• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب:4
وحی

وحی کی ضرورت:
جس طرح ہر انسان اپنے بدن کی ضرورت کو زمینی غذا سے پورا کرتا ہے اسی طرح اس کی روح کی ضرورت کو آسمانی غذا سے پورا کرنا پڑتا ہے۔ جسم کو صحت مند رکھنے کے لئے جس طرح اسے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق چلنا پڑتا ہے اسی طرح روح کو بیماری سے بچانے کے لئے اسے وحی کی تعلیمات کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔چیک اپ بدن کا ہر سال اگر کروانا ضروری ہے تو روح کا بھی ہونا چاہئے۔روح، اللہ کی طرف سے ہے اور اسی کا امر ہے اس لئے اللہ تعالی نے اس کی غذا اپنے پاس رکھی ہے۔جسے اس نے وحی کی صورت میں جبریل امین کے ذریعے انبیاء کرام پر نازل فرمائی۔وہ بندگان خدا میں رسولوں اور انبیاء کے ذریعے بانٹی جاتی ہے جو اس کی طرف آجاتا ہے وہ ہدایت پالیتا ہے اور جو پرے رہتا ہے وہ اپنے مقدر میں ضلالت لکھواتا ہے۔اللہ تعالی نے جس طرح بدن کا کھا نا خود تیار کیا ہے اسی طرح روح کا کھانا بھی اس نے خود تیار کیا ہے۔یہ ناممکن ہے کہ بندہ اپنی عقل سے حق وباطل کو پہچان لے اور کہے کہ مجھے وحی یا کسی مخبر کی ضرورت نہیں۔روح ہمیشہ علوی(آسمانی) غذا کی محتاج رہتی ہے جیسے جسم ہمیشہ سفلی(ارضی) غذا کا ضرورت مند رہتا ہے۔جو جسمانی غذا کا بندو بست زمین سے کرسکتا ہے وہ روح کی غذا کا بند وبست آسمان سے اتار کر کیوں نہیں کرسکتا؟ اس کا انکار شاید ایک متکبر ومغرور انسان کرے یا ایک جاہل اور احمق۔وحی اللہ تعالی کی طرف سے اپنی بندوں پر ایک رحمت خاص ہے تاکہ ارواح اس سے غذا حاصل کریں۔اور کھانے کی تخلیق بھی رب رحیم کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک رحمت ہے تاکہ جسم اس سے غذا حاصل کریں۔ دونوں کی بقاء انسان کی بقاء ہے ان میں سے کسی ایک کی موت انسان کی ہلاکت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی کا معنی و مفہوم

قرآن مجیدبذریعہ وحی آپﷺ پر نازل ہوا۔ عربی زبان میں وحی کا معنی لطیف (swift) اشارہ کرنایا مخفی طور پر(secretly) انتہائی سرعت کے ساتھ کسی کو کوئی بات یا پیغام بھیجنا یا دل میں کوئی بات ڈال دینے کے ہیں۔(تاج العروس ۱۰؍۳۸۵) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مخفی اور انتہائی سرعت کے ساتھ سونے جاگنے کی قید بھی لگائی ہے۔(مجموع فتاوی۱۲؍۳۹۸) امام راغب اصفہانی نے وحی کے چار معانی اورطریقے بیان کئے ہیں:
۱۔ از راہ رمز وتعریض کوئی بات کرنا۔
۲۔ محض آواز کا ہونا جس میں کوئی ترکیب نہ ہو۔
۳۔ کسی انسانی عضو سے اشارہ کرنا۔
۴۔ کتابت۔

اس طرح لغوی اعتبار سے لفظ وحی کے متعدد معانی ہیں اور شرعی اعتبار سے بھی وحی کے متعدد معانی ہیں۔ کیفیت کے اعتبار سے وہ کبھی مشترک معنی بھی رکھتے ہیں۔ مگر اعتبار کے لحاظ سے مختلف بھی ہوجاتے ہیں وحی شرعی معنی میں انبیاء کرام کے ساتھ خاص ہے اور اس کی دیگر انواع لغوی معنی دیتی ہیں۔:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی بمعنی فطری الہام :
یہ وہ الہام ہے جو اللہ تعالی سلیم الفطرت اور پاکیزہ روحوں میں ڈالتا ہے جیسے ام موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اللہ تعالی نے بات ڈالی:
{وَأوْحَیْنَا إلَی أمِّ مُوْسیٰ} (القصص:۷ )
ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو الہام کیا۔

وحی بمعنی جبلت:
شہد کی مکھی کو الہام ہونا
{وَأوْحٰی رَبُّکَ إلَی النَّحْلِ} (النحل:۶۸)
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے جی میں یہ بات ڈالی۔یہ جبلت کی وحی ہے جو جانور اور انسان دونوں کو حاصل ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی بمعنی اشارہ کی زبان:
کسی عضو سے اشارہ کرنا۔جیسے:
{ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأوْحٰٓی إلَیْہِمْ}(مریم :۱۱)
محراب سے نکل کر انہوں (زکریا ؑ)نے اپنی قوم کو اشارہ کیا۔
کیونکہ بولنے سے منع کر دیے گئے تھے اس لئے أوحی إلیھم کا معنی ہے: ان کی طرف اشارہ کیا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر لکھ کر بات کی تھی اس لئے وحی کا لفظ لکھنے کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔

وحی بمعنی کونی امر :
اللہ تعالی کی طرف سے جامد چیزوں کو حکم ہونا جسے وحی کہا گیا ہے۔ جیسے:
{یَومَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا¢ بِأَنَّ رَبَّکَ أَوْحٰی لَہَا} (الزلزلۃ : ۵،۴)
جس دن زمین اپنے اندر کی خبریں بیان کرے گی کیونکہ اس کے رب نے اسے حکم دیا ہو گا‘‘ اسی طرح یہ فرمانا:
{وَأَوْحَی فِیْ کُلِّ سَمَائٍ أَمْرَہَا } (فصلت: ۱۲)
اور (تیرے رب نے) آسمان کی طرف وحی کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی بمعنی پیغام الہی:
اللہ تعالی فرشتوں کوکسی امر کا حکم دیں کہ یہ بجالاؤ۔
{إذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ إِلَی الْمَلَائِکَۃِ أَنِّیْ مَعَکُمْ }(الانفال: ۱۲)
جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اطلاع دیتے تھے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
اسی طرح یہ فرمانا:
{فَأوْحَی إلَی عَبْدِہِ مَا أوْحَی}(النجم :۱۰)
پھر اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کرنی تھی۔یہی علم کا حقیقی سرچشمہ ہے۔

وحی بمعنی وسوسہ:
شیطان، انسان کے ذہن میں ایسا وسوسہ اور برا خیال لے آئے جو رگوں میں خون کی طرح تیزی سے دوڑے ۔
{وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِیْنَ الإنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا}(الأنعام :۱۱۲)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جن و انس کے شیطانوں کو اس کا دشمن بنایا جو ایک دوسرے کو برے خیالات تلقین کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شرعاً وحی کا معنی:
وہ وحی جو پیغام الٰہی کے زمرے میں آتی ہے اس کے لئے قرآن میں لفظ وحی دو انداز میں استعمال ہوا ہے۔
۱۔ ایحاء :
مصدری معنی میں ۔ وحی کرنا جیسے: إنا أوحینا ’’ہم نے وحی کی‘‘ (مفردات القرآن: وحی)۔ اپنے نبی کو کسی حکم شرعی کے بارے میں آگاہ کرنا۔
۲۔ وحی :
اسم مفعول (المُوحٰی)کے معنی میں۔وہ کلام جو وحی کیا گیا جیسے: وَوَحْیِنَا ’’ اور ہماری وحی کی مطابق‘‘ اپنے نبی پر اپنا کلام نازل فرما کر انہیں غیب کی خبروں اور شریعت کے بارے میں آگاہ کرنا۔

بظاہر اس شرعی معنی کے بھی وحی لغوی معنی سے الگ نہیں ہوتی۔ ان میں فرق صرف عام وخاص کا ہے یعنی وحی لغوی معنی میں عام ہے اور ہر مخفی چیز کی اطاع کو شامل ہے۔ اور شرعی معنی میں وہ صرف اللہ تعالی کی انبیاء کرام کواطلاع دینے سے خاص ہے۔ ان دونوں حیثیتوں سے لفظ وحی کی متعدد صورتیں ہیں جو قرآنی آیات اور احادیث نبویہ میں درج ذیل ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شرعی وحی کی اقسام:
اللہ تعالی اپنے رسول اور نبی پر تین صورتوں میں وحی نازل فرماتا ہے۔جس کی وضاحت قرآن مجید میں یوں کی گئی ہے:
{وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ إِلَّا وَحْیاً أَو مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ أَو یُرْسِلَ رَسُولًا فَیُوْحِی بِإِذْنِہٖ مَایَشَائُ، إِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ} (الشوری : ۵۱ )
کسی بشر کے لئے مناسب نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے سوائے وحی کے یا حجاب کے پیچھے سے یا کسی فرستادہ کو بھیجے پھر جو چاہے اسی کے حکم سے وہ وحی کرے۔بلاشبہ وہ بلند تر ہے اور حکمت والا ہے۔
{ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔۔} (الفتح : ۲۷)
اللہ تعالی نے اپنے رسول کا خواب سچا کردکھایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم سب ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے۔

ان آیات کی رو سے وحی کی تین سے زائد صورتیں واضح ہوتی ہیں:
۱۔عالم خواب میں:
یہ وحی کے ابتدائی مراحل تھے جیسا کا حدیث ام المؤمنین میں مذکور ہے:
أول ما بدئ بالوحی الرؤیا الصالحۃ۔
اولاً وحی کی ابتداء رؤیائے صالحہ سے ہوئی۔
جو بھی آپﷺ خواب دیکھتے وہ صبح دن کی طرح روشن ہوتا۔ ان سچے خوابوں کو علماء رؤیائے صادقہ کا نام بھی دیتے ہیں۔یا بقول بعض انہیں ارہاص کہتے ہیں۔ جن کا ذکر ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یوں کرتی ہیں:
أَوَّلُ مَا بُدِ ئَ مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ ، َوعِنْدَ مُسْلِمٍ: الصَّادِقَۃُ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لاَ یَرَی رُؤْیَا إِلاَّ جَائَ تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ۔
وحی کی ابتداء اولاً نیند میں نیک یعنی سچے خوابوں(صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ) سے ہوئی ۔آپ کوئی خواب ایسا نہ دیکھتے جو صبح کی روشنی کی طرح آپ کے سامنے واضح نہ ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خواب میں وحی کی یہ صورت بعد میں بھی برقرار رہی جو وحی خفی کی حیثیت اختیار کرگئے۔اور اللہ تعالی نے بھی ان کی تائید فرمائی جیسا کہ اوپر مذکورسورہ فتح کی آیت نمبر ۲۷میں بیان ہوا ہے۔ابتداء میں یہ خواب اس لئے آتے تاکہ انبیاء کے دل مانوس ہوجائیں۔ ام المؤمنین کی حدیث کی ترجمانی کرتے ہوئے علقمہ بن قیس جو سیدنا ابنؓ مسعود کے شاگرد ہیں۔ فرماتے ہیں:
إنَّ أَوَّلَ مَا یُؤتٰی بِہِ الأنْبِیَائُ فِی الْمَنَامِ حَتّٰی تَہْدَأَ قُلُوْبُہُمْ ، ثُمَّ یَنْزِلُ الْوَحْیُ بَعْدُ فِی الْیَقْظَۃِ۔
انبیاء کرام سب سے پہلے خواب میں وحی دئے جاتے تھے حتی کہ ان کے دل تسکین میں آجاتے۔ پھر جاگتی حالت میں ان پر وحی نازل ہونے لگتی۔
اللہ تعالی نبی کے دل میں اپنا پیغام القاء کرتا جو یقین اور پختہ خیال کی صورت میں اس کے دل میں بیٹھ جاتا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
مثلاً: لیٹ کربھی اگر آپ اٹھتے تو فرماتے: میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک فوجـــ۔۔۔۔ یہ وحی ہوتی اور صحابہ اسے تسلیم کرتے۔ اسی لئے نبیﷺ کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ایسی خوابی وحی ابراہیم علیہ السلام کو بھی آئی تھی۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{یبنی إنی أری فی المنام أنی أذبحک فانظر ما ذا تری، قال یأبت افعل ما تؤمر۔۔} ظاہر ہے خواب اگر وحی نہ ہوتا تو والد اپنے بیٹے کو اتنی بڑی بات نہ کہتے اور اگر بیٹے کے علم میں یہ ہوتا کہ والد صاحب کا خواب کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو وہ فوراً یہی کہتے : اباجان! خواب کی بنیاد میں آپ مجھے ذبح کرنے چلے ہیں؟ مگر بیٹے کے علم میں تھا کہ میرے والد محترم اللہ کے رسول ہیں ۔ ان کا خواب اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اس لئے جواب بھی فوراً دیا اور خوب دیا:
{بأبت افعل ما تؤمر}
اباجان آپ وہ کرڈالئے جس کا حکم آپ کو دیا گیا ہے۔
میں تیار ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔: پس پردہ وحی :
یہ اللہ تعالی کا اپنے خاص بندوں سے مکالمہ ہوتا ہے۔ {أَو مِنْ وَّرَائِ حِجَاب}۔ جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پس پردہ اللہ تعالی ہمکلام ہوئے۔ {وَکَلََّمَ اللّٰہُ مُوْسَی تَکْلِیْمًا}(النساء: ۱۶۴)
{وَنَادَیْنٰہٗ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ اْلأَیْمَنِ وقَرَّبْنٰہٗ نَجِیَّا} (مریم:۵۲)
اور ہم نے اسے طور کے دائیں جانب سے پکارا اور اسے سرگوشی میں قربت عطا کی۔
اس وحی میں براہ راست گفتگو ہوتی ہے جس کی صوتی لذت کا سرور رسول ہی جان سکتا ہے۔ اس لئے موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالی سے ہم کلام ہوئے تو بے ساختہ پکار اٹھے
{رَبِّ أَرِنِیْ أَنْظُر إِلَیْکَ } (الأعراف:۱۴۳)
اے میرے رب! مجھے دکھاکہ میں تجھے ایک نظر دیکھ سکوں۔

اسی طرح آپ ﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تو اللہ تعالی آپﷺ سے بھی ہم کلام ہوئے۔ پھرآپﷺ نے فرمایا:
فأَوْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ فَفَرَضَ عَلَیَّ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ
’’ اللہ تعالی نے میری طرف وحی کی اور پچاس نمازیں دن رات میں فرض کردیں۔‘‘(صحیح مسلم ۱؍۱۴۶کتاب الإیمان)
اس وحی میں نبی، اللہ کا کلام سنتا ہے مگر اسے دیکھ نہیں پاتا۔یہ پس پردہ وحی ہوتی ہے۔ { أوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ} (الشوری: ۵۱) یہ وحی کلام الٰہی کہلاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ وحی بذریعہ جبریل امین:
یہ وحی جلی کہلاتی ہے جو وحی کی دیگر صورتوں کے مقابلے میں آپ ﷺ پر زیادہ اتری ہے۔بالخصوص قرآن کریم وحی کی اسی صورت میں اور حالت بیداری میں نازل ہوا ہے ۔ نزول وحی کی اس صورت میں رسول یا نبی کو مکمل وجدان اوریقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔سورہ الکوثر کا نزول بھی اسی طرح ہوا۔ کیونکہ حدیث میں لفظ أغفی إغفاء (صحیح مسلم ۱؍ ۳۰۰) سے مراد نیند نہیں بلکہ نزول وحی کی وہ کیفیت ہے جسے(بُرَحَاء ُالْوَحْیِ)کہتے ہیں آپ پر طاری ہوگئی تھی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{ وَإِنَّہُ لَتَنزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ¢ نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ ¢ عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِیْنَ ¢ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْن} (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۵)
یہ قرآن یقیناً رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترے ہیں۔ آپ کے دل پر تاکہ آپ خبردار کرنے والوںمیں سے ہوں۔ واضح عربی زبان میں۔
 
Top