكہ قمرى مہينہ انتيس يوم سے كم كا نہيں ہوتا.
يہ قاعدہ اور اصول نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے اخذ كيا گيا ہے:
" جب تم اسے ( چاند كو ) ديكھو تو روزہ ركھو، اور جب اسے ديكھو تو عيد مناؤ "

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مہينہ انتيس دن كا ہوتا ہے، چنانچہ تم چاند ديكھے بغير روزہ نہ ركھو اور چاند ديكھ كر ہى عيد مناؤ "
اور حديث كريب ميں ہے كہ ام فضل رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں معاويہ رضى اللہ تعالى كے پاس شام بھيجا تو انہوں نے واپس آكر ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كو بتايا كہ لوگوں نے مُلکِ شام ميں جمعہ كى رات رمضان كا چاند ديكھا تھا، تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:

ليكن ہم نے ہفتہ كى رات چاند ديكھا ہے، اس ليے ہم تو تيس روزے مكمل كرينگے، يا پھر چاند ديكھ ليں (عيد منائيں گے)
تو كريب كہتے ہيں: كيا آپ معاويہ رضى اللہ تعالى عنہا كى رؤيت پر كفائت نہيں كرينگے ؟

تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ميں كہا: نہيں، ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى حكم ديا ہے "
اس قاعدہ اور اصول كى وضاحت كے ليے آپ كے ليے ہم چند ايك مثاليں پيش كرتے ہيں:

پہلى مثال:
ايك شخص اتوار كے روز رمضان شروع ہونے والے ملك سے ايسے ملك گيا جہاں رمضان ہفتہ كے دن شروع ہوا، اور انہوں نے انتيس روزوں كے بعد اتوار كے دن عيد الفطر منائى تو يہ شخص ان كے ساتھ عيد منائےگا اور ايك روزہ كى قضاء كرےگا.

دوسرا مثال:
ايك شخص ايسے ملك سے جہاں اتوار كے روز رمضان شروع ہوا ايسے ملك گيا جہاں سوموار كے دن رمضان المبارك كى ابتدا ہوئى اور انہوں نے تيس روزے ركھ كر بدھ كے روز عيد منائى، تو يہ شخص ان كے ساتھ ہى روزے ركھےگا چاہے تيس روزوں سے زيادہ ہى كيوں نہ ہوجائيں، كيونكہ وہ ايسى جگہ ہے جہاں ابھى چاند نظر نہيں آيا، اس ليے اس كے ليے عيد منانا جائز نہيں.
اور اس كے مشابہ يہ بھى ہے كہ اگر وہ روزہ كى حالت ميں كسى ايسے ملك سے سفر كرے جہاں سورج چھ بجے غروب ہوتا ہے، اور جس ملك اور علاقے ميں گيا وہاں سورج سات بجے غروب ہوتا ہے، تو وہ سات بجے سورج غروب ہونے سے قبل روزہ افطار نہيں كر سكتا، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

'' پھر تم رات تك روزہ مكمل كرو، اور جب مسجدوں ميں اعتكاف كى حالت ميں ہو تو بيويوں سے مباشرت نہ كرو، يہ اللہ تعالى كى حديں ہيں چنانچہ تم ان كے قريب بھى نہ جاؤ اسى طرح اللہ تعالى اپنى آيات لوگوں كے ليے بيان كرتا ہے تا كہ وہ تقوى اختيار كرے''.

تيسرى مثال:
ايك شخص اتوار كے دن رمضان المبارك كا پہلا روزہ ركھ كر كسى دوسرے ملك چلا گيا جہاں كے لوگوں نے پہلا روزہ سوموار كے دن ركھا اور انتيس روزے ركھ کرمنگل كے روز عيد الفطر منائى تو يہ شخص ان كے ساتھ عيد منائےگا، تو اس طرح ان كے ساتھ اس كے انتيس روزے ہونگے ليكن اس كا اپنے تيس يوم كے روزے.

چوتھى مثال:
ايك شخص ايسے ملك سے جہاں كے لوگوں نے اتوار كو پہلا روزہ ركھا اور تيس روزے مكمل كر كے منگل كے دن عيد منائى كسى ايسے ملك گيا جہاں كے افراد نے اتوار كے دن پہلا روزہ ركھا اور انتيس روزے مكمل كر كے سوموار كے دن عيد منائى، تو يہ شخص بھى ان كے ساتھ ہى عيد منائےگا اوراس كے ذمہ ايك روزہ كى قضاء لازم نہيں؛ كيونكہ اس نے انتيس دن پورے كر ليے ہيں.

پہلى مثال ميں روزہ نہ ركھنے اور عيد كرنے كى دليل يہ ہے كہ: چاند نظر آ گيا ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم اسے ( چاند كو ) ديكھو تو عيد منا لو "

اور ايك دن كے روزہ كى قضاء كى دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مہينہ انتيس دن كا بھى ہوتا ہے "
اس ليے انتيس دن سے مہينہ كم ہونا ممكن ہى نہيں.

اور دوسرى مثال ميں تيس روزے ركھنے كے باوجود روزہ ترك نہ كرنے بلكہ روزہ ركھنے كے وجوب كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" جب تم چاند ديكھو تو عيد الفطر مناؤ "

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر منانے كو رؤيت كے ساتھ معلق كيا ہے، اور چاند نظر نہيں آيا، تو اس جگہ اور علاقے ميں يہ دن رمضان المبارك كا ہى دن شمار ہوگا، اس ليے روزہ ترك كرنا حلال نہيں.

تيسرى اور چوتھى مثال كا حكم واضح ہے.
اس مسئلہ ميں دلائل كے ساتھ ہمارے ليے تو يہى كچھ ظاہر ہوا ہے، جو كہ مطلع جات مختلف ہونے ميں حكم بھى مختلف ہونے ميں راجح قول پر مبنى ہے، اور يہ كہنا كہ اس سے حكم مختلف نہيں ہوتا اور جب بھى كسى جگہ چاند كى شرعى رؤيت ثابت ہو جائے سب لوگوں پر روزہ ركھنا، يا عيد الفطر منانا لازم ہو جاتى ہے، تو پھر چاند كے ثابت ہونے پر حكم جارى ہوتا ہے، ليكن وہ سرى طور پر روزہ ركھے يا نہ ركھے، تا كہ جماعت كى مخالفت نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 19 / 69 )-
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
السلام علیکم

آپ نے جو فتوی کوٹ کیا ھے اس پر آپ نے اپنی کوئی رائے پیش نہیں کی، آپ کس بات کے قائل ہیں رمضان کا چاند اگر سعودی عرب میں نظر آتا ھے تو پوری دنیا میں ہی روزہ رکھا جائے گا یا ہر ملک والے چاند دیکھ کر اپنے ملک کے مطابق روزہ رکھیں گے۔
والسلام
جی ہاں! میں وحدت ہلال کا قائل ہوں، دنیا کے کسی شہر میں رویت اپنے شرعی ضوابط کیساتھ ثابت ہوجائے تو پوری دنیا میں جہاں جہاں خبر پہنچ جائےوہاں کے رہنے والوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں بھی اگر رویت ثابت ہوجائے تو اس کا اعتبار ہر جگہ کیا جائے گا مگر اتفاق سے مکہ مکرمہ میں رویت بہت واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے۔
 
Top