• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحی کے بارے میں چند احادیث مبارکہ

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
وقول الله جل ذكره ‏ {‏ إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده‏}‏‏.‏
اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان کہ ’’ ہم نے بلاشبہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا ‘‘۔


حدیث نمبر: 1
حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير،‏‏‏‏ قال حدثنا سفيان،‏‏‏‏ قال حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري،‏‏‏‏ قال أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي،‏‏‏‏ أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي،‏‏‏‏ يقول سمعت عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إنما الأعمال بالنيات،‏‏‏‏ وإنما لكل امرئ ما نوى،‏‏‏‏ فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه ‏"‏‏.‏

ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجدنبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔

حدیث نمبر: 2
حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ أن الحارث بن هشام ـ رضى الله عنه ـ سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله كيف يأتيك الوحى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس ـ وهو أشده على ـ فيفصم عني وقد وعيت عنه ما قال،‏‏‏‏ وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول ‏"‏‏.‏ قالت عائشة رضى الله عنها ولقد رأيته ينزل عليه الوحى في اليوم الشديد البرد،‏‏‏‏ فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا‏.

ہم کو عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، ان کو مالک نے ہشام بن عروہ کی روایت سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے نقل کی، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی آپ نے فرمایا کہ ایک شخص حارث بن ہشام نامی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گذرتی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس (فرشتے) کے ذریعہ نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ بشکل انسان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں اس کا کہا ہوا یاد رکھ لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔

حدیث نمبر: 3
حدثنا يحيى بن بكير،‏‏‏‏ قال حدثنا الليث،‏‏‏‏ عن عقيل،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ عن عروة بن الزبير،‏‏‏‏ عن عائشة أم المؤمنين،‏‏‏‏ أنها قالت أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحى الرؤيا الصالحة في النوم،‏‏‏‏ فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح،‏‏‏‏ ثم حبب إليه الخلاء،‏‏‏‏ وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه ـ وهو التعبد ـ الليالي ذوات العدد قبل أن ينزع إلى أهله،‏‏‏‏ ويتزود لذلك،‏‏‏‏ ثم يرجع إلى خديجة،‏‏‏‏ فيتزود لمثلها،‏‏‏‏ حتى جاءه الحق وهو في غار حراء،‏‏‏‏ فجاءه الملك فقال اقرأ‏.‏ قال ‏"‏ ما أنا بقارئ ‏"‏‏.‏ قال ‏"‏ فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد،‏‏‏‏ ثم أرسلني فقال اقرأ‏.‏ قلت ما أنا بقارئ‏.‏ فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد،‏‏‏‏ ثم أرسلني فقال اقرأ‏.‏ فقلت ما أنا بقارئ‏.‏ فأخذني فغطني الثالثة،‏‏‏‏ ثم أرسلني فقال ‏ {‏ اقرأ باسم ربك الذي خلق * خلق الإنسان من علق * اقرأ وربك الأكرم‏}‏ ‏"‏‏.‏ فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده،‏‏‏‏ فدخل على خديجة بنت خويلد رضى الله عنها فقال ‏"‏ زملوني زملوني ‏"‏‏.‏ فزملوه حتى ذهب عنه الروع،‏‏‏‏ فقال لخديجة وأخبرها الخبر ‏"‏ لقد خشيت على نفسي ‏"‏‏.‏ فقالت خديجة كلا والله ما يخزيك الله أبدا،‏‏‏‏ إنك لتصل الرحم،‏‏‏‏ وتحمل الكل،‏‏‏‏ وتكسب المعدوم،‏‏‏‏ وتقري الضيف،‏‏‏‏ وتعين على نوائب الحق‏.‏ فانطلقت به خديجة حتى أتت به ورقة بن نوفل بن أسد بن عبد العزى ابن عم خديجة ـ وكان امرأ تنصر في الجاهلية،‏‏‏‏ وكان يكتب الكتاب العبراني،‏‏‏‏ فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله أن يكتب،‏‏‏‏ وكان شيخا كبيرا قد عمي ـ فقالت له خديجة يا ابن عم اسمع من ابن أخيك‏.‏ فقال له ورقة يا ابن أخي ماذا ترى فأخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما رأى‏.‏ فقال له ورقة هذا الناموس الذي نزل الله على موسى صلى الله عليه وسلم يا ليتني فيها جذعا،‏‏‏‏ ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أومخرجي هم ‏"‏‏.‏ قال نعم،‏‏‏‏ لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي،‏‏‏‏ وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا‏.‏ ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحى‏.‏

ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکرو فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ پر حق منکشف ہو گیا اور آپ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ حضرت خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ خدا کی قسم آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ (انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔


حدیث نمبر: 4
قال ابن شهاب وأخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن،‏‏‏‏ أن جابر بن عبد الله الأنصاري،‏‏‏‏ قال ـ وهو يحدث عن فترة الوحى،‏‏‏‏ فقال ـ في حديثه ‏"‏ بينا أنا أمشي،‏‏‏‏ إذ سمعت صوتا،‏‏‏‏ من السماء،‏‏‏‏ فرفعت بصري فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والأرض،‏‏‏‏ فرعبت منه،‏‏‏‏ فرجعت فقلت زملوني‏.‏ فأنزل الله تعالى ‏ {‏ يا أيها المدثر * قم فأنذر‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ والرجز فاهجر‏}‏ فحمي الوحى وتتابع ‏"‏‏.‏ تابعه عبد الله بن يوسف وأبو صالح‏.‏ وتابعه هلال بن رداد عن الزهري‏.‏ وقال يونس ومعمر ‏"‏ بوادره ‏"‏‏.

ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ۔ اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح نے بھی روایت کیا ہے۔ اور عقیل کے علاوہ زہری سے ہلال بن رواد نے بھی روایت کیا ہے۔ یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ ”فوادہ“ کی جگہ ”بوادرہ“ نقل کیا ہے۔

حدیث نمبر: 5
حدثنا موسى بن إسماعيل،‏‏‏‏ قال حدثنا أبو عوانة،‏‏‏‏ قال حدثنا موسى بن أبي عائشة،‏‏‏‏ قال حدثنا سعيد بن جبير،‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ في قوله تعالى ‏ {‏ لا تحرك به لسانك لتعجل به‏}‏ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعالج من التنزيل شدة،‏‏‏‏ وكان مما يحرك شفتيه ـ فقال ابن عباس فأنا أحركهما لكم كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركهما‏.‏ وقال سعيد أنا أحركهما كما رأيت ابن عباس يحركهما‏.‏ فحرك شفتيه ـ فأنزل الله تعالى ‏ {‏ لا تحرك به لسانك لتعجل به* إن علينا جمعه وقرآنه‏}‏ قال جمعه له في صدرك،‏‏‏‏ وتقرأه ‏ {‏ فإذا قرأناه فاتبع قرآنه‏}‏ قال فاستمع له وأنصت ‏ {‏ ثم إن علينا بيانه‏}‏ ثم إن علينا أن تقرأه‏.‏ فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك إذا أتاه جبريل استمع،‏‏‏‏ فإذا انطلق جبريل قرأه النبي صلى الله عليه وسلم كما قرأه‏.

موسیٰ بن اسماعیل نے ہم سے حدیث بیان کی، ان کو ابوعوانہ نے خبر دی، ان سے موسیٰ ابن ابی عائشہ نے بیان کی، ان سے سعید بن جبیر نے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کلام الٰہی لا تحرک الخ کی تفسیر کے سلسلہ میں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انھوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا) پھر یہ آیت اتری کہ اے محمد! قرآن کو جلد جلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان نہ ہلاؤ۔ اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یعنی قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جما دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم پڑھ چکیں تو اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں (اس کا مطلب یہ ہے) کہ آپ اس کو خاموشی کے ساتھ سنتے رہو۔ اس کے بعد مطلب سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر یقیناً یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھو (یعنی اس کو محفوظ کر سکو) چنانچہ اس کے بعد جب آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام (وحی لے کر) آتے تو آپ (توجہ سے) سنتے۔ جب وہ چلے جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (وحی) کو اسی طرح پڑھتے جس طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اسے پڑھا تھا۔

حدیث نمبر: 6
حدثنا عبدان،‏‏‏‏ قال أخبرنا عبد الله،‏‏‏‏ قال أخبرنا يونس،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ح وحدثنا بشر بن محمد،‏‏‏‏ قال أخبرنا عبد الله،‏‏‏‏ قال أخبرنا يونس،‏‏‏‏ ومعمر،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ نحوه قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله،‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أجود الناس،‏‏‏‏ وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل،‏‏‏‏ وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن،‏‏‏‏ فلرسول الله صلى الله عليه وسلم أجود بالخير من الريح المرسلة‏.
ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ (دوسری سند یہ ہے کہ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
[/
COLOR][/CENTE

حدیث نمبر: 7
حدثنا أبو اليمان الحكم بن نافع،‏‏‏‏ قال أخبرنا شعيب،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود،‏‏‏‏ أن عبد الله بن عباس،‏‏‏‏ أخبره أن أبا سفيان بن حرب أخبره أن هرقل أرسل إليه في ركب من قريش ـ وكانوا تجارا بالشأم ـ في المدة التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ماد فيها أبا سفيان وكفار قريش،‏‏‏‏ فأتوه وهم بإيلياء فدعاهم في مجلسه،‏‏‏‏ وحوله عظماء الروم ثم دعاهم ودعا بترجمانه فقال أيكم أقرب نسبا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقال أبو سفيان فقلت أنا أقربهم نسبا‏.‏ فقال أدنوه مني،‏‏‏‏ وقربوا أصحابه،‏‏‏‏ فاجعلوهم عند ظهره‏.‏ ثم قال لترجمانه قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل،‏‏‏‏ فإن كذبني فكذبوه‏.‏ فوالله لولا الحياء من أن يأثروا على كذبا لكذبت عنه،‏‏‏‏ ثم كان أول ما سألني عنه أن قال كيف نسبه فيكم قلت هو فينا ذو نسب‏.‏ قال فهل قال هذا القول منكم أحد قط قبله قلت لا‏.‏ قال فهل كان من آبائه من ملك قلت لا‏.‏ قال فأشراف الناس يتبعونه أم ضعفاؤهم فقلت بل ضعفاؤهم‏.‏ قال أيزيدون أم ينقصون قلت بل يزيدون‏.‏ قال فهل يرتد أحد منهم سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه قلت لا‏.‏ قال فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال قلت لا‏.‏ قال فهل يغدر قلت لا،‏‏‏‏ ونحن منه في مدة لا ندري ما هو فاعل فيها‏.‏ قال ولم تمكني كلمة أدخل فيها شيئا غير هذه الكلمة‏.‏ قال فهل قاتلتموه قلت نعم‏.‏ قال فكيف كان قتالكم إياه قلت الحرب بيننا وبينه سجال،‏‏‏‏ ينال منا وننال منه‏.‏ قال ماذا يأمركم قلت يقول اعبدوا الله وحده،‏‏‏‏ ولا تشركوا به شيئا،‏‏‏‏ واتركوا ما يقول آباؤكم،‏‏‏‏ ويأمرنا بالصلاة والصدق والعفاف والصلة‏.‏ فقال للترجمان قل له سألتك عن نسبه،‏‏‏‏ فذكرت أنه فيكم ذو نسب،‏‏‏‏ فكذلك الرسل تبعث في نسب قومها،‏‏‏‏ وسألتك هل قال أحد منكم هذا القول فذكرت أن لا،‏‏‏‏ فقلت لو كان أحد قال هذا القول قبله لقلت رجل يأتسي بقول قيل قبله،‏‏‏‏ وسألتك هل كان من آبائه من ملك فذكرت أن لا،‏‏‏‏ قلت فلو كان من آبائه من ملك قلت رجل يطلب ملك أبيه،‏‏‏‏ وسألتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال فذكرت أن لا،‏‏‏‏ فقد أعرف أنه لم يكن ليذر الكذب على الناس ويكذب على الله،‏‏‏‏ وسألتك أشراف الناس اتبعوه أم ضعفاؤهم فذكرت أن ضعفاءهم اتبعوه،‏‏‏‏ وهم أتباع الرسل،‏‏‏‏ وسألتك أيزيدون أم ينقصون فذكرت أنهم يزيدون،‏‏‏‏ وكذلك أمر الإيمان حتى يتم،‏‏‏‏ وسألتك أيرتد أحد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه فذكرت أن لا،‏‏‏‏ وكذلك الإيمان حين تخالط بشاشته القلوب،‏‏‏‏ وسألتك هل يغدر فذكرت أن لا،‏‏‏‏ وكذلك الرسل لا تغدر،‏‏‏‏ وسألتك بما يأمركم،‏‏‏‏ فذكرت أنه يأمركم أن تعبدوا الله،‏‏‏‏ ولا تشركوا به شيئا،‏‏‏‏ وينهاكم عن عبادة الأوثان،‏‏‏‏ ويأمركم بالصلاة والصدق والعفاف‏.‏ فإن كان ما تقول حقا فسيملك موضع قدمى هاتين،‏‏‏‏ وقد كنت أعلم أنه خارج،‏‏‏‏ لم أكن أظن أنه منكم،‏‏‏‏ فلو أني أعلم أني أخلص إليه لتجشمت لقاءه،‏‏‏‏ ولو كنت عنده لغسلت عن قدمه‏.‏ ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي بعث به دحية إلى عظيم بصرى،‏‏‏‏ فدفعه إلى هرقل فقرأه فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم‏.‏ من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم‏.‏ سلام على من اتبع الهدى،‏‏‏‏ أما بعد فإني أدعوك بدعاية الإسلام،‏‏‏‏ أسلم تسلم،‏‏‏‏ يؤتك الله أجرك مرتين،‏‏‏‏ فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين و‏ {‏ يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون‏}‏ قال أبو سفيان فلما قال ما قال،‏‏‏‏ وفرغ من قراءة الكتاب كثر عنده الصخب،‏‏‏‏ وارتفعت الأصوات وأخرجنا،‏‏‏‏ فقلت لأصحابي حين أخرجنا لقد أمر أمر ابن أبي كبشة،‏‏‏‏ إنه يخافه ملك بني الأصفر‏.‏ فما زلت موقنا أنه سيظهر حتى أدخل الله على الإسلام‏.‏ وكان ابن الناظور صاحب إيلياء وهرقل سقفا على نصارى الشأم،‏‏‏‏ يحدث أن هرقل حين قدم إيلياء أصبح يوما خبيث النفس،‏‏‏‏ فقال بعض بطارقته قد استنكرنا هيئتك‏.‏ قال ابن الناظور وكان هرقل حزاء ينظر في النجوم،‏‏‏‏ فقال لهم حين سألوه إني رأيت الليلة حين نظرت في النجوم ملك الختان قد ظهر،‏‏‏‏ فمن يختتن من هذه الأمة قالوا ليس يختتن إلا اليهود فلا يهمنك شأنهم واكتب إلى مداين ملكك،‏‏‏‏ فيقتلوا من فيهم من اليهود‏.‏ فبينما هم على أمرهم أتي هرقل برجل أرسل به ملك غسان،‏‏‏‏ يخبر عن خبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما استخبره هرقل قال اذهبوا فانظروا أمختتن هو أم لا‏.‏ فنظروا إليه،‏‏‏‏ فحدثوه أنه مختتن،‏‏‏‏ وسأله عن العرب فقال هم يختتنون‏.‏ فقال هرقل هذا ملك هذه الأمة قد ظهر‏.‏ ثم كتب هرقل إلى صاحب له برومية،‏‏‏‏ وكان نظيره في العلم،‏‏‏‏ وسار هرقل إلى حمص،‏‏‏‏ فلم يرم حمص حتى أتاه كتاب من صاحبه يوافق رأى هرقل على خروج النبي صلى الله عليه وسلم وأنه نبي،‏‏‏‏ فأذن هرقل لعظماء الروم في دسكرة له بحمص ثم أمر بأبوابها فغلقت،‏‏‏‏ ثم اطلع فقال يا معشر الروم،‏‏‏‏ هل لكم في الفلاح والرشد وأن يثبت ملككم فتبايعوا هذا النبي،‏‏‏‏ فحاصوا حيصة حمر الوحش إلى الأبواب،‏‏‏‏ فوجدوها قد غلقت،‏‏‏‏ فلما رأى هرقل نفرتهم،‏‏‏‏ وأيس من الإيمان قال ردوهم على‏.‏ وقال إني قلت مقالتي آنفا أختبر بها شدتكم على دينكم،‏‏‏‏ فقد رأيت‏.‏ فسجدوا له ورضوا عنه،‏‏‏‏ فكان ذلك آخر شأن هرقل‏.‏ رواه صالح بن كيسان ويونس ومعمر عن الزهري‏.

ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انہیں عبیداللہ ابن عبداللہ ابن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء وزراء امراء ) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو (ابوسفیان کو) میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا، ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں۔ کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ میں نے کہا نہیں کہنے لگا، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ میں نے کہا نہیں کمزوروں نے۔ پھر کہنے لگا، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعوائے (نبوت) سے پہلے کبھی (کسی بھی موقع پر) اس نے جھوٹ بولا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ اور اب ہماری اس سے (صلح کی) ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ (ابوسفیان کہتے ہیں) میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل نے کہا کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟ میں نے کہا، لڑائی ڈول کی طرح ہے، کبھی وہ ہم سے (میدان جنگ) جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیتے ہیں۔ ہرقل نے پوچھا۔ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی (شرک کی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (یہ سب سن کر) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ (دعویٰ نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تو تم نے جواب دیا کہ نہیں، تب میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے (دل میں) کہا کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص (اس بہانہ) اپنے آباء و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی پیغمبری کا دعویٰ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا ہے؟ تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی۔ تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، تو (دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے کہا نہیں، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں۔ تم نے کہا نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں۔ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ (پیغمبر) آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ خط منگایا جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا):

اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔

اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خط ہے شاہ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت سے) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک خدا کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغہ ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا (دیکھو تو) اس سے بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا کہ ہرقل جب ایلیاء آیا، ایک دن صبح کو پریشان اٹھا تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں۔ (کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، علم نجوم میں وہ پوری مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے۔ (بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دئیے جائیں۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا۔ جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے (سارے حالات) سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انھوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہ ہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آ گیا۔ اس کی رائے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لیے گئے۔ پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا اور کہا ”اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ“ (یہ سننا تھا کہ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے (مگر) انہیں بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھ لی۔ تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔ ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان، یونس اور معمر نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔

کتاب الوحی صحیح بخاری
 
Top